افسر دکنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

افسرؔ دکنی، دکن کے ایک نمائندہ شاعر ہیں جن کی پیدائش 13؍ ستمبر1949 ء کو ضلع کڈپہ، پرودوٹور میں ہوئی۔ آپ نے 1967ء میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور وقتاً فوقتاً دکن حیدرآباد ی، شفق بھیونڈی اور ظفر گورکھپوری سے شرف تلمذ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی شاعری کا جذبہ خواں شکیل بدایونی، خمار بارہ بنکوی، کیفی اعظمی جیسے مختلف شعرا کے کلام سے ابھرا ہو لیکن وہ شاعری کے ہے اس کا میں ایک الگ اور منفرد شہوار کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ افسر دکنی کا قیام کلیان (ممبئی) میں ہونے کے باوجود دکن سے انھیں جو محبت ہے، اپنی مٹی سے انھیں جو اکے الفت اظہار انھوں نے اپنے تخلص کے ذریعے کیا ہے۔

شعری مجموعہ کا تجزیہ[ترمیم]

افسر دکنی کا پہلا شعری مجموعہ ’’مٹی کی مہک سہ2010ء کو منصہ شہود پر آیا۔ ان کے اس مجموعہ کلام کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شاعری صرف ذوق تسکین کا سامان نہیں بلکہ عصری حسیت کا تقاضا بھی ہے۔ شاعری زندگی کی تلخیوں کا اظہار بھی ہے۔ انھوں نے غزل کو اپنے عہد کی ضرورت اور عصری مسائل کے اظہار کا وسیلہ بھی بنایا ہے۔

پھولوں سے بہلنے کی تو عادت ہے پرانی

کانٹوں پہ بھی چلنے کا ہنر سوچ رہا ہوں

اب ذرا سوچ سمجھ کر ہی سہارا ڈھونڈو

خشک پیڑوں کا یہ سایہ بھی ادھورا ہوگا

ان کی شاعری خشک و نم آنکھوں کی عکاسی ہے۔ مختلف ذاویہ ہائے نگاہ سے انھوں نے آنکھوں اور آنسوؤں کا مشاہدہ کیا ہے اور لفظوں کے سانچے میں انھیں بٹھایا ہے۔ ان نظر میں زندگی خوشی و غم کے باہمی رشتے کا نام ہے۔ آنسو جو خوشی و غم کی حالت میں نکل پڑتے ہیں جنہیں سمجھنے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں یا غم کے۔ اسی نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

یہ تو موسم کوئی پت جھڑ کا نہیں ہے افسرؔ

پھر مرے دل کی کلی اشک بہاتی کیوں ہے

آنسوؤں کی زباں کو افسرؔ

وہ نہ سمجھا کبھی نہ سمجھے گا

رات بھر اشکوں کو آنکھوں میں سمیٹوں لیکن

دن میں یہ خواب اکثر نہیں دیکھے جاتے

درد بن جاؤں تری آنکھوں سے بہہ کر نکلوں

تیری آنکھوں کو بھگوتا رہوں شب بھر نکلوں

اب رونے کو آنسو بھی نہیں، آنکھ میں کوئی

پھر کیسے ستائے گی ہمیں گردشِ دوراں

افسر کی شاعری کلاسیکیت کی راہوں سے گامزن جدید لفظیات کے حسین پیکر میں ڈھل جاتی ہے۔ چند لمحوں کے لیے ایسا لگتا ہے کہ یہ حسیں پیکر کا لبادہ کلاسیکیت کا ہے یا جدیدت کے دو راہے پر گامزن ن؍ر آتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ ان کی شاعری میں کلاسیکیت و جدیدیت کا امتزاج صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ افسرؔ غزل سرائی کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ قدیم الفاظ کو جدید پیرائے میں استعمال کیا جائے یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور ادب کا حق بھی۔ جس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

جدید رنگ میں کچھ فکر نو کرو افسرؔ

ملا ہے موقع جو تم کو غزل سرائی کا

میں ہوں آندھی کا پرندہ میرے پر دیکھے گا کون

جز ترے صیاد مجھ کو اک نظر دیکھے گا کون

چلو کوئی بہروپ ہی دھار لیں گے

کہ لوگ اب تو چہرہ نیا مانگتے ہیں

اپنی صورت آئینے میں دیکھ رہے ہیں اندھے لوگ

جو یہ بات سنے گا افسرؔ وہ تم پر برہم ہوگا

صنعت، علامت نگاری کنایہ کے ذریعے شاعری کا نگار خانہ سجایا جا سکتا ہے۔ الفاظ و معنی کی گہرائی سے مختلف النوع خیالات کا جز بنایا جا سکتا ہے۔ مغربی مفکر کے تحت الفاظ کی ترتیب اگر نثر ہے تو بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب شاعری ہے جو ہمہ جہت خیالات کا مظہ رہے۔ لفظ و معنی کی اہمیت پر کئی نقادوں کی بحث آج بھی جاری ہے۔ کسی نے لفظ کو اہمیت دی تو کسی نے معنی کو۔ ایک فطری شاعر میں لفظ و معنی کا خزینہ سمایا ہوا ہوتا ہے۔ جوموقع ومحل کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو ظاہرکرکے آپ بیتی کوجگ بیتی بنا دیتا ہے۔ افسرؔ دکنی کی شاعری میں ایسے کئی اشعار پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔

سر پہ سورج جوان جب ہوگا

چہرہ چہرے پہ آب ٹہرے گا

چاندنی کی تمھیں ضرورت ہے

کالی راتوں سے تم گزرتے ہو

جسم کا میرے بدلتا ہوا موسم افسرؔ

جیسے میں شاخ کا ٹوٹا ہوا پتہ ٹہرا

آئینے میں ہزار چہرے ہیں

ہم نے بھی غم سے دل لگایا ہے

’’گفتگو‘‘ شاعری کا جز ہے قدیم شعرا سے لے کر آج تک شاعری میں گفتگو سا انداز پایا جاتا ہے۔ کبھی خود سے کبھی حالات سے گفتگو کرتے ہوئے شاعر اپنے دلی جذبات و کیفیات کو اظہار کرتا ہے۔ شاعری تنہائی اور یکسوئی میں صفِ قرطاس پر ڈھلتی ہے۔ جہاں شاعر ہم کلام ہوتا ہے اور احساسات و جذبات کو الفاظ کا پیکر عطا کرتا ہے۔ افسرؔ دکنی کی شاعری میں بھی یہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

غم کی گہرائیوں میں تم افسرؔ

ڈوبتے ہو کبھی ابھرتے ہو

میری افسردگئی دل پہ نظر کی تونے

شکریہ حوصلہ افسرؔ کا بڑھانے والے

کہاں ڈھونڈوگے افسرؔ کو وہ آوارہ مسافر ہے

اِدھر ہوگا، اُدھر ہوگا، یہاں ہوگا، وہاں ہوگا

وہ سرِ راہ ملا تھا مرے احوال مگر

اس نے پوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں

افسرؔ کو جہاں چاہے بلا لیجئے صاحب

منت کی، سماجت کی ضرورت بھی نہیں ہے

افسرؔ دکنی کا یہ مجموعہ کلام نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ شاعر اپنے خیالات و جذبات ظاہر کرتے ہوئے خارج ازبحر، شتر گربہ عیبی، ایطا کے چند راہِ اغلاط سے غیر شعوری طور پر گزرتا ہے۔ ایسے ہی چند راہوں سے افسر ؔ دکنی کا بھی گذر ہوا ہے۔ الغرض کہیں کہیں یہ غلطی کے علاوہ ان کی شاعری ہمہ جہت پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

[1]

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی کے تیسرے مجموعے ‘تاسیس‘ سے لیا گیا ہے صفہ 50 تا54