اسرائیل بحرین تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسرائیل بحرین تعلقات

اسرائیل

بحرین

اسرائیل بحرین تعلقات سے مراد وہ تعلقات جو یہودی ریاست اسرائیل اور مملکۃ البحرین کے بیچ رہے ہیں۔ ان تعلقات کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ کشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک کے بیچ میں کوئی سفارتی یا معاشی تعلق یا ساجھے داری نہیں ہے۔ بیش تر عرب ممالک کی طرح بحرین اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور روایتی طور پر فلسطینی لوگوں کی آزاد مملکت قائم کرنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے باوجود بھی 1990ء کے دہے میں کچھ مختصر وقت کے لیے ان دونوں ممالک کے بیچ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

تاریخ[ترمیم]

بحرین کا دورہ کرنے والا اولین اسرائیلی وفد اس ملک میں ستمبر 1994ء کو پہنچا۔[1] یوسی سارید، جو اس وقت اسرائیل کے وزیر ماحولیات رہے، ماحولیاتی مسائل پر علاقائی گفتگو میں حصہ لیے تھے اور اس موقع پر بحرین کے وزیر خارجہ سے بھی ملے تھے۔[2]

اکتوبر 2007ء کو بحرین کے وزیر خارجہ خالد الخلیفہ نے امریکی یہودی کمیٹی سے ملاقات کی جہاں انھوں نے کہا "فلسطینی پناہ گزینوں کو فلسطین لوٹنا چاہیے"۔ اسی مہینے اقوام متحدہ کی عمومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں وہ اس وقت کے اسرائیل کے وزیر خارجہ تزیپی لیونی سے ملے جس کی وجہ سے بحرینی پارلیمان میں ان پر کافی تنقید ہوئی۔[3]

ویکی لیکس[ترمیم]

2011ء میں 2011ء کے بحرینی احتجاج کے دوران میں ویکی لیکس کے کچھ انکشافات ہاریٹز میں چھپے تھے جس میں یہ ظاہر ہوا کہ کچھ بحرینی اور اسرائیلی عہدیداروں کے بیچ باہمی روابط تھے۔ فروری 2005ء میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر سے ملاقات کے دوران میں امیر بحرین حماد بن عیسی الخلیفہ نے فخریہ طور اسرائیل کی قومی انٹلی جنس ایجنسی موساد کے ساتھ تعلق ہونے کی بات کہی۔ انھوں دیگر شعبوں میں بھی بحرین کے تعلقات کو بڑھانے کی بات کہی۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ امیر نے احکام جاری کیے ہیں کہ سرکاری بیانوں میں اسرائیل کے لیے "دشمن" یا "صیہونی وجود" جیسے الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے۔ تاہم انھوں نے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی بات کی نفی کی اور کہا کہ "اس کے لیے ابھی کافی وقت ہے" اور یہ اس وقت تک ملتوی رہے گا جب تک کہ آزاد فلسطین کا قیام عمل میں نہ آئے۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Middle East and North Africa, Europa Publications Limited
  2. ہاریٹز کی اطلاع
  3. Barak Ravid (20 فروری 2011)۔ "WikiLeaks: Bahrain FM planned to meet Israeli officials in support of peace process"۔ ہاریٹز۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2012 
  4. یوسی میلمین (8 اپریل 2011)۔ "Haaretz Wikileaks exclusive / Bahrain King boasted of intelligence ties with Israel"۔ Haaretz۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2012