اتحادی ملک کے لیے خطرہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سفارتی اصطلاحات میں اتحادی ملک کے لیے خطرہ (انگریزی: casus foederis) ایسی صورت حال کے تذکرے کے لیے مستعمل ہوتی ہے جس میں کہ ایک ملک کا دوسرے ملک سے اتحاد ایک بڑا سبب بنتا ہے کہ وہ کسی جنگ یا تصادم کے فریق نہیں ہو کر بھی کوئی ملک اپنے ساتھی ملک کی مدد کے لیے آگے آئے اور ممکنہ طور پر جنگ یا جنگی حکمت عملیوں کا حصہ بنے۔

مثالیں[ترمیم]

  • 2014ء میں داعش سوریہ اور شام کے علاقہ جات میں کافی فعال طاقت بن کر ابھرا اور یہ بھی ایک بڑھتا ہوا خطرہ تھا کہ یہ دہشت گرد عسکریت پسند پر زور انداز میں ترکی کے علاقہ جات میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر نیٹو اتحاد کے سابق معتمد عمومی جنرل اینڈرس فوگھ راسموسسین (General Anders Fogh Rasmussen) نے نیٹو اتحاد کی نفس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
سبھی فریق متفق ہیں کہ کسی ایک یا ان میں سے چند پر یورپ یا شمالی امریکا پر اگر حملہ ہوتا ہے تو وہ سب پر حملہ تصور ہوگا۔یہ صورت حال یوں ہے کہ سب کسی ایک فریق کے لیے جمع ہیں اور وہ ایک فریق بھی سب سے جڑا ہے۔[1]

اس موقع پر غور طلب بات یہ ہے ریاستہائے متحدہ امریکا اور نیٹو کے ممالک جیسے کہ فرانس، جرمنی، مملکت متحدہ کے بشمول 28 ممالک راست طور پر داعش سے نبرد آزما نہیں تھے۔ تاہم چوں کہ یہ سب ممالک اس اتحاد کا حصہ ہیں، اس وجہ سے اتحادی ملک کے لیے خطرے کے اصول کی پاس داری کے تحت وہ کسی خارجی خطرے سے مقابلے کے لیے ترکی کی مدد کرنے کے لیے پابند عہد تھے۔ یہی حال سرد جنگ کے دوران کے متنازع صورت حال کے دوران نیٹو ممالک کے بیچ دیکھا گیا اور یہی عہد کی پاس داری کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]