احمد بن صالح شامی
مفتي الحنابلة في دوما | ||||
---|---|---|---|---|
| ||||
(عربی میں: أحمد صالح الشامي) | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 1904ء دوما، شام |
|||
وفات | 16 اگست 1993ء (88–89 سال) دوما، شام |
|||
رہائش | بلاد الشام | |||
شہریت | ![]() |
|||
فرقہ | حنبلی | |||
اولاد | صالح شامی، عبد الرحمن الشامي، سيف الدين الشامي | |||
عملی زندگی | ||||
دور | معاصر | |||
استاد | مصطفی بن احمد بن حسن شطی ، بدر الدين الحسنی ، محمود سید (فقیہ) | |||
پیشہ | فقیہ | |||
مؤثر | بدر الدین حسنی، محمد مكي الكتاني، توفيق الأيوبي، ومحمد ہاشمی تلمسانی اور علی الدقر | |||
درستی - ترمیم ![]() |
احمد صالح شامی ( 1322ھ -1414ھ / 1904ء -1993ء شامی حنبلی فقیہ، معلم اور دمشق کے مشرقی غوطہ میں واقع شہر دوما کے مفتی تھے ۔ وہ جمعیۃ النہضۃ الخیریہ کے بانی تھے اور شام میں حنابلہ کے نمایاں علما میں شمار ہوتے تھے۔[2] ومن أعلام الحنابلة في الشام.[3]
پیدائش اور تعلیم
[ترمیم]احمد بن صالح بن محمد ادیب بن یوسف بوبس الشامی الدومی الحنبلی 1322ھ/1904ء میں دوما میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اصل میں دمشق کے محلے المیدان سے تھا۔ والد کا انتقال کم عمری میں ہو گیا، جس کے بعد انھوں نے خاندان کی کفالت کے لیے کپڑوں کی تجارت سمیت مختلف کام کیے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، لیکن مالی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیا۔ بعد میں علم حاصل کرنے کے لیے دوما سے دمشق تک پیدل سفر کرتے۔ انھوں نے دمشق میں محمد بدر الدین الحسنی، محمد علی الدقر، محمد الہاشمی، محمد سعید البرہانی، عبد الوہاب دبس وزیت اور دیگر علما سے استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ دوما میں مصطفی الشطی، محمد مفید الساعاتی، حسین الشاش اور محمود السید جیسے علما کے شاگرد بھی رہے۔ انھوں نے تصوف میں شاذلیہ سلسلہ محمد ہاشمی اور محمد سعید البرہانی سے، جبکہ نقشبندیہ سلسلہ بھی اختیار کیا۔[4]
عملی زندگی اور عہدے
[ترمیم]انھوں نے 1355ھ میں دوما میں دینی علوم کی ترویج کے لیے جمعیۃ النہضۃ الخیریۃ کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے، ساتھ ہی دوما کی جامع مسجد میں تدریس بھی کرتے رہے۔ 1370ھ میں دوما کے مفتی مقرر ہوئے اور وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1389ھ تک ان کی جاری کردہ فتاویٰ کی تعداد 367 تک پہنچ چکی تھی۔ وہ علومِ اسلامیہ، خاص طور پر فقہِ حنبلی اور فرائض میں مہارت رکھتے تھے۔ طلاق کے مسائل میں ابن تیمیہ کے فتاویٰ پر فتویٰ دینے کے حوالے سے مشہور تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت علم اور ذکرِ الٰہی میں گزرتا تھا۔ وہ نیک، متقی، زاہد، خوش اخلاق اور سخی النفس عالم تھے اور اصلاحِ احوال کے لیے اپنی ذاتی رقم خرچ کرتے تھے۔[5][6]
تصانیف
[ترمیم]تحقیق کتاب منار السبیل في شرح الدلیل
اولاد
[ترمیم]- صالح بن أحمد الشامی (اسلام میں علم الجمال کے بانی)
- عبد الرحمن بن أحمد الشامی
- سیف الدین بن أحمد الشامی
وفات
[ترمیم]احمد الشامی 27 صفر 1414ھ (16 اگست 1993ء) بروز اتوار عصر کے وقت وفات پا گئے۔ ان کا جنازہ اگلے دن دوما کی جامع مسجد میں ادا کیا گیا، جس میں دمشق کے علما اور معززین سمیت ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ انھیں دوما کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[7]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "فيديو تشييع جنازة الشيخ أحمد الشامي"۔ 8 يوليو 2021 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-08
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|آرکائیو تاریخ=
(معاونت) - ↑ "رابطة العلماء السوريين"۔ 2020-02-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-08
- ↑ الأديب محمود سليم العضل، نفحة الذکية من سوريا العربية: ٢١٠ - ٢١١ ط. بيت العلم للنابهين، بيروت.
- ↑ تاريخ دومة/ لمعروف زريق 84، 85، 101
- ↑ الجامع المعين في طبقات الشيوخ المتقنين والمجيزين المسندين: ٤/ ١١٤
- ↑ ترجمة تتمة الأعلام محمد خير رمضان الجزء الاول ص 38 1416هجري
- ↑ "أحمد الشامي"۔ مِداد۔ 2024-02-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-08