احمد بن عیسی خراز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امام   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
احمد بن عیسی خرّاز
(عربی میں: أحمد بن عيسى الخرّاز ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 899ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش من بغداد
مذہب اہلسنت والجماعت
عملی زندگی
دور ؟؟ - 277 هـ
استاد سری سقطی ،  ذوالنون مصری ،  بشر حافی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر سری سقطی
بشر حافی
ذوالنون مصری
متاثر أبو الحسين بن بنان

ابوسعید احمد بن عیسی خراز طریقہ خرازیہ کے بانی تھے علما شریعت اور مشائخ طریقت اور قطب الوقت زمانۂ خود تھے۔

نام و نسب[ترمیم]

اسم گرامی احمد بن عیسیٰ زید لقب خراز علم تصوف میں چار سو سے زیادہ کتابیں لکھی تھیں ذوالنون مصری، سری سقطی اور بشر حافی سے صحبت رکھتے تھے۔ سب سے پہلے جس صوفی نے فنا و بقا کی اصطلاحات رائج کیں وہ حضرت ابوسعید خراز ہی تھے۔

کرامات[ترمیم]

آپ فرمایا کرتے تھے کہ عنفوان جوانی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ظاہری حسن و جمال سے نوازا تھا، ایک شخص میری اس شکل پر عاشق ہو گیا، میں اس سے کنارہ کشی کرتا۔ ایک دن میں ایک وادی میں آیا، تھوڑا سا فاصلہ چلا تو دیکھا کہ وہ شخص میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے، کہنے لگا اس وادی میں مجھ سے کہاں بچ کر جاؤ گے، میرے نزدیک ہی ایک کنواں تھا، میں نے کنویں میں چھلانگ لگادی، اللہ نے مجھے بچالیا، وہ شخص کنویں کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگا، میں نے اللہ سے پناہ مانگی اور کہا اے اللہ تو اس بات پر قادر ہے کہ مجھے کنویں سے زندہ رکھے اور اس شخص کے شر سے محفوظ رکھے، میں نے محسوس کیا کہ ایک زوردار ہوا نے مجھے کنویں سے باہر لا پھینکا ہے وہ شخص میرے پاس آیا میرے ہاتھ پاؤں چومے اور معذرت خواہی کی جب تک زندہ رہا، صدق و صفائی سے میری مصاحبت میں رہا۔

آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں وادی سے گذر رہا تھا میرے پاس زادراہ نہیں تھی چند دن فاقہ میں گذرے ایک دن میری نظریں ایک آبادی پر پڑیں، میں بڑا خوش ہوا، دیکھا تو یہ آبادی نہ تھی کھجوروں کا ایک باغ تھا، وہاں پہنچا آرام کیا، سکوں حاصل ہوا، میرا خیال تھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا، میرے نفس کی اس خواہش نے مجھے بے بس کر دیا، میں نے قسم کھالی کہ اگر کچھ ملا بھی تو میں نفس کو کچھ نہ دوں گا، ریت میں قبر کھودی اور اس میں گھس کر بیٹھ گیا، کچھ عرصہ بعد ایک قافلہ آیا، اس نے وہاں ڈیرہ جمالیا میرے پاس آئے نہایت ادب و احترام سے مجھے اپنے پاس لے گئے میں نے دریافت کیا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میں اس قبر میں پڑا ہوا ہوں، انھوں نے بتایا قدرت کی طرف سے ایک آواز آئی کہ ہمارا ایک ولی اس ریگستان میں پڑا ہوا ہے، اسے تلاش کرو، تلاش کرتے کرتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔

تصنیفات[ترمیم]

  • انھوں نے چار کتابیں تجرید اور انقطاع پر لکھی ان میں سے ایک کتاب السر تھی جس کی عبارت بہت گہری تھی کئی لوگوں نے ان پر کفر کا فتوی لگایا
  • کتاب الصیام[1]

وفات[ترمیم]

حضرت کی وفات 277ھ میں ہوئی تھی۔

  • زاہد ولی و عابد دین مقتدائے دیر
  • سالِ وصال او تو باقوالِ اہل کتب
  • عالم سخی اہل کرم سعد بو سعید
  • گو بو سعید اسعد ہم سعد بو سعید[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. موسوعة الكسنزان فيما اصطلح عليه أهل التصوف والعرفان التراجم
  2. خزینۃ الاصفیاء جلد چہارم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 75،مکتبہ نبویہ لاہور