احسان قادر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احسان قادر
معلومات شخصیت
پیدائش 12 دسمبر 1912ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیصل آباد ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 23 دسمبر 1969ء (57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام نظر بندی لال قلعہ   ویکی ڈیٹا پر (P2632) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
آزاد ہند سرکار
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
ہندوستانی فوجی اکادمی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان ،  فوجی افسر ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت برطانوی ہندی فوج ،  آزاد ہند فوج   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تحریک آزادی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ لیفٹینٹ کرنل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں دوسری جنگ عظیم   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کرنل احسان قادر (پیدائش: 12 دسمبر، 1912ء - وفات: 23 دسمبر، 1969ء) برطانوی ہندوستان کے نامور انقلابی رہنما، آزاد ہند فوج کے سرکردہ افسر اور سبھاش چندر بوس کے ساتھی تھے جنھوں نے انگریز استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کی اور اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

کرنل احسان قادر برطانوی ہندوستان کے نامور وکیل، جج اور ماہنامہ جریدے مخزن کے مدیر شیخ سر عبد القادر کی پہلی اولاد تھے۔ 1911ء میں جب شیخ عبد القادر لائل پور میں سرکاری وکیل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے وہیں احسان قادر 12 ستمبر 1912ء میں پیدا ہوئے۔[1][2] 1919ء میں ان کے والد شیخ عبد القادر سرکاری فرائض سے دستبردار ہوکر واپس لاہور آ گئے جہاں احسان قادر نے سینٹرل ماڈل اسکول سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ ماں باپ کا لاڈلا ہونے کے باوجود وہ بلا کے ذہین اور ہوشیار تھے چنانچہ کامیابی سے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1928ء میں انھوں نے مارٹن اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1932ء میں گریجویشن مکمل کیا۔ شاندار تعلیمی ریکارڈ کی بنا پر اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ ملا لیکن کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے فوج میں کمیشن کو ترجیح دی۔ ڈیرہ دون میں قائم ہندوستانی فوجی اکادمی میں فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کی پہلی تعیناتی سکندرآباد میں ہوئی۔ فوجی اکادمی میں دورانِ تربیت ان کے ساتھیوں میں حبیب اللہ خٹک بھی شامل تھے جو بعد ازاں پاک فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچے۔ احسان قادر کی شادی دسمبر 1937ء میں ان کی قرابت دار شمس جہاں سے ہوئی۔[1]

آزاد ہند فوج میں شمولیت اور جدوجہد آزادی[ترمیم]

1939ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران احسان قادر کو انگریز فوج کے ساتھ ملایا کے محاذ پر بھیج دیا گیا جہاں ان شریکِ حیات بھی ساتھ تھیں۔ وہ 1941ء تک فوجی خدمات انجام دینے کے بعد انگریز فوج سے ناتا توڑ کر روپوش ہو گئے اورکچھ عرے بعد جنرل موہن سنگھ کی قائم کردہ میں پہلی آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے۔ ملایا میں تعینات انگریز فوج کی دستاویزات کے مطابق احسان قادر کو 7 جنوری 1942ء سے لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ آزاد ہند فوج میں شمولیت کے بعد احسان قادر نے سائیگاؤں میں آزاد ہند ریڈیو کو چلانے کا کام سر انجام دیا۔ جاپانی افواج کے ناروااور توہین آمیز سلوک کی بنا پر جنرل موہن سنگھ نے دسمبر 1942ء میں آزاد ہند فوج کو توڑنے کا فیصلہ کر لیا جس کے سبب جنرل موہن سنگھ کو جاپانی افواج نے گرفتار کرکے سماٹرا کے شہر مدان میں نظر بند کر دیا۔ جنرل موہن سنگھ کی گرفتاری کے بعد آزاد ہند فوج عملاً ٹوٹ گئی جس کے سبب راس بہاری بوس اس آزاد ہند فوج کے عارضی سربراہ مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد سبھاش چندر بوس آبدوز کے ذریعے جرمنی سے ٹوکیو پہنچ گئے جہاں جاپانیوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی اور وہ فوراً سنگاپور روانہ ہوئے جہاں انھوں نے آزاد ہند فوج کی تشکیلِ نو کے بعد اس کی کمان سنبھالی اور آزاد ہند حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ احسان قادر نے سبھاش چندر بوس کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ امپھال کے محاذ پرانگریز فوج کی جانب سے سخت مزاہمت کے سبب آزاد ہند فوج کی پیش قدمی رک گئی اور دوسری طرف برما میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے آزاد ہند فوج کی رسد میں مشکلات آگئیں تھیں، ملیریا اور پیچش کی وجہ سے بہت سارے فوجیوں کو مانڈلے اور رنگون کی ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑا۔ ان مشکلات کی وجہ سے 24 ستمبر 1945ء میں آزاد ہند فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ دوسری جانب امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاسا پرایٹم بم گرا دیے جس کے سبب جاپان نے 15 اگست 1945ء میں ہتھیار ڈال دیے۔ جاپان کے ہتھیار ڈال دینے سے آزاد ہند فوج کو اپنی نقل و حرکت کو فی الحال ملتوی کردینا پڑا۔ 18 اگست 1945ء کو سبھاش چندر بوس فارموسا سے ڈائی رن جاتے ہوئے ہوائی جہاز کے حادثے میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے۔ 1945ء کے اواخر تک آزاد ہند فوج کی بڑی تعداد مختلف محاذوں پر ہتھیار ڈال کرانگریزوں کی قید میں جاچکی تھی، کرنل احسان قادر اور ان کے ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ احسان قادر اپنے ساتھیوں کے ساتھ دہلی کے لال قلعے میں قید و بند کے ساتھ ساتھ برطانوی پولیس اور فوج کی ایذا رسانیوں سے بھی گذر رہے تھے۔ اسی اثنا میں کرنل حبیب الرحمان کو بھی قلعے میں لایا گیا جنھوں نے سبھاش چندر بوس کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ اس ضمن میں کئی روایتیں بیان کی جاتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق کرنل احسان قادر سبھاش چندر بوس کی موت کا صدمہ نہ سہہ سکے اور ان کی دماغی حالت اچانک بگڑ گئی۔ دوسری روایت کے مطابق ذہنی اور جسمانی ایذارسانی کے سبب احسان قادر کی دماغی حالت خراب ہوئی۔ اس سبب سے انھیں قلعے سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ہندوستان بھر سے ان کے بہتر علاج معالجے، ان کی رہائی کے مطالبوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہو گیا جس کی وجہ سے برطانوی سرکار نے 26 اپریل 1946ء میں مجبوراً انھیں رہا کر دیا گیا۔[1]

آزادی کے بعد اور وفات[ترمیم]

تقسیم ہند کے بعد انھیں سول ڈیفنس اکیڈمی لاہور کا کمانڈنٹ مقرر کیا گیا جہاں سے وہ 1967ء میں سبکدوش ہو گئے۔ رہائی کے بعد اور تقسیم ہند سے قبل وہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر ابھرے تھے لیکن آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی وہ گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ وہ ایوب خان کے سخت مخالف تھے اور ان کے خلاف سیاسی جدوجہد بھی کی۔ کرنل احسان قادر 23 دسمبر، 1969ء میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے لاہور میں انتقال کر گئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت "تاریخ کا گمشدہ ہیرو کرنل احسان قادر (کالم)، محمد عارف سومرو، مشمولہ: روزنامہ دنیا پاکستان، 29 جون، 2017ء"۔ 30 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2017 
  2. ^ ا ب تاریخ کا گمشدہ ہیرو کرنل احسان قادر (کالم)، محمد عارف سومرو، مشمولہ: روزنامہ نوائے وقت کراچی، 30 جون، 2017ء، صفحہ 11