احمد خان نورزئی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فائل:Sardar Ahmed khan .jpg
سردار احمد خان
  احمد خان  ایک افغان سردار تھا سردار احمد خان  کیساتھ 1175ء میں افغان پشتون فوج کی جوانوں کی ایک ہزار دسته تھا سردار احمد خان نورزئی ن 1195ء میں کندهار سے لشکرکشی شروع کی اور ملتان کے سارے علاقوں کو فتح کی اور احمدپور شرقیه جنرل احمد خان نورزئی کے نام پر بنایا گیا

افغان تاریخ میں سردار احمد خان نورزئی کو ایک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے

حاجی خان مندهانی کی بغاوت جنرل احمد خان نورزئی کا یلغار[ترمیم]

بمطابق1765ء میں گڑھی اختیار خان کے رئیس حاجی خان مندهانی نے گڑ بڑ پیدا کی اور شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ احمد خان نورزئی نے دریائے سندھ پار کیا اور ساہنووالا و نوشہرہ کے قلعوں پرقبضہ کیا۔ اگرچہ حاجی خان نے اظہار اطاعت کر دیا لیکن نواب احمد خان نورزئی نے اس کے ماتحت علاقوں کا الحاق کر لیا اور صرف اس کے علاقے کا غیر مفتوحہ حصہ ہی چھوڑا۔ 1768ء میں تیمور شاہ کا پانچواں بیٹا شاه شجاع الملک ڈیرہ جانے کے امور سلجھانے کے لیے دریائے سندھ کی جانب بڑھا اور مخدوم حامد بخش ، فضل علی خان ہالانی، اسلام خان کہرائی اور حاجی خان مندهانی نواب احمد خان نورزئی کے خلاف شکایات کے ساتھ راجن پور میں اس کے منتظر تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے مفتوح علاقے نواب سے واپس لیے جائیں ۔ شجاع الملک نے احمد خان نورزئی کو ان علاقوں کا نواب بنایا اور ڈھاکہ کا علاقہ احمد خان نورزئی کے حوالے کیا لیکن احمد خان نورزئی جلد ہی کابل واپس آیا اور حاجی خان کو اپنی بے وفائی کا خمیازہ بھگتنا پڑا، کیونکہ احمد خان نورزئی نے ڈھاکا پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور گڑھی اختیار خان کا محاصرہ کرنے کے لیے ایک دستہ روانہ کیا۔ محاصرے سے ہیبت زدہ حاجی خان مندهانی نے رضامندی دے دی کہ اختیار واہ سے مشرق کی طرف اس کے علاوہ علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل کر دیا جائے گا اور صرف مغربی طرف کا علاقہ اس کے پاس رہے گا۔ بایں ہمہ 1769ء میں حاجی خان نے فضل علی خان ہالانی اور قادر بخش خان کہرانی نے دوبارہ بغاوت کر دی اور 14 محرم کو سردارگڑھ پر قبضہ کر لیا، جس پرنواب احمد خان نورزئی نے ناصر خان گوریج اور فتح محمد خان غوری کی زیر قیادت ایک فوج بھیجی تا کہ گڑھی اختیار خان پر حملہ کیا جا سکے۔ 21 محرم کو ہونے والی لڑائی میں باغیوں نے خود کو قلعے میں بند کر لیا۔ طویل محاصرے کے بعد نواب کے کمانڈروں نے گڑھی اختیار خان کے بالمقابل ایک قلعہ تعمیر کیا اور اس کا نام فتح گڑھ رکھا۔ 20 ربیع الثانی کو اس قلعے سے توپوں نے گڑھی اختیار خان پر اس قدر زبردست گولہ باری کی کہ محصورین صلح کی بات چیت کرنے پر مان گئے اور نواب نے ان پر درج ذیل شرائط عائد کیں

حاجی خان مندهانی ، اس کے بیٹے اور بھائی پیش ہو کر اظہار اطاعت کریں گے۔ گڑھی اختیار خان کے قلعے کی ایک دیوار بالکل مسمار کر دی جائے گی حاجی خان جنگ کے زرتلافی کے طور پر دو لاکھ روپے ادا کرے گا۔ اس کے بیٹوں میں سے ایک نواب کے دربار میں بطور یرغمال رہے گا۔ گڑھی اختیار خان کا کاردار تعینات کرنے کا اختیار نواب کے پاس رہے گا اور اس کے حصولات مساوی تقسیم ہوں گے۔ حاجی خان نے شروع میں تو ان شرائط کومسترد کر دیا لیکن انجام کار ناصرخان نے اسے پکڑ کر فتح گڑھ کے قلع میں قید کر دیا۔ فضل علی خان ہالانی اور دیگر سرداروں نے میدان جنگ چھوڑ دیا اور 29 رمضان کو ناصر خان نے گڑھی اختیار کے قلعے کو زمین کے برابر کیا اور پھر احمد پور ایسٹ / اشرقیہ احمد خان نورزئی کے نام کر دیا اور واپس آ گیا۔ یوں گڑھی اختیار کا علاقہ نواب احمد خان نورزئی کی اقلیم میں شامل ہو گیا۔


احمد پور شرقیہ بنام احمد خان نورزئی[ترمیم]

احمد پور شرقیہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے جو ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔ یہ تحصیل احمد پور شرقیہ کا صدر مقام ہے۔

احمد پور شرقیہ

Ahmedpur East

شہر
ملک پاکستان
صوبہ پنجاب
ضلع بہاولپور
منطقۂ وقت پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)

اس شہر کے ریلوے اسٹیشن کا نام ڈیرہ نواب صاحب احمد خان نورزئی ہے جو مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔

ڈیرہ نواب صاحب دراصل احمد پورشرقیہ کے ریلوے اسٹیشن کا نام ہے۔جو دراصل سابق ریاست بہاول پور کے نواب فرما نرواؤں کی جائے پیدائش تھی۔ اسی مناسبت سے ریلوے اسٹیشن کا نام ڈیرہ نواب صاحب رکھا گیا۔ احمد پور شرقیہ میں نواب صاحب کی وسیع وعریض رہائش گاہ۔

صادق گڑھ پیلس کے نام سے مشہور ہے۔ایک سو سال قدیم اس محل کی آب و ہوا میں وائس رائے ہند سے لے کر مختلف وزرائے اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل ایوب خان سے شاہ ایران تک اپنے دور کے تقریباَ سبھی اہم لوگ یہاں کا دورہ کر چکے ہیں اور اس مقصد کے لیے ریلوے اسٹیشن پر ہی ایک شاہی مہمان خانہ بھی قائم تھا جہاں معزز مہمان کا خصوصی ریلوے سیلون براہ راست ایک علاحدہ ریلوے لائن کے ذریعے پہنچتا اور نواب صاحب مہمان کا استقبال کرتے تھے لیکن افسوس اب شاہی مہمان خانہ بھی گردش زمانہ کی نذر ہو کر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]