ارویٰ بنت عبد المطلب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(اروی بنت عبدالمطلب سے رجوع مکرر)

أروى بنت عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف القرشيہ الهاشميہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ عمیر بن وہب بن عبد بن قصی کی زوجہ تھیں جن سے طلیب بن عمیر پیدا ہوئے اس کے بعد کلدہ بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی سے نکاح ہوا۔ ارویٰ بنت عبد المطلب کے اسلام کے بارے اختلاف ہے،ابن عبد البراور العقیلی نے صحابہ میں ذکر کیاابن سعد نے ان کے اسلام اور مدینہ ہجرت کا ذکر بھی کیا۔[1] انکا نکاح عمير بن قصي بن كلاب سے ہوا[2] رسول اللہ کے والد عبد اللہ کی حقیقی بہن تھیں ان کے بیٹے طلیب بن عمیر اسلام لائے اور اپنی ماں ارویٰ بنت عبد المطلب کو اس کی خبردی تو بولیں کہ تم نے جس شخص کی مدد کی وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق تھا، اگر مردوں کی طرح ہم بھی استطاعت رکھتیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی حفاظت کرتیں اور آپ کی طرف سے لڑتیں۔[3] طلیب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی ماں ارویٰ بنت عبد المطلب کے پاس آئے اوراسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے کہنے لگے ،ماں!میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر لی ہے ،اب تمھیں اسلام قبول کرنے اور آپ اکی اتباع کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ جبکہ تمھارے بھائی سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی مسلمان ہو چکے ہیں ۔ ان کی ماں نے جواب دیا ،میں اس انتظار میں ہوں کہ میری بہنیں کیا کرتی ہیں؟ پھر میں بھی ویسا ہی کروں گی۔ طلیب رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر عرض کی ،ماں! میں تمھیں خدا عزوجل کا واسطہ دیتا ہوں کہ تم ضرور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو ،انھیں سلام کرو، ان کی تصدیق کرو اور اس بات کی گواہی دو کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں (یعنی مسلمان ہوجاؤ)۔بیٹے کی فریاد سن کر ماں کا دل پسیج گیا اور انھوں نے کہا ،میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ا اس کے رسول ہیں ۔اور مسلمان ہوگئیں ۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الأغصان الندیہ شرح الخلاصۃ البهیہ،مؤلف: ابو اسماء محمد بن طہ ،ناشر: دار ابن حزم للطباعۃ والنشر والتوزيع، القاهرہ - دار سبل السلام
  2. السيرة النبویہ وأخبار الخلفاء،مؤلف: ابو حاتم، الدارمی، البُستی،ناشر: الكتب الثقافیہ بيروت
  3. رحمۃ اللعالمین،جلد دوم صفحہ 348 قاضی سلیمان منصور پوری،مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد،2007ء
  4. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،کتاب النساء ،ج4، ص343