اسلام کا فلسفہ معیشت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  • اسلام کی تعلیمات
  • اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے اصول میں ایک اصول یہ بھی ہے ”ضرورتوں کی بنا پر بعض ناجائز چیزیں جائز ہو جاتی ہیں “ اور ”جہاں شریعت کی کسی حکم پر عمل کرنے میں مشقت ہو وہاں آسانی پیدا کردی جاتی ہے۔ “ قرآن الکریم اور احادیث نبوی میں بھی معتدد موقع پر شریعت کے اس قائدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلا
  • لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا (البقرہ، 682)
  • اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتاہے۔
  • یرید اللہ بکم الیسر ولایر ید بکم العسر (البقرہ، 581)
  • اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتاہے سختی نہیں کرنا چاہتا ہے۔
  • وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج، 01)
  • اس نے تمھارے ساتھ دین میں سختی نہیں کی ہے۔
  • حدیث نبوی ہے ؛ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا سادہ اور نرم ہو۔ اسلام میں ضرر اور ضرار نہیں ہے۔
  • جلب مصالح پر دفع مفاسد مقدم ہے، شریعت کی نگاہ میں بھلائیوں کے حصول اور مامورات و واجبات ادا کرنے کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور حرام سے بچنا اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

اس لیے وہ مشقت کے مواقع پر مامورات میں بہت فیاضی سے ممنوعات کی اجازت دینے میں سختی نہیں برتتی۔ سفر اور مرض کی حالتوں میں نماز، روزے اور دوسرے واجبات کے معاملہ میں جتنی تخفیفیں کی گئی ہیں، اتنی تخفیفیں ناپاک اور حرام چیزوں کے استعمال کے لیے نہیں کی گئی ہیں۔

  • اسلامی نظام حیات جن ہدایات و تعلیمات پر مشتمل ہے۔ ان میں بعض کا تعلق ایمانی عقائد سے ہے، جو باقی سب ہدایات کے لیے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بعض کا تعلق بدنی اور مالی عبادات اور

مکارم اخلاق سے ہے، جو ایمانی اور دیگر ہدایات و تعلیمات کے درمیان بمنزلہ واسطہ وسیط کے ہیں۔ بعض کا تعلق معاشرتی اور عائلی امور و مسائل سے ہے اور بعض کا معاشی امور و معاملات سے ہے۔ بعض کا سیاسی اور حکومتی امور و مسائل سے ہے اور بعض کا تمدنی و تہذیبی شئون و احوال سے ہے۔ غرض کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی ایسا پہلو اور شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلامی نظام حیات کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی ہدایت و تعلیم موجود نہ ہو۔ اس کے اندر معاشی امور و معاملات اور مسائل وحالات سے متعلق جو ہدایات و تعلیمات ہیں ان کا دوسرا نام اسلام کی اقتصادی ہدایات و تعلیمات ہے۔

  • اس سلسلے میں دوسری قابل ذکربات یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات خواہ وہ ایمانی عقائد سے تعلق ہوں یا عبادات اور اخلاق سے، معاشرت کے متعلق ہوں یا معیشت سے، سیاست و حکومت سے متعلق ہوں یاتمدن و ثقافت سے، وہ سب آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط و منظم ہیں، جس طرح کسی کل کے اجزاء مقصد کل کے تحت باہم دیگر مربوط و منظم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان تعلیمات کے مجموعے کو لفظ نظام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
  • معاشرت، معیشت اور سیاست و حکومت سے متعلق اسلام کی جو عملی تعلیمات ہیں، ان کا تعلق دوسری تعلیمات جو ایمانی عقائد اور دینی عبادات سے گہرا تعلق ہے۔ اس وجہ سے اسلام کا اقتصادی نظام، سرمایا دارنہ نظام اور اشتراکی نظام سے ایک علاحدہ شان رکھتا ہے، کیوں کہ مذکورہ دونوں اقتصادی نظام سیکولر ہیں۔ جن کا روحانی اقدار اور وحی و رسالت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا مقصد محض انسان کی فلاح بہبود ہے، خواہ وہ کسی طریقہ سے حاصل ہو۔ وہ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کے کسی فلسفہ اوردینی ضابطہ کے قائل اور پابند نہیں ہیں۔ جب کہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک خاص دینی فلسفہ اور احکام پر مبنی ہے۔ اس کے اصول و ضوابط اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تجویز کردہ اور ان کی مرضی کے تابع ہیں اور اس حوالے سے وہ ایک مسلمان کے لیے واجب العمل ہیں۔ ایک مسلمان حلال و حرام سے متعلق احکام پر عمل کرتا ہے تو یہ سمجھ کرکرتا ہے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کے طور پر ضروری ہے۔
  • قران کی متعد د آیات میں مال کو لفظ خیر اور فضل سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس کی وجہ اس کا وسیلہ خیر و بھلائی ہونا ہے اور جن آیات اور احادیث نبوی میں مال کی تحقیر اور مذمت کا پہلو ہے تو وہ اس پہلو

سے ہے کہ مال ذریعہ شر و فساد بنتا ہے۔ ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہیں ”صالح آدمی کے لیے صالح مال بہت اچھی چیز ہے۔ “ ایک حدیث کا مضمون ہے کہ اگر دنیاوی مال کی قدر منزلت اللہ کے نزدیک مکھی مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ کافروں کو ہر گز نہ دیتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و متاع کے متعلق اسلام کا ایک خاص نقطہ نظر اور رویہ ہے اور اسلام کی تعلیمات سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کا مقصدیہ ہے کہ معمولی سے معمولی شکل اور ادنیٰ سے ادنیٰ معیار پر سہی، لیکن ہر فرد کھانے پینے کے لیے غذا، پہنے کے لباس اور رہنے سہنے کے لیے گھر میسر ہو، نیز ہر ایک کے لیے اس کا بھی مناسب موقع ہو۔ اگر وہ اپنی ذاتی ضروریات سے زائد رزق مال اور سامان معاش کمانا یا حاصل کرنا چاہے تو کر سکے۔ کیونکہ جس طرح ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنی شخصی حیات و بقاء کے لیے ضروری سامان و معاش اور رزق و مال حاصل ہو۔ اس طرح یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے پاس اس کی شخصی ضرورت سے زائد رزق مال ہو تاکہ وہ مصارف خیر میں خرچ کرکے اخلاقی عظمت و برتری اور تقرب الہی حاصل کرسکے، جو روحانی سکون و اطمینان کا بڑا ذریعہ ہے۔

  • اسلام کی اقتصادی تعلیمات کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ قران و حدیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حیات انسانی کے جو معاشی پہلوسے متعلق جو ہدایات اور تعلیمات ہیں تین طرح کی نظر آتی ہیں۔ ایک وہ جن کی حیثیت

اخلاقی مواعظ و ترغیبات کی سی ہے اور احسان و ایثار پر مبنی ہے۔ احسان کے معنی ہیں کسی کا اپنی مرضی خوشی سے بطور ہمددی و خیرخواہی اپنی کوئی مفید مادی چیز دوسرے کو بغیر مادی معاوضہ کے دے دینا۔ لہذا ان تعلیمات کا مقصد یہ ہوا کہ لوگ ہمدردی و خیرخواہی کے جذبہ سے رضاکارانہ طور پر اپنی مملوکہ اشیاء ایک دوسرے کو دینے کی روش اختیار کریں اور بغیر کسی مادی معاوضہ کے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائیں۔ یہ اخلاقی و احسانی تعلیمات عمل کے لحاظ سے اختیاری ہیں جبری نہیں ہیں۔ ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں افراد کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہیں تو ان پر عمل نہ کر یں۔

  • دوسری وہ جن کی نوعیت مستقل اور حقیقی قوانین کی سی ہے، عدل و قسط پر مبنی ہیں۔ یہاں عدل و قسط کے معنی ہیں حقداروں کو ان کے حق کا ٹھیک ٹھیک اور پورا پورا ملنا، لہذا ان تعلیمات کا مطلب ہوا کہ

معاوضے کے معاملات میں ہر فریق کو اس کا حق برابر برابر اور پورا پورا ملے اور ہر فریق دوسرے کی چیز کا صحیح اور پورا معاوضہ ادا کرے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ یہ مستقل قوانین کا درجہ رکھتی ہیں، لہذا یہ عمل کے لحاظ سے اختیاری نہیں جبری و اجباری ہیں۔ مسلمان پابند و مجبور ہیں کہ ان پر عمل کریں۔

  • تیسری وہ جن کی پوزیشن عبوری اور وقتی احکام کی طرح ہے۔ انھیں عبوری یا وقتی احکامات سے تعبیر کیا گیا ہے، وقتی مصلحت پر مبنی ہیں۔ وقتی مصلحت کا مطلب یہ ہے کہ نا موافق حالات میں دو بری چیزوں میں ایک کو اختیار کرناضروری و نا گزیر ہو تو اس کو اختیار کرلینا یا بڑی اچھائی کی خاطر چھوٹی اچھائی کو ترک کردینا۔ لہذا ان تعلیمات یہ مقصد ہوا کہ جب حالات ایسے ہوں کہ ان میں سو فیصد صحیح چیز پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو اس پر عمل کر لیا جائے، جو صحیح کے قریب تر اور نسبتا بہتر ہو۔ ان کی حیثیت عبوری و وقتی قوانین کی ہے، عمل کے لحاظ سے یہ اجباری ہیں اختیاری نہیں۔ یعنی جن حالات سے ان کا تعلق ہو، ان پر عمل لازمی و ضروری قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ ان پر عمل کرنے سے معاشی ظلم و فساد میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور معاشرے کی اجتماعی حالت نسبتا سدھرتی اور بہتر بن جاتی ہے۔ لہذا اس کا مقصد معاشرے سے ظلم و فساد ختم کرکے عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔
  • مولانا محمد طاسین صاحب نے تیسری تعلیمات میں ایسے احکام شامل کر دیے ہیں جو پہلے ممنوع نہیں تھے اور بعد میں ان کی حرمت کے متعلق احکام آئے۔ مثلا سود اور مزارعت وغیرہ۔ تاہم مولانا طاسین صاحب سے پہلے اسلامی معاشی تعلیمات کے متعلق لکھنے والے انھیں بری طرح الجھا دیا کرتے تھے۔ لہذا مولانا نے پہلی دفعہ ان تمام معاملات کو علاحدہ علاحدہ کرکے پیش کیا ہے۔
  • یہ تقسیم کچھ اس طرح ہونی چاہیے۔ اول فرائض، دوم رضاکارانہ، سوم ممنوع۔
  • فرائض جن کی ادائیگی ایک صاحب نصاب پر فرض ہے، جس میں وہ تمام احکام آجاتے ہیں جو اسلامی اقتصادیات کے تمام معاملات، جس میں زکواۃ، عشر، خراج اور دوسرے تمام محصول بھی شامل ہیں۔ جو حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے وصول کرتی ہے اور جن کو فقہ اور علما نے جائز قرار دیا ہے۔
  • رضاکارانہ جو مولانا کی تقسیم کے مطابق رضاکارانہ ہے۔
  • ممنوع یعنی وہ معاملات جن کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرام یا ممنوع قراردیا ہے، ان میں سود و قمار شامل ہیں۔ ان میں سود سرفہرست ہے، جس کی حرمت قران الکریم اور احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔
  • اسلامی قانون
  • اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت میں مدون کیا گیا ہو اسی صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات بدل جانے پر بھی اس کی صورت میں کوئی تغیر نہ کیاجاسکے۔ جو لوگ اس قانون کو ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، بلکہ ہم کہیں گے وہ اسلامی قانون کی روح کو نہیں سمجھے ہیں۔
  • اسلامی شریعت کی بنیاد دراصل حکمت اور عدل پر رکھی ہے۔ تشریع (قانون سازی) کا اصل مقصد بندگان خدا کے معاملات اور تعلقات کی تنظیم اس طور پر کرنا کہ ان کے درمیان مزاحمت اور مقابلہ کی بجائے تعاون اور ہمدردانہ اشتراک عمل ایک دوسرے کی شخصیت کے نشو و نما میں مددگار ہو یا کم از کم ان کی ترقی میں مانع و مزاحم بن کر موجب فساد نہ بن جائے۔
  • اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی اور حقائق اشیاء کے اس علم کی بنا پر جو اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں چند ہدایات دی ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی کے دیے ہوئے علم سے ان ہدایات کو عملی زندگی میں نافذ کرکے ہمارے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے۔
  • یہ ہدایات اگرچہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات میں دی گئیں تھیں اور ان کو ایک خاص سوسائٹی کے اندر نافذ کرا دیا گیا تھا، لیکن ان کے الفاظ سے اور ان طریقوں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو عملی جامہ پہنانے میں اختیار فرمائے تھے، قانون کے چند ایسے ہمہ گیر اصول نکلتے ہیں، جو ہر زمانے اور حالت میں انسانی سوسائٹی کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابل عمل ہیں۔ اسلام میں جو چیز اٹل اور ناقابل تغیر اور تبدل ہے وہ یہی اصول ہیں۔
  • اب ہر زمانے کے مجتہدین کا کام ہے کہ عملی زندگی میں جیسے جیسے حالات اور حوادث پیش آتے جائیں، ان معاملات کو اس طور پر نافذ کریں کہ شارع کا اصل مقصد پورا ہو۔ شریعت کے اصول جس طرح غیر متبدل ہیں، اس طرح وہ قوانین غیر متبدل نہیں ہیں جن کو انسانوں نے ان اصولوں سے مرتب کیا ہے، وہ تمام ازمنہ و امکنہ اور احوال و حوادث کے لیے ہیں اور خاص حالات اور خاص حوادث کے لیے۔
  • پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیراحوال 1ور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اس اصول کے تحت تغیر کیا جاسکے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں ان کو پورا کرنے کے لیے قوانین مرتب کیے جاسکیں، اس معاملے میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مجتہدین کو اپنے زمانی اور مکانی حالات کے لحاظ سے استنباط احکام اور تفریع مسائل کے پورے اختیارات حاصل ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی خاص دور کے اہل علم کو تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لیے وضع قانون کا چارٹر دے کر دوسروں کے پورے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہو۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی ہر گز نہیں ہیں کہ ہر شخص کو اپنے منشا اور اپنی اہواء کے مطابق احکام کو بدل ڈالنے اور اصول کو توڑ موڑ کر ان کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور قوانین کو شارع کے اصل مقصد سے پھیرنے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی ایک ضابطہ اور چند شرائط ہیں۔
  • فروعی قوانین مدون کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کے مزاج کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ بات صرف قرآن الکریم کی تعلیم اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میں تدبر کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ان دونوں چیزوں پر جس شخص کی نظر وسیع اور عمیق ہو گی وہ شریعت کا مزاج شناش ہو جائے گا اور ہر موقع پر اس کی بصیرت اس کو بتا دے گی کہ مختلف طریقوں میں کون سا طریقہ اس شریعت کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے اور کس طریقہ کو اختیار کرنے سے اس کے مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے گی۔ اس کی بصیرت کے ساتھ احکام میں جو تغیر و تبدل کیا جائے گا، وہ نہ صرف مناسب اور معتدل ہوگا بلکہ اپنے محل خاص میں شارع کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے اتنا ہی بجا ہوگا جتنا کہ شارع کا حکم۔
  • مزاج شریعت کو سمجھنے کے بعد اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبہ میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غور و فکر کرکے معلوم کیا جائے

کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے، شارع کس نقشہ پر اس شعبہ کی تنظیم کرنا چاہتا ہے، اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبہ کا خاص مقام کیا ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبہ میں شارع نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس چیز کو سمجھے بغیر جو قانون بنایا جائے گا یا پچھلے قانون میں جو حذف و اضافہ کیا جائے گا وہ مقصود شارع نہ ہو گا اور اس سے قانون کا رخ اپنے مقصد سے منحرف ہو جائے گا۔ قانون اسلامی میں ظواہر احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی مقاصد احکام کی ہے۔ فقیہ کا اصل کام یہی ہے کہ شارع کے مقصود اور اس کی حکمت و مصلحت پر نظر رکھے۔ بعض خواص مواقع ایسے آتے ہیں جن میں ظواہر احکام پر (جو عام حالات کو مد نظر رکھ کر دیے گئے تھے) عمل کیا جائے، تو اصل مقصد فوت ہو جائے۔ ایسے وقت میں ظاہر کو چھوڑ کر اس طریق پر عمل کرنا ضروری ہے، جس سے شارع کا مقصدپورا ہو تا ہو۔ قران الکریم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کی جیسی کچھ تاکید کی گئی ہے، معلوم ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے۔ مگر اس کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظالم و جبر امرا کے مقابلے میں خروج سے منع فرمادیا، کیوں کہ شارع کا اصل مقصد تو فساد کو اصلاح سے بدلنا ہے۔ جب کسی فعل سے اور زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور اصلاح کی امید نہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے۔ علامہ ابن تمییہ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتنہ تاتار کے زمانے میں ایک گروہ پر ان کا گذر ہوا، جو شراب و کباب میں مشغول تھا۔ علامہ کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو شراب سے منع کرنا چاہا مگر، علامہ نے ان کو روک دیا اور فرمایا اللہ نے شراب کو فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے حرام کیا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ شراب ان ظالموں کو ایک بڑے فتنے یعنی قتل نفوس اور نہب اموال سے روکے ہوئے ہے۔ لہذا ایسی حالت میں ان کو شراب سے روکنا مقصود شارع کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ حوادث کی خصوصیات کے لحاظ سے احکا م میں تغیر کیا جاسکتاہے۔ مگر تغیر ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے شارع کا اصل مقصد الٹا فوت ہو جائے۔

  • اس طرح بعض احکام ایسے ہیں جو خاص حالات کی رعایت سے خاص الفاظ میں دیے گئے تھے۔ اب فقیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ تغیر احوال کے باوجود انہی الفاظ کی پابندی کرے۔ بلکہ اس کو ان الفاظ سے شارع کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب احکام وضع کرنا چاہیں۔ مثلا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع کشمش دینے کا حکم فرما یا۔ اس کا مقصدیہ نہیں ہے کہ اس وقت مدینہ میں جو صاع رائج تھا اور یہ اجناس جن کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذکر فرمایا۔ یہی بعینہ منصوص ہیں۔ شارع کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عید کے روز ہر شخص کو اتنا صدقہ دے کہ اس کا ایک غیر مستطیع بھائی اس صدقے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کم از کم عید کا زمانہ خوشی کے ساتھ گزار سکے۔ اس مقصد کو کسی دوسری صورت سے پورا کیا جا سکتا ہے جو شارع کی تجویز سے اقرب ہو۔
  • پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرز قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے، تاکہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام وضع کرنے میں انہی اصولوں کی پیروی کرے اور اسی طرز کی تقلید کی جا سکے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان مجموعی طور پر شریعت کی ساخت اور پھر فردا فردا اس کے احکام کی خصوصیات پر غور نہ کرلے۔ شارع نے کس طرح احکام میں عدل اور توازن قائم کیا ہے۔ کس کس طرح اس نے انسانی فطرت کے ساتھ رعایت کی ہے۔ دفع مفاسد اور جلب مصالح کے لیے اس نے کیا کیا طریقے اختیار کیے ہیں۔ کس ڈھنگ پر وہ انسانی معاملات کی تنظیم اور ان میں انضباط پیدا کرتا ہے۔ کس طریقہ سے وہ انسان کو اپنے بلند مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کے راستے میں مناسب سہولتیں بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ سب امور تفکر اور تدبر کے محتاج ہیں اور ان کے لیے نصوص قرانی کی لفظی و معنوی دلالتوں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے افعال و اقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اس علم اور فقہ سے بہرہ ور ہو وہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام میں جزوی تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے۔
  • احوال و حوادث کے جو تغیرات و احکام میں جو تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔ ایک یہ حیثیت کہ وہ حالات بجائے کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ دوسری یہ حیثیت کہ اسلامی قانون کے نقطہ نظر سے ان میں کس کس نوع کے تغیرات ہوئے ہیں اور ہر نوع کاتغیر احکام میں کس طرح کا تغیر چاہتا ہے۔
  • مثال کے طور پر اسی مسئلہ سود کو لیجیے جو اس وقت زیر بحث ہے۔ معاشی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ہم کو سب سے پہلے زمانہ حال کے معاشی دنیا کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہم گہری نظر سے معاشیات، مالیات

اور لین دین کے جدید طریقوں کا مطالعہ کریں گے۔ معاشی زندگی کے باطن میں جو قوتیں کا م کر رہی ہیں ان کو سمجھیں گے۔ ان نظریات اور اصول سے واقفیت حاصل کریں گے اور ان اصول و نظریات کا ظہور جن عملی صورتوں میں ہو رہا ہے ان پر اطلاع حاصل کریں گے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ زمانہ سابق کی بہ نسبت ان معاملات میں جو تغیرات واقع ہوئے ہیں ان کو اسلامی قانون کے نقطہ نظر سے کن اقسام پر منقسم کیا جا سکتا ہے اور ہر قسم پر شریعت کے مزاج اور اس کے مقاصد اور اصول تشریح کی مناسبت سے کس طرح کے احکام جاری ہونے چاہیے۔

  • وہ تغیرات جو درحقیقت تمدنی احوال کے بدل جانے سے رونما ہوئے ہیں اور جو دراصل انسان کے علمی و عقلی نشو و ارتقا اور خزائن الہی کے مزید انکشافات اور مادی اسباب و وسائل کی ترقی اور حمل و نقل

اور مواصلات کی سہولتوں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی اور بین الاقوامی تعلقات کی وسعتوں کے طبعی نتائج ہیں۔ ایسے تغیرات اسلامی قانون کے نقطہ نظر سے طبعی اور حقیقی تغیرات ہیں۔ ان کو نہ تو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ مٹانا مطلوب ہے، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اثر سے معاشی معاملات میں جو نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں، ان کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمان اپنے عمل کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز پر ڈھال سکیں۔

  • آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہؓ اور تابعین کے دور کے بعد بھی ان نکات پر جو وقتا فوقتا پیدا ہوتے رہے ہیں ان پر قانون سازی ہوتی رہی ہے اور ان کے مآخذ قران و حدیث اور اجماع رہے ہیں۔ یعنی نو پیدا شدہ مسائل پر وقت کے تقاضوں کے مطابق ترمیم ہوتی رہی ہے۔ مثلأئ حضرت عمرؓ نے سواد کی زمینیں صحابہؓ کے مشورے سے مملکت کی ملکیت قرار دیں۔

ابتدا میں فقہا کے نزدیک’دریائے شور‘(سمندر) غیر اسلامی مقبوضات میں ہے۔ یعنی سمندر کی حیثیت فقہا کے نزدیک دارلحراب کی تھی۔ یعنی وہاں قتل اور لوٹ مار کی کوئی بندش نہیں تھی، مگر دور جدید میں فقہا کا اجماع ہے کہ اس طرح سمندر سے کفار کے حق میں خود دستبردار ہو جانا ہے۔

  • ایسا ہی ایک ایسا مسئلہ جس میں سنار اصل سے زائد سونا نفع اور مزدوری میں طلب کرتے تھے۔ کیوں کہ دینار سونے کے اور درہم چاندی کے ہوتے تھے۔ اس طرح یہ وزن کا ایک پیمانہ بھی تھا۔ سونے کے کسی زیور جس کا وزن دس دینار ہوتا اور سنار اس کے بارہ دینار طلب کرتے، جو اصولی طور پر جائز ہے، لیکن شرع میں جائز نہیں۔ کیوں کہ ایک جیسی اشیاء کے تبادلے میں کمی و بیشی سود ہے۔ اس لیے فقہا نے اس کا یہ حل نکالا کہ اس کی ادائیگی یا تو درہموں میں کی جائے یا آٹھ دینار سونے کے بدلے آٹھ دینار اور باقی چار دینار سونے اور اس کی مزدوری کی مد میں درہم دیتے تھے، کیوں کہ مختلف اشیاء کے تبادلے میں کمی و بیشی سود نہیں ہے، اس لیے یہ ادائیگی جائز ہوتی تھی۔
  • قانون سازی
  • مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ ”ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور اس انقلاب نے مال اور تجارتی معاملات کی صورت کچھ سے کچھ کردی ہے۔ ایسے حالات میں وہ اجتہادی قوانین جو اسلام کے ابتدئی دور میں حجاز، عراق، شام اور مصر کے معاشی حالات کو ملحوظ رکھ کر مدون کیے گئے تھے، مسلمانوں کی موجودہ ضرورتوں کے لیے ناکافی نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے اس دور میں احکام شریعت کی جو تعبیر کی تھی، وہ معاملات کی ان صورتوں کے لیے تھی، جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں پائی جاتی تھیں۔ مگر اب ان میں سے بہت سی صورتیں باقی نہیں رہی ہیں اور بہت سی دوسری صورتیں ایسی پیدا ہو گئی ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں۔ اس لیے بیع و شراکت اور مالیات کے متعلق جو قوانین ہماری فقہ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں ان میں بہت کچھ اضافے کی یقینأئ ضرورت ہے۔ پس اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ معاشی اور مالی معاملات کے لیے قانون اسلامی کی تدوین جدیدہونے چاہیے یا نہیں۔ بلکہ اس امر میں ہے کہ تدوین کس طرز پر ہو؟ ڈاکٹر عبد المالک عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ ”فقہا نے مضاربت کی بعض ایسی شرطوں کا ذکر کیا ہے جو قران و سنت میں نہیں ہیں، بلکہ فقہا کی اجتہادی آراء ہیں، ان کی پابندی پر اصرار کرنا اور انھیں قران و سنت کا درجہ دینا ہے۔ یہ شرائط فقہا نے اپنے زمانے (ایک ہزار سال قبل) اور اپنے علاقے (جو پاک و ہند کا علاقہ نہیں تھا) کے تجارتی اور معاشرتی عرف مطابق مقرر کیں ہیں۔ یہ تجارتی اور معاشرتی عرف 59 فیصد تبدیل ہو چکا ہے اور زمان اور مکاں کے اس قدر بڑے اختلاف کے ساتھ ساتھ کاروبار کی متعدد جدید اور پیچیدہ صورتیں ملکی سطح پر نمودار ہو چکی ہیں۔ انسان کی مصلحتیں، ضرورتیں اور سہولتیں بدل چکی ہیں۔ اس لیے ان شرائط کو ایسی صورت میں نافذ کرنا شرعی مصالح کا تقاضا نہیں ہے۔
  • مولانا محمد طاسین صاحب لکھتے ہیں کہ ”اسلام کے اقتصادی مسائل اور معا شی امور و معاملات پر لکھنے والے حضرات علما کرام نے عام طور پر قران و حدیث کی طرف رجوع کرنے اور ان سے ہدایت و رہنمائی لینے کی بجائے کتب فقہ کی طرف رجوع کیا اور اپنی پسند کے مطابق فقہا عظام کے اقوال و آراء سے فائدہ اٹھایا۔ بغیر یہ دیکھے اور غور و فکر کیے کہ وہ جس فقہی قول و رائے کو اختیار کر رہے ہیں قران وحدیث میں اس کی سند اور دلیل کیا ہے۔
  • مولانا محمد طاسین مزید لکھتے ہیں کہ’موجودہ دور میں یہ علمی اور تحقیقی کام انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر کیا جانا چاہیے۔ یعنی ایسے علما کرام کی ایک جماعت اس اہم دینی اور عملی کام کو انجام دینے کی جہد وکوشش کرے۔ جو قران و سنت کا وسیع و عمیق علم رکھتے، اصول فقہ میں بیان کردہ استنباط و استخراج کے طریقوں کو جانے، اختلافی مسائل کی حقیقت و ماہیت کو سمجھنے اور غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہوں۔ ان کے لیے ایک چیز یہ بھی ضروری ہے ایک حد تک علم المعیشت و الاقتصاد اور موجودہ معاشی نظاموں اور ان کے بنیادی اصول و افکار سے واقفیت و آگہی رکھتے ہوں۔ کیوں کہ اس سے بھی معاشی مسائل کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

حوالے[ترمیم]

  • ماخذ
  • مولانا محمد طاسین، اسلام کا عالانہ اقتصادی تعلیمات
  • مولانا ابو الاعلی مودودی۔ سود
  • ڈاکٹر عبد المالک عرفانی، القانون، نومبر 31۔1991ء
  • محمد اشرف تھانوی۔ بہشتی زیور
  • محمد اشرف تھانوی۔ بہشتی زیور