اصحاب کہف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اصحاب کہف کی تمثیلی
اصحاب کہف کی تمثیلی
اصحاب کہف کی تمثیلی

اصحاب کہف کو غار کے لوگ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن پاک کی اٹھارویں سورہ کہف میں بھی آیا ہے۔

رقیم[ترمیم]

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا الرقیم۔ حضرت مرہؒ سے الرقیم کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : کعب کا خیال ہے کہ یہ وہ گاؤں ہے جس سے وہ اصحاب نکلے تھے۔ حضرت مجاہدؒ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وادی ہے۔ اور حضرت سدی ؒ نے کہا ہے کہ الرقیم سے مراد وہ چٹان ہے جو اس غار پر تھی۔ اور ابن زیدؒ نے کہا ہے : الرقیم وہ کتاب ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہم پر غالب کر دیا، لیکن اس کے واقعہ کی ہمارے سامنے وضاحت نہ کی اور ایک گروہ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وہ تحریر ہے جو تانبے کی تختی میں لکھی ہوئی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : تانبے کی ایک تختی میں قوم کفار نے ان نوجوانوں کا واقعہ لکھا تھا جو ان سے بھاگے تھے اور انھوں نے اسے ان کی تاریخ بنا دیا، انھوں نے ان کے گم ہونے کا وقت ذکر کیا، ان کی تعداد ذکر کی ہے کہ وہ کتنے تھے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ کون تھے ؟ اور اسی طرح فراء نے کہا ہے، انھوں نے بیان کیا ہے : رقیم تانبے کی ایک تختی ہے جس میں ان کے اسماء ان کے نسب، ان کا دین اور جس سے وہ بھاگے تھے سب لکھا ہوا تھا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسی قوم سے تھے جو واقعات اور حوادث کی تاریخ لکھتے تھے اور یہ مملکت کی فضیلت ہے اور یہ مفید کام ہے۔ اور یہ اقوال الرقیم سے ماخوذ ہیں اور اسی سے “ کتاب مرقوم ” ( لکھی ہوئی کتاب) ہے۔ [1]

اصحاب کہف کون تھے[ترمیم]

یہ چند نوجوان ایک ظالم بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں تھے، بادشاہ غالی متعصب اور بت پرست تھا اور جبرو اکراہ کے ذریعہ بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا ان نوجوانوں نے سچادین قبول کر لیا تھا، ان نوجوانوں کا تعلق اونچے گھرانوں اور عمائدین سلطنت سے تھا، حق تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے نوازا تھا، یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں علما کا اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ دین مسیحی پر تھے، لیکن علامہ ابن کثیرؒ نے مختلف قرائن سے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ ۔ غرض کہ ان نوجوانوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا ان نوجوانوں نے بے جھجک بغیر کسی خوف وہراس کے ظالم بادشاہ کے روبرو اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور اپنی ایمانی جرأت سے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا، ارشاد ربانی ہے " اور ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ دربار میں بادشاہ کے روبرو جواب دہی یا دعوت دین دینے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، تو انھوں نے اپنے پروردگار سے یوں دعا کی، اے ہمارے پروردگار تو ہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی غیر کی بندگی نہ کریں گے اور اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً ہم بہت بے جا بات کرنے والے ہوں گے۔ یہ ہماری قوم جو معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے فرضی معبودوں کو اختیار کیے ہوئے ہے۔یہ ان کے معبود حقیقی ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتی ؟ لہٰذا اس سے بڑا ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ پر بہتان باندھے نوجوانوں کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ان کی نوجوانی پر کچھ رحم آیا اور کچھ دیگر مشاغل مانع ہوئے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عمائدین سلطنت اور بڑے گھرانوں کے چشم چراغ تھے اس لیے یک لخت ان پر ہاتھ ڈالنا مصلحت کے خلاف تھا اس لیے ان کو چند روز کی مہلت دے دی، تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کر لیں۔ ادھر یہ نوجوان دربار سے نکل کر مشورہ کے لیے بیٹھ گئے اور یہ طے کیا کہ اب اس شہر میں قیام خطرہ سے خالی نہیں، مناسب یہ ہے کہ کسی قریبی غار میں روپوش ہوجائیں اور واپسی کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کریں۔ [2]

باہمی مشورہ کرکے غار میں داخل ہوجانا[ترمیم]

اصحاب کہف جب اپنی قوم سے جدا ہوئے اور ان لوگوں کو چھوڑ کر بالکل علاحدہ ہو گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ تم نے اپنی قوم کو چھوڑا ان کے باطل معبودوں سے گریز کیا اور یہ معلوم ہے کہ دوبارہ انھیں میں واپس ہونے اور اپنے گھروں کو لوٹنے میں خیر نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ پھر اپنا دین اختیار کرنے پر مجبور کریں گے لہٰذا اب ہمیں کسی غار میں ٹھکانا پکڑ لینا چاہیے، آپس میں مشورہ سے یہ بات طے تو ہوئی لیکن انسانی ضروریات کا سوال بھی پیش نظر تھا کہ غار میں رہیں گے تو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا کیا بنے گا ؟ اس سوال کو حل کرنے کے لیے آپس میں یوں کہنے لگے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید رکھنی چاہیے ان شاء اللہ تعالیٰ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا اور وہ ہم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور جس مقصد خیر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے نکلے ہیں اس کے لیے آسانیاں پیدا فرما دے گا، باہمی مشورہ سے غار میں جانا طے ہوا اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید باندھ لی اور غار میں داخل ہو گئے۔غار میں داخل ہونے کے بعد ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو گے۔ [3]

غار کی کیفیت، سورج کا کترا کر جانا کتے کا ہاتھ بچھا کر بیٹھا رہنا[ترمیم]

ان آیات میں اصحاب کہف کی حالت کا بیان فرمایا ہے جو غار میں داخل ہونے کے بعد پیش آئی، یہ لوگ غار کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پہنچ کر لیٹ گئے، اس غار کی جائے وقوع اس طرح سے تھی کہ روزانہ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں چھپ جاتا تھا لیکن اس کی دھوپ ان پر نہیں پڑتی تھی جب سورج نکل کر چڑھتا تھا اور دھوپ پھیلتی تھی تو غار کی داہنی جانب سے اس طرح ہٹی ہوئی رہ جاتی تھی کہ اس کے دروازہ تک نہ پہنچتی تھی اور جب سورج چھپنے لگتا تھا تو اس وقت جو تھوڑی بہت دھوپ ہوتی ہے وہ غار کی بائیں جانب رہ جاتی تھی یعنی اس وقت بھی دروازہ پر دھوپ نہ پڑتی تھی۔ اصحاب کہف کے اندر رہنے کی کیفیت بتا کر ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا اپنی قوم سے جدا ہونے میں انھوں نے ہمت اور جرات سے کام لیا پھر اللہ کے توکل پر غار میں داخل ہو گئے اور اللہ سے رحمت کی امید باندھ لی اور اللہ کی طرف سے آسانی حاصل ہونے کی آرزو کرتے ہوئے غار میں چلے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، اس نے دل بھی پکا کیا ہمت بھی دی مخلوق سے کٹنے کا حوصلہ بھی دیا انھوں نے اسباب ظاہرہ پر نظر نہ کی، اپنے مولائے حقیقی پر توکل کرکے غار میں داخل ہو گئے اللہ تعالیٰ نے انھیں غار بھی وہ نصیب فرمایا جس میں دھوپ کا گذر ہی نہ تھا اگر دھوپ پڑتی تو اس سے تکلیف پہنچنے اور گرمی سے پریشان ہونے کا اندیشہ تھا۔[4]

اصحاب کہف کی دوسری حالت اور کیفیت[ترمیم]

(وَّ نُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَات الشِّمَالِ ) (اور ہم انھیں پلٹ رہے تھے داہنی جانب اور بائیں جانب) چونکہ وہ لوگ ایک بہت بڑی مدت تک سوتے رہے اور ان کے جسم زمین ہی سے لگے ہوئے تھے لہٰذا زمین کے اثر سے محفوظ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بدل دیتا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر زمین سے کوئی چیز عرصہ دراز تک لگی رہے (خاص کر گوشت پوست والا جسم) تو وہ اسے کھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یوں بھی قدرت ہے کہ الٹ پلٹ کیے بغیر ان کے اجسام کو محفوظ فرماتا لیکن حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ان کی کروٹیں بدلی جاتیں۔ [5] حضرت ابن عباس (رضی اللّٰہ عنہ) سے نقل کرتے ہیں کہ ان کو سال میں ایک مرتبہ ایک جانب سے دوسری جانب پلٹ دیا جاتا تھا اور حضرت ابوہریرہ (رضی اللّٰہ عنہ) نے فرمایا کہ سال میں دو بار ان کو داہنی جانب سے بائیں جانب اور بائیں جانب سے داہنی جانب پلٹ دیا جاتا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں کوئی چیز مروی نہیں حضرات صحابہ (رضی اللّٰہ عنم) سے جو کروٹیں بدلنے کی مدت کے بارے میں جو کچھ مروی ہے بظاہر اسرائیلی روایات ہیں۔[6]

اصحاب کہف کا نیند سے اٹھ کر اپنے ایک ساتھی کو شہر کی طرف بھیجنا[ترمیم]

اصحاب کہف کا بیدار ہونا : تفسیر قرطبی میں اس کا مختصر قصہ اس طرح لکھا ہے : جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف شہر سے نکلے تھے اس کا نام دقیانوس تھا اور ظالم اور مشرک تھا وہ مرچکا تھا اور اس پر صدیاں گذر گئیں تھیں اور جس زمانہ میں اصحاب کہف بیدار ہوئے تھے شہر پر اہل حق کا قبضہ تھا اور ان کا بادشاہ ایک نیک صالح آدمی تھا جس کا نام بیدوسیس تھا (مظہری) قیامت کے بارے میں اور مردوں کو زندہ ہونے کے بارے میں شدید اختلاف چل رہا تھا ایک فرقہ اس بات کا قطعاً منکر تھا کہ جسم کے گلنے سڑنے اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہوجائے گا، بادشاہ ان گمراہ لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند تھا کہ کس طرح ان کے شکوک و شبہات دور کیے جائیں جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ التجا کی کہ خدایا آپ ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ درست ہوجائے اور یہ راہ راست پر آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اصحاب کہف بیدار ہوئے، بیدار ہونے کے بعد ان میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ہم کتنی مدت سوئے ہیں ؟ کوئی کہتا تھا کہ ایک دن سوئے ہوں گے دوسرا کہنا کہ ایک دن سے بھی کم سوئے ہوں گے، بحث نے جب طول پکڑا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا اس فضول بحث کو چھوڑو اور کام کی بات کرو بھوک لگ رہی ہے لہٰذا کچھ کھانے پینے کی بات کرو، چنانچہ انھوں نے اپنے ایک شخص کو جس کا نام تملیخا بتایا جاتا ہے بازار میں کھانا لانے کے لیے بھیج دیا اور یہ تاکید کردی کہ ہو شیاری اور بیدار مغزی سے کام لے اور کسی کو ہماری خبر نہ ہونے دے اور اس بات کا بھی خیال رکھے کہ کھانا حلال اور پاکیزہ ہو اس لیے کہ اہل شہر کی اکثریت بت پرستوں کی ہے ایسا نہ ہو کہ غیر شرعی طور پر ذبح کیا ہو، چنانچہ تملیخا نے ایک دکان سے کھانا خرید کر تین سو سال پہلے کا سکہ نکال کر دکان دار کو دیا تو دکان دار حیران رہ گیا کہ یہ سکہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ؟ بازار کے دیگر دکانداروں کو بھی دکھلایا سب نے یہ کہا کہ اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے، اس شخص نے انکار کیا کہ مجھے کوئی خزانہ نہیں ملا بلکہ یہ روپیہ میرا ہے، بات بڑھ گئی بازار والوں نے اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا، یہ بادشاہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ نیک صالح اور اللہ والا تھا اور اس نے سلطنت کے خزانہ میں وہ تختی بھی دیکھی تھی جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے فرار ہونے کا واقعہ لکھا ہوا تھا بادشاہ نے اس تختی کی روشنی میں حالات کی تحقیق کی تو اس کو اطمینان ہو گیا کہ یہ انہی لوگوں میں سے ہے، بادشاہ نے کہا میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے لوگوں سے ملا دے جو قیانوس کے زمانہ میں اپنے ایمان بچا کر بھاگے تھے، بادشاہ اس سے بہت خوش ہوا اور کہا شاید اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما لی ہے اور اس شخص سے کہا کہ ہم کو اس غار پر لے چلو جہاں سے تم آئے ہو، بادشاہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ غار پر پہنچا اور جب غار قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں میں جا کر اپنے ساتھیوں کو حقیقت حال سے باخبر کر دوں تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں، اس کے بعد روایات میں اختلاف ہے، ایک روایت میں یہ ہے کہ تملیخا نے غار میں جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے کہ اب بادشاہ مسلمان ہے اور قوم بھی مسلمان ہے وہ سب ملاقات کے لیے آئے ہیں، اصحاب کہف اس خبر سے بہت خوش ہوئے اور بادشاہ کا استقبال کیا پھر وہ اپنے غار میں واپس چلے گئے، اکثر روایات میں یہ ہے جس وقت اس ساتھی نے غار میں پہنچ کر باقی حضرات کو یہ پورا واقعہ سنایا اسی وقت سب کی وفات ہو گئی بادشاہ سے ملاقات نہ ہو سکی، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ملاقات کے بعد اصحاب کہف نے بادشاہ اور اہل شہر سے کہا اب ہم آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے اسی وقت اللہ نے ان کو وفات دے دی، واللہ اعلم بالصواب۔ [7] بہرحال جب اہل شہر کے سامنے قدرت الٰہی کا یہ عجیب واقعہ ظاہر ہو گیا تو سب کو یقین ہو گیا جس ذات کی قدرت میں یہ داخل ہے کہ تین سو سال تک انسانوں کو بغیر غذا اور دیگر سامان زندگی کے زندہ رکھ سکتا ہے اور طویل عرصہ تک سلانے کے بعد پھر صحیح سالم قوی اور تندرست اٹھا سکتا ہے تو اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کو مع اجسام کے زندہ کر دے، اس واقعہ سے ان کے انکار کا سبب دور ہو گیا کہ حشر اجساد کو مستبعد اور خارج از قدرت سمجھتے تھے اب معلوم ہوا کہ مالک الملکوت کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کرنا خود جہالت ہے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا لِیَعْلَمُوْا أنَّ وَعْدَ اللہِ حق وَأنَّ السَّاعَۃَ لاَ رَیْبَ فیہِ ۔ اس واقعہ کے بعد شہر والے اصحاب کہف کی بزرگی اور تقدس کے قائل ہو گئے تھے، اب ان میں اس بات میں اختلاف ہوا کہ ان کی یادگار کے طور پر غار پر کیا بنایا جائے ؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ غار کے پاس کوئی یادگاری عمارت تعمیر کردی جائے کہ جو لوگوں کے لیے تفریح گاہ بھی ہو اور ان بزرگوں کے لیے یادگار بھی اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک مسجد تعمیر کردی جائے تاکہ زائرین کے لیے سہولت ہو اور ان اہل اللہ کو اجر بھی پہنچے۔ مسئلہ : اگر کسی نیک آدمی کی قبر پر زائرین بکثرت آتے ہوں تو ان کے قیام اور نماز نیز دیگر سہولتوں کے لیے قریب میں مسجد بنانا جائز ہے بشرطیکہ وقف قبرستان میں نہ بنائی جائے اور جن احادیث میں انبیا کی قبروں پر مسجد بنانے پر لعنت آئی ہے ان سے مراد خود قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہے جو بالاتفاق شرک اور حرام ہے۔ [8]

غار میں سونے کی مدت[ترمیم]

سورہ کہف کی پچیس آیت میں جو غار میں سونے کی مدت تین سو نو سال بتلائے ہیں، ظاہر نسق قرآن سے یہی ہے کہ یہ بیان مدت حق تعالیٰ کی طرف سے ہے ابن کثیر نے اسی کو جمہور مفسرین سلف، خلف کا قول قرار دیا ہے، ابوحیان اور قرطبی وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، مگر حضرت قتادہ وغیرہ سے اس میں ایک دوسرا قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ تین سو نو سال کا قول بھی انہی اختلاف کرنے والوں میں سے بعض کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول صرف وہ ہے جو بعد میں فرمایا یعنی اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کیونکہ پہلا قول تین سو نو کے متعین کرنے کا اگر اللہ کا کلام ہوتا تو اس کے بعد اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کہنے کا موقع نہ تھا، مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں پہلے میں حقیقت واقیہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدت کا بیان آ گیا تو اب اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، وہی جاننے والا ہے، محض تخمینوں اور رایوں سے اس کی مخالفت بے عقلی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بیان مدت میں پہلے تین سو سال بیان کیے اس کے بعد فرمایا کہ ان تین سو پر نو اور زیادہ ہو گئے، پہلے ہی تین سو نو نہیں فرمایا اس کا سبب حضرات مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہود و نصاری میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس کے حساب سے تین سو سال یہ ہونے ہیں اور اسلام میں رواج قمری سال کا ہے اور قمری حساب میں ہر سو سال پر تین سال بڑھ جاتے ہیں، اس لیے تین سو سال شمسی پر قمری حساب سے نو سال مزید ہو گئے، ان دونوں سالوں کا امتیاز بتانے کے لیے عنوان تعبیر یہ اختیار کیا گیا۔ [9]

اصحاب کہف کی تعداد[ترمیم]

اصحاب کہف کی تعداد میں اختلاف کرنے والوں میں دو احتمال ہیں، اول یہ کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کا اختلاف اصحاب کہف کے زمانہ میں ان کے نام ونسب کے بارے میں ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے (کمافی البحر) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سیقولون کی ضمیر نصاریٰ نجران کی طرف راجع ہو جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کیا یعنی تین کا عدد بتایا اور دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا اس نے دو سرا قول یعنی پانچ ہونا بتایا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول یعنی سات ہونا اختیار کیا، بعض حضرات جن میں مفسر علام بھی شامل ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا اور پہلے دونوں نصاریٰ نجران کے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اور قرآن کریم کے اشارہ سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوتا ہے۔ [10] حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں ان کم لوگوں میں سے ہوں کہ جن کو اصحاب کہف کی صحیح تعداد معلوم ہے، اصحاب کہف سات تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دونوں قول رجماً بالغیب فرما کر رد کر دیے ہیں اور تیسرے قول کی تردید نہیں فرمائی۔ وثامنھم کلبھم قرآن کریم نے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں تین قول نقل کیے ہیں، تین، پانچ، سات اور ہر ایک کے بعد کتے کو شمار کیا گیا ہے ۔[11]

بعض روایتوں کے مطابق عیسائیوں کا ایک فرقہ، جو یعقوبیوں کے نام سے موسوم تھا، وہ اصحاب کہف کی تعداد کو تین بتاتا تھا جبکہ نستوری فرقہ ان اصحاب کی تعداد پانچ اور چھٹا ان کے کتے کو قرار دیتا تھا۔ قرآن نے ان قیاس آرائیوں کو (رجما بالغیب) قرار دے کر یہ بات صاف کر دی ہے کہ اس قسم کی گفتگو غایت وحی سے تعلق نہیں رکھتی[12]۔

اصحاب کہف کے نام[ترمیم]

تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کیے گئے ہیں ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم الکبیر میں بسند صحیح بیان کیا ہے میری تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ صحیح نام معلوم ہوتے ہیں۔(1)مکسلمینا (2)تملیخا، (3)مشلینا، (4)مرنوش، (5)دبرنوش، (6)شاذنوش اور چڑواہے کا نام (7)کعسطیطیونس تھا۔کتے کا نام قطمیر تھا۔شہر کانام افسوس تھا۔اور پھر جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبد اللہ عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ ہیں : (١) مُکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیْخَا (٣) مَرْطُوْنَسْ (٤) سَنُوْنَسْ (٥) سَارِیْنُوتَسْ (٦) ذُو نَوَاس (٧) کَعَسْطَطْیُوْنَس۔ اسماء اصحاب کہف بعض حضرات نے یہ بتائے ہیں، جیسا کہ صاوی و حاشیہ علی الجلالین میں مذکور ہیں : (١) مَکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیخَا (٣) مَرْطونَسْ (٤) نَیْنُوْنَسْ (٥) سَارْبُولَسْ (٦) ذُونواس (٧) فَلْیَسْتطیُونَسْ ، یہ آخری شخص چرواہا تھا جو راستہ سے ساتھ ہو گیا تھا اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جس کا نام قطمیر بتایا گیا ہے ۔[13]۔[14] جبکہ معجم الاوسط میں ابن عباس ؓ کا قول نقل ہے۔ أَنَا مِنْ أُولَئِكَ الْقَلِيلِ مكسمليثا، وَتمليخا وَهُوَ الْمَبْعُوثُ بِالْوَرِقِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَمرطولس، وَيثبونس، وَذرتونس، وَكفاشطيطوس، وَمنطنواسيسوس وَهُوَ الرَّاعِي وَالْكَلْبُ اسْمُهُ قِطْمِيرُ[15] [16]

غار کا مقام[ترمیم]

امام تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بروایت عوفی حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رقیم ایک وادی کا نام ہے جو فلسطین سے نیچے ایلہ (عقبہ) کے قریب ہے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور چند دوسرے محدثین نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ رقیم کیا ہے، لیکن میں نے کعب احبار سے پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ رقیم اس بستی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف غار میں جانے سے پہلے مقیم تھے [17]

اصحاب کہف غار اردن شہر امان (Amman)

ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ رومیوں کے مقابلے میں ایک جہاد کیا جس کو غزوۃ المضیق کہتے ہیں، اس موقع پر ہمارا گذر اس غار پر ہوا جس میں اصحاب کہف ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے حضرت معاویہ ؓ نے ارادہ کیا کہ غار کے اندر جائیں اور اصحاب کہف کی لاشوں کا مشاہدہ کریں، مگر ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مشاہدہ کرنے سے اس ہستی کو بھی منع کر دیا ہے جو آپ سے بہتر تھی، یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کیونکہ حق تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا (آیت) لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا (یعنی اگر آپ ان کو دیکھیں تو آپ ان سے بھاگیں گے اور رعب وہیبت سے مغلوب ہوجائیں گے) مگر حضرت معاویہ ؓ نے ابن عباس ؓ کی اس بات کو شاید اس لیے قبول نہیں کیا کہ قرآن کریم نے ان کی جو حالت بیان کی ہے یہ وہ ہے جو ان کی زندگی کے وقت تھی یہ کیا ضروری ہے کی اب بھی وہی حالت ہو، اس لیے کچھ آدمیوں کو دیکھنے کے لیے بھیجا، وہ غار پر پہنچے، مگر جب غار میں داخل ہونا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت ہوا بھیج دی جس نے ان سب کو غار سے نکال دیا [18] مذکور الصدر روایات و حکایات سے اتنی بات ثابت ہوئی کہ حضرات مفسرین میں سے جن حضرات نے اصحاب کہف کے غار کی جگہ کا پتہ دیا ہے ان کے اقوال تین مقامات کا پتہ دیتے ہیں، ایک خلیج فارس کے ساحل عقبہ (ایلہ) کے قریب، حضرت ابن عباس ؓ کی بیشتر روایات اسی کی تائید میں ہیں، جیسا کہ مذکورہ روایات میں گذر چکا ہے۔

بحر میت کے مخطوطات کی روشنی میں[ترمیم]

موجودہ دور کے اسلامی اسکالر اور محقق راشد اقبال شعبہ اسلامی تعلیمات، جامعہ گورنمنٹ کالج لاہور،پاکستان کے مطابق بحر میت کے مخطوطات روشنی میں یہ اصحاب کہف کا تعلق یہودیوں کے اسین طبقہ سے تھا جو اس وقت خالص مسلمان تھے۔ یہ یہودیوں کے گمراہ گمراہ طبقے کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ مروجہ روایت والے بت پرست رومیوں کی بجائے فاریسیوں اور صدوقیوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ ان لوگوں کی اس قربانی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ لوگ عیسیٰ (یسوع) کے حواری تھے جنھوں نے اُسی بھری عدالت میں قاضیوں کے جرائم کو بے نقاب کیا جس عدالت نے یسوع کی مبینہ مصلوبیت کی حمایت کی تھی[19]۔

اصحاب کہف کا دور[ترمیم]

تین ایسے ادوار گذرے ہیں جب فاریسیوں اور صدوقیوں کے علاوہ یہودی قوم کی حالتِ زار ناگفتہ بہ تھی۔ انہی ادوار کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اصحاب الکہف ان ادوار میں سے کسی ایک سے ہو سکتے ہیں۔ پہلا دور یسوع مسیح اور مقدس اسٹیفن کے فوراً بعد کا دور یعنی 34ء سے آگے والا جب یہودی مذہبی افسر شاہی یسوع مسیح کی مبینہ مصلوبیت، اسٹیفن اور جیمز کی سنگساری کے بعد بہت مضبوط تھی۔ دوسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثانیہ، جو مسادا میں ان کی فیصلہ کن شکست سن 74ء پر اختتام پزیر ہوئی، سے آگے کا ہو سکتا ہے اور تیسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثالثہ (وقوع پزیر سنہ 134ء) کے بعد کا ہو سکتا ہے جو دوبارہ یہود کی المناک شکست پر مرتکز ہوا۔ قرآن کے بتائے گئے نیند کے وقت 309 سال کی بنیاد اور بحر المیت کی دستاویزات میں موجود ”نبی حباقوق کی شرح“ میں ظالم شخص اور اس کے جھوٹ اور اسی بات کا تذکرہ قرآن پاک میں ظالم شخص کے جھوٹ کے تقابلی موازنہ سے گمان قوی ہے کہ یہ نوجوان حضرت عیسی کے رفع آسمانی 34ء کے فورا بعد کے زمانے میں غار میں پنا گزین ہوئے اور جب یہ نوجوان بیدار ہوئے تو 339ءسے 400ءکے درمیان کا عرصہ ہو گا۔[19]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تفسیر قرطبی سورہ کہف آیت 9)
  2. (تفسیر جلالین سورہ کہف آیت 13)
  3. (تفسیر انوار البیان سورہ اصحاب کہف آیت 13)
  4. (تفسیر انوار البیان سورہ اصحاب کہف آیت 17)
  5. صاحب معالم التنزیل (صفحہ ١٥٤ ج ٢)
  6. (تفسیر انوار البیان سورہ اصحاب کہف آیت 18)
  7. (قرطبی بحوالہ معارف القرآن ملخصًا)
  8. (تفسیر جلالین سورہ اصحاب کہف آیت 19)
  9. تفسیر معارف القرآن سورہ کہف آیت پچیس
  10. (تفسیر بحر محیط)
  11. (تفسیر جلالین سورہ کہف آیت 21)
  12. راشد شاز۔ ادراک زوال امت، جلد دوم۔ صفحہ: 56 
  13. (تفسیر بیضاوی سورہ کہف)
  14. تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی الکہف20
  15. المعجم الأوسط مؤلف:سليمان بن احمد ابو القاسم الطبرانی ناشر: دار الحرمين -قاہرہ
  16. (تفسیر جلالین سورہ کہف آیت 21)
  17. (تفسیر روح المعانی)
  18. (تفسیر روح المعانی، صفحہ ٢٢٧ ج ١٥)
  19. ^ ا ب اصحاب الکہف کے موضوع پر کی گئی جدید ترین تحقیق[مردہ ربط]