ابن علیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(اسماعیل بن علیہ سے رجوع مکرر)
ابن علیہ
(عربی میں: إبراهيم بن إسماعيل بن إبراهيم بن مقسم الأسدي أبو إسحاق بن علية)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 729ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ،  مصر[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 809ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت و جماعت
عملی زندگی
استاذ مالک بن انس  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث[1]،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم اسدی، ابن عُلیہ کے نام سے مشہور ہوئے، عُلیہ ان کی ماں تھیں۔ اپنے زمانہ میں حدیث کے بڑے عالم اور امام تھے، حافظ الحدیث تھے اور حدیث کے مشہور راوی ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

اسماعیل نام، ابو بشر کنیت تھی۔ والد کا نام ابراہیم بن مقسم اور والدہ کا نام علیہ تھا۔ علیہ قبیلہ بنو شیبان کی لونڈی تھیں، لیکن بڑی صاحب علم تھیں، انہی کی نسبت اسماعیل ابن علیہ کہلاتے ہیں۔ ان کی والدہ کے بارے میں یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ ”وہ بڑی سمجھ دار اور عقل مند خاتون تھیں۔“[2] خطیب بغدادی علم و فضل ان کی والدہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ”وہ بڑی شریف اور عقل مند خاتون تھیں، ان کا مکان عوفہ میں تھا جو ان کے نام سے مشہور تھا، وہاں صالح المری اور بصرہ کے دوسرے ممتاز لوگ اور فقہا ان کے پاس استفادہ کے لیے آتے تھے، وہ برآمد ہو کر ان سے بات چیت اور سوال و جواب کرتی تھیں۔“[3]

ولادت[ترمیم]

ان کے والد ابراہیم بن مقسم بھی غلام تھے اور کپڑے کے تاجر تھے۔ اس سلسلہ میں وہ برابر بصرہ آیا جایا کرتے تھے، وہاں آمد و رفت کے دوران انھوں نے علیہ بنت حسان سے شادی کر لی اور بصرہ ہی میں مستقل طور پر بود و باش اختیار کر لی اور یہیں سنہ 110ھ میں اسماعیل بن علیہ پیدا ہوئے، ان کی والدہ اپنے فضل و کمال کے باوجود چونکہ باندی تھیں، اس لیے وہ ان کی طرف اپنی نسبت پسند نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ فرماتے تھے کہ ”جو کوئی مجھ کو ابن علیہ کہتا ہے وہ گویا میری غیبت کرتا ہے۔“[3] غالباً اسی وجہ سے انھوں نے اپنی کنیت ابو البشر رکھی تھی، مگر ابن علیہ کے مقابلہ میں یہ کنیت مشہور نہ ہو سکی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مؤرخین بتاتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم ان کی والدہ نے خود ہی دی ہوگی، اس کے بعد جب کچھ ہوشیار ہوئے تو ان کی والدہ بصرہ کے ایک مشہور محدث عبد الوارث بن سعید کے پاس لے گئیں اور کہا کہ اپنے بچہ اسماعیل کو لے کر آئی ہوں اور پھر اسماعیل کو محدث مذکور کے حوالہ کر دیا۔ علیہ بنت حسان نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ اس میں آپ جیسی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ عبد الوارث کا بیان ہے کہ میں اسماعیل کو اپنے ساتھ لے کر جاتا اور جہاں کہیں مجلس دیکھتا ان کو آگے بڑھا دیتا اور خود بعد میں شیخ مجلس کے پاس پہنچتا۔ اس طرح عبد الوارث نے گویا ان کو مختلف شیوخ سے روشناس کرایا۔ ابراہیم خولی جو اس روایت کو نقل کرتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ابن علیہ جب بصرہ جانے لگے تو لوگ ان کو عبد الوارث سے زیادہ ثقہ فی الحدیث سمجھنے لگے تھے۔

فضل و کمال[ترمیم]

یوں تو اسماعیل بن علیہ کو ہر فن پر عبور تھا، لیکن علم حدیث میں خصوصی کمال اور امتیازی مہارت رکھتے تھے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ”بصرہ میں اتفاق و تثبت ابن علیہ پر ختم ہے۔“[4] مشہور شیخ الحدیث غندر بیان کرتے ہیں کہ ”میری نشو و نما علم حدیث کی فضا میں ہوئی ہے، اس علم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے ابن علیہ پر فضیلت حاصل ہو۔“[5] ابو داؤد کا قول ہے ”کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے خطا نہ کی ہو، البتہ ابن علیہ اور بشر بن المفضل اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں۔“[6] ابن المدینی نے بھی اسماعیل کے تثبت فی الحدیث کا اعتراف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چار کے علاوہ اکثر محدثین سے تصحیف و غلطی ہوئی ہے، وہ چار یہ ہیں یزید بن زریع، ابن علیہ، بشر بن المفضل، عبد الوارث بن سعید۔[7] ہشیم بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ بصرہ کے چند حفاظ حدیث جمع ہوئے تو ان سے کوفہ کے محدثین نے کہا کہ تم اسمٰعیل بن علیہ کے علاوہ جس کو چا ہو سامنے لاؤ، ہم کو ان سے علم و فضل میں کم نہ پاؤ گے، مگر ابن علیہ کے علم و فضل کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔“[8] شعبہ بن حجاج انھیں سید المحدثین کہتے تھے اور ابن ناصر الدین قابل اعتماد متقین قرار دیتے تھے۔ ابن علیہ کی روایات میں کوئی خطا نہیں پائی گئی۔ یزید بن ہارون کہا کرتے تھے کہ ”میں بصرہ گیا تو مجھ کو وہاں کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا جس کو فن حدیث میں ابن علیہ سے افضل سمجھا جاتا ہو۔“[8] قتیبہ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ”عام طور پر حفاظ چار شمار کیے جاتے تھے۔ اسماعیل بن علیہ، عبد الوارث، یزید بن زریع، وہیب۔“ جرح و تعدیل کے شہرہ آفاق یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ ”ابن علیہ ثقہ، سچے متقی اور قابل اعتماد تھے۔“[6]

جلالت علمی[ترمیم]

ابن علیہ کی عظمت اور جلالت شان کا یہ عالم تھا کہ کبار محدثین روایت حدیث میں ان کی مخالفت کرتے ڈرتے تھے۔ عفان بن مسلم الصفار بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دن ہم لوگ حماد بن سلمہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے کوئی حدیث پڑھی اور اس میں ان سے خطا ہو گئی۔ کسی شخص نے ان سے کہا کہ اس حدیث میں آپ کی مخالفت کی گئی ہے، دریافت کیا: کس نے مخالفت کی ہے؟ جواب ملا حماد بن زید نے۔ ابن سلمہ یہ سن کر خاموش ہو گئے اور کوئی توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد حاضرین مجلس میں کسی نے کہا ابن علیہ بھی تو اس حدیث میں آپ کے مخالف ہیں۔ یہ سنتے ہی ابن سلمہ کھڑے ہو گئے اور گھر میں تشریف لے گئے، پھر باہر آکر فرمایا کہ تو بس اس حدیث میں ابن علیہ کا قول ہی معتبر ہے۔“[6] احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ”جب مالک بن انس کی وفات ہوئی تو اللہ نے میرے لیے سفیان بن عیینہ کو ان کی جگہ عنایت کر دیا۔ پھر جب حماد بن زید کا انتقال ہوا تو خدا نے ان کا قائم مقام میرے لیے ابن علیہ کو بنا دیا۔“[9][6] یعنی ابن علیہ امام احمد کے خاص اساتذہ میں ہیں۔

ایک شخص نے عرض کیا کہ ابن علیہ تو مجاہد سے مروی جانتے ہیں۔ یزید بن ہارون نے سن کر کچھ التفات نہیں کیا اور پھر ”خرجہ علی“ کا اعادہ فرمایا۔ اصل میں وہ غلط فہمی سے ابن علیہ کو ابن عیینہ سمجھے۔ اس لیے شخص مذکور نے زور دار انداز میں ابن علیہ کا نام لیا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب یزید بن ہارون کے کانوں میں ابن علیہ کا نام آیا تو سخت پریشان ہوئے اور دو مرتبہ ابن علیہ ابن علیہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔[6]

قوت حافظہ اور فہم حدیث[ترمیم]

ابن عُلیہ زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے ہم درسوں میں فہم حدیث کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ حاتم بن وردان کا بیان ہے کہ یحییٰ، اسماعیل، وہیب، عبد الوہاب، یہ چاروں ایک ساتھ ایوب السختیانی کی مجلس درس میں شریک ہوتے تھے۔ درس سے فارغ ہو کر جب یہ اٹھتے تو سب اسماعیل بن علیہ کے گرد جمع ہو جاتے اور شیخ کی روایتوں کے بارے میں ان سے سوال کرتے کہ یہ روایت کس طرح کی ہے، اس بارے میں شیخ کیا کہا اور اس سے شیخ کی کیا مراد تھے؟ اسماعیل ان سب کا جواب دیتے تھے۔[3] ابن علیہ اپنا سارا ذخیرہ روایت سفینوں کی بجائے سینہ میں محفوظ رکھتے تھے۔ محدث وہیب بن خالد بن عجلان کا قول ہے کہ ”اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) کا حفظ اور عبد الوہاب کی کتابیں دونوں برابر ہیں۔“ زید بن ایوب کہتے ہیں کہ ”میں نے ابن علیہ کے پاس کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، لیکن اس کے باوجود تثبت و اتقان کا یہ عالم تھا کہ ان سے کوئی غلطی سر زد نہیں ہوتی تھی۔“

جرح[ترمیم]

ابن علیہ کی تحدیث و روایت کی توصیف و تعریف کرتے ہوئے دارمی نے اتنی جرح کی ہے کہ ابن علیہ کی کوئی غلطی اس کے علاوہ نہیں معلوم ہو سکی کہ جابر سے انھوں نے تدبیر غلام کی جو روایت کی ہے اس میں غلام کے نام مولٰی کا نام دیا ہے اور مولٰی کے نام کو غلام کا۔[3]

شیوخ و اساتذہ[ترمیم]

ابن علیہ نے بکثرت علمی سرچشموں سے اکتسابِ فیض حاصل کیا، جس میں اکابر تابعین شامل ہیں۔ مشاہیر اساتذہ کے نام یہ ہیں۔ ایوب سختیانی، علی بن جد بن عان، محمد بن المکندر، عبد اللہ بن ابی نجیح، عطاء بن سائب، حمید طویل،[10] عبد العزیز بن صہیب، ابن عون، سلیمان التیمی، داؤد بن ابی ہند، سہیل بن صالح، لیث بن ابی سلیم،[5] یزید بن حمید، عبد اللہ بن عوف،[11] عاصم الاحول، ابو ریحانہ سعدی، سعید بن ایاس جریری، معمر بن راشد، یونس بن عبید۔[12]

تلامذہ[ترمیم]

ابن علیہ کے منبع علم سے بھی بکثرت تشنگان علم سیراب ہوئے۔ ان کے حلقہ تلامذہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں آسمان علم و فضل کے کیسے درخشاں تارے شامل ہیں۔ ممتاز تلامذہ یہ ہیں۔ ابراہیم بن طہمان، حماد بن زید، عبد الرحمن بن مہدی، اَحمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، زہیر بن حرب، داؤد بن رشید، احمد بن منیع، محمد بن بشار، محمد بن عبد اللہ المثنیٰ، یعقوب الدورقی، حسن بن عرفہ،[11] موسیٰ بن سہل، اسحاق بن راہویہ،[5] ابن وہب، ابو معمر اسماعیل الہذلی، ابو خیثمہ، ابن ابی شیبہ، علی بن حجر السعدی، ابن المنیر۔[13]

ان کے علاوہ ابن جریج اور شعبہ بن حجاج جیسے اکابر اتباع تابعین نے بھی ابن علیہ سے روایت حدیث کی ہے۔ درآنحالیکہ یہ دونوں ان کے شیوخ شمار کیے جاتے ہیں۔ شمس الدین ذہبی اور ابن حجر عسقلانی نے موسیٰ بن سہیل بن کثیر الوشا کو ابن علیہ کا آخری شاگرد بتایا ہے۔[5]

فقہ[ترمیم]

حدیث کی طرح ابن عُلیہ کو فقہ میں بھی تجر اور کمال حاصل تھا۔ شعبہ بن حجاج انھیں ریحانۃ الفقہاء کہا کرتے تھے۔[12]

عہدہ قضا[ترمیم]

فقہی مہارت اور تجر علی کی وجہ سے متعدد عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ چنانچہ ان کو سب سے پہلے بصرہ کی صدقات کا انتظام سپرد کیا گیا۔ پھر بغداد کے محکمہ فوجداری کے ذمہ دار مقرر ہوئے اور آخر میں بغداد کے منصبِ قضاء سے سرفراز ہوئے، لیکن زیادہ عرصہ تک اس منصب پر قائم نہیں رہے۔ عبد اللہ بن مبارک کی ناخوشی کا علم ہوتے ہی اس عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔[14][15] یحییٰ بن شرف نووی کی رائے ہے کہ پہلے یہ بصرہ کے صدقات و زکوٰۃ کے والی بنائے گئے، پھر ہارون الرشید، کے آخری دور میں بغداد کے قاضی بنائے گئے۔[12]

عبادت اور خوف خدا[ترمیم]

ابن علیہ کو قرآن کی تلاوت اور عبادت سے بے حد شغف بلکہ عشق تھا۔ علی بن المدینی نے ایک رات ان کے ساتھ بسر کی تو انھوں نے دیکھا کہ ابن علیہ نے سی شب تہائی قرآن کی تلاوت کی۔ عفان کا بیان ہے کہ ابن علیہ کا شمار ان کے عہدِ شباب سے ہی بصرہ کے عبادت گزاروں میں ہوتا تھا۔ زہد و اتقاء اور احساسِ آخرت اس دور کی عام خصوصیت تھی، ابن علیہ بھی ان صفات میں زمرہ تابعین میں نمایاں تھے۔ عبد اللہ بن مبارک کا ان کی طرف میلان اور پھر ان کی مدد کرنا خود اس بات کا واضح ثبوت ہے، پھر ابن مبارک کی تنبیہ پر ان کا استعفی دے دینا غایت تقویٰ کی دلیل ہے۔ ابن علیہ بلاشبہ ”فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیراً“ کی مجسم تصویر تھے۔ان کی خشیت الہی کا یہ عالَم تھا کہ برسوں وہ ہنسے نہیں۔ ان کے تلامذہ کا بیان ہے کہ جب سے وہ بصرہ کے والی بنائے گئے، انھیں کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

فتنہ خلق قرآن اور ابن علیہ[ترمیم]

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن علیہ خلق قرآن کے قائل تھے، اگرچہ ان کے کسی قول سے ان کی صراحت نہیں ملتی، تاہم بعض ملفوظات میں اس خیال کی تائید ضرور کرتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن ابن علیہ ہارون الرشید کے بیٹے امین الرشید کے پاس گئے تو محمد امین نے ان کو برا بھلا کہا اور پھر پوچھا کہ ”آپ خلق قرآن کے قائل ہیں؟“ ابن علیہ نے اس پر ندامت کا اطہار کرتے ہوئے کہا ”میں آپ پر قربان جاؤں، یہ ایک عالِم کی لغزش ہے۔“

اس واقعہ کی شہرت نے ابن علیہ کے بعض معتقدین کے دل میں بھی ان کی طرف سے تکدر پیدا کر دیا تھا۔ لیکن خطیب بغدادی نے اس واقعہ کی تردید لکھتے ہیں کہ ابن علیہ سے خلقِ قرآن کے عقیدہ کی نسبت صحیح نہیں ہے۔ عبد الصمد بن یزید مردویہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن علیہ سے خود سنا ہے کہ ”قرآن کلام اللہ ہے مخلوق نہیں۔“ شمس الدین ذہبی کا رجحان ادھر ہی معلوم ہوتا ہے۔

وفات[ترمیم]

جمعرات کے دن 25 یا 24 ذیقعدہ 193ھ کو وفات پا گئے۔[16] جنازہ کی نماز ان کے بیٹے ابراہیم نے پڑھائی۔[12] اور بغداد کے عبد اللہ بن مالک قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR — مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام —  : اشاعت 15 — جلد: 1 — صفحہ: 32
  2. تہذیب الاسماء واللغات از یحییٰ بن شرف نووی، ج 1، 120
  3. ^ ا ب پ ت ٹ تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 232
  4. شذرات الذہب از ابن عماد الحنبلی، ج 1، ص 333
  5. ^ ا ب پ ت تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین ذہبی، ج 1، ص 295
  6. ^ ا ب پ ت ٹ تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 1، ص 276
  7. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 234
  8. ^ ا ب تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 230
  9. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 221
  10. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 233
  11. ^ ا ب تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 229
  12. ^ ا ب پ ت تہذیب الاسماء واللغات از یحییٰ بن شرف نووی، ج 1، ص 120
  13. تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 1، 275
  14. تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 1، ص 278
  15. تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 235  – 236
  16. شذرات الذہب از ابن عماد الحنبلی، ج 1، ص 233