اسرائیل شمالی کوریا تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شمالی کوریا اسرائیل تعلقات تعلقات
نقشہ مقام Israel اور North Korea

اسرائیل

شمالی کوریا

شمالی کوریا اسرائیل تعلقات (کوریائی زبان: 이스라엘-조선민주주의인민공화국 관계) (عبرانی: יחסי ישראל–קוריאה הצפונית‎) بے حد کشیدہ ہیں۔[1] شمالی کوریا اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اسے ایک "استعماری سیٹلائٹ" قرار دیتا ہے۔[2] 1988ء سے وہ سارے اسرائیل پر فلسطین کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے، سوائے گولان سطح مرتفع کے، جسے وہ اسرائیل کا حصہ تسلیم کرتا ہے۔ اسرائیل شمالی کوریا اور اس کے نیوکلیر میزائیل پروگرام کو عالمی صیانت کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ وہ اس مسئلے پر بین الاقوامی رد عمل کا بھی مطالبہ کر چکا ہے۔ کئی مواقع پر اسرائیل شعلہ بیاں دھمکیاں بھی شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ سے لے چکا ہے۔

تاریخ[ترمیم]

جنگ یوم کپور میں شمالی کوریا نے 20 ہوابازوں اور 19 غیر جنگجو عہدیداروں کو روانہ کیا تھا۔ اس اکائی کے اسرائیل کے چھ مڈبھیڑ جنگ کی ختم تک پیش آئے۔ شلومو الونی کے مطابق آخری فضائی مڈبھیڑ جو مصری محاذ پر پیش آئی وہ 6 دسمبر کو ہوئی۔ اس میں ایک اسرائیلی ایف 4ایس شمالی کوریا کی ہوابازی والے میگ21ایس سے بھِڑ گیا۔ اسرائیلیوں نے ایک میگ کو مار گرایا جب کہ ایک دوسرا میگ مصری دفاعی دستوں کی دوستانہ نشانہ بازی کی زد میں آکر گر گیا۔[3]

پچھلے کئی سالوں سے شمالی کوریا میزائل ٹیکنالوجی کو اسرائیل کے پڑوسیوں کو فراہم کر رہا ہے، جن میں ایران، سوریہ، لیبیا اور مصر شامل ہیں۔[4][5][6] سوریہ، جس کے پاس اسرائیل کے ساتھ تنازعات کی اپنی تاریخ ہے، لمبے عرصے سے شمالی کوریا سے تعلقات بنائے ہوئے ہے، جس کا مقصد دونوں کے نیوکلیر پروگراموں میں تال میل لانا ہے۔ میڈیا خبروں کے مطابق، 6 ستمبر 2007ء کو اسرائیلی فضائیہ نے جب "آپریشن آرچیڈ" کے تحت سوریہ کے دیر الزور علاقے پر حملہ کیا، اس میں دس شمالی کوریائی بھی مارے گئے جو "سوریہ میں نیوکلیر ریاکٹر کے بننے میں مدد کر رہے تھے۔"[7]

جب شمالی کوریا 1986ء میں بیرونی سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا، تب اس میں اسرائیل اور ریاستہائے متحدہ امریکا، جاپان، تائیوان اور جنوبی افریقا کے شہریوں کو مستثنٰی رکھا گیا۔[8] دیگر ممالک کے یہودی شہری بھی شمالی کوریا میں داخلے کے بعد کئی مسائل سے گذرے۔ امریکی یونیورسٹی طالب علم اوٹو ویمبلر، جسے شمالی کوریا میں مبینہ طور پر ایک پروپگنڈا پوسٹر چرانے کے جرم میں پکڑا گیا، ایک یہودی شہری تھا۔ یہ بات شمالی کوریائی حکومت کو پتہ نہیں تھی جس نے ایک وقت یہ بیان جاری کیا کہ وہ ویمبلر کو اس پوسٹر کو اپنی میتھوڈسٹ چرچ کے کسی شخص کو بیچنے کے منصوبے پر عمل پیرا پایا تھا۔[9]

اسرائیل نے شمالی کوریا کے نیوکلیر ہتھیار پروگرام کے خلاف عالمی پیمانے پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔[10] اس نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ شمالی کوریا اپنے نیوکلیر پروگرام کو اسرائیل پر مرکوز بنانے کی کوشش کی ہے، جب کہ وہ "ایک چھوٹا خوددفاعی ملک ہے جو طاقتور دشمنوں سے گھرا ہے: مختصرًا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شمالی کوریا خود کو ایک چھپے ہتھیار سے لیس کرنا چاہتا ہے اور ہر ایک کو یہ اندازہ لگاتے رکھنا چاہتا ہے کہ کیا اور کب ہتھیار دست یاب ہوں گے۔ " [11]

سوویت یونین کے زوال کے بعد اسرائیل نے ایک سفارتی وفد شمالی کوریا روانہ کیا تھا۔ مگر ان کوششوں کو اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ییتزاک رابین نے روک دیا، جس کے پس پردہ غالبًا ریاستہائے متحدہ اور موساد کا دباؤ رہا ہے۔[12]

مئی 2010ء میں اسرائیل کے خارجی امور کے وزیر اویگدور لیبرمن نے شمالی کوریا کو "محور شر" کا حصہ قرار دیا۔ ان کا بیان تھا:

"محور شر میں شمالی کوریا، سوریہ اور ایران شامل ہیں۔ یہ مل کر دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔"[13]

2014ء میں جیسے ہی اسرائیل غزہ تنازع طول پکڑی، شمالی کوریا مبینہ طور پر حماس کے ساتھ ہتھیاروں کے معاملتوں کو طے کرنا شروع کیا۔[14] اس بات کو شمالی کوریا کی کے سی این اے نے مملکتی ٹیلی ویژن میں کچھ ہی دنوں بعد نفی کردی۔[15]

یہ خبر دی گئی تھی کہ اسرائیلی عہدیدار اس بات پر بے حد فکرمند ہیں کہ بدترین صورت حال میں نقد میں تنگ بین الاقوامی طور پر الگ تھلگ یہ ملک اپنے نیوکلیر ہتھیار یا ٹیکنالوجی ایران اور اس کے ہم نوا عسکریت پسند حزب اللہ کو بیچ سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ممکنہ صورت حال میں اسرائیل کا یہ احساس ہے کہ ایران اپنے نیوکلیر معاہدے پر عمل کر سکتا ہے مگر اسرائیل کی سرحد کے شمالی رخ پر اپنے روایتی ہتھیار جمع کر کے ملک کو دھمکا سکتا ہے۔ چونکہ ریاستہائے متحدہ اور بین الاقوامی توجہ بحر الکاہل میں عدم استحکام پر مرکوز ہوگی، اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس معاملے پر مغربی توجہ کم ہوگی۔[16]

2017ء میں عبرانی زبان کی ایک خبررساں ویب گاہ ولا کے مطابق اسرائیل کے دفاعی وزیر اویگدور لیبرمن نے کیم جونگ اون کو ایک پاگل شخص قرار دیا اور کہا کہ اس کا ملک ان گنے چنے بداعمالوں میں سے ہے جو بین الاقوامی استحکام کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں۔ شمالی کوریا کی مملکتی میڈیا کو اس کی اطلاع ملی اور پھر ایک بیان جاری ہوا جو اسرائیلیوں کو ان کے "بدکردار" کو دیکھتے رہنے کے لیے کہا گیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل ...

"بے رحمانہ ہزار گنا سزا" شمالی کوریا کی "اعلٰی ترین قیادت کے وقار" کی بے عزتی کرنے کی وجہ سے پائے گا۔[17]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Benjamin R. Young, How North Korea has been arming Palestinian militants for decades, NK News, 25 June 2014
  2. M Haggard (1965)۔ "North Korea's International Position"۔ اییشین سروے۔ کیلیفورنیا, ریاستہائے متحدہ امریکا: University of California Press۔ 5 (8): 375–388۔ ISSN 0004-4687۔ OCLC 48536955۔ doi:10.2307/2642410 
  3. "Israeli F-4s Actually Fought North Korean MiGs During the Yom Kippur War"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2018 
  4. "North Korea Military Threat to Israel - Jewish Virtual Library"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2018 
  5. Reuters (4 اکتوبر 2016)۔ "Israel: North Korea Supplying Weapons to Six Mideast States"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2018 – Haaretz سے 
  6. "Israel: North Korea shipping WMDs to Syria"۔ 12 مئی 2010۔ 25 جولا‎ئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2018 
  7. Tak Kumakura (28 اپریل 2008)۔ "North Koreans May Have Died in Israel Attack on Syria, NHK Says"۔ Bloomberg۔ 3 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2008 
  8. B Koh (1988)۔ "North Korea in 1987: Launching a New Seven-Year Plan"۔ Asian Survey۔ کیلیفورنیا، ریاستہائے متحدہ: University of California Press۔ 28 (1): 62–70۔ ISSN 0004-4687۔ OCLC 48536955۔ doi:10.1525/as.1988.28.1.01p0121e 
  9. "Otto Warmbier's family kept his Jewishness under wraps while North Korea held him hostage"۔ The Times of Israel (بزبان انگریزی)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2017 
  10. Barak Ravid، The Associated Press (25 مئی 2017)۔ "Israel Demands World 'Respond Decisively' to North Korea Nuclear Test"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2018 – Haaretz سے 
  11. Victor Cha (2002)۔ "North Korea's Weapons of Mass Destruction: Badges, Shields, or Swords?"۔ سہ ماہی پولیٹیکل سائنس۔ نیو یارک، ریاستہائے متحدہ: دی اکیڈمی آف پولیٹیکل سائنس۔ 117 (2): 209–230۔ ISSN 0032-3195۔ OCLC 39064101۔ doi:10.2307/798181 
  12. Ahren, Raphael (اگست 10, 2017)۔ "The curious tale of Israel's short-lived courtship of North Korea"۔ The Times of Israel۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 10, 2017 
  13. Israel Minister: Iran, Syria, And North Korea Are New 'Axis Of Evil'
  14. "Hamas and North Korea in secret arms deal"۔ Daily Telegraph۔ 26 July 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2014 
  15. "North Korea denies reports of missile deal with Hamas"۔ Daily Telegraph۔ 26 جولائی 2014۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2015 
  16. "The impact of the Korea crisis on Israel"۔ The Jerusalem Post | JPost.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2017 
  17. Laura Sigel (اپریل 29, 2017)۔ "North Korea threatens Israel with 'Merciless, Thousand-Fold Punishment'"۔ The Jerusalem Post۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 29, 2017 

بیرونی روابط[ترمیم]