ابو ایوب انصاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو ایوب انصاری
(عربی میں: أبو أيوب الأنصاري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مسجد اور مزار حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ استنبول ، ترکیہ

معلومات شخصیت
پیدائش مدینہ منورہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 674ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسطنطنیہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ایوب سلطان مسجد  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صحابی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں محاصرہ قسطنطنیہ 674ء تا 678ء،  غزوہ احد  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ(وفات: 52ھ) انصار کے سرکردہ صحابی رسول اور میزبان رسول کہلاتے ہیں۔آپ مدینہ منورہ کے وہی خوش نصیب انصاری ہیں جن کے مکان کو شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہمان بن کر شرف نزول بخشا اور یہ شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی میزبانی سے سات ماہ تک سر فراز ہوتے رہے اور دن رات صبح وشام ہر وقت وہرآن اپنے ہر قول وفعل سے ایسی والہانہ عقیدت اور عاشقانہ جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے رہے کہ مشکل ہی سے اس کی مثال مل سکے گی۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کے لیے نیچے کی منزل میں قیام پسند فرمایا۔مجبوراً حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوپر کی منزل میں رہے ۔ ایک مرتبہ اتفاقاً پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو اس اندیشہ سے کہ کہیں پانی بہ کر نیچے والی منزل میں نہ چلا جائے اور حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو کچھ تکلیف نہ پہنچ جائے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبرا گئے اور سارا پانی اپنے لحاف میں جذب کر لیا ۔ گھر میں بس یہی ایک رضائی تھی جو گیلی ہو گئی ۔ رات بھر میاں بیوی نے سردی کھائی مگر حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ذرہ بھر بھی تکلیف پہنچ جائے یہ گوارا نہیں کیا۔ غرض بے پناہ ادب واحترام اور محبت و عقیدت کے ساتھ سلطان دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مہمان نوازی ومیزبانی کے فرائض اداکرتے رہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخاوت کے ساتھ ساتھ شجاعت اور بہادری میں بھی بے حد طاق تھے ۔ تمام اسلامی لڑائیوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ معرکہ آزمائی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب مجاہدین اسلام کا لشکر جہاد قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہواتو اپنی ضعیفی کے باوجود آپ بھی مجاہدین کے اس لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے تشریف لے گئے اور برابر مجاہدین کی صفوں میں کھڑے ہوکر جہاد کرتے رہے ۔ جب سخت بیمار ہو گئے اور کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہی تو آپ نے مجاہدین اسلام سے فرمایا کہ جب تم لوگ جنگ بندی کرو تو مجھے بھی صف میں اپنے قدموں کے پاس لٹائے رکھو اور جب میرا انتقال ہوجائے تو تم لوگ میری لاش کو قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے پاس دفن کرنا۔ چنانچہ 52ھ میں اسی جہاد کے دوران آپ کی وفات ہوئی اور اسلامی لشکر نے ان کی وصیت کے مطابق ان کو قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے پاس دفن کر دیا۔ یہ اندیشہ تھا کہ شاید عیسائی لوگ آپ کی قبر مبارک کو کھود ڈالیں مگر عیسائیوں پر ایسی ہیبت سوار ہو گئی کہ وہ آپ کی مقدس قبر کو ہاتھ نہ لگا سکے اور آج تک آپ کی قبر شریف اسی جگہ موجود ہے اور زیارت گاہ خلائق خاص وعام ہے جہاں ہر قوم وملت کے لوگ ہمہ وقت حاضری دیتے ہیں۔ [2][3]

نام و نسب[ترمیم]

خَالِد بن زيد نام، ابو ایوب کنیت، مدینہ منورہ کے قبیلۂ خزرج کے خاندان نجار سے تھے ، سلسلۂ نسب یہ ہے،خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبد عوف خزرجی، خاندان نجار کو قبائل مدینہ میں خود بھی ممتاز تھا، تاہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہاں نانہالی قرابت تھی اس کو مدینہ کے اور قبائل سے ممتاز کر دیا تھا، ابو ایوب اس خاندان کے رئیس تھے۔ ،[4]

اسلام[ترمیم]

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان منتخب بزرگان مدینہ میں ہیں، جنھوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جا کر پیغمبر اسلام کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی تھی۔ جب مکہ سے دولت ایمان لے کر پلٹے تو ان کی فیاض طبعی نے گوارا نہ کیا کہ اس نعمت کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیں ؛چنانچہ اپنے اہل و عیال، اعزہ و اقرباء اور دوست واحباب کو ایمان کی تلقین کی اور اپنی بیوی کو حلقہ اسلام میں داخل کیا۔ [5]

حامل نبوت کی میزبانی[ترمیم]

خدا نے اہل مدینہ کے قبول دعوت سے اسلام کو ایک مامن عطا کر دیا اور مسلمان مہاجرین مکہ اور اطراف سے آ کر مدینہ میں پناہ گزین ہوئے ؛لیکن جو وجود مقدس قریش کی ستمگاریوں کا حقیقی نشانہ تھا وہ اب تک ستمگاروں کے حلقہ میں تھا،آخر ماہ ربیع الاول میں نبوت کے تیر ہویں سال وہ بھی عازم مدینہ ہوا،اہل مدینہ بڑی بیتابی سے آنحضرت کی آمد آمد کا انتظار کر رہے تھے،انصار کا ایک گروہ جس میں حضرت ابو ایوبؓ بھی تھے روزانہ حرہ تک جو مدینہ سے 3,4 میل ہے صبح اٹھ کر جاتا تھا اور دوپہر تک حضور کا انتظار کرکے نامراد واپس آتا تھا، اسی طرح یہ لوگ ایک روز بے نیل مرام واپس ہو رہے تھے کہ ایک یہودی نے دور سے آنحضرت کو قرینہ سے پہچان کر انصار کو تشریف آوری کا مژدہ سنایا،انصار جن میں بنو نجار سب سے پیش پیش تھے ہتھیار سج سج کر خیر مقدم کے لیے آگے بڑھے۔ مدینہ سے متصل قبا نامی ایک آبادی تھی،آنحضرتﷺ کچھ دنوں قبا میں رونق افروز رہے،اس کے بعد مدینہ کا عزم فرمایا،اللہ اکبر! مدینہ کی تاریخ میں یہ عجیب مبارک دن تھا، بنو نجار اور تمام انصار ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ تھے،روساء اپنے اپنے محلوں میں قرینے سے ایستادہ تھے،پردہ نشین خواتین گھر سے باہر نکل آئی تھیں،مدینہ کے حبشی غلام جو ش مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھا رہے تھے اور خاندان نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر "طلع البدر علینا" کا ترانہ خیر مقدم گارہی تھیں غرض اس شان وشکوہ سے آنحضرتﷺ کا شہر میں داخلہ ہوا کہ و داع کی گھاٹیاں مسرت کے ترانوں سے گونج اٹھیں اور مدینہ کے روز نہائے دیوار نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اب ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھیے میزبان دوعالم ﷺ کی مہمانی کا شرف کس کو حاصل ہو، جدھر سے آپ ﷺ کا گذر ہوتا لوگ "اَھلا و سھلا مرحبا "کہتے ہوئے آگے بڑہتے اور عرض کرتے کہ حضور ﷺ یہ گھر حاضر ہے ؛لیکن کارکنانِ قضا وقدر نے اس شرف کے لیے جس گھر کو تاکا تھا وہ ابو ایوبؓ کا کاشانہ تھا ،آنحضرت نے لوگوں سے فرمایا" خلواسبیلھا فانھا مامورۃ" یعنی اونٹنی کو آزاد چھوڑدو ،وہ خدا کی جانب سے خود منزل تلاش کرلے گی، امام مالک کا قول ہے کہ اس وقت آنحضرت پر وحی کی حالت طاری تھی اور آپ اپنے قیام گاہ کی تجویز میں حکم الہی کے منتظر تھے، آخر ندائے وحی نے تسکین کا سرمایہ بہم پہنچایا اور ناقہ قصوانے خانۂ ابو ایوبؓ کے سامنے سفر کی منزل ختم کی ،حضرت ابوایوبؓ سامنے آئے اور درخواست کی کہ میرا گھر قریب ہے اجازت دیجئے اسباب اتار لوں، امیدواروں کا ہجوم اب بھی باقی تھا اور لوگوں کا اصرار اجازت سے مانع تھا،آخر لوگوں نے قرعہ ڈالا، ابو ایوبؓ کو اس فخر لازوال کے حصول سے جو مسرت ہوئی ہوگی اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آنحضرت حضرت ابو ایوبؓ کے گھر میں تقریباً مہینے تک فروکش رہے ،اس عرصہ میں حضرت ابوایوبؓ نے نہایت عقیدت مندانہ جوش کیساتھ آپ کی میزبانی کی؛ لیکن آپﷺ نے اپنی اور زائرین کی آسانی کی خاطر نیچے کا حصہ پسند فرمایا، ایک دفعہ اتفاق سے کوٹھے پر پانی کا جو گھڑا تھا وہ ٹوٹ گیا چھت معمولی تھی ڈر تھا کہ پانی نیچے ٹپکے اور آنحضرت کو تکلیف ہو،گھر میں میاں بیوی کے اوڑھنے کے لیے صرف ایک ہی لحاف تھا، دونوں نے لحاف پانی پر ڈال دیا کہ پانی جذب ہوکر رہ جائے،باایں ہمہ یہ تکلیف ان میزبانوں کے لیے کوئی بڑی زحمت نہ تھی کہ اسلام کی خاطر اس سے بڑی بڑی اور شدید تکلیفوں کے تحمل کا وہ عزم کر چکے تھے،تاہم یہ خیال کہ وہ اوپر اورخود حامل وحی نیچے ہے،ایسا سواہان روح تھا،جس نے حضرت ابوایوبؓ اورام ایوبؓ کو ایک دفعہ شب بھر بیدار رکھا اور دونوں میاں بیوی نے اس سو ادب کے خوف سے چھت کے کونوں میں بیٹھ کر رات بسر کی،صبح حضرت ابو ایوبؓ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اوررات کا واقعہ عرض کیا اور درخواست کی کہ حضور ﷺ اوپر اقامت فرمائیں جان نثار نیچے رہیں گے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے درخواست منظور فرمالی اوربالاخانہ پر تشریف لے گئے۔ آنحضرت جب تک ان کے مکان میں تشریف فرما رہے،عموما ًانصار یا خود حضرت ابو ایوبؓ آنحضرت کی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے،کھانے سے جو کچھ بچ جاتا آپ ﷺ حضرت ابوایوبؓ کے پاس بھیج دیتے تھے، حضرت ابو ایوبؓ انصاری آنحضرت ﷺ کی انگلیوں کے نشان دیکھتے اور جس طرف سے آنحضرت نے نوش فرمایا ہوتا وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے ،ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو معلوم ہوا کہ حضور ﷺ نے تناول نہیں فرمایا، مضطربانہ خدمت اقدس میں پہنچے اورنہ کھانے کا سبب دریافت کیا،ارشاد ہوا کھانے میں لہسن تھا اور میں لہسن پسند نہیں کرتا، حضرت ابو ایوبؓ نے کہا"فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا تَكْرَه"جو آپ کو ناپسند ہو یا رسول اللہ میں بھی اس کو ناپسند کروں گا۔ [6] [4][7]

مواخات[ترمیم]

ہجرت کے بعد آنحضرت نے مہاجرین وانصار کو باہم بھائی بھائی بنا دیا، آپ ﷺ نے حضرت انسؓ کے مکان میں مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور اتحاد مذاق رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصار کا بھائی بنایا ،اس موقع پر ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جس مہاجر کا بھائی قرار دیا وہ یثرب کے اولین داعی اسلام حضرت مصعبؓ بن عمیر قریشی تھے،حضرت مصعب ؓ بن عمیر پرجوش صحابی ہیں جنھوں نے اسلام کی خاطر بڑی بڑی سختیاں جھیلی تھیں اور ہجرت نبوی سے پہلے اسلام کے سب سے اول داعی بنا کر آنحضرت نے ان کو مدینہ بھیجا تھا، حضرت ابو ایوبؓ کی ان سے مواخاۃ یہ معنی رکھتی ہے کہ یہ بھی اپنے اندر اسی قسم کا جوش اور ولولہ رکھتے ہیں اور آخر ان کی زندگی کے واقعات نے اس کو سچ کر دیا۔ ،[8]

غزوات اور عام حالات[ترمیم]

حضرت ابوایوبؓ انصاری آنحضرت کے ساتھ تمام غزوات میں دیگر اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی طرح برابر کے شریک رہے اور اس التزام سے کہ ایک غزوہ کے شرف شرکت سے بھی محروم نہیں رہے ،آنحضرت کے مشہور غزوات میں پہلا غزوہ بدر ہے، حضرت ابو ایوبؓ انصاری اس میں شریک تھے،غزوہ بدر کے بعد وہ غزوہ احد، غزوہ خندق،بیعت الرضوان وغیرہ اور تمام غزوات میں بھی آنحضرت کے ہمرکاب رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جہاد میں صرف ہوا، حضرت علیؓ کے عہدِ خلافت میں جو لڑائیاں پیش آئیں، ان میں سے جنگ خوارج میں وہ شریک تھے اور حضرت علیؓ کی معیت میں مدائن تشریف لے گئے۔ حضرت علیؓ کو آپ کی ذات پر جو اعتماد اور آپ کی قابلیت وحسن تدبیر کا جس قدر اعتراف تھا وہ اس سے ظاہر ہوگا کہ جب انھوں نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو مدینہ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین چھوڑ گئے اور وہ اس عہد میں امیر مدینہ رہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ کو ان کی سابقہ حسنِ خدمت کی بنا پر بارگاہ خلافت سے حسب ترتیب ماہانہ وظائف ملتے تھے ، حضرت ابو ایوبؓ انصاری کا وظیفہ پہلے 4 ہزار درہم تھا، حضرت علیؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بیس ہزار کر دیا، پہلے 8 غلام ان کی زمین کی کاشت کے لیے مقرر تھے،حضرت علیؓ نے 40 غلام مرحمت فرمائے ۔[9]

آل و اولاد[ترمیم]

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ کا نام حضرت ام حسن بنت زید انصاریہؓ ہے وہ مشہور صحابیہ تھیں ،محمد ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کے بطن سے صرف ایک لڑکا عبد الرحمن تھا،اس حسن خدمت اور محبت کی یادگار میں جو آپ کو آنحضرت کی ذات سے تھی،تمام اصحابؓ اور اہل بیت آپ سے محبت وعظمت کے ساتھ پیش آتے تھے،حضرت ابن عباسؓ، حضرت علیؓ کی طرف سے بصرہ کے گورنر تھے ، اسی زمانہ میں آپ حضرت ابن عباسؓ کی ملاقات کو بصرہ تشریف لے گئے ابن عباسؓ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں جس طرح آپ نے آنحضرت کی اقامت کے لیے اپنا گھر خالی کر دیا تھا، میں بھی آپ کے لیے اپنا گھر خالی کردوں اور اپنے تمام اہل و عیال کو دوسرے مکان میں منتقل کر دیا اور مکان مع اس تمام سازو سامان کے جو گھر میں موجود تھا آپ کی نذر کر دیا۔ [10]

مصر کا سفر[ترمیم]

حضرت علیؓ کے بعد امیر معاویہؓ کی حکومت کا زمانہ آیا، عقبہ بنؓ عامر جہنی کی طرف سے مصر کے گورنر تھے،حضرت عقبہؓ بن عامر کی امارت میں حضرت ابو ایوبؓ کو دو مرتبہ سفر مصر کا اتفاق ہوا، پہلا سفر طلب حدیث کے لیے تھا،انھیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں، صرف ایک حدیث کے لیے حضرت ابو ایوبؓ نے عالم پیری میں سفر مصر کی زحمت گوارا کی ،مصر پہنچ کر پہلے مسلمہؓ بن مخلد کے مکان پر گئے، حضرت مسلمہ بن مخلد الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر پائی تو جلدی سے گھر سے باہر نکل آئے اور معانقہ کے بعد پوچھا کیسے تشریف لانا ہوا، حضرت ابو ایوبؓ نے فرمایا کہ مجھ کو عقبہ کا مکان بتا دیجئے، مسلمہ سے رخصت ہوکر عقبہ کے مکان پر پہنچے ان سے "سترالمسلم" کی حدیث دریافت فرمائی اور کہا کہ اس وقت آپ کے سوا اس حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں، حدیث سن کر اونٹ پر سوار ہوئے اور سیدھے مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔ [11] .[12]

غزوۂ روم کی شرکت[ترمیم]

دوسری بار ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ روم کی شرکت کے ارادہ سے مصر تشریف لے گئے،فتح قسطنطنیہ کی آنحضرت بشارت دے گئے تھے امرائے اسلام منتظر تھے کہ دیکھیے پیشنگوئی کس جانباز کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے، شام کے دار الحکومت ہونے کے سبب سے حضرت معاویہؓ کو اس کا سب سے زیادہ موقع حاصل تھا،چنانچہ 52ھ میں انھوں نے روم پر فوج کشی کی، دیگر اصحاب کبار کی طرح حضرت ابوایوبؓ انصاری بھی اس پرجوش فوج کے ایک سپاہی تھے،مصر وشام وغیرہ ممالک اسلام کے الگ الگ دستے تھے، مصری فوج کے سرعسکر گورنر مصر مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ جہنی تھے ،ایک دستہ نضالہ بن عبید کے ماتحت تھا، ایک جماعت عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے زیر قیادت تھی ،رومی بڑے سروسامان سے لڑائی کے لیے تیار ہوئے اور ایک فوج گراں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بھیجی ،مسلمانوں نے بھی مقابلہ کی تیاریاں کیں، ان کی تعداد بھی دشمنوں سے کم نہ تھی، جو ش کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک مسلمان رومیوں کی پوری پوری صف سے معرکہ آرا تھا، ایک صاحب کے جوش کی یہ کیفیت تھی کہ رومیوں کی صفوں کو چیر کر تنہا اندر گھس گئے اس تیور کو دیکھ کر عام مسلمانوں نے بیک آواز کہا کہ یہ صریح آیت قرآنی"لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) کے خلاف ہے،حضرت ابو ایوبؓ انصاریؓ آگے بڑھے اور فوج کو مخاطب کرکے فرمایا، لوگو ! تم نے اس آیت شریفہ کے یہ معنی سمجھے؟ حالانکہ اس کا تعلق انصار کے ارادۂ تجارت سے ہے،اسلام کے امن و فراخی کے بعد انصار نے یہ ارادہ کیا تھا کہ گذشتہ سالوں میں جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں ان کی تلافی کی جائے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پس ہلاکت جہاد میں نہیں؛بلکہ ترک جہاد اور فراہمی مال میں ہے۔ [13] [14]

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات 52ھ ، 674ء میں ہوئی سفر جہاد میں عام وبا پھیلی اور مجاہدین کی بڑی تعداد اس کے نذر ہو گئی،حضرت ابو ایوب انصاری بھی اس وبا میں بیمار ہوئے، یزید عیادت کے لیے گیا اور پوچھا کہ کوئی وصیت کرنی ہو تو فرمائیے تعمیل کی جائے گی، آپ نے فرمایا تم دشمن کی سرزمین میں جہاں تک جاسکو میرا جنازہ لیجا کر دفن کرنا، چنانچہ وفات کے بعد اس کی تعمیل کی گئی، تمام فوج نے ہتھیار سج کر رات کو لاش قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے دفن کی، نماز میں جس قدر مسلمان فوجی شامل تھے دفن کرنے کے بعد یزید نے مزار کے ساتھ کفار کی بے ادبی کے خوف سے اس کو زمین کے برابر کرادیا، صبح کو رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ رات آپ لوگ کچھ مصروف سے نظر آتے تھے، بات کیا تھی، مسلمانوں نے کہا کہ ہمارے پیغمبر کے ایک بڑے جلیل القدر دوست نے وفات پائی، ان کے دفن میں مشغول تھے؛ لیکن جہاں ہم نے دفن کیا ہے تمھیں معلوم ہے، اگر مزار کے ساتھ کوئی گستاخی تمھاری طرف سے روا رکھی گئی تویاد رکھو اسلام کی وسیع الحدود حکومت میں کہیں ناقوس نہ بچ سکے گا۔

حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار دیوار قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اب تک زیارت گاہ خلائق ہے، رومی قحط کے زمانہ میں مزار پر جمع ہوتے تھے، اس کے وسیلہ سے بارانِ رحمت مانگتے تھے اورخدا کے لطف و کرم کا نظارہ کرتے تھے۔[15][16] [17][18]

فضل و کمال[ترمیم]

حضرت ابوایوبؓ انصاری کا فضل وکمال اس قدر مسلم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے، حضرت ابن عباسؓ ، ابن عمرؓ، براء بن عازبؓ،انس بن مالکؓ، ابوامامہؓ ،زید بن خالدؓ جہنی، مقدامؓ بن معدی کرب، جابر بن سمرہؓ، عبد اللہ بن یزید خطمی وغیرہ جو آنحضرت کے تربیت یافتہ تھے،حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے، تابعین میں ، سعید بن مسیب ،عروہ بن زبیر ، سالم بن عبداللہ ، عطاء بن یسار، عطا بن یزید لیثی، ابوسلمہ عبد الرحمن بن ابی لیلی، بڑے پایہ کے لوگ ہیں،تاہم وہ حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے عام ارادتمندوں میں داخل تھے۔

حضرت ابو ایوبؓ کو فضل وکمال میں مرجعیت عامہ حاصل تھی، صحابہ کرامؓ جب کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو ان کی طرف رجوع کرتے تھے،ابن عباسؓ اور مِسور بن مخرمہ میں اختلاف ہوا کہ محرم حالت جنابت میں غسل کرتے وقت سر ہاتھ سے مل سکتا ہے یا نہیں، ابن عباسؓ کا خیال تھا سر دھو سکتا ہے،مگر مِسور کہتے تھے کہ سردھونا جائز نہیں ،دونوں بزرگوں نے عبد اللہ بن حسین کو حضرت ابو ایوبؓ کی خدمت میں بھیجا، حسن اتفاق یہ کہ وہ اس وقت غسل ہی کر رہے تھے، عبد اللہ نے مسئلہ پوچھا تو انھوں نے اپنا سر باہر نکال کر ملنا شروع کیا اور فرمایا کہ دیکھو آنحضرت اسی طرح غسل کرتے تھے۔ [19]

عاصم بن سفیان ثقفی غزوہ ٔسلاسل میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلے تھے ، ابھی منزل مقصود سے دور تھے کہ اختتام جنگ کی خبر آئی انھیں نہایت افسوس ہوا اور وہ حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں گئے ،اس وقت حضرت ابو ایوبؓ اور عقبہؓ بن عامر بھی موجود تھے، ان کی موجودگی میں عاصم نے حضرت ابو ایوبؓ سے مسئلہ دریافت کیا، ان دونوں بزرگوں سے نہیں پوچھا،حضرت ابوایوبؓ کو یہ گوارانہ ہوا،اس لیے انھوں نے مسئلہ کا جواب دیکر عقبہؓ سے تصدیق کرائی کہ ان کو کسی قسم کا خیال نہ پیدا ہو۔ [20] ابن اسحق (مولیٰ بنی ہاشم) اور بعض دوسرے بزرگوں میں یہ بحث تھی کہ نبیذ کس کس برتن میں بنا سکتے ہیں؟ اور قرع کے بارے میں بحث چل رہی تھی،حضرت ابو ایوبؓ انصاری کا ادھر سے گذر ہوا تو لوگوں نے ان کے پاس ایک آدمی کو تحقیق مسئلہ کے لیے روانہ کیا،حضرت ابو ایوبؓ نے فرمایا کہ آنحضرت نے مزفت میں نبیذ بنانے کی ممانعت کی ہے،اس شخص نے قرع کا لفظ دہرایا مگر حضرت ابو ایوبؓ نے پھر یہی جواب دیا۔ [21] حضرت ابو ایوبؓ کے حب علم اور نشر معارف کی انتہا یہ ہے کہ بستر مرگ پر بھی ان کی زبان اشاعت حدیث کا مقدس فرض ادا کر رہی تھی ، وفات سے قبل انھوں نے آنحضرت سے دو حدیثیں روایت کیں، جو پہلے کبھی انھوں نے بیان نہیں کی تھیں، ان کی رحلت کے بعد عام اعلان کے ذریعہ سے وہ لوگوں تک پہنچائی گئیں۔ [22] [23][24]

اخلاق[ترمیم]

حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مجموعہ اخلاق میں تین چیزیں سب سے زیاہ نمایاں تھیں،حب رسول ،جوش ایمان اور حق گوئی، آنحضرت کے ساتھ حضرت ابو ایوبؓ کو جو محبت تھی اور حضرت رسالت پناہ کے ساتھ جو آداب وہ ملحوظ رکھتے تھے ، میزبانی کے ذکر میں وہ واقعات گذر چکے ہیں۔ وفات نبوی ﷺ کے بعد جان نثاروں کے لیے روضہ اقدس کے سوا اورکیا شے مایۂ تسلی ہو سکتی تھی؟ ایک دفعہ حضرت ابو ایوبؓ آنحضرت کے روضہ اطہر کے پاس تشریف رکھتے تھے اور اپنا چہرہ ضریح اقدس سے مس کر رہے تھے، اس زمانہ میں مروان مدینہ کا گورنر تھا وہ آگیا اس کو بظاہر یہ فعل خلافِ سنت نظر آیا؛ لیکن حضرت ابو ایوبؓ انصاری سے زیادہ مروان واقف رموز نہ تھا،اصل اعتراض کو سمجھ کر آپ نے فرمایا میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اینٹ اور پتھر کے پاس نہیں آیا۔ جوشِ ایمان کو تم اوپر دیکھ چکے ہو ،غزوات نبوی میں سے کسی غزوہ کی شرکت سے وہ محروم نہ تھے ،اسی برس کی عمر میں بھی وہ مصر کی راہ سے بحرروم کو عبور کرکے قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف تھے۔ حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ حکومت اور امارت کا دبدبہ وشان بھی اس سے باز نہیں رکھ سکتا تھا، ایک دفعہ مصر کے گورنر حضرت عقبہؓ بن عامر جہنی نے جو خود صحابی تھے کسی سبب سے مغرب کی نماز میں دیر کردی ،حضرت ابو ایوبؓ انصاری نے اٹھ کر پوچھا "ما ھذا الصلوۃ یا عقبہ؟" عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ حضرت عقبہؓ نے کہا ایک کام کی وجہ سے دیر ہو گئی،آپ نے کہا تم صاحب رسول اللہ ﷺ ہو ،تمھارے اس فعل سے لوگوں کو گمان ہوگا کہ شاید آنحضرت ﷺ اسی وقت نماز پڑہتے تھے ؛حالانکہ آنحضرت ﷺ نے مغرب کے وقت تعجیل کی تاکید فرمائی ہے۔ [25] حضرت خالد بن ولیدؓ کے صاحب زادے عبد الرحمن نے کسی جنگ میں چار قیدیوں کو ہاتھ پاؤں بندھوا کر قتل کرادیا، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو خبر ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اس قسم کے وحشیانہ قتل سے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے اور میں تو اس طرح مرغی کا مارنا بھی پسند نہیں کرتا۔ غزوہ ٔروم کے زمانہ میں جہاز میں بہت سے قیدی افسر تقسیمات کی نگرانی میں تھے، حضرت ابو ایوبؓ انصاری ادھر سے گذرے تو دیکھا قیدیوں میں ایک عورت بھی ہے جو زار زار رو رہی ہے ،حضرت ابو ایوبؓ انصاری نے سبب پوچھا،لوگوں نے کہا کہ اس کا بچہ اس سے چھین کر الگ کر دیا گیا ہے،حضرت ابو ایوبؓ انصاری نے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر عورت کے ہاتھ میں دیدیا ،افسر نے امیر سے اس کی شکایت کی ،امیر نے باز پرس کی تو بولے رسول اللہ ﷺ نے اس طریقہ ستم کی ممانعت کی ہے اور بس۔ [26] حضرت ابوایوبؓ کی حریت ضمیر کا یہ فطری تقاضا تھا کہ جو بات اسلام کے خلاف دیکھیں اس پر لوگوں کو متنبہ کریں؛چنانچہ جب وہ شام اورمصر تشریف لے گئے اور وہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہوئے دیکھے تو بار بار کہا کیا کہوں؟ یہاں پاخانے قبلہ رخ بنے ہیں ؛حالانکہ آنحضرت ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ [27] حضرت ابوایوبؓ انصاری کی حیا کا یہ حال تھا کہ کنوئیں پر نہاتے تو چاروں طرف سے کپڑا تان لیتے تھے۔ [28] [3][29] ،[30]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Абу Аййуб аль-Ансари
  2. الخطيب البغدادي۔ تاريخ بغداد۔ الأول۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 153 
  3. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» أبو أيوب الأنصاري آرکائیو شدہ 2017-09-25 بذریعہ وے بیک مشین
  4. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - خالد بن زيد بن كليب آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  5. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو أَيُّوبَ (1) آرکائیو شدہ 2017-10-04 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  6. (مسلم:2/197)
  7. البداية والنهاية» كتاب سيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم» فصل في أسماء من شهد بيعة العقبة الثانية آرکائیو شدہ 2017-07-27 بذریعہ وے بیک مشین
  8. البداية والنهاية» كتاب سيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم» فصل في دخوله عليه السلام المدينة وأين استقر منزله بها آرکائیو شدہ 2017-07-27 بذریعہ وے بیک مشین
  9. الكامل في التاريخ» ذكر ما كان من الأمور أول سنة من الهجرة آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  10. السيرة النبوية لابن هشام » هجرة الرسول صلى الله عليه وسلم » بنا مسجد المدينة ومساكنه صلى الله عليه وسلم (1) آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (مسنداحمد:4/153)
  12. البداية والنهاية» السنة الثانية من الهجرة» كتاب المغازي» غزوة بدر العظمى» فصل في بعث قريش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء أسراهم آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  13. تاريخ الطبري » ثُمَّ دخلت سنة أربعين » توجيه مُعَاوِيَة بسر بن أبي أرطاة فِي ثلاثة آلاف آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  14. Sumner-Boyd، Freely (2010)۔ Strolling Through Istanbul: The Classic Guide to the City (revised ایڈیشن)۔ London: Tauris Parke Paperbacks۔ صفحہ: 363۔ ISBN 978-1-84885-154-2۔ 31 مارس 2022 میں اصل |archive-url= بحاجة لـ |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ 
  15. اسد الغابہ، تذکرہ ابو ایوب انصاری
  16. ابن سعد، جلد3
  17. البداية والنهاية» ثم دخلت سنة سبع وثلاثين» ذكر خروج الخوارج من الكوفة ومبارزتهم عليا رضي الله عنه بالعداوة والمخالفة» ذكر مسير أمير المؤمنين علي، رضي الله عنه، إلى الخوارج آرکائیو شدہ 2018-01-04 بذریعہ وے بیک مشین
  18. الكامل في التاريخ» ثم دخلت سنة سبع وثلاثين» ذكر قتال الخوارج آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (بخاری:1/248)
  20. (مسند احمد:5/423،ونسائی،باب فضل الوضو)
  21. (مسنداحمد:5/414)
  22. (مسند احمد:5/414)
  23. البداية والنهاية» سنة أربعين من الهجرة النبوية» ذكر مقتل أمير المؤمنين علي بن أبي طالب آرکائیو شدہ 2017-10-17 بذریعہ وے بیک مشین
  24. الكامل في التاريخ » ثم دخلت سنة أربعين » ذكر سرية بسر بن أبي أرطاة إلى الحجاز واليمن آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین
  25. (مسند احمد:5/417)
  26. (مسند احمد:5/417)
  27. (مسنداحمد:415)
  28. (بخاری:1/248)
  29. الطبقات الكبرى لابن سعد - أَبُو أَيُّوبَ (2) آرکائیو شدہ 2017-10-04 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  30. الإصابة في تمييز الصحابة - خالد بن زيد (2) آرکائیو شدہ 2017-03-29 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]