اقبال صفی پوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اقبال صفی پوری

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: اقبال صفی پوری)،  (اردو میں: اقبال احمد خلیلی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 9 جولا‎ئی 1921ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفی پور،  اناؤ ضلع،  اتر پردیش،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 مئی 1999ء (78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن پاپوش نگر قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ جگر مراد آبادی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

اقبال احمد خلیلی المعروف اقبال صفی پوری (پیدائش: 9 جولائی 1921ء - 22 مئی 1999ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر تھے۔ وہ اردو کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے تلمیذ تھے۔ اقبال صفی پوری 9 جولائی 1921ء کو قصبہ صفی پور، اناؤ ضلع، اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اقبال احمد خلیلی لیکن اقبال صفی پوری کے قلمی نام شہرت پائی۔ ابتدا میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ دادا شاہ خلیل احمد کے انتقال کے بعد مزید تعلیم کے لیے لکھنؤ چلے گئے۔ 1936ء میں لکھنؤ سے میٹرک پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدمرزا جعفر علی خان اثر لکھنوی کے ذریعے ملازمت حاصل کر لی۔ ان کی شاعرانہ تربیت میں افقر موہانی کا زیادہ حصہ تھا۔ اس کے علاوہ مرزا جعفر علی خان اثر لکھنوی سے بھی اصلاح لی۔ بعد میں جگر مرادآبادی سے اصلاح لینے لگے۔[1] تقسیم ہند کے بعد لاہور منتقل ہو گئے اور محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کر لی۔ پھر لاہور کارپوریشن کے بلڈنگ کنٹرول میں ملازم ہو گئے۔ 6 سال بعد کراچی آ گئے اور کراچی کے بلڈنگ کنٹرول کے محکمہ میں ملازم ہو گئے۔ 1981ء میں بحیثیت آرکیٹیکٹ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ ان کے کتابوں میں شاخِ گل (غزلیہ شاعری، 1981ء)، رنگ و نور (نعتیہ مجموعہ) اور رحمت لقب (نعتیہ مجموعہ) شامل ہیں۔[2]

نمونۂ کلام[ترمیم]

نعت

دیکھ آیا ہوں جب سے در و دیوارِ مدینہبند آنکھوں سے بھی ہوتا ہے دیدارِ مدینہ
گلزارِ مدینہ کی ہوا کھائی ہے جب سےہر سانس میں ہے نکہتِ گلزارِ مدینہ
روشن ہے سرِ شہرِ خیال اب بھیوہ نور فشاں گنبد و مینارِ مدینہ
اُس صبح کے جلووں پہ ہیں تصدق دل و جاںوہ وقتِ ازاں، صبحِ ضیا بارِ مدینہ
دیکھ آیا ہوں جب سے در و دیوارِ مدینہبند آنکھوں سے بھی ہوتا ہے دیدارِ مدینہ
دل میں اُتر آیا ہے مثالِ مہِ کاملوہ گنبدِ خضرا ہے کہ شاہکارِ مدینہ
مہر و مہ و انجم کی ضیا خوب ہے لیکنانوارِ مدینہ ہیں پھر انوارِ مدینہ
لب ہوتے گئے مدحِ سرائے مہِ فاراںدل بنتا گیا مطعِ انوارِ مدینہ
کس کیف کے عالم میں ہوں میں کیا کہوں اقبال !لب پر ہےمری مدحتِ سرکارِ مدینہ[3]

غزل

وہ نگاہوں کو جب بدلتے ہیںدل سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
منزلیں دور ہیں کبھی نزدیکہر قدم فاصلے بدلتے ہیں
کون جانے کہ اک تبسم سےکتنے مفہوم غم نکلتے ہیں
آگ بھی ان گھروں کو لگتی ہےجن گھروں میں چراغ جلتے ہیں
جب بھی اٹھتی ہے وہ نظر اقبالشمع کی طرح دل پگھلتے ہیں[4]

وفات[ترمیم]

اقبال صفی پوری 24 مئی 1999ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 77
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 78
  3. کراچی کا دبستان نعت، ص 79
  4. "وہ نگاہوں کو جب بدلتے ہیں (غزل)، اقبال صفی پوری"۔ دارسال ڈاٹ کام 
  5. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 29