اسد بھوپالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسد بھوپالی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: اسد اللہ خان ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 10 جولا‎ئی 1921ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھوپال ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 جون 1990ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ غنائی شاعر ،  نغمہ نگار ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات[1]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسد اللہ خاں المروف اسد بھوپالی (انگریزی: Asad Bhopali)، (پیدائش: 10 جولائی، 1921ء - وفات: 9 جون، 1990ء) بھارت کے نامور شاعر اور فلمی گیت نگار تھے۔ انھیں فلم میں نے پیار کیا کے گیت دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا انعام فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔

حالات زندگی و فن[ترمیم]

اسد بھوپالی 10 جولائی، 1921ء کوریاست بھوپال، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خان تھا اور والد کا نام منشی احمد خان تھا اور وہ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی میں رسمی تعلیم حاصل کی۔ وقت کے ساتھ لوگ انھیں ان کے قلمی نام اسد بھوپالی کے نام سے جاننے لگے۔ 28 برس کی عمر میں وہ ممبئی چلے آئے جہاں وہ فلمی نغمہ نگار بن گئے۔ اس دور میں فلمی نغمہ نگاری کے میدان میں خمار بارہ بنکوی، جانثار اختر، راجندر کرشن، ڈی۔ این۔ مدھوک اور پریم دھون جیسے شاندار گیت نگار اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے۔ اس کے علاوہ فلمی صنعت میں بڑے گیت نگار مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری اور شیلندر بھی موجود تھے لیکن یہ اسد بھوپالی نے ان حالات میں اپنی فنی صلاحیتوں کو منوایا اور اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جو فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے۔ 1949ء میں جب وہ ممبئی آئے تو وہاں کے فضلی برادرز فلم دنیا بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر وہ پاکستان منتقل ہو گئے۔ فضلی برادرز اب آرزو لکھنوی کی جگہ کسی اور نغمہ نگار کی تلاش میں تھے جو انھیں فلم کے باقی ماندہ گیت لکھ کر دے۔ قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اس فلم کے دو نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ ان میں سے ایک گیت رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے جسے محمد رفیع نے گایاجبکہ دوسرا گیت ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا ثریا نے گایا۔ اس فلم کی موسیقی سی رام چندر کی تھی۔ اسد بھوپالی کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ 1950ء میں انھیں فلم آدھی رات کے دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑہ کی مشہور فلم افسانہ کے گیت لکھنے کے لیے کہا گیا۔ فلم افسانہ سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے نغمات نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ اس فلم کے چھ گیت اسد بھوپالی نے تحریر کیے تھے۔ اس کی فلم کا موسیقی حسن لال بھگت رام نے ترتیب دی تھی۔ افسانہ کے گیت لتا، شمشاد بیگم اور مکیش نے گائے جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم راجپوت کے نغمات لکھے لیکن یہ فلم باکس آفس پر فلاپ ہو گئی۔ 1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے 100فلموں کے لیے 400نغمات تخلیق کیے۔ انھوں نے جن موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ان میں سی رام چندر، حسن لال بھگت رام، خیام، ہنس راج بہل، کچھی رام، دھنی رام، شیام سندر، این دتا، نوشاد، اے۔ آر۔ قریشی، ہمنت کمار، لکشمی کانت پیارے لال، روی،کلیان جی آنند جی، گنیش اور اوشا کھنہ شامل ہیں۔ لکشمی کانت پیارے لال نے انھیں اور آنند بخشی کو اپنی فلموں کے گیتوں کے لیے منتخب کیا جن میں خاص طور پر آیا طوفان، پارس منی، لٹیرا، چھیلا بابو وغیرہ شامل ہیں۔ اسد بھوپالی کے پارس منی کے لیے لکھے گئے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے خاص کروہ جب یاد آئے بہت یاد آئے گیت نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ پھر استادوں کے استاد میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو روی نے اپنی موسیقی میں اتنے شاندار طریقے سے ڈھالا کہ یہ گیت بھی امر ہو گئے۔ استادوں کے استاد میں محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت سو بار جنم لے لیں گے، سو بار فنا ہوں گے آج بھی مسحور کر دیتا ہے۔ فلم پارس منی کے گیتوں سے اسد بھوپالی کو اس زمانے میں دس ہزار روپے ملے جن سے انھوں نے بھوپال میں گھر بنایا۔ 1989ء میں انھیں فلم میں نے پیار کیا کے نغمات تخلیق کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس فلم کے گیتوں نے برصغیر پاک و ہند میں دھوم مچا دی۔ ایسی شہرت بہت کم گیتوں کو ملتی ہے۔ اس فلم میں اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے دو گیت دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ اور کبوتر جا جاجا کبوتر جا رام لکشمن کے سنگیت میں لتا منگیشکر نے ان گیتوں کو اتنی خوبصورتی سے گایا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ پر اسد بھوپالی کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1990ء کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے اسد بھوپالی کو بلایا گیا لیکن بیماری کے باعث وہ تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔ فلم کے پروڈیوسر سورج پرجاتیا نے اسد بھوپالی کا ایوارڈ وصول کیا۔[2]

بطور نغمہ نگار مشہور فلمیں[ترمیم]

  • دنیا
  • راجپوت
  • استادوں کے استاد
  • میں نے پیار کیا
  • افسانہ
  • پارس منی

مشہور فلمی نغمات[ترمیم]

  • اے میرے دل ناداں تم غم سے نہ گھبرانا (ٹاور ہاؤس)
  • رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے (گلوکار: محمد رفیع، فلم: دنیا)
  • ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا (گلوکارہ: ثریا، فلم: دنیا)
  • کہاں ہے تو میرے سپنوں کے راجا (گلوکارہ: لتا منگیشکر، فلم: افسانہ)
  • وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے پھر (گلوکار: محمد رفیع - لتا منگیشکر، فلم: پارس منی)
  • سو بار جنم لے لیں گے، سو بار فنا ہوں گے (گلوکار: محمد رفیع، فلم: استادوں کے استاد)
  • دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ (گلوکارہ: لتا منگیشکر، فلم: میں نے پیار کیا)
  • کبوتر جا جاجا کبوتر جا (گلوکارہ: لتا منگیشکر، فلم: میں نے پیار کیا)

وفات[ترمیم]

اسد بھوپالی 9 جون، 1990ء کو ممبئی، بھارت میں وفات پا گئے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]