اعجاز ولی خاں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی اعجاز ولی خاں رضوی ا استاذالعلماء،رئیس الفقہاء،مرجع الفضلاء،سندالاتقیاء،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ ہوئے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

اسمِ گرامی: مفتی اعجاز ولی خاں رضوی۔لقب: فقیہ المفخم،استاذالعلماء۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: مفتی محمد اعجاز ولی خاں رضوی بن سردار ولی خاں بن ہادی علی خاں بن رضا علی خاں (جد امجد امام احمد رضا خاں قادری بریلوی)۔

تاریخِ ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت باسعادت 11/ربیع الثانی 1332ھ مطابق 20/مارچ 1914ء کو بریلی شریف میں ہوئی۔

تحصیلِ علم[ترمیم]

امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی سے مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے قرآن مجید شروع کیا اور حافظ عبد الکریم قادری بریلوی سے مکمل کیا۔پھر درسی کتابیں متوسطات تک برادر معظم مفتی تقدس علی خاں شیخ الحدیث جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ سندھ، مختار احمد سلطان پوری اور مولانا الشاہ محمد حسنین رضا خاں بریلوی سے پڑھیں۔ شرح جامی حضور مفتی اعظم علامہ مصطفٰی رضا نوری بریلوی سے اور تفسیر جلالین مولانا سردار علی خاں سے پڑھیں۔ مفتی اعجاز ولی خاں نے حضور مفتی اعظم سے سند حدیث حاصل کی بعد میں محمد حامد رضا بریلوی سے بھی سند حدیث حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے صدر الشریعہ امجد علی رضوی اعظمی سے سند حاصل کی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

مفتی محمد اعجاز ولی خاں سلسلۂ قادریہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری سے بیعت ہوئے اورمفتی اعظم علامہ مولانا مصطفٰی رضا نوری سے سلسلۂ قادریہ رضویہ میں اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے۔

سیرت وخصائص[ترمیم]

مفتی اعجاز ولی خاں رضوی خاندانِ اعلیٰ حضرت مجدد اسلام کے عظیم فرد اور فقیہ العصر تھے۔مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے تکمیل علوم کے بعد این، بی ہائی اسکول بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا،پھر کچھ عرصہ دار العلوم منظر اسلام اور کچھ عرصہ دار العلوم مظہر اسلام (مسجد بی بی جی صاحبہ) بریلی میں پڑھاتے رہے۔1945ء میں مفتی اعجاز ولی خاں مدرسہ منہاج العلوم پانی پت متصل مزار مولانا سید غوث علی شاہ پانی پتی تشریف لے گے اور ایک سال فرائض تدریس انجام دینے کے بعد دار العلوم منظر اسلام بریلی میں چلے آئے۔

تقسیم ملک کے بعد 20/دسمبر 1947ء کو پاکستان آکر جامعہ محمدی شریف جھنگ میں 1951ء تک شیخ الحدیث رہے۔ بعد ازاں کچھ عرصہ دار العلوم اہلِ سنت وجماعت جہلم میں رہے، جون 1954ء میں شیخ الحدیث والفقہ کی حیثیت میں جامعہ نعیمیہ لاہور تشریف لے آئے اور تقریباً چھ سال تک بحسن و خوبی کام کیا۔ مفتی محمد اعجاز ولی خاں 1960ء میں جامعہ نعمانیہ لاہور میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے،

تحریکِ پاکستان[ترمیم]

محمد اعجاز ولی خاں علیہ الرحمۃ 1937ء ہی سے تحریک مسلم لیگ کی حمایت و اعانت فرماتے رہے۔ 1940ء میں جب لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو مفتی محمد اعجاز ولی خاں نے اس کی حمایت میں دارالافتاء رضوی بریلی سے فتویٰ جاری کیا۔ 1945ء اور 1946ء میں مشرقی پنجاب کا دورہ کر کے پاکستان کے لیے فضا ہموار کی۔ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی بنا پر ایک سودن تک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رہے۔ قومی سیاست میں کردار: مفتی محمد اعجاز ولی خاں ابتدا ہی سے جمعیت علمائے پاکستان کے معاون رہے۔ ابو الحسنات کے دور میں مجلس عاملہ کے رکن اور عبدالحامد بدایونی کے دورِ صدارت میں مغربی پاکستان کے صدر رہے۔ خواجہ محمد قمر الدین سیالوی کے دور صدارت میں خازن رہے۔ مئی 1971ء میں جمعیت علماِ پاکستان صوبۂ پنجاب کے صدر مقرر کیے گئے، اورجمعیت علما پاکستان سے وابستگی کی بنا پر منصب شیخ الحدیث سے استعفی دے دیا۔[1]

تصانیف[ترمیم]

  • 1۔ قانون میراث
  • 2۔ تسہیل الواضح خلاصہ النحو الواضح
  • 3۔ تنویر القرآن (تفسیر قرآن برحاشیہ کنز الایمان)
  • 4۔ ترجمہ مکتوبات شیخ عبد الحق محدث دہلوی
  • 5۔ ترجمہ کشف الاسرار، مختلف کتب پر مقدمہ اور بے شمار فتاویٰ ہیں۔

تاریخِ وصال[ترمیم]

آپ کاوصال 24/شوال المکرم 1393ھ مطابق 20/نومبر 1973ء برزمنگل ہوا۔نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستان مولانا سید ابو البرکات رضوی نے پڑھائی، میانی صاحب بہاولپور روڈ لاہور میں مولانا غلام محمد ترنم کے سرہانے آخری آرام گاہ بنی۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:صفحہ 65 نوری کتب خانہ لاہور
  2. اکابر تحریک پاکستان حصہ دوم، محمد صادق قصوری، صفحہ 64،نوری بکڈپو لاہور