ابو درداء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابو الدرداء سے رجوع مکرر)
ابو درداء
(عربی میں: أبو الدرداء ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 586ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 653ء (66–67 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ام الدرداء الکبریٰ
ام الدرداء الصغریٰ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بلال بن ابو درداء   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد محمد بن عبداللہ   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد عبد اللہ بن عامر   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ تاجر ،  واعظ ،  قاضی ،  فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ (35ق.ھ / 32ھ) مشہور انصار صحابی ہیں، تارک الدنیا اصحاب صفہ میں سے تھے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ”حكيم هذہ الأمة“ اِس اُمت کے حکیم کا لقب عطا ہوا۔[2]آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصل نام عُوَیْمَر اور کنیت ابودرداء ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ زردی مائل خضاب استعمال فرماتے،سر مبارک پر ٹوپی پہنتے اور اس پر عمامہ شریف کا تاج سجاتے تھے جبکہ شملہ مبارکہ دونوں کندھوں کے درمیان پشت پر رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے تجارت کیا کرتے تھے،لیکن عبادت کے ذوق اور حساب کی شدّت کے خوف سے تجارت ترک کرکے یادِ الہٰی میں مصروف ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوری زندگی نہایت سادگی اور بے سرو سامانی کے عالَم میں گزار دی،ایک مرتبہ موسمِ سرما میں چند لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مہمان بنے، رات ہوئی تو آپ نے کھانا بھجوادیا مگر لحاف نہ بھجواسکے۔ اگلے دن وہ لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس شکایت کرنے پہنچے تو دیکھا کہ آپ اور آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ کے پاس سردی سے بچاؤ کے لیے لحاف تو کیا گرم لباس بھی نہیں ہے، ان کے چہرے پر ظاہر ہونے والی ناگواری کو حیرت میں بدلتے دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہمارا ایک اصلی گھر ہے جو بھی سامان جمع ہوتا ہے اسے ہم وہاں بھجوا دیتے ہیں، آخرکار ہمیں اسی (آخرت) کی جانب لوٹ کر جانا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ علمِ دین کی نورانی مجلس سجاتے ہوئے علم کے طلب گاروں کو شَرْعی مسائل بتاتے اور قرآنِ پاک صحیح تلفظ اور درست مخارج کے ساتھ پڑھنا سکھاتے تھے، چنانچہ روزانہ صبح آپ مسجد میں تشریف لاتے اور اس نورانی مجلس کو یوں سجاتے کہ ہر دس افراد پر ایک حلقہ بناتے اور اس پر ایک نگران مقرر کر دیتے جو انھیں پڑھاتا رہتا،اور اس دوران آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے رہتے اگر کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھ لیا کرتا اور تشفی بھر جواب پاتا،کبھی ایسا ہوتا کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے اور نگران ارد گرد بیٹھ کر کلماتِ مبارکہ کو بغور سنتے رہتے، پھر اپنے حلقوں کی جانب لوٹ جاتے اور جو کچھ سیکھتے وہ دوسروں کو سکھانا شروع کر دیتے۔ جب یہ نورانی مجلس ختم ہوتی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پوچھتے کہ کسی کے ہاں کوئی دعوت وغیرہ تو نہیں ہے؟ اگر جواب ”ہاں“ میں آتا تو وہاں تشریف لے جاتے،ورنہ روزے کی نیت کرلیتے اور ارشاد فرماتے کہ ”میرا روزہ ہے“ حالانکہ تمام حلقوں کا انتظام بخوبی سنبھالا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شرکاءِ مجلس کو شمار کیا گیا تو وہ سترہ سو سے زائد تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کو ناپسند فرماتے تھے چنانچہ جب کوئی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اونٹ ادھار لے جانا چاہتا تو فرماتے: اس پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا کیونکہ یہ اس کی طاقت نہیں رکھتا،جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اونٹ کی جانب توجہ کی اور فرمایا: کل بروزِ قیامت بارگاہِ الہٰی میں مجھ سے پوچھ گچھ نہ کرنا کیونکہ میں نے تیری طاقت سے زیادہ تجھ پر بوجھ نہیں ڈالا۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ میری اُمّت کے حکیم عُوَیْمَر (ابودرداء) ہیں۔[3] یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام حکمت و دانائی سے بھرپور ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: اے لوگو! خوش حالی کے ایام میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرو تاکہ وہ تنگی و مصیبت میں تمھاری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سن 32ھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں اس جہانِ فانی سے کُوچ فرمایا، آخری لمحات میں شدید گھبراہٹ طاری ہونے پر زوجہ محترمہ نے وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: میں تو موت کو محبوب رکھتا ہوں لیکن میرا نفس اسے پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے، پھر زبان پر کلمۂ طیبہ کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔[4] [5]

نام و نسب اور ابتدائی حالات[ترمیم]

عویمر نام،ابودرداء کنیت ،قبیلہ خزرج کے خاندان عدی بن کعب سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے، عویمر بن زید بن قیس بن امیہ بن مالک بن عامر بن عدی بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر والدہ کا نام مجتہ تھا،جو ثعلبہ بن کعب کے سلسلہ سے وابستہ تھیں۔ بعثت نبوی کے زمانہ میں تجارت کسب معاش کا ذریعہ تھا ، لیکن جب یہ شغل عبادت میں خلل انداز ہوا تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا اور رزاق کون ومکان کے سفرۂ عام پر آبیٹھے بعد میں تجارت سے ایسے دل برداشتہ ہوئے کہ فرماتے تھے مجھے اب ایسی دکان بھی پسند نہیں جس میں 40 دینار یومیہ نفع ہو جس کو روزانہ صدقہ کرتا رہوں اور نماز بھی نہ قضا ہوتی ہو،لوگوں نے کہا اس کا سبب؟ فرمایا قیامت کے حساب کا خوف ہے۔ [6]

اسلام[ترمیم]

یہ عجیب بات ہے کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بایں ہمہ کمال عقل دوسرے اکابر انصار کے ایک سال بعد میں مشرف باسلام ہوئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اسلام تقلیدی نہ تھا ، اجتہادی تھا،ممکن ہے کہ یہ ایک سال مزید غور و فکر اورکاوش و تحقیق میں صرف ہوا ہو۔ لیکن قبول اسلام میں یہ ایک سال تاخیر تمام عمر ان کے لیے تکلیف دہ رہی فرمایا کرتے تھے ایک گھڑی کی خواہش نفس دیرپا غم پیدا کرتی ہے۔ [7]

غزوات اور عام حالات[ترمیم]

غزوہ بدر میں وہ مسلمان نہ تھے ، اس لیے اس میں شریک نہ تھے ، غزوہ احد حالت ایمان میں پیش آیا، اس میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا ،گھوڑے پر سوار ہوکر میدان میں آئے ، آنحضرت نے ان کی شجاعت و بسالت کو دیکھ کر فرمایا:نعم انفارس عویمر یعنی عویمر کس قدر اچھے سوار ہیں۔ احد کے علاوہ دیگر غزوات اور مشاہد میں آنحضرت کے ساتھ شرکت کی ،حضرت سلمان فارسیؓ نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت نے ان کو ابودردا کا اسلامی بھائی تجویز فرمایا۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابودرداؓ نے مدینہ منورہ کی سکونت ترک کردی،کہ یہاں ہر وقت آپ کی یاد تازہ رہتی تھی، نیز ملک بملک علم اسلام کی اشاعت وارثان نبوت کا فرض تھا،آنحضرت سے انھوں نے یہ بھی سنا تھا کہ فتنہ کی آندھی میں ایمان کا چراغ شام میں محفوظ رہے گا اس بنا پر شام کے دار الحکومت دمشق کی سکونت اختیار کی۔ ان کے ترک وطن کے سلسلہ میں یہ واقعہ لائق ذکر ہے کہ سفر کی تیاری کے بعد انھوں نے حضرت عمرؓ بن خطاب سے ترک وطن کی اجازت چاہی، انھوں نے کہا اجازت تو نہیں دیتا،ہاں اگر حکومت کی کوئی خدمت قبول کیجئے تو منظور کرسکتا ہوں، حضرت ابودردا نے کہا میں حاکم بننا ناپسند کرتا ہوں، حضرت عمرؓ نے فرمایا پھر اجازت کی امید فضول ہے ،حضرت ابودردا نے درخواست کی کہ حکومت کی بجائے لوگوں کو قرآن و حدیث سکھاؤں گا اور نماز پڑھاؤں گا، فرمایا یہ البتہ قبول ہے،چنانچہ اس ادائے فرض کی نیت سے شام کا سفر اختیار کیا۔

دمشق میں ان کا وقت زیادہ تر درس و تدریس ،احکام شریعت کی تلقین اور عبادت وریاضت میں گذرتا تھا، شام کے متوطن صحابہ کرام میں اکثر ایسے تھے جن کی زاہدانہ اور سادہ زندگی پر شام کی خصوصیات و تکلفات کا رنگ و روغن چڑھ گیا تھا۔لیکن حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ برابر اپنی اصلی بے تکلفی وسادگی پر قائم رہے، حضرت عمرؓ نے شام کا سفر کیا اور یزید بن ابی سفیان ؓعمرو بن عاصؓ اور ابو موسیٰؓ کے مکانوں پر جا کر ملاقات کی تو سب کے شاہانہ ٹاٹھ دیکھے ،حضرت ابو درداؓ کے گھر پہنچے تو خدم وحشم نقیب و چاؤش،تزک واحتشام ،زینت وآرائش ایک طرف، مکان میں چراغ تک نہ تھا، کشور دین و ملت کا تاجدار تاریک مکان میں ایک کمبل اوڑھے پڑا تھا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے یہ حالت دیکھی توا ٓنکھوں میں پانی آگیا، پوچھا اس قدر عسرت سے زندگی گزارنے کا سبب کیا ہے؟ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ دنیا میں ہم کو اتنا سازو سامان رکھنا چاہیے جتنا ایک مسافر کے لیے درکار ہے ،آہ آنحضرت کے بعد ہم لوگ کیا سے کیا ہو گئے ،اس پر اثر فقرہ کا یہ اثر ہوا کہ دونوں بزرگوں نے روتے روتے صبح کردی۔ [8]

حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے عہد خلافت میں تمام اکابر صحابہ کے نقد وظائف مقرر کر دیے تھے،مجاہدین بدر کی سب سے بڑی تنخواہ تھی، حضرت ابودرداؓ مجاہدین بدر میں داخل نہ تھے، لیکن حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان کا وظیفہ بدریوں کے برابر مقرر کیا۔ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عثمانؓ کی منظوری سے ان کو دمشق کا قاضی مقرر کیا ،کبھی کبھی جب حضرت امیر معاویہؓ کو باہر جانے کی ضرورت پڑی تو وہ ان کو اپنا قائم مقام بنا جاتے،دمشق میں قضا کا یہ پہلا عہدہ تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ عہدِ فاروقی کا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں حافظ ابن عبدالبر نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے۔ [9]

اہل و عیال[ترمیم]

حضرت ابودرداؓ کے ابواب فضائل میں یہ باب بھی قابل لحاظ ہے کہ ان کے حبالۂ نکاح میں دو بیویاں آئیں اور دونوں فضل وکمال میں ممتاز تھیں ،پہلی کا نام ام درداء کبری خیرۃ بنت ابی حدرواسلمی ہے اور دوسری کا نام ام دردأ صغری ہجیمہ بنت حی وصابیہ تھا۔ ام درداء کبریٰ، مشہور صحابیہ اور بڑی فقیہ، عقلمند اور عبادت گزار بی بی تھیں ان سے حدیث کی کتابوں میں بہت سی روا یتیں مروی ہیں۔ ام درداؓ اصغری صحابیہ نہ تھیں،شوہر کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں، امیر معاویہؓ نے نکاح ثانی کا پیام دیا تھا، لیکن قبول نہ کیا، اولاد کے نام حسب ذیل ہیں: بلال، یزید، درداء،نسیبہ۔ بلال ابو محمد دمشقی یہ یزید بن معاویہ اور خلفائے مابعد کے عہد میں دمشق کے قاضی تھے ،عبد الملک بن مروان نے اپنے زمانہ میں معزول کیا 92ھ میں وفات پائی۔ درداء صفوان بن عبد اللہ بن صفوان بن امیہ بن حلف قرشی سے منسوب تھیں جو معزز تابعی اورمکہ کے ایک جلیل القدر خاندان کی یادگار تھے۔ [10]

حلیہ[ترمیم]

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک یہ تھا، جسم خوبصورت،ناک اٹھی ہوئی، آنکھیں شربتی ، ڈاڑھی اور لباس عربی تھا، قلنسوہ ایک قسم کی ٹوپی پہنتے ،عمامہ باندھتے تو اس کا شملہ پیچھے لٹکاتے تھے۔

وفات[ترمیم]

اوپر گذر چکا ہے کہ حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسافرانہ زندگی بسر کرتے تھے،ہجرت کا بتیسواں 32ھ سال تھا کہ یہ مسافر کاروان سرائے عالم سے وطن مالوف کو سدھارا۔ وفات کا واقعہ عجیب حسرتناک تھا، حضرت ابودرداء گریہ وزاری میں مصروف تھے،ام دردا (بیوی کا نام ہے) نے کہا آپ صحابی ہوکر رو رہے ہیں؟ حضرت ابودرداءؓ نے فرمایا کیوں نہ روؤں ،خدا معلوم گناہوں سے کیونکر چھٹکارا ہو،اسی حالت میں بلال کو بلایا اور فرمایا دیکھو! ایک دن تم کو بھی یہ واقعہ پیش آنا ہے،اس دن کے لیے کچھ کر رکھنا،موت کا وقت قریب آیا تو جزع و فزع کی کوئی انتہا نہ تھی ،ایمان کے متعلق کہا گیا ہے کہ خوف و رجاء کے درمیان ہوتا ہے، حضرت ابودرداء ؓ پر خوف الہی کا نہایت غلبہ تھا،بیوی کے جو پاس بیٹھی تسکین دے رہی تھیں کہا تم موت محبوب رکھتے تھے،پھر اس وقت پریشانی کیوں ہے؟فرمایا یہ سچ ہے؛لیکن جس وقت سے موت کا یقین ہوا سخت پریشانی ہے یہ کہہ کر روئے،پھر فرمایا:یہ میرا اخیر وقت ہے کلمہ پڑھاؤ ،چنانچہ لوگ کلمہ کی تلقین کرتے رہے اور حضرت ابو درداؓ اس کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ روح مطہر نے آخری سانس لی۔

وفات سے کچھ دن پیشتر حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام ان کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے، لیکن اس وقت حضرت ابودردأ بستر مرض پر تھے، پوچھا کیسے آئے، عرض کیا میرے والد اور آپ میں جو ارتباط تھا اس کی وجہ سے زیارت کو حاضر ہوا ،فرمایا جھوٹ بھی کیا بری شے ہے،لیکن جو شخص استغفار کرلے تو معاف ہو جاتا ہے۔ [11] حضرت یوسفؓ ان کی وفات تک مقیم رہے،انتقال سے پہلے یوسف کو بلا کر کہا کہ لوگوں کو میری موت کی خبر کردو، اس خبر کا مشتہر ہونا تھا کہ آدمیوں کا طوفان امنڈآیا،گھر سے باہر تک آدمی تمام مجمع کو مخاطب کرکے ایک حدیث بیان کی ،[12] اللہ اکبر! اشاعت حدیث کا جوش اس وقت بھی قائم تھا۔ [13]

فضل و کمال[ترمیم]

حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار علمائے اصحاب میں ہے،صحابۂ کرام ان کو نگاہ عظمت سے دیکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے کہ دونوں باعمل عالموں کا کچھ ذکر کرو (معاذ اور ابودرداء) یزید بن معاویہ کا قول تھا کہ ابودرداؓ کا علم وتفقہ بہت سے امراض جہل کو شفا بخشتا ہے، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ ابودرداءؓ سے علم سیکھنا،کیونکہ ان کے پاس علم ہے ،حضرت ابوذر غفاریؓ نے ابودرداؓ سے خطاب کرکے کہا تھا کہ"ماحملت ورقاء ولا اظلت خضراء علم منک یا ابا الدردا" یعنی زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے تم سے کوئی بڑا عالم نہیں، مسروق جو بڑے جلیل القدر تابعی اور اپنے زمانہ کے امام تھے کہتے ہیں کہ میں نے تمام صحابہ کا علم چھ شخصوں میں مجتمع پایا،جس میں ایک ابودرداؓ ہیں،یہی سبب ہے کہ گو حجاز میں بڑے بڑے صحابہ مسند امامت پر متمکن تھے،تاہم وہاں سے بھی طالبین جوق درجوق ان کے آستانہ کا رخ کرتے تھے۔

درس کے وقت تشنگان علم کا بڑا ہجوم رہتا تھا، مکان سے نکلتے تو طلبہ کامجمع رکاب میں ساتھ ہوتا ایک روز مسجد جا رہے تھے پیچھے لوگوں کا اتنا اژدہا م تھا کہ موکب شاہی کا دھوکا ہوتا تھا، اس مجمع کا ہر فرد کسی نہ کسی مسئلہ کا سائل ہوکر آیا تھا۔ حضرت ابودرداؓ کی تعلیم کا یہ طرز تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر جامع مسجد میں درس کے لیے بیٹھ جاتے تھے شاگرد ان کے گرد ہوتے اور مسائل پوچھتے وہ جواب عنایت فرماتے تھے ۔ [14] وقيل سنة 31 هـ،[15]

درس قرآن[ترمیم]

حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ فقہ وحدیث میں بھی ممتا ز تھے،لیکن ان کا اصل سرمایہ قرآن مجید کا درس و تعلیم تھا وہ ان لوگوں میں تھے جو خود آنحضرتﷺ کی زندگی میں پورے قرآن مجید کے حافظ تھے ،اسی بنا پر حضرت عمرؓ بن خطاب نے شام میں قرآن مجید کی تعلیم اشاعت کے لیے نامزد فرمایا، دمشق کے جامع عمری میں یہ قرآن کا درس دیتے تھے اور گویا یہ قرآن کا ایک مدرسۂ اعظم بن گیا تھا، حضرت ابودرداء ؓ کے ماتحت اور مدرسین بھی تھے، طلبہ کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی دور دور سے لوگ آ آکر شریک درس ہوتے تھے۔ نماز صبح کے بعد دس دس آدمیوں کی علاحدہ علاحدہ جماعت کر دیتے تھے اور ہر جماعت ایک قاری کے زیر نگرانی ہوتی تھی ،قاری قرآن پڑھاتے اور خود ٹہلتے جاتے اور پڑھنے والوں کی طرف کان لگائے رہتے تھے، جب کسی طالب علم کوپورا قرآن یاد ہو جاتا تو اس کو خود اپنی شاگردی میں لے لیتے ،یہ مدرسین جب طلبہ کے کسی سوال کا جواب نہ دے سکتے تو وہ مرکز درس کی طرف رجوع کرتے۔

طلبہ کا درس میں اتنا ہجورم رہتا تھا کہ ایک روز شمار کرایا تو سولہ سو طالب العلم حلقۂ درس میں نکلے۔ دارالقرا کے ممتاز اصحاب میں ابن عامر یحصی، ام درداء، صغریٰ، خلیفہ بن سعد، راشد ابن سعد، خالد بن سعدان تھے، ان میں سے اول الذکر بزرگ ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں اہل مسجد کے رئیس تھے، ام درداء حضرت ابو درداءؓ کی زوجہ قرأت میں یگانہ روزگار تھیں، قرأت کا فن اپنے شوہر سے سیکھا تھا، عطیہ بن قیس کلابی کو بھی انہی نے قرأت سکھائی تھی، خلیفہ بن سعد کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ صاحب ابی الدرداؓ کہتے تھے اور شام کے مشہور قاریوں میں ان کا شمار ہوتا تھا، باقی بزرگوں کو یہ شرف حاصل تھا کہ انھوں نے خود حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن سنایا تھا اور ان کے خاص تلامذہ میں داخل تھے۔ [13]

تفسیر[ترمیم]

علم تفسیر کا سرمایہ جن صحابہ سے جمع ہوا اگرچہ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی ان میں شامل نہیں تاہم ان میں سے متعدد آیتوں کی تفسیریں مروی ہیں، ان کا قول تھا:"لا یفقہ الرجل کل الفقہ حتی یجعل للقرآن وجوھا!" یعنی انسان تاوقتیکہ قرآن میں مختلف پہلو پیدا نہ کرے فقیہ نہیں ہو سکتا۔ مشکل آیتوں کے مطالب خود آنحضرت سے دریافت فرماتے تھے،ایک روز دریافت کیا یا رسول اللہ ! " الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ، لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" جو لوگ ایمان لائے اور تقوی اختیار کیا ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی خوشخبری ہے۔ اس آیت میں خوشخبری سے کیا مراد ہے، آنحضرت نے فرمایا "رویا ئے صالحہ"(سچے خواب) خواہ خود دیکھے یا کوئی دوسرا شخص اس کے متعلق دیکھے۔ [16]

خود ابودرداء رضی اللہ عنہ سے جب کسی آیت کی تفسیر کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ نہایت شافی جواب دیتے تھے،ایک شخص نے سوال کیا کہ "وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ"(اور جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں) میں زانی اور سارق بھی داخل ہیں؟ فرمایا کہ اپنے رب کا خوف ہوتا تو زنا اور چوری کیوں کرتا؟۔ [17] سورہ قلم میں ایک کافر کے متعلق ہے۔ "عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ"(بد مزاج ہے اور اس کے علاوہ نیچے نسب والا بھی)لفظ عتل کے معنی مختلف مفسروں نے مختلف بیان کیے ہیں،حضرت ابودرداءؓ نے یہ جامع معنی بیان فرمائے ہیں:کل رحیب الجوف ویثق الحلق اکول شروب جموع للمال منوع لہ (بڑے پیٹ اور مضبوط حلق والا کثیر الغذاء کثیر الشراب،مال جمع کرنے والا اور نہایت نجیل ) [18] سورۂ طارق میں ہے "یوم تبلیٰ السرائر" (جس دن تمام پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی)زبان کے لحاظ سے سرائر کے معنی مطلقاً پوشیدہ شے کے ہیں، جن میں عقائد نیات یا جوارح کے اعمال کی کوئی قید نہیں،حضرت ابودرداءؓ نے موقع و محل کے لحاظ سے اس تعمیم میں کسی قدر تخصیص کردی، چنانچہ فرمایا: خدا نے چار چیزوں کا بندوں کو ضامن قرار دیا ہے،نماز، زکوٰۃ، روزہ، طہارت سرائر انہی چیزوں کو کہتے ہیں۔ [19] [20]

حدیث[ترمیم]

کلام الہی کی تعلیم وخدمت کے بعد صحابہؓ کرام کا سب سے مقدم فرض حدیث نبوی کی نشر و اشاعت تھا، حضرت ابو درداءؓ نے اس فرض کو بھی پوری طرح انجام دیا۔ ایک دفعہ انھوں نے سعدان بن طلحہؓ سے ایک حدیث بیان کی مسجد دمشق میں حضرت ثوبان ؓ جو آنحضرت کے آزاد کردہ غلام تھے،تشریف لائے تو سعدانؓ نے توثیق مزید کی غرض سے ان سے اس حدیث کے متعلق استفسار کیا حضرت ثوبان بن بجدد نے فرمایا کہ ابودرداء نے بالکل صحیح کہا میں خود اس واقعہ کے وقت رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ [21] حضرت معاذ بن جبل نے اپنی وفات کے وقت ایک حدیث بیان کی تھی اور فرمایا تھا کہ شہادت کی ضرورت ہو تو عویمر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابودرداء) موجود ہیں، ان سے دریافت کرنا لوگ حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس پہنچے،انھوں نے حدیث سن کر فرمایا میرے بھائی (معاذ) نے سچ کہا۔ [22]

صحابہ جب مل کر بیٹھتے تو آپس میں احادیث نبویﷺ کا مذاکرہ فرماتے،حضرت ابودرداءؓ بھی ان مجلسوں میں شریک رہتے تھے کبھی کبھی خود بھی مذاکرہ کی ابتدا فرماتے تھے۔ ایک مجمع میں حضرت ابودرداءؓ ، عبادہ بن صامتؓ ،حرث بن معویہ کندی اور مقدام ابن معدی کرب تشریف فرماتھے حدیثوں کا ذکر آیا، حضرت ابو درداءؓ نے حضرت عبادہ بن صامت سے کہا کہ فلاں غزوہ میں آنحضرت نے خمس کے متعلق کچھ ارشاد فرمایا تھا؟ آپ کو یاد ہے؟ حضرت عبادہؓ نے پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابودرداءؓ کی پوری زندگی کلام الہی اور حدیث نبوی ﷺ کی تعلیم واشاعت میں صرف ہوئی جس وقت روح مطہر عالم فنا سے عالم بقا کو پرواز کررہی تھی اس وقت بھی آپ نے اہل شہر کو جمع کرکے نماز کے متعلق آخری وصیت سنائی۔ [23]

حضرت ابودرداؓ نے حدیث کا اکتساب زیادہ تر خود ذات اقدس نبوی سے کیا تھا آپ کی وفات کے بعد بعض روایتیں حضرت زیدؓ بن ثابت اور حضرت عائشہؓ سے بھی سنی تھیں، تلامذہ اور راویان حدیث کا دائرہ مختصر تھا،صحابہ میں سے متعد بزرگ ان کے حلقہ حدیث سے بھی مستفید ہوئے جن کے نام نامی یہ ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ، فضالہ بن عبیدؓ، ابو امامہؓ، عبد اللہ بن عمرؓ، عبداللہ عباسؓ، ام درداءؓ تابعین میں سے اکثر اعیان واجلائے علم ان کے شرف تلمذ سے بہرہ یاب تھے بعض کے نام یہ ہیں۔ سعید بن مسیب،بلال بن ابودرداء،علقمہ بن قیس، ابو مرہ مولی ام ہانی، ابو ادریس خولی، جبیر بن نضیر، سوید ابن فضلہ، زید بن وہب، معدان بن ابی طلحہ، ابو حبیبہ طائی،ابوالسفر ہمدانی، ابو سلمہ ابن عبد الرحمن، صفوان بن عبد اللہ،کثیر بن قیس، ابو بحریہ عبد اللہ بن قیس ،کثیر بن مرہ، محمد بن سیرین، محمد بن سوید ابی وقاص، محمد بن کعب، قرظی ہلال بن یساف وغیرہم۔ حضرت ابودرداءؓ کے سلسلہ سے جو روایات احادیث میں مدون ہیں، ان کی تعداد 179 ہے جن میں سے بخاری میں 13 اور مسلم میں 8 مندرج ہیں۔ [14]

فقہ[ترمیم]

مسائل فقہ میں بھی ان کا ایک خاص درجہ ہے، لوگ دور دراز مسافت طے کر کے آپ سے مسائل پوچھنے آتے تھے؛ چنانچہ ایک بزرگ کوفہ سے دمشق صرف ایک مسئلہ دریافت کرنے آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ شخص مذکور شادی پر رضا مندنہ تھا، اس کی والدہ نے جبراً شادی کردی ،شادی کے بعد میاں بیوی میں محبت زیادہ بڑھ گئی، اس وقت ماں نے کہا کہ اس کو طلاق دے دو، اب طلاق کے لیے آمادہ نہ ہوا، حضرت ابودرداؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کسی شق کی تعیین نہیں کرتا نہ طلاق دینے کا حکم دیتا ہوں اورنہ والدہ کی نافرمانی جائز سمجھتا ہوں تمھارا دل چاہے تو طلاق دیدویا موجودہ حالت پر قائم رہو،لیکن یہ یاد رہے کہ رسول اللہ نے ماں کو جنت کا دروازہ کہا ہے۔ [24] ابو حبیبہ طائی رحمہ اللہ علیہ نے استفسار کیا کہ میرے بھائی نے چند دینار فی سبیل اللہ دئے تھے اور مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں ان کو کسی مصرف میں صرف کردوں اب فرمائیے کہ سب سے بہتر مصرف کونسا ہے؟حضرت ابودرداءؓ نے جواب دیا کہ میرے نزدیک مجاہدین سب سے بہتر ہیں۔ [25] [26][27]

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت ابودرداءؓ فطرۃ نہایت نیک مزاج اورصالح تھے،اسلام کی تعلیم نے اس طلاء کو اور خالص بنادیا تھا،حضرت ابوذر غفاریؓ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ حق گو اور حریت مجسم تھے اور ابتدا شام میں رہتے تھے،یہاں بہت کم لوگ ان کی سخت گیری سے محفوظ تھے ،امیر معاویہؓ وغیرہ کو برسردربار ٹوک دیتے تھے، ابودرداءؓ کی نسبت خود ان سے انھوں نے کہا کہ اگر آپ رسول اللہ کا زمانہ بھی پاتے اور آنحضرت کے بعد اسلام لاتے تب بھی صالحین اسلام میں آپ کا شمار ہوتا، [28] اس سے زیادہ حضرت ابوالدردا کی طہارت اخلاق کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ باایں ہمہ کہ وہ بساط نبوت کے حاشیہ نشین تھے، خالق کون ومکان کے جلال وجبروت کا تخیل ان کے جسم میں رعشہ پیدا کر دیتا تھا، ایک روز منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا تو فرمایا کہ میں اس روز سے بہت خائف ہوں جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟ قرآن مجید کی ہر آیت پیکر امروز جر بن کر نمودار ہوگی اور مجھ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اوامر کی کیا پابندی کی، آیۃ آمرہ کہے گی کہ اس نے کچھ نہیں کیا، پھر سوال ہوگا کہ نواہی سے کہاں تک پرہیز کیا، آیۃ زاجرہ بولے گی بالکل نہیں لوگو! کیا میں اس وقت چھوٹ جاؤں گا؟ عبادات میں قیام لیل اورنماز پنجگانہ کے علاوہ 3 چیزوں کی نہایت سختی سے پابندی کرتے تھے ہر ماہ میں 3 دن روزہ رکھتے،وتر پڑہتے اور حضر و سفر میں چاشت کی نماز ادا کرتے ،ان چیزوں کے متعلق آنحضرت نے ان کو وصیت فرمائی تھی۔ [29] ہر فرض نماز کے بعد تسبیح پڑہتے تھے،تسبیح 33 مرتبہ ،تحمید 33 مرتبہ، تکبیر 34 مرتبہ ۔ [30]

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی زندگی زاہدانہ بسر ہوتی تھی وہ دنیا ئے دوں کی دلفریبیوں اور عالم فانی کے تکلفات سے ملوث نہ تھے ،فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو دنیا میں ایک مسافر کی حیثیت سے رہنا چاہیے۔ ایک دفعہ حضرت سلمان فارسیؓ ان سے ملنے ان کے گھر آئے ، یہ دونوں مواخاۃ کے قاعدے سے بھائی بھائی تھے،بھاوج کو دیکھا تو نہایت معمولی وضع پایاسبب پوچھا تو نیک بی بی نے جواب دیا کہ تمھارے بھائی ابودرداءؓ دنیا سے بے نیاز ہو گئے ہیں، ان کو اب ان چیزوں کی کچھ پروا نہیں، حضرت ابو درداء آئے، سلمانؓ فارسی کو مرحبا کہا اور کھانا پیش کیا سلمانؓ نے کہا آپ بھی آئیے،حضرت ابودردأ نے کہا میں تو روزہ سے ہوں، سلمانؓ فارسی نے قسم کھا کر کہا آپ کو میرے ساتھ کھانا ہوگا ورنہ میں بھی نہ کھاؤں گا، رات کو سلمانؓ فارسی نے انہی کے مکان میں قیام کیا تھا، حضرت ابودرداءؓ نماز کے لیے اٹھے، حضرت سلمانؓ نے روک لیا اور فرمایا بھائی آپ پر خدا کا بھی حق ہے، بیوی کا بھی اور اپنے بدن کا بھی ،آپ کو ان سب کا حق ادا کرنا چاہیے صبح کا تڑکا ہوا تو حضرت سلمانؓ نے ابو درداء کو جگایا اور کہا اب اٹھو، دونوں بزرگوں نے نماز پڑھی، اس کے بعد ادائے دوگانہ کے لیے مسجد نبوی گئے،حضرت ابودرداءؓ نے آنحضرت سے سلمانؓ کا واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ سلمانؓ فارسی نے ٹھیک کہا وہ تم سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ [31]

امر بالمعروف تمام تربیت یافتگان نبوت کا فرض تھا،حضرت ابودرداءؓ بھی اس فرض سے غافل نہ تھے، امیر معاویہ نے کوئی چاندی کا برتن خریدا جس کی قیمت میں چاندی کے وزن سے کم و بیش روپے مالک کو دئے، اسلام میں یہ ناجائز ہے، حضرت ابودرداء نے فوراً ٹوکا،معاویہ!یہ درست نہیں، رسول اللہ نے چاندی سونے میں برابر سرابر کا حکم دیا ہے۔ [32] یوسف بن عبد اللہ بن سلام ان کے پاس شام گئے سفر کا مقصد تحصیل علم تھا یہ وہ ساعت تھی، جب حضرت ابودرداءؓ مرض الموت میں گرفتار تھے،یوسف سے پوچھا کیسے آئے؟ انھوں نے کہا آپ کی زیارت کو،یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات چونکہ واقعہ کے خلاف کہی تھی حضرت ابودرداءؓ نے فرمایا جھوٹ بولنا بڑی بری بات ہے۔ [33]

امیر معاویہؓ نے حضرت ابوذرؓ غفاری کو شام سے جلا وطن کر دیا،حضرت ابودرداءؓ کو راستہ میں خبر ملی تو دس مرتبہ اناللہ پڑھا اور کہا کہ اب ان لوگوں کا بھی انتظار کرو، جیسا کہ اصحاب ناقہ کے بارہ میں کہا گیا تھا، اس کے بعد نہایت جوش میں فرمایا خدایا! ان لوگوں نے ابوذر کو جھٹلایا؛ لیکن میں نہیں جھٹلاتا ہوں، لوگوں نے ان کو متہم کیا، لیکن میں نہیں کرتا اوران لوگوں نے ان کو خارج البلد کیا، لیکن میں نے اس رائے میں شرکت نہیں کی، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ان کے برابر کسی کو زمین پر نہیں سمجھتے تھے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابودرداءؓ کی جان ہے اگر ابوذر میرا ہاتھ بھی کاٹ ڈالیں تو بھی میں ان سے بغض نہ رکھوں ، آنحضرت نے فرمایا اور میں نے سنا تھا کہ مااظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء من ذی الحجۃ اصدق من ابی زر ؓ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ابوذرؓ سے زیادہ سچا کوئی نہیں۔

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا کہ جو شخص توحید کا قائل ہو وہ جنتی ہے،حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،خواہ زانی اور چور کیوں نہ ہو؟ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں، یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو سب مسلمانوں کو سنانی چاہیے تھی، ابودرداءؓ تین مرتبہ پوچھ کر مسلمانوں کو یہ مژدہ ٔ نجات سنانے چلے، راستہ میں حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی انھوں نے منع کیا کہ اس اعلان سے لوگ عمل چھوڑ بیٹھیں گے،حضرت ابودرداءؓ نے آنحضرت سے عرض کیا،آپ نے فرمایا کہ عمرؓ نے صحیح کہا۔ [34]

ایک روز مکان میں ابودرداء تشریف لائے چہرہ سے غیظ و غضب عیاں تھا، بیوی نے پوچھا کیا حال ہے؟ فرمایا خدا کی قسم ،رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بات بھی باقی نہیں رہی لوگوں نے سب چھوڑ دیا، صرف نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ [35] ایک مرتبہ سعدان بن ابی طلحہؓ العمری کو دیکھا پوچھا آپ کا مکان کہاں ہے؟ انھوں نے کہا گاؤں میں مگر گاؤں شہر کے قریب ہے فرمایا تو تم شہر میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ جس مقام پر اذان یا نماز نہ ہوتی ہو وہاں شیطان کا دخل ہو جاتا ہے، دیکھو بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے دور رہتی ہے۔ [36]

تمام مسلمان ان کا نہایت ادب کرتے تھے، غیظ و غضب کے عالم میں بھی جو کچھ کہہ دیتے تھے لوگ دل سے لگا لیتے تھے، ایک دفعہ ایک قریشی نے ایک انصار کا دانت توڑ دیا امیر معاویہؓ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا، امیر معاویہؓ نے کہا کہ ٹھیرو، میں انصاری کو رضا مند کروں گا، لیکن انصاری طالب قصاص تھا وہ راضی نہ ہوا، امیر معاویہؓ نے کہا یہ ابودرداءؓ بیٹھے ہیں جو فیصلہ کر دیں، اس کو مان لینا، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث پڑھی کہ جو شخص کسی جسمانی تکلیف پہنچنے پر ایذا دہندہ کو معاف کر دے تو اس کے مراتب بلند اور اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس حدیث کے سنتے ہی انصاری جو مجسمہ قہر وغضب تھا پیکر تسلیم ورضا بن گیا، حضرت ابودرداءؓ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ سے یہ سنا تھا؟ انھوں نے کہا ہاں، انصاری نے کہا تو میں معاف کرتا ہوں۔ [37]

فساد وشر سے دور بھاگتے تھے،شام کا ملک حجاز سے کسی حال میں بہتر نہ تھا؛ لیکن فتنوں کے زمانہ میں شام ایک حکومت کے ماتحت بہر حال قائم رہا اور حجاز میں ہر سال نئی فوج کشی کا سامنا تھا، حضرت ابودرداءؓ کی سکونت شام کا یہی سبب تھا، فرماتے تھے جس مقام پر دو آدمی ایک بالشت زمین کے لیے منازعت کریں میں اس کو بھی چھوڑ دینا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ [38] نہایت ہشاش بشاش رہتے تھے، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے، گفتگو کے وقت لب مبارک پر تبسم ظاہر ہوتا تھا، ام دردا تبسم کو خلاف وقار سمجھتی تھیں،ایک دن کہا کہ تم ہر بات پر مسکراتے ہو، کہیں لوگ بیوقوف نہ بنائیں، حضرت ابودرداء نے فرمایا کہ خود رسول اللہ ﷺ بات کرتے وقت تبسم فرماتے تھے۔ [39] مزاج فطرۃ سادہ تھا،مسجد دمشق میں خود اپنے ہاتھ سے درخت لگاتے تھے،لوگ دیکھتے تو تعجب کرتے کہ آغوش پروردۂ نبوت اورامام حلقہ مسجد ہوکر اپنے ہاتھ سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں؛ لیکن ان کو اس کی کچھ پروانہ تھی،ایک شخص نے ان کو اس حالت میں دیکھا تو بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ خود یہ کام کرتے ہیں؟ حضرت ابودرداءؓ نے اس کے تعجب کو ان الفاظ سے زائل کیا کہ اس میں بڑا ثواب ہے۔ [40]

بڑے فیاض اور مہمان نواز تھے ، تنگ دستی کے باوجود مہمانوں کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے،اکثر ان کے ہاں لوگ ٹھہرا کرتے تھے، جب کوئی مہمان آتا حضرت ابودرداءؓ دریافت کراتے کہ قیام کرنے کا ارادہ ہے یا جانے کا، جانے کا قصد ہوتا تو مناسب زادراہ بھی ساتھ کر دیتے تھے۔ [41] بعض لوگ ہفتوں قیام کرتے،[42] حضرت سلمان فارسی جب شام آتے تو انہی کے ہاں قیام فرماتے ۔ دل کے نرم تھے، ایک دن کسی طرف جا رہے تھے کہ دیکھا کہ ایک شخص کو لوگ گالی دے رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس نے کوئی گناہ کیا تھا، حضرت ابودرداءؓ نے کہا کہ ایک شخص کنوئیں میں گرے تو اس کو نکالنا چائیے،گالی دینے سے کیا فائدہ؟ اسی کو غنیمت سمجھو کہ تم اس سے محفوظ رہے لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اس شخص کو برا نہیں جانتے؟ فرمایا اس شخص میں طبعا تو کوئی برائی نہیں البتہ اس کا یہ عمل برا ہے،جب چھوڑدے گا تو پھر میرا بھائی ہے۔ [43] طبیعت میں استغنا اور بے نیازی بھی تھی، عبد اللہ بن عامر شام آیا تو بہت سے صحابہ اپنے وظائف لینے گئے،لیکن حضرت ابودرداءؓ اپنی جگہ سے بھی نہ ہلے،عبد اللہ خود ان کا وظیفہ لے کر ان کے مکان پر آیا اور کہا کہ آپ تشریف نہیں لائے، اس لیے میں خود وظیفہ لے کر حاضر ہوا ہوں انھوں نے جواب دیا کہ تم سے زیادہ خدا کے نزدیک کوئی ذلیل نہ تھا، رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا کہ جب امرا اپنی حالت بدل لیں تو تم بھی اپنے کو بدلو۔ [44] [27]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب عنوان : Абу ад-Дарда
  2. سیر اعلام النبلاء از شمس الدین ذہبی ج 2
  3. (مسند شامیین،ج2،ص88،بیروت)
  4. (اسدالغابۃ،ج4،ص341،بیروت)
  5. (تاریخ ابن عساکر،ج1،ص328،بیروت)
  6. أسد الغابة في معرفة الصحابة - أبو الدرادء آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  7. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو الدَّرْدَاءِ (1) آرکائیو شدہ 2017-04-23 بذریعہ وے بیک مشین
  8. (کنزالعمال:7/78،بحوالہ بشکری)
  9. الإصابة في تمييز الصحابة - عويمر أبو الدرداء (1) آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  10. سنن الترمذي» كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» باب منه آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (مسند:6/450)
  12. (مسند:6/443)
  13. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - عويمر بن عامر آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  14. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» أبو الدرداء آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  15. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو الدَّرْدَاءِ (2) آرکائیو شدہ 2017-04-23 بذریعہ وے بیک مشین
  16. (مسند ابوداؤد،طیالسی:131)
  17. (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر:267)
  18. (کنزل العمال بحوالہ ابن دویہ :1/156)
  19. (کنزالعمال بحوالہ بیہقی:1/157)
  20. وقعة صفين - ابن مزاحم المنقري - الصفحة ١٩٠. آرکائیو شدہ 2020-02-07 بذریعہ وے بیک مشین
  21. (مسند:6/443)
  22. (مسند:6/443)
  23. (مسند:6/443)
  24. (مسند:5/98)
  25. (مسند:5/98)
  26. الإصابة في تمييز الصحابة - عويمر أبو الدرداء (2) آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  27. ^ ا ب تهذيب الكمال للمزي» «» عويمر بن مالك آرکائیو شدہ 2017-04-22 بذریعہ وے بیک مشین
  28. (مسند عبادہ:5/147)
  29. (کنز العمال،جلد7،بحوالہ ابن عساکر)
  30. (مسند:6/440)
  31. (بخاری عن ابی جحیفہ)
  32. (مسند:6/440)
  33. (مسند:6/52)
  34. (مسند:2/410)
  35. (مسند:5/195)
  36. (مسند:6/445)
  37. (مسند:448)
  38. (مسند ابوداؤد طیالسی:131)
  39. (مسند :6/448)
  40. (مسند:444)
  41. (مسند:196)
  42. (مسند:197)
  43. (اسد الغابہ:4/160)
  44. (کنزالعمال:2/171)