احمد بن ابراہیم بن خالد موصلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آپ احادیث کے راوی ہیں۔ آپ کی پیدائش کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ آپ موصلی تھے، پھر بغداد میں رہائش پزیر ہوئے۔ آپ کی وفات 236 ھجری میں بغداد میں ہوئی۔ آپ سے کچھ زیادہ احادیث روایت نہیں ہیں۔ ابو داود نے آپ سے اپنی سنن میں ایک حدیث روایت کی ہے جبکہ ابن ماجہ نے اپنی کتاب التفسیر میں بھی آپ سے روایت کی ہے۔

اساتذہ[ترمیم]

ابراہیم بن سعد بن ابراہیم، ابراہیم بن سلیمان ابو اسماعیل مؤدب، اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم(ابن علیہ)، جعفر بن سلیمان ضبعی، حبیب بن حبیب کوفی، حکم بن سنان باہلی، حکم بن ظہیر فزاری، حماد بن زید، خلف بن خلیفہ، سعید بن عبد الرحمان، سلام بن سلیم حنفی(ابو احوص)، سلام بن سلیمان قاری، سیف بن ہارون برجمی، شریک بن عبد اللہ نخعی، صالح بن عمر واسطی، صبی بن اشعث بن سالم سلولی، عبشر بن قاسم، عبد اللہ بن جعفر بن نجیح، عبد اللہ بن مبارک، عمر بن عبید طنافسی، فرج بن فضالہ، محمد بن ثابت عبد ی، معاویہ بن عبد الکریم، ناصح بن علا، نوح بن قیس، وضاح بن عبد اللہ(ابو عوانہ)، یزید بن زریع، یوسف بن عطیہ صفار[1]

شاگرد[ترمیم]

ابو داؤد(حدیثِ واحد)، ابراہیم بن عبد اللہ بن جنید، احمد بن حسن بن عبد الجبار، احمد بن علی بن مثنیٰ(ابو یعلیٰ موصلی)، احمد بن محمد بن خالد، احمد بن محمد بن عبد العزیز، احمد بن محمد بن مستلم، جعفر بن محمد بن قتیبہ، حسن بن علی بن شبیب، حماد بن مؤمل، عبد اللہ بن احمد بن حنبل، عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز (ابو قاسم بغوی)، عبد اللہ بن محمد بن عبید (ابن ابی دنیا)، عبید اللہ بن عبد الکریم (ابو زرعہ رازی)، عمر بن شبہ، فضل بن ہارون، محمد بن عبد اللہ بن سلیمان(مطین)، محمد بن عبد وس بن کامل سراج، محمد بن غالب بن حرب، محمد بن واصل مقری، موسیٰ بن اسحاق بن موسیٰ انصاری، موسیٰ بن ہارون بن عبد اللہ۔ ان سے کتابت کی: احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین[1]

حدیث میں رتبہ[ترمیم]

عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے بیان کیا کہ ان میں کوئی حرج نہیں۔ تاریخ موصل کے مصنف ازدی لکھتے ہیں کہ صاحب علم و فضل و صلاح تھے ابن حجر نے تہذیب  التہذیب میں لکھا ہے کہ ابن حبان نے ان کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے اور کہا ہے ہے کہ ابراہیم بن جنید نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے بیان کیا کہ ثقہ صدوق ہے۔[2]ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ بغداد میں سکونت پزیر ہونے والا دسویں طبقہ کا راوی ہے۔ ۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب تہذیب الکمال ج 2 ص 247
  2. تہذیب التہذیب ج1 ص 9
  3. تقریب التہذیب (اردو ترجمہ، مکتبہ رحمانیہ، لاہور)، ج1 ص 16