ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن
معلومات شخصیت
مقام وفات مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبدالرحمن بن عوف   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  فقیہ ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو سلمہ بن عبد الرحمنؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

عبد اللہ نام، ابو سلمہ کنیت، کنیت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ نام کی جگہ لے لی؛چنانچہ بعضوں کے نزدیک ان کا نام ہی ابو سلمہ تھا، مشہور صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف کے فرزند ہیں، ماں کا نام تماضر تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے تما ضر بنت اصبغ بن عمرو بن ثولبہ بن حارث بن حصین بن ضمضم بن عدی بن خباب بن ہبل کلبی۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا درجہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ عشرہ مبشرہ میں تھے، ابو سلمہ نے انہی کے آغوش علم وعمل میں پرورش پائی تھی، باپ کے فیض تربیت سے وہ یگانہ عصر بن گئے تھے، بعض علما ان کو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں شمار کرتے ہیں، لیکن یہ رائے مختلف فیہ ہے مگر اس سلسلہ میں ان کا نام لیا جانا ہی ان کے کمال کی سب سے بڑے سند ہے، ان کی علمی جلالت اورامامت پر علما کا اتفاق ہے، امام نووی لکھتے ہیں کہ ابو سلمہ کی امامت ان کے مرتبہ کی بلندی اوران کی رفیع المنزلی پر سب کا اتفاق ہے۔ [1]

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھوں نے اپنے والد حضرت عبد الرحمن بن عوف، ان کے علاوہ اکابر صحابہ میں حضرت عثمانؓ، طلحہؓ، عبادہ بن صامتؓ، ابوقتادہ، ابودرداءؓ، اسامہ بن زیدؓ، حسان بن ثابتؓ، رافع بن خدیجؓ، ثوبانؓ، نافع بن حارثؓ، عبد اللہ بن سلامؓ، ابو ہریرہؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، عبد اللہ بن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابو سعید خدریؓ، انس بن مالکؓ، جابرؓ، معاویہؓ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور ام سلمہؓ وغیرہ اوربہت سے اکابر تابعین سے استفادہ کیا تھا۔ ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امامِ حدیث بنادیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بڑے ائمہ تابعین میں، کثیر العلم، ثقہ اورعالم تھے [2]علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان ثقۃ فقیھا کثیر الحدیث تمام اکابر علما ان کی کثرتِ حفظ کے معترف تھے، زہری کا بیان ہے کہ ابراہیم بن عبد اللہ بن قارظ مجھ سے کہتے تھے کہ تمھاری قوم میں دو آدمیوں سے بڑا عالم حدیث میں نہیں دیکھا، ایک عروہ بن زبیر، دوسرے ابو سلمہ بن عبد الرحمن [3] امام زہری کہتے تھے کہ میں نے چار آدمیوں کو علم کا دریا پایا، ان چار میں ایک ابو سلمہ کا نام ہے۔ [4]

تلامذہ[ترمیم]

امام شعبی، عبد الرحمن الاعرج عراک بن مالک، عمر بن دینار، ابو حازم، ابو سلمہ بن دینار، زہری، یحییٰ بن سعید انصاری اوریحییٰ بن ابی کثیرہ وغیرہ آپ کے تلامذہ میں ہیں۔

فقہ[ترمیم]

فقہ میں ابو سلمہ کا پایہ اتنا بلند تھا کہ بعض علما ان کو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں شمار کرتے تھے، علامہ بن سد ان کو فقیہ لکھتے ہیں، فقہ میں انھوں نے فقیہ الامت عبد اللہ بن عباس سے استفادہ کیا تھا، بعض اوقات فقہی مسائل میں استاد کو ان کی رائے پلٹا دیتے تھے حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابو سلمہ ابن عباسؓ سے تفقہ حاصل کرتے تھے اور مسائل پر ان سے بحث ومناظرہ کرکے ان کو ان کی رائے سے پلٹا دیتے تھے۔ [5]

عہدہ قضا[ترمیم]

امیر معاویہؓ کے عہد خلافت میں سعید بن العاص حاکم مدینہ نے ان کو مدینۃ الرسول کے عہدۂ قضا ء پر ممتاز کیا، لیکن پھر بعد کے تغیرات میں وہ اس عہد ہ پر نہ رہ سکے اورسعید بن العاص کی معزولی کے بعد اس کے جانشین مروان نے ابو سلمہ کوہٹا دیا۔ [6]

وفات[ترمیم]

ولید بن عبد الملک کے عہدِ خلافت 94 میں وفات پائی، ایک روایت یہ ہے 104ھ میں انتقال کے وقت بہتر سال کی عمر تھی۔ [7]

حلیہ[ترمیم]

ابو سلمہ نہایت حسین وجمیل تھے، عبد اللہ بن ابی یعقوب کا بیان ہے کہ ابو سلمہ بڑے صبیح تھے، ان کا چہرہ تابانی میں ہر قلی دینار معلوم ہوتا تھا، سر اور داڑھی کے بال سپید ہو گئے تھے، ان میں کبھی حنا کا کبھی وسمہ کا خضاب لگاتے تھے۔ [8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب الاسماء:1/241)
  2. (تذکرۃ الحفاظ:1/54)
  3. (تہذیب التہذیب:12/116)
  4. (تذکرۃ الحفاظ:1/54)
  5. (تذکرۃ الحفاظ:1/54)
  6. (ابن سعد:5/115)
  7. (ابن سعد:5/116)
  8. (ایضاً:115، 116)