ابو غرانیق محمد بن احمد
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: أبو الغرانيق محمد الثاني بن أحمد) | |||||||
![]() |
|||||||
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | سنہ 851ء | ||||||
تاریخ وفات | سنہ 875ء (23–24 سال) | ||||||
شہریت | افریقیہ | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | اغالبہ | ||||||
مناصب | |||||||
امیر افریقیہ و مغرب الادنیٰ | |||||||
برسر عہدہ 864 – 875 |
|||||||
| |||||||
درستی - ترمیم ![]() |
ابو غرانیق محمد بن احمد وہ محمد بن احمد بن محمد بن اغلب ہیں ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی، مگر تاریخ میں وہ ابو الغرانیق کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ انھیں غرانیق (لمبی ٹانگوں والے آبی پرندوں) کے شکار کا شوق تھا۔ وہ تقریباً 237 ہجری (851 عیسوی) میں پیدا ہوئے اور 250 ہجری (864 عیسوی) سے 261 ہجری (875 عیسوی) تک حکومت کی۔ وہ 6 جمادی الاول 261 ہجری (16 فروری 875 عیسوی) کو وفات پا گئے۔[1] ان کے دورِ حکومت میں 255 ہجری میں احمد بن عمر الأغلبی کی قیادت میں جزیرہ مالٹا (بحیرہ روم میں) فتح ہوا۔ [2]
خوش حالی، فتوحات اور عیش و عشرت کا امتزاج
[ترمیم]مورخ محمد الطالبي کے مطابق، ابو الغرانیق کا دور حکومت مجموعی طور پر پرامن اور خوش حال تھا، اگرچہ جنگوں اور فتنوں سے خالی نہ تھا۔ ان کے عہد میں ساحلی علاقوں پر قلعوں اور حفاظتی چوکیوں کی ایک زنجیر تعمیر کی گئی، مگر صقلیہ میں اغالِبہ کو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے دور کا ایک اہم واقعہ منطقۂ الزاب میں پیدا ہونے والا اضطراب تھا، تاہم افریقیہ (موجودہ تیونس اور اطراف کے علاقے) ترقی اور مکمل نشاۃ ثانیہ کے دور سے گذر رہی تھی۔ اس زمانے میں امیر کا خزانہ بھرا ہوا تھا اور الطالبي کے بقول، یہ خوش حالی اس حد تک پہنچی کہ اس کی شہرت ریاست کے سرحدی علاقوں سے آگے پھیل گئی اور اغالبہ کے زوال کے بعد بھی اس کی مثال دی جاتی رہی۔
ابو الغرانیق اپنے رعایا کے ساتھ عادل اور مہربان تھے۔ النويري نے ان کی فیاضی اور حسن سلوک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا: "وہ انتہائی سخی، بے حد عطا کرنے والے، اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے اور ان کے حق میں نرم دل تھے۔" تاہم، وہ عیش و عشرت اور لہو و لعب کی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ ان کے دورِ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی، ابن خلدون کے نظریے کے مطابق، اغالبہ کی حکومت کا دوسرا دور بھی اپنے انجام کو پہنچا۔[2] [2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ شهاب الدين النويري (2002)، نهاية الأرب في معرفة الأدب، تحقيق: مجموعة (ط. متعدد)، القاهرة: دار الكتب والوثائق القومية، ج. 24، ص. 127، OCLC:4770572881، QID:Q114648205 النويري، كتاب نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 2، ص 81
- ^ ا ب پ محمد الطالبي، الدولة الأغلبية، تعريب المنجي الصيادي، دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1995، ص 293-304