اسلام میں انسانی حقوق (کتاب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسلام میں انسانی حقوق
مصنفڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ملکپاکستان
زباناردو
موضوعاسلام میں انسانی حقوق کا بنیادی تصور، مسلمانوں و غیر مسلموں کے حقوق، انفرادی حقوق، اجتماعی حقوق، خواتین کے حقوق، عمر رسیدہ افراد، بچوں کے حقوق، معذور افراد کے حقوق، انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، خطبہ حجۃ الوداع، میثاق مدینہ، خطبہ فتح مکہ، خطبہ حجۃ الوداع، مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق
صنفاسلام، انسانی حقوق
ناشرمنہاج القرآن پبلیکیشنز
تاریخ اشاعت
جنوری 2004ء
طرز طباعتلطیف اور کثیف جلد
صفحات705
ویب سائٹ[1]، [2]

اسلام میں انسانی حقوق [1] ڈاکٹر طاہرالقادری کی اِنسانی حقوق کے حوالے سے لکھی جانے والی اس کتاب میں معاشرے میں بسنے والے مختلف افراد کے انفرادی و اجتماعی حقوق کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب عالم میں انسانی حقوق کا موازنہ کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق دور جدید کی اصلاح نہیں بلکہ اس کا تصور اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل دے دیا تھا۔

اس کتاب میں مصنف نے اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور، اسلامی اور مغربی تصور حقوق کا موازنہ، انسانی حقوق کا تقابلی پہلو، بنیادی انسانی حقوق (انفرادی و اجتماعی)، خواتین کے حقوق، مختلف طبقات معاشرہ کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (خطبہ حجۃ الوداع) جیسے اہم اور تحقیقی موضوعات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور علمی مباحث کو جملہ قارئین کے لیے سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ میثاق مدینہ، خطبہ فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق کے حوالے سے بیان کی جانے والی شقوں کو اصل متن کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے چار حصے اور گیارہ ابواب ہیں، پہلا حصہ اسلام کے تصور حقوق کے تعارف پر مبنی ہے، دوسرا حصہ بنیادی انسانی حقوق، تیسرا حصہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر (خطبہ حجۃ الوداع)، جبکہ چوتھا حصہ انسانی حقوق کی تاریخی دستاویزات پر مشتمل ہے۔

حصہ اول: اسلام کے تصور حقوق کا تعارف[ترمیم]

یہ حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے :

باب اول: اسلام میں انسانی حقوق کا بنیادی تصور[ترمیم]

اس باب میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی۔[2]

باب دوم: اسلامی اور مغربی تصور حقوق کا موازنہ[ترمیم]

اس باب میں اسلامی اور مغربی تصور حقوق کا موازنہ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی اصطلاح کا وسیع تر مفہوم انسانی زندگی، شرف و وقار کے تحفظ اور اس سے متعلقہ معاملات کا احاطہ کرتاہے۔ اس بارے ماہرین قانون اور مغربی فلسفیوں کے تصورات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

باب سوم: انسانی حقوق کا تقابلی پہلو[ترمیم]

اس باب میں اسلام کے انسانی حقوق اور یورپی کنونشن برائے تحفظِ حقوقِ انسانی (European Convention for the Protection of Human Rights, 1950) کے بعض پہلوؤں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

حصہ دوم: بنیادی انسانی حقوق[ترمیم]

یہ حصہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے :

باب اول: انفرادی حقوق[ترمیم]

اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت ہے اور کسی بھی معاشرہ اور ریاست کی طرف سے فرد کو دیے جانے والے جملہ حقوق زندگی پر ہی منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں زندگی کے تحفظ کا حق اساسی نوعیت رکھتا ہے اور اسلام نے انسانی زندگی کے تقدس پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات عطا کر کے ہر نوع کی غلامی، جبر اور استحصال سے آزاد کر دیا۔

باب دوم: اجتماعی حقوق[ترمیم]

اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت مختلف الانواع تضادات کا شکار اور کئی طبقات میں تقسیم تھی۔ سماجی اور معاشرتی شرف و منزلت کی بنیاد نسلی، لسانی اور طبقاتی معیارات پر مشتمل تھی۔ معاشرے کے طاقتور لوگ ہر لحاظ سے قابل عزت ہوتے تھے جبکہ غلام، کمزور اور زیردست طبقے طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتے تھے اور طاقتور کا قانون ہی ان کے مقدر کا فیصلہ کرتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساوات انسانی کا پیغام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کو اس آفاقی تعلیم سے سرفراز فرمایا کہ کائنات ارض و سما میں انسان کو صاحب تکریم بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی اس تکریم کو پامال کرتا پھرے، جو اسے خالق کائنات کی طرف سے عطا کی گئی ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کی تکریم و شرف منزلت کا لحاظ رکھنے کا اس لیے بھی پابند ہے کہ تمام انسانیت کو نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے کسی بھی فرد کو رنگ و نسل کی بنیاد پر عربی و عجمی ہونے یا سرخ اور کالا ہونے کے سبب سے کسی دوسرے پر فضیلت کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔

باب سوم: خواتین کے حقوق[ترمیم]

اسلام میں انسانی حقوق
موضوعاسلام سے قبل عورت کا معاشرتی
مغربی معاشرہ اور عورت
اسلام میں عورت کا مقام
تاریخ اشاعت
2005ء
طرز طباعتلطیف اور کثیف جلد
صفحات158

اس باب میں اسلام میں خواتین کے حقوق کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ باب چار نمایاں حصوں میں منقسم ہے، جو الگ سے اسلام میں خواتین کے حقوق کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔

اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی[ترمیم]

اس حصے میں اسلام سے قبل عورت کے معاشرتی مقام کا ذکر ہے کہ کس طرح اس دور میں عورت اپنے بنیادی انسانی حقوق سے عاری تھی، زمانہ جاہلیت میں نومولود بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج عام تھا۔ اسی طرح شادی کے ایسے مختلف طریقے رائج تھے، جو سراسر خواتین کی تذلیل پر مشتمل تھے اور بدکاری کے علانیہ اظہار کا رواج بھی عام تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت اپنے حق ملکیت تک سے محروم تھی۔

مغربی معاشرہ اور عورت[ترمیم]

اس حصے میں امریکا سمیت بعض مغربی ممالک میں خواتین میں طلاق کی شرح میں خطرناک اضافہ، خاندانی ڈھانچے کی تباہی اور بعد از طلاق خواتین کی بے سروسامانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حصے میں اقوام متحدہ کی ایسی رپورٹس بھی شامل ہیں جن میں انسانی حقوق کی علمبردار قوموں میں خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا ذکر موجود ہے۔ ’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، دنیا کے دوتہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے۔ اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔ ‘‘

اسلام میں عورت کا مقام[ترمیم]

اس حصے میں سات قسم کے ان حقوق کا تفصیلی بیان ہے جو اسلام نے خواتین کو عطا کیے :

  1. عورت کے انفرادی حقوق کے تذکرہ عصمت و عفت کا حق، عزت اور رازداری کا حق، تعلیم و تربیت کا حق، حسن سلوک کا حق، ملکیت اور جائداد کا حق اور حرمت نکاح کا حق شامل ہیں۔
  2. عورت کے عائلی حقوق کے بیان میں خواتین کے بحیثیت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی الگ الگ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔
  3. عورت کے ازدواجی حقوق کے ضمن میں شادی کا حق، خیارِ بلوغ کا حق، مہر کا حق، حقوق زوجیت، کفالت کا حق، اعتماد کا حق، حسن سلوک کا حق، تشدد سے تحفظ کا حق، بچوں کی پرورش کا حق اور خلع کا حق شامل ہیں۔
  4. عورت کے طلاق کے بعد حقوق کا ذکر کرتے ہوئے مہر کا حق، میراث کا حق اور حضانت کا حق شامل کیے گئے ہیں۔
  5. عورت کے معاشی حقوق کے ضمن میں وراثت کا حق، والدین، شوہر اور کلالہ کے مالِ وراثت میں حق شامل ہیں۔
  6. عورت کے قانونی حقوق کے بیان میں عورت کے ایک قانونی شخصیت (legal person) ہونے کا حق اور عورت کی گواہی کا حق مذکور ہے۔ نیز یہاں ان امور کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے جن میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہے، جیسے ولادت اور بچے کے رونے پر گواہی، رضاعت اور ماہواری پر گواہی۔
  7. عورت کے سیاسی حقوق کے ضمن میں عورت کا ریاستی کردار اور رائے دہی کا حق شامل کیا گیا ہے۔ یہاں سیرت طیبہ کی روشنی میں ریاستِ مدینہ میں حق رائے دہی کے ضمن میں مقننہ (parliament) میں نمائندگی کا حق، عورت بطور سیاسی مشیر، انتظامی ذمہ داریوں پر تقرری کا حق، سفارتی مناصب پر فائز ہونے کا حق، ریاست کی دفاعی ذمہ داریوں میں نمائندگی کا حق، عورت کا حق امان دہی اور مسلم معاشرے میں عورت کا کردار جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں، جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے اسلام مخالف پروپیگنڈا کا دلائل کے ساتھ بھرپور جواب دیتے ہیں۔

کیا عورت آدھی ہے؟[ترمیم]

یہاں ’’عورت کا حصہ تقسیم وراثت کی اکائی ہے ‘‘، ’’ میراث میں حصوں کے تعین کی بنیاد جنس نہیں ‘‘، ’’ مرد و عورت کی حق وراثت میں برابری‘‘ اور ’’ مرد و عورت کے مساوی حصہ کی نظیر‘‘ جیسے عنوانات بھرپور دلائل کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں، جو قاری کو اسلام کی مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کراتے ہیں۔

باب چہارم: مختلف طبقات معاشرہ کے حقوق[ترمیم]

  • (عمر رسیدہ افراد کے حقوق، بچوں کے حقوق، معذور افراد کے حقوق)

اس باب میں عمر رسیدہ افراد، بچوں اور معذور افراد کے حقوق کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام نے نہ صرف حقوق انسانی کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کیا بلکہ ان سے متعلقہ تعلیم کو بھی اتنا قابل عمل بنایا کہ اہل ایمان کی دنیاوی اور اخروی نجات کا سامان ان تعلیمات پر عمل در آمد میں ہے۔ آج کی جدید دنیا میں حقوق انسانی سے متعلق اکثر اقدامات محض ترغیبی یا تحسینی نوعیت کے ہیں جب کہ اسلام محض ترغیب و تحسین پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

باب پنجم: غیر مسلموں کے حقوق[ترمیم]

یہ باب اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق کی مختلف جہات کا اِحاطہ کرتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے یہ اَمر واضح ہو جاتا ہے کہ اَقلیتوں کے حقوق کے باب میں تمام تر جدید اقدامات بھی اس اتمامیت، کمال اور جامعیت کے حامل نہیں ہیں جو اسلام کی تعلیمات میں نظر آتی ہے۔ تاریخ اسلام اس اَمر کی گواہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی مملکت میں اَقلیتوں کو وہ بلند مقام حاصل رہا کہ بغداد و اسپین اور برصغیر میں اقلیتیں ہر سطح کے ریاستی امور میں بھی شریک رہیں اور مملکت کی اعلیٰ ترین ذمہ داریوں پر فائز رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ان تعلیمات کا اثر تھا جو غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومنوں کے حقوق آپس میں برابر اور ان کے ذمہ کی ادائیگی کے لیے ان میں سے جو اَدنیٰ ہیں وہ بھی کوشش کریں۔ کسی غیر مسلم کے بدلے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور کسی معاہد کو اس کی مدتِ معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔

حصہ سوم: انسانی حقوق کا عالمی چارٹر (خطبہ حجۃ الوداع)[ترمیم]

کتاب کے اس حصہ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم، آفاقی اور ابدی تعلیمات کے زیر اثر تاریخ عالم میں انسانی حقوق کی بیداری کی یہی وہ پہلی تحریک تھی جس نے قیصر و کسریٰ کے استحصالی و استبدادی غلبے کو ختم کر کے ایک پر امن، پر عظمت اور فکری طور پر مکمل آزاد اور روح حریت کے حامل معاشرے کی تخلیق کی۔ جہاں ہر قوم، نسل، مذہب اور رنگ کے لوگوں کو یکساں اور برابری کے حقوق حاصل تھے اور کسی جابر و مستبد حاکم کو معاشرے کے کمزور ترین فرد کے کسی بھی حق کی پامالی کی جرات نہ ہو سکتی تھی۔

حصہ چہارم: انسانی حقوق کی تاریخی دستاویزات[ترمیم]

یہ حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے :

باب اول: میثاق مدینہ[ترمیم]

یہ باب میثاق مدینہ کی تاریخی، سیاسی اور آئینی و دستوری اہمیت پر مشتمل ہے، اس میں بیان کیا گیا ہے کہ میثاق مدینہ نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا اساسی دستور ہے بلکہ عالمی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بھی ایک نمایاں اور عدیم النظیر پیش رفت ہے اور اس میں طے کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی مملکت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ آج بھی دنیا کو امن، بقائے باہمی اور فلاح کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔

باب دوم: خطبہ فتح مکہ[ترمیم]

اس باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ فتح مکہ کے موقع پر اعلانات کو بیان گیا ہے، اللہ کی وحدانیت اور حاکمیتِ اَعلیٰ کا اعلان، نسلی تفاخرات کا خاتمہ، تکریم مناصبِ دینی، اِنسانی جان کی حرمت کا اِعلان، مساواتِ انسانی کا اعلان، عزت و شرف کے معیار کا اِعلان، اِنسانیت کے لیے اعلانِ آزادی

باب سوم: خطبہ حجۃ الوداع[ترمیم]

اس باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے نکات بیان کیے گئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے نچوڑ ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]