احمد علی لاہوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(احمد علي لاہوري سے رجوع مکرر)
مولانا احمد علی لاہوری

معلومات شخصیت
پیدائش منگل 2 رمضان 1304ھ/ 24 مئی 1887ء
قصبہ جلال، گوجرانوالہ، برٹش راج، موجودہ ضلع گوجرانوالہ، پنجاب، پاکستان
وفات جمعہ 17 رمضان 1381ھ/ 23 فروری 1962ء
(عمر: 74 سال 9 ماہ شمسی)
لاہور، ضلع لاہور، پنجاب، پاکستان
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبیداللہ انور   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص سيّد شير على شاه ،  محمد امین صفدر اوکاڑوی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم دین، مفسر قرآن

شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری (پیدائش: 24 مئی 1887ء – وفات: 23 فروری 1962ء) دیو بندی عالم دین، مفسر قرآن تھے۔

ولادت[ترمیم]

آپ ضلع گوجرانوالہ کے ٹاؤن گکھڑ منڈی کے نزدیک قصبہ جلال میں رمضان المبارک 1304ھ بمطابق 24 مئی 1887ء کو پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی پھر مدرسہ دارالارشاد (گوٹھ پیرجھنڈہ حیدرآباد، سندھ) میں 6 سال تک علوم دینیہ کی تکمیل کی اور.1907ء میں آپ فارح التحصیل ہوئے۔

تدریس[ترمیم]

فراغت کے بعد مدرسہ دارالارشاد میں مدرس مقرر ہوئے۔ تقریباً 3 سال تک تدریس میں مشغول رہے۔ پھر نواب شاہ کے ایک مدرسہ میں آ گئے۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

تصانیف[ترمیم]

آپ نے قرآن پاک کا رواں رواں اردو ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ 34 چھوٹے چھوٹے رسالے تالیف کیے،

  • رسوم الاسلامیہ،
  • اسلام میں نکاح بیوگان،
  • ضرورۃ القرآن،
  • مخزن المرجان فی خلاصۃ القرآن
  • ،زبدۃ القرآن،
  • اصلی حنفیت،
  • رسول اللہﷺ کے وظائف،
  • میراث میں شریعت،
  • توحید مقبول،
  • فوٹو کا شرعی فیصلہ،
  • صد احادیث کا گلدستہ
  • فلسفہ روزہ[1]

اہم کارنامے[ترمیم]

  • آپ داستان تحریک آزادی ہند کے امین تھے، ہرملی مصیبت میں آپ نے قوم کا ساتھ دیا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
  • مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کے زیر سرپرستی چلنے والی ریشمی رومال تحریک کے ایک سرگرم رکن تھے۔ تحریک کی ناکامی کے بعد آپ کو انگریز نے گرفتار کر کے شیرانوالہ دروازہ میں نظر بند کر دیا۔
  • تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
  • 1931ء میں میکلیگن انجینئری کالج لاہور کے انگریز پرنسپل نے پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کیے تو آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس سلسلہ میں آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔
  • اسلام کی ترقی کے لیے انجمن خدام الدین کا قیام عمل میں لایا، نظامۃ المعارف القرنیہ کے نام پر علما کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک مخلوط جماعت تیار کی جس کا مقصد حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق تنلیغی مشن چلانا تھا۔

سلسلہ شیوخ[ترمیم]

  • حضرت شیخ احمد علی لاہوریؒ
  • حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ
  • حضرت شیخ حافظ محمد صدیقؒ بھر چونڈی شریف
  • حضرت شیخ شاہ حسن جیلانیؒ سوئ شریف
  • حضرت شیخ سید محمد راشد کاظمیؒ پیر جو گوٹھ
  • حضرت شیخ سید محمد بقاء کاطمیؒ پیر جو گوٹھ
  • حضرت شیخ سید عبد القادر آخرین گیلانیؒ
  • حضرت شیخ سید حامد محمد شمس الدین صالح گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید حامد گنج بخش ثانی گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید حامد محمد شمس الدین ثالث گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید عبد القادر رابع گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید شمس الدین ثانی گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید عبد القادر ثالث گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید حامد گنج بخش کلاں گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید عبد الرزاق گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید عبد القادر ثانی گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید ابو عبد اللہ محمد غوث گیلانی اچویؒ
  • حضرت شیخ سید ابو محمد شمس الدین محمد گیلانی جلیؒ
  • حضرت شیخ سید ابو محمد سراج الدین شاہ میر جلیؒ
  • حضرت شیخ ابو الحسن ضیاء الدین علی گیلانیؒ
  • حضرت شیخ سید ابو البرکات محیی الدینؒ مسعود گیلانی
  • حضرت شیخ سید ابوالعباس حمید الدین احمد گیلانیؒ
  • حضرت شیخ سید صفی الدین صوفی گیلانیؒ
  • حضرت شیخ سید سیف اللہ عبد الوہاب بغدادیؒ
  • حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ
  • حضرت شیخ قاضی ابو سعید محمد مبارک مخزومیؒ
  • حضرت شیخ ابو الحسن علی هنکاریؒ
  • حضرت شیخ محمد ابو الفرح طرطوسیؒ
  • حضرت شیخ عبد الواحد تمیمیؒ
  • حضرت شیخ ابوبکر شبلیؒ
  • سید الطائفه حضرت شیخ جنید بغدادیؒ

وفات[ترمیم]

مولانا احمد علی لاہوری نے 74 سال 9 ماہ (شمسی) کی عمر میں بروز جمعہ 2 رمضان 1381ھ/ 23 فروری 1962ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین ہفتہ 24 فروری 1962ء کو میانی صاحب قبرستان، لاہور میں کی گئی۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 19 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018 
  2. "ولی کامل مولانا احمدلاہوری"۔ روزنامہ نوائے وقت۔ 24.02.2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 20.10.2021