کعب بن عمرو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابو الیسر سے رجوع مکرر)
کعب بن عمرو
ابو الہسر
کعب بن عمرو
معلومات شخصیت
پیدائشی نام کعب بن عمرو
کنیت ابو الیسر
والد عمرو بن عباد بن عمرو بن سواد
والدہ نسیبہ بنت قیس بن الاسود بن مری
عملی زندگی
طبقہ صحابہ
نسب الخزرجی الانصاری
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوات نبوی

کعب بن عمرو غزوہ بدر میں شامل صحابی ہیں ابو الیسر ان کی کنیت تھی۔ نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار ساتھی تھے۔ حضرت کعب بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شامل صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو الیسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو الیسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنو سلمہ سے ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یوں ہے، حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عمرو ، بن عبادہ ، بن عمرو ، بن سواد ، بن غنم ، بن کعب ، بن سلمہ ، بن علی ، بن سد ، بن ساردہ ، بن یزید ، بن جشم ، بن خزرج ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ کا نام نسیبہ ، بنت ازہر ، بن مریٰ تھا اور یہ بنو سلمہ سے تھیں ۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں آپ نے اسلام قبول فرمایا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی تھی ۔ غزوۂ بدر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت جوش و جذبے سے لڑے یہاں تک کے مشرکین کا علم بھی آگے بڑھ کر مشرکین سے چھین لیا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ یمامہ میں بھی شرکت فرما کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی ختم نبوت پر پہرہ دیا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 55ھ میں مدینہ منورہ میں وصال ہوا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصحاب بدر میں سے سب سے بعد میں وفات پائی۔وفات کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر مبارک 70 برس سے اوپر تھی۔


نام و نسب[ترمیم]

کعب نام، ابو الیسر کنیت، بنو سلمہ سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے، کعب بن عمرو بن عبادہ بن عمرو بن سواد بن غنم بن کعب بن سلمہ بن علی بن سد بن ساردہ بن یزید بن جشم بن خزرج ،ماں کا نام نسیبہ بنت ازہر بن مریٰ تھا اور بنو سلمہ سے تھیں ۔ ،[1]

اسلام[ترمیم]

حضرت کعب بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عقبہ ثانیہ میں بیعت کی اور مشرف باسلام ہوئے ۔

غزوات[ترمیم]

حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام غزوات میں شریک رہے غزوۂ بدر میں نہایت جوش سے لڑے مشرکین کا علم ابو عزیز بن عمیر کے ہاتھ میں تھا، انھوں نے بڑھ کر چھین لیا، ایک مشرک مبنہ بن حجاج سہمی کو قتل کیا اورعباس بن عبد المطلب کو اسیر کر کے آنحضرت کے سامنے لائے ،آپ ﷺ ان کے چھوٹے سے قد اور عباس کے ڈیل ڈول کو دیکھ کر نہایت متعجب ہوئے اور فرمایا کہ عباس کو گرفتار کرنے میں ان کی کسی فرشتہ نے اعانت کی، اس وقت ان کا سن کل 20 سال کا تھا۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں بھی ان کی شرکت بدر تسلیم کی ہے۔ معرکہ خیبر میں جب کہ صحابہ قلعوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے ایک رات کسی یہودی کی بکری قلعہ میں جا رہی تھی، آنحضرت نے فرمایا مجھ کو اس کا گوشت کون کھلائے گا ابو الیسر نے کہا میں اور اٹھ کر نہایت تیز دوڑتے ہوئے پہنچے بہت بکریاں اندر جا رہی تھیں، انھوں نے دو بکریاں پکڑ لیں اور بغل میں دبا کر لے آئے، لوگوں نے ان کو ذبح کرکے گوشت پکایا۔[2] صفین اور دوسری لڑائیوں میں علی المرتضی کے ہمرکاب تھے۔ [3]

وفات[ترمیم]

55ھ میں مدینہ منورہ میں انتقال کیا، اصحاب بدر میں یہ سب سے بعد میں فوت ہوئے، خیبر والی حدیث بیان کرکے رویا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھ سے فائدہ اٹھا لو،صحابہ میں صرف میں باقی رہ گیا ہوں ،وفات کے وقت عمر 70 سے اوپر تھی۔بعض لوگوں نے 120 سال لکھا ہے؛لیکن یہ بدایۃ غلط ہے۔

اولاد[ترمیم]

ایک لڑکا یادگار چھوڑا جس کا نام عمار تھا۔

حلیہ[ترمیم]

ان کا قد ٹھگنا لیکن ایمان کی بلندی فلک بوس تھی اور پیٹ ذرا دراز تھا جبکہ دل تو نور ایمان سے لبریز تھا۔[4]

فضل و کمال[ترمیم]

کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ حدیث کم اور نہایت احتیاط سے بیان کرتے تھے،ایک مرتبہ عبادہ بن ولید سے دو حدیثیں بیان کیں اور حالت یہ تھی کہ آنکھ اور کان پر انگلی رکھ کر کہتے تھے کہ ان آنکھوں نے یہ واقعہ دیکھا اور ان کانوں نے آنحضرت کو بیان فرماتے سنا۔ [5] تلامذہ میں عبادہ بن ولید، موسیٰ بن طلحہ، عمر بن حکم بن رافع، حنظلہ بن قیس زرقی، صیفی مولا، ابو ایوب انصاری اور ربیع بن حراش کا نام داخل ہے۔ [6]

اخلاق و عادات[ترمیم]

نہایت رحیم اور نرم دل تھے ،بنو حرام کے ایک شخص پر قرض آتا تھا اس کے مکان پر جا کر آواز دی، معلوم ہوا موجود نہیں، اتنے میں اس کا چھوٹا لڑکا باہر آیا پوچھا تمھارے باپ کہاں ہیں، بولا اماں کی چار پائی کے نیچے چھپے ہیں،انھوں نے پکارا کہ اب نکل آؤ تم جہاں پر ہو مجھے معلوم ہے وہ باہر آیا اور اپنی فقر کی داستان سنائی ابو الیسر کا دل بھر آیا اور کاغذ منگا کر تمام حروف کو مٹادیا اور کہا اگر مقدرت ہوتو ادا کرنا ورنہ میں معاف کرتا ہوں۔[7][8][9]

غلاموں کے ساتھ برابری کا برتاؤ رکھتے تھے،ایک مرتبہ عبادہ بن ولید ان سے حدیث سننے کے لیے آئے دیکھا تو ان کے غلام کے پاس کتابوں کا ایک پشتارہ ہے خود ایک چادر اور ایک معافر کی بنی ہوئی لنگی پہنے ہیں، غلام کا بھی یہی لباس ہے،عبادہؓ نے کہا ،عم محترم بہتر ہو کہ ایک جوڑا مکمل کر لیجئے یا تو آپ ان کی معافری لے لیجئے اور اپنی چادر ان کو دے دیجئے یا اپنی معافری دے دیجئے اور ان سے چادر لیجئے ،حضرت ابو الیسرؓ نے ان کے سرپر ہاتھ پھیر ا اور دعا دی اور فرمایا کہ آنحضرت کا حکم یہ ہے کہ جو تم پہنو غلاموں کو پہناؤ اور جو تم کھاؤ ان کو کھلاؤ۔ [10] [11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو اليسر آرکائیو شدہ 2017-04-09 بذریعہ وے بیک مشین
  2. مسند:2/427
  3. أسد الغابة في معرفة الصحابة - أبو اليسر آرکائیو شدہ 2017-04-09 بذریعہ وے بیک مشین
  4. الصابہ از ابن حجر عسقلانی ج 7، ص 380
  5. (مسند:3/227)
  6. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» أبو اليسر كعب بن عمرو الأنصاري آرکائیو شدہ 2017-04-09 بذریعہ وے بیک مشین
  7. مسلم:2/450
  8. اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 877حصہ ہشتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  9. اصحاب بدر،صفحہ 189،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  10. (مسلم:2/450)
  11. تهذيب الكمال للمزي » كَعْب بن عَمْرو بن عباد بن عَمْرو بن غزية بن سواد آرکائیو شدہ 2017-04-09 بذریعہ وے بیک مشین