مندرجات کا رخ کریں

اطہر علی (سیاست دان)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اطہر علی (انگریزی: Athar Ali) (پیدائش: 5 مارچ 1961، پنجن کساں، ضلع گجرات، پاکستان) ایک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان ہیں، جنھوں نے ناروے کی بائیں بازو کی ریڈ پارٹی (Red Party) کی نمائندگی کی ہے۔

انھوں نے 1993 سے 1997 کے دوران اوسلو سے نارویجن پارلیمنٹ میں بطور نائب رکن خدمات انجام دیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے پہلے غیر مغربی تارک وطن تھے، جب کہ مکمل طور پر منتخب ہونے والی پہلی اقلیتی رکن افشاں رفیق تھیں۔

اطہر علی اوسلو میونسپلٹی کونسل کے رکن بھی رہے، پہلے 1987 سے 1995 تک اور بعد میں 1999 سے 2003 تک۔ وہ نارویجین امیگرنٹس فورم کے بانی اور سربراہ بھی ہیں، جو تارکینِ وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک اہم ادارہ ہے۔

اطہر علی نے سماجی کام میں تعلیم حاصل کی ہے اور پیشے کے لحاظ سے وہ ایک کلینیکل سوشل ورکر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

سماجی کام میں فعالیت

[ترمیم]

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستانی بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری صرف نارویجین خاندان ہی کیوں کرتے ہیں،پاکستانی خاندان کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ ناروے میں ایک بڑی تعداد پاکستانی بے اولاد جوڑوں کی بھی ہے ۔ اظہر علی نے کہا کہ اکثر پاکستانی بے اولاد جوڑے دوسرے پاکستانی بچے گود لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اپنا بچہ واپس نہ لے لے۔یا پھر کوئی دشمنی نہ بن جائے۔لیکن اس میں نارویجن حکام کی بھی غلطی ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کا ادارہ چلاتے ہیں۔ صرف اخبار میں لے پالک بچوں کے لیے اشتہار دے دینا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستانی والدین کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ ان میں بچہ گود لینے موضوع پر سیمینار یا کورسز ہو سکتے ہیں۔ ان سیمیناروں میںلے پالک بچے کے والدین کو گورمنٹ کی طرف سے دی گئی مراعات ،سہولتوں اور تحفظات کی معلومات ہونی چاہئیں۔اس لیے کہ اگر یہاں ایک مرتبہ کوئی خاندان لے پالک بچہ لیتا ہے تو اسے قانونی تحفظ ملتا ہے۔ بچہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کوئی نہیں لے سکتا۔پھر یہ بچے کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے۔جبکہ وہ پاکستانی بچے جو نارویجن فیملیز کے پاس پلتے ہیں۔ انھیں اپنا ماحول ، مذہب اور زبان نہیں ملتی۔ اس طرح ان کی تربیت صحٰح خطوط پر نہیں ہوتی۔جبکہ بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ بچے کو اس کے خاندانی اور قومی پس منظر کے مطابق ماحول فراہم کرے۔ لیکن جب پاکستانی فیملیز آگے نہیں بڑہیں گی تو وہ مجبور ہو جاتے ہیں۔یہ مسلئہ عدالت میں بھی اٹھایا گیا ہے کہ ایک پاکستانی بچہ غیر پاکستانی منہ بولے والدین کے زیر سائی رہ کر اپنی زبان اور کلچر دو تین برسوں میں بھول جاتا ہے۔[1]


مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. http://www.urdufalak.net/%d8%a7%d8%b7%db%81%d8%b1-%d8%b9%d9%84%db%8c-%d9%86%d8%a7%d8%b1%d9%88%db%8c%d8%ac%d9%86-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%d8%aa-%d8%af%d8%a7%d9%86/#google_vignette