الطاف گوہر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
الطاف گوہر
پیدائشراجا الطاف حسین جنجوعہ
17 مارچ 1923(1923-03-17)ء

گوجرانوالہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) (موجودہ پاکستان)
وفاتنومبر 14، 2000(2000-11-14) (عمر  77 سال)

اسلام آباد، پاکستان
قلمی نامالطاف گوہر
پیشہسول سرونٹ، صحافی، شاعر
زباناردو، انگریزی
نسلپنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
اصنافسول سروس، شاعری، اخباری ادارت
نمایاں کامگوہر گذشت
لکھتے رہے جنوں کی حکایت
ایوب خان:فوجی راج کے پہلے دس سال

الطاف گوہر (انگریزی: Altaf Gauhar)، (پیدائش: 17 مارچ، 1923ء - وفات: 14 نومبر، 2000ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف سول سرنٹ، اردو کے نامور شاعر اور صحافی تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

الطاف گوہر 17 مارچ، 1923ء کو گوجرانوالہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام راجا الطاف حسین جنجوعہ تھا[1][2][3]۔ انھوں نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں ملازمت سے کیا۔ بعد ازاں سول سروسز کا امتحان پاس کر کے پاکستان کی سول بیورو کریسی کے ایک اہم اور فعال رکن بن گئے۔ ایوب خان کے دورِ حکومت میں وہ سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ایوب خان کے دور کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس انہی کے ذہنِ رسا کی اختراع بتایا جاتا ہے۔ 1972ء مین وہ روزنامہ ڈان کے مدیر مقرر ہوئے۔ انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ انھوں نے 'تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن' کے قیام میں بھی حصہ لیا اور اس ادارے کے جریدے 'ساؤتھ' کے مدیر رہے۔ ان کی تصانیف میں تحریرِ چند، ایوب خان:فوجی راج کے پہلے دس سال، لکھتے رہے جنوں کی حکایت اور ان کی خود نوشت سوانح عمری گوہر گذشت شامل ہیں۔ انھوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔[1]

تصانیف[ترمیم]

  • گوہر گذشت
  • لکھتے رہے جنوں کی حکایت
  • ایوب خان:فوجی راج کے پہلے دس سال
  • تحریر چند
  • تفہیم القرآن (انگریزی ترجمہ)

وفات[ترمیم]

الطاف گوہر 14 نومبر، 2000ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پا گئے۔ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2][3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 866
  2. ^ ا ب الطاف گوہر، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
  3. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2006ء، ص 158