اصحاب حجر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اصحاب حجر کا تذکرہ قرآن کریم کے چودہویں پارے میں سورہ حجر میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ یقیناً اصحاب حجر (پتھر والوں) نے رسولوں کو جھٹلایا، مفسرین کی یہ رائے ہے کہ اصحاب حجر، قوم ثمود ہے۔

اس نام کی وجہ[ترمیم]

قوم ثمود کے متعلق تاریخ کے صفحات میں یہ درج ہے کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر اپنے لیے رہائشی مکان تعمیر کرتے تھے۔

مختصر تعارف[ترمیم]

قوم ثمود کا وطن، مکہ اور ملک شام کے درمیان ایک علاقہ تھا۔ قوم ثمود کی ہدایت کے لیے الله تبارک و تعالٰی نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کے درمیان مبعوث فرمایا وہ لوگ بہت طاقتور تھے۔ لمبے تڑنگے اور خوبصورت تھے لیکن ایمان سے محروم تھے چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو ایمان کی دعوت دی اور ایک الله کی عبادت کرنے کے لیے کہا تو ان لوگوں نے ان کو جھوٹا کہا۔

اونٹنی[ترمیم]

ان کے جھٹلانے کے باوجود حضرت صالح علیہ السلام ان کو توحید کی دعوت دیتے رہے تو ایک دن ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ سچ میں الله کے نبی ہو تو اللہ سے کہو کہ پہاڑ میں سے ایک ایسی اونٹنی پیدا کرے جو حاملہ ہو چنانچہ الله تعالٰی نے یہ معجزہ بھی ان کو دکھلا دیا اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالی کے معجزے سے جو اونٹنی پیدا ہوئی تھی اس نے اس تالاب کا سارا پانی پی لیا جس سے قوم ثمود کے مویشی سیراب ہوتے تھے۔ اور قوم کو پریشانی ہونے لگی چنانچہ ان لوگوں نے چاہا کہ اس اونٹنی کو قتل کر دے تو حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو الله کے عذاب سے ڈرایا اور یہ باری لگا دی کہ ایک دن حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیئے گی اور ایک دن قوم ثمود کے مویشی پانی پیئینگے۔ لیکن اس کے باوجود ایک دن ایک شخص نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو تیر سے ہلاک کر دیا

اللہ کا عذاب[ترمیم]

قوم ثمود کے متعلق آتا ہے کہ جب سرکشی کی انتہا کر دی تو الله تعالٰی نے عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ الله تعالٰی نے قوم ثمود ایک خطرناک (چنگھاڑ) آواز کے ذریعے سے ہلاک کیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

[1]

  1. تفسیر قرطبی، سورہ الحاقہ، پارہ ٢٩ سورہ الحجر، پارہ ١٤