ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام وفات | مدینہ منورہ |
والد | عبدالرحمن بن عوف |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث، فقیہ، منصف |
درستی - ترمیم ![]() |
ابو سلمہ بن عبدالرحمنؒ تابعین میں سے ہیں۔
نام ونسب[ترمیم]
عبداللہ نام، ابو سلمہ کنیت، کنیت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ نام کی جگہ لے لی؛چنانچہ بعضوں کے نزدیک ان کا نام ہی ابو سلمہ تھا، مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف کے فرزند ہیں، ماں کا نام تماضر تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے تما ضر بنت اصبغ بن عمرو بن ثولبہ بن حارث بن حصین بن ضمضم بن عدی بن خباب بن ہبل کلبی۔
فضل وکمال[ترمیم]
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا درجہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ عشرہ مبشرہ میں تھے، ابو سلمہ نے انہی کے آغوش علم وعمل میں پرورش پائی تھی، باپ کے فیض تربیت سے وہ یگانہ عصر بن گئے تھے، بعض علماء ان کو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں شمار کرتے ہیں، لیکن یہ رائے مختلف فیہ ہے مگر اس سلسلہ میں ان کا نام لیا جانا ہی ان کے کمال کی سب سے بڑے سند ہے، ان کی علمی جلالت اورامامت پر علماء کا اتفاق ہے، امام نووی لکھتے ہیں کہ ابو سلمہ کی امامت ان کے مرتبہ کی بلندی اوران کی رفیع المنزلی پر سب کا اتفاق ہے۔ [1]
حدیث[ترمیم]
حدیث میں انہوں نے اپنے والد حضرت عبدالرحمن بن عوف، ان کے علاوہ اکابر صحابہ میں حضرت عثمانؓ، طلحہؓ، عبادہ بن صامتؓ، ابوقتادہ، ابودرداءؓ، اسامہ بن زیدؓ، حسان بن ثابتؓ، رافع بن خدیجؓ، ثوبانؓ، نافع بن حارثؓ، عبداللہ بن سلامؓ، ابو ہریرہؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابن عمرؓ، ابو سعید خدریؓ، انس بن مالکؓ، جابرؓ، معاویہؓ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور ام سلمہؓ وغیرہ اوربہت سے اکابر تابعین سے استفادہ کیا تھا۔ ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امامِ حدیث بنادیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بڑے آئمہ تابعین میں، کثیر العلم، ثقہ اورعالم تھے [2]علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان ثقۃ فقیھا کثیر الحدیث تمام اکابر علماء ان کی کثرتِ حفظ کے معترف تھے، زہری کا بیان ہے کہ ابراہیم بن عبداللہ بن قارظ مجھ سے کہتے تھے کہ تمہاری قوم میں دو آدمیوں سے بڑا عالم حدیث میں نہیں دیکھا، ایک عروہ بن زبیر، دوسرے ابو سلمہ بن عبدالرحمن [3] امام زہری کہتے تھے کہ میں نے چار آدمیوں کو علم کا دریا پایا، ان چار میں ایک ابو سلمہ کا نام ہے۔ [4]
تلامذہ[ترمیم]
امام شعبی، عبدالرحمن الاعرج عراک بن مالک، عمر بن دینار، ابو حازم، ابو سلمہ بن دینار، زہری، یحییٰ بن سعید انصاری اوریحییٰ بن ابی کثیرہ وغیرہ آپ کے تلامذہ میں ہیں۔
فقہ[ترمیم]
فقہ میں ابو سلمہ کا پایہ اتنا بلند تھا کہ بعض علماء ان کو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں شمار کرتے تھے، علامہ بن سد ان کو فقیہ لکھتے ہیں، فقہ میں انہوں نےفقیہ الامت عبداللہ بن عباس سے استفادہ کیا تھا، بعض اوقات فقہی مسائل میں استاد کو ان کی رائے پلٹا دیتے تھے حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابو سلمہ ابن عباسؓ سے تفقہ حاصل کرتے تھے اور مسائل پر ان سے بحث ومناظرہ کرکے ان کو ان کی رائے سے پلٹا دیتے تھے۔ [5]
عہدہ قضا[ترمیم]
امیر معاویہؓ کے عہد خلافت میں سعید بن العاص حاکم مدینہ نے ان کو مدینۃ الرسول کے عہدۂ قضا ء پر ممتاز کیا، لیکن پھر بعد کے تغیرات میں وہ اس عہد ہ پر نہ رہ سکے اورسعید بن العاص کی معزولی کے بعد اس کے جانشین مروان نے ابو سلمہ کوہٹا دیا۔ [6]
وفات[ترمیم]
ولید بن عبدالملک کے عہدِ خلافت 94 میں وفات پائی، ایک روایت یہ ہے 104ھ میں انتقال کے وقت بہتر سال کی عمر تھی۔ [7]
حلیہ[ترمیم]
ابو سلمہ نہایت حسین وجمیل تھے، عبداللہ بن ابی یعقوب کا بیان ہے کہ ابو سلمہ بڑے صبیح تھے، ان کا چہرہ تابانی میں ہر قلی دینار معلوم ہوتا تھا، سر اور داڑھی کے بال سپید ہوگئے تھے، ان میں کبھی حنا کا کبھی وسمہ کا خضاب لگاتے تھے۔ [8]