ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری
معلومات شخصية
اسم الولادة ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری
الميلاد 29 هـ

المدينة المنورة
الوفاة 103 هـ

المدينة المنورة
الكنية ابو محمد
أقرباء والد ابو موسیٰ اشعریؓ
عملی زندگی
پیشہ مُحَدِّث  تعديل قيمة خاصية (P106) في ويكي بيانات

ابو بردہؒ بن ابی موسیؓ اشعری جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

عامر نام،ابوبردہ کنیت،کنیت سے زیادہ مشہور ہیں،مشہور صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے صاحبزادے ہیں، نسب نامہ یہ ہے، عامر بن عبد اللہ بن موسیٰ بن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عذر بن وائل بن ناجیہ بن جماہر اشعری۔

تعلیم[ترمیم]

ان کے والد حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بڑے پایہ کے صحابی تھے،انھوں نے ان کو حصول تعلیم کے لیے مشہور صحابی عبد اللہ بن سلام کے پاس جو مدینہ میں اہل کتاب کے بہت بڑے عالم تھے،بھیج دیا تھا، اس واقعہ کو ابوبردہ خود بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ کو تحصیل علم کے لیے عبد اللہ بن سلام کے پاس بھیجا، جب میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا بھتیجے تم لوگ ایک تجارتی مقام پر رہتے ہو،اس لیے اس کا لحاظ رکھنا کہ جب کسی پر تمھارا کچھ مال واجب ہو تو وہ اگر تم کو گھاس کا ایک گٹھا بھی دے تو اس کو قبول نہ کرنا کہ وہ ربا ہوگا۔ [1]

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب میں مدینہ گیا اورعبداللہ بن سلام سے ملا تو انھوں نے کہا چلو جس گھر میں رسول اللہ ﷺ نے داخل ہوکر نماز پڑھی ہے تم بھی اس میں چل کر نماز پڑھو، تم کو کھجور اورستو کھلاؤں گا،پھر فرمایا،بھتیجے تم ایسے مقام پر رہتے ہو جہاں سود عام ہے تم میں ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ کسی کو قرض دیتے ہیں اوراس کی مدت پوری ہوجاتی ہے تو مقروض خور و نوش کے سامان کی ایک گھٹری اورچارہ کا ایک گٹھا اپنے ساتھ لاتا ہے یہ ربا ہے۔ [2]

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اورعبداللہ بن سلامؓ کی تعلیم و تربیت اوردوسرے بزرگوں کے فیض صحبت نے ابوبردہ کا دامن علم نہایت وسیع کر دیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں، ابو بردہ بن ابی موسیٰ الاشعری الفقیہ احد الائمۃ الاثبات [3]امام نووی لکھتے ہیں ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ [4]

حدیث[ترمیم]

حدیث کے وہ ممتاز حفاظ تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں "کان ثقۃ کثیر الحدیث" اس فن میں انھوں نے ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت علیؓ ،حذیفہؓ بن یمان،عبد اللہ بن سلام اعزالمزنی مغیرہ،عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ،اسود بن یزید الخنعی اورعروہ بن زبیرؓ وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ [5]

تلامذہ[ترمیم]

ان سے روایت کرنے والوں میں ان کے لڑکے سعید اوربلال،پوتے یزید اورعام لوگوں میں امام شعبی،ثابت البنانی ،حمید بن بلال،عبد الملک بن نمیر قتادہ ،ابو اسحٰق سبیعی وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [6]

فقہ[ترمیم]

فقہ میں بھی وہ امتیازی پایہ رکھتے تھے ،حافظ ذہبی ان کو فقیہ اورامام لکھتے ہیں۔ [7]

عہدہ قضاء[ترمیم]

اس تفقہ کی بنا پر وہ قاضی شریح کے بعد کوفہ کی مسندِ قضاء پر بیٹھے تھے۔[8]ان کے بعد ان کے لڑکے بلال ان کے جانشین ہوئے۔ [9]

فضائل اخلاق[ترمیم]

فضائل اخلاق کا مجسم پیکر تھے،ان کی ذات میں تمام اخلاقی محاسن جمع تھے،یزید بن مہلت جس زمانہ میں خراسان کا والی ہوا اس وقت اس کو ایک جامع اوصاف شخص کی ضرورت ہوئی، اس نے لوگوں سے کہا مجھے کوئی ایسا آدمی بتاؤ جو خصائلِ حسنہ میں پورا ہو۔ لوگوں نے ابوبردہ کا نام لیا،یزید انھیں بلاکر ان سے ملا تجربہ سے انھیں بہترین شخص پایا،ان کی باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوا،انھیں پرکھنے کے بعد ان سے کہا میں تم کو فلاں فلاں عہدہ پر مامور کرتا ہوں، انھوں نے اس کے قبول کرنے سے معذرت چاہی، یزید نہ مانا،اس وقت انھوں نے معذرت میں یہ مذہبی دلیل پیش کی کہ میرے والد نے مجھے سے بیان کیا تھا کہ رسو ل اللہ ﷺ فرماتے تھے جس شخص نے کوئی ایسا عہدہ قبول کر لیا جس کے متعلق وہ خود جانتا ہے کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے تو اس کو چاہیے کہ دوزخ کو اپنا مستقر بنانے کے لیے تیار رہے۔ [10]

وفات[ترمیم]

104ھ میں وفات پائی۔ [11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد:5/187)
  2. (ابن سعدایضاً)
  3. (تذکرۃ الحفاظ:1/83)
  4. (تہذیب الاسماء،ج اول،ق2 ، ص179)
  5. (تہذیب التہذیب:12/18)
  6. (تہذیب التہذیب ایضاً)
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/83)
  8. (شذرات الذہب :1/126)
  9. (ابن سعد:5/187)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/83)
  11. (ابن سعد :5/187)