الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب (کتاب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب
کتاب الغدیر چاپ بیروت
مؤلفعبدالحسین امینی
زبانعربی
موضوعولایت و جانشینی امیرالمؤمنین
تعداد جلد11جلد
تاریخ نشرچودہویں صدی ہجری

الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، جو الغدیر کے نام سے معروف ہے عربی زبان میں لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جسے واقعہ غدیر خم میں امام علی کی امامت و خلافت بلافصل کی اثبات کے لیے علامہ عبدالحسین امینی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب 11 جلدوں میں مرتب ہوئی ہے جس کی پہلی جلد میں حدیث غدیر پر تحقیق کی گئی ہے۔ علامہ امینی حدیث غدیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول احادیث میں سب سے یقینی اور متواترترین حدیث قرار دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ اس حدیث کی سند کو اہل سنت منابع سے صحابہ و تابعین سے لے کر چودویں صدی کے علما تک ذکر کرتے ہیں۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں آپ نے پہلے اس حدیث کو نقل کرنے والے 110 صحابی اور 84 تابعی کا نام ذکر کرتے ہیں۔ علامہ امینی نے بعد والے 6 جلدوں میں غدیر پر شعر لکھنے والے شاعروں کی معرفی کرتے ہوئے ان کے اشعار کو بیان کیا ہے۔ آخری جلدوں میں بھی شاعروں کی معرفی کے علاوہ بعض شیعہ اور سنی اختلافات جیسے خلفائے ثلاثہ کے مقام و منزلت اور شیعوں کا ان پر اعتراضات فدک، ایمان ابوطالب، معاویہ بن ابوسفیان کے رفتار و کردار کی توجیہ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

علامہ امینی اس کتاب کو لکھنے کی خاطر مختلف ممالک کی لائبریریوں من جملہ ہندوستان، مصر اور شام وغیرہ کا سفر کیا ہے۔ الغدیر کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی طرف مراجعہ اور دس ہزار سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ الغدیر کی کتابت پر 40 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔الغدیر کے بارے میں کئی کتابیں اور تھیزز لکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الغدیر میں پیش کیے گئے موضوعات کو 27 جلدوں پر مشتمل مجموعے کی صورت میں بھی منظر عام پر لایا گیا ہے.

مؤلف[ترمیم]

عبدالحسین امینی معروف بہ علامہ امینی نجفی 1320ہجری قمری کو شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔ دینی علوم کے مقدمات آپ نے اپنے آبائی شہر تبریز میں حاصل کیے اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے وہاں آپ نے نجف اشرف کے نامور اساتید سے علوم آل محمد حاصل کی اور عفوان جوانی میں آپ نے سید ابوالحسن اصفہانی ( 1364ق)، میرزا محمدحسین نایینی (1355ق) اور شیخ عبدالکریم حائری یزدی ( 1361ق) جیسے مَراجع سے اجتہاد اور دوسرے علما سے انقل روایت کی اجازت دریافت کی جن میں سے ہر ایک نے آپ کی علمی، دینی اور سماجی مقام و منزلت کی تعریف کی ہے۔ [1]

علامہ امینی نے کتاب "الغدیر..." کی تحریر کے سلسلے میں، منابع کی تلاش کے لیے بہت ہی سادہ اور کفایت شعاری کے ساتھ مختلف ممالک کا سفر کیا ہے۔ اس سفر کے دوران آپ کو لائبرئریوں کی تلاش رہتی تھی اور جہاں بھی کوئی لائبریری ملتی وہاں بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور ان لائبریریوں میں موجود کتابوں سے نسخہ برداری کرتے اس کے علاوہ مختلف اساتید اور دیگر علمی شخصیات کے ساتھ ملاقات، لوگوں کی تربیت، اصلاح اور تعلیمات آل محمد(ص) کی نشر و اشاعت آپ کے ان مسافرتوں میں آپ کا معمول ہوا کرتا تھا۔ ان مقاصد کے لیے آپ نے جن شہروں کا رخ کیا ان میں: حیدرآباد دکن، علی گڑھ، لکھنو، کانپور، جلالی (ہندوستان میں)، رامپور، فوعہ، معرفہ، قاہرہ، حلب، نبل، دمشق وغیرہ شامل ہیں۔[2]

الغدیر[ترمیم]

"الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب" سے مراد قرآن، سنتاور ادب کی روشنی میں غدیر کی تحقیق ہے۔ اس کتاب کے لیے اس عنوان کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ جو شخص حدیث غدیر اور اس سے متعلق امور کا منکر ہے حقیقت میں وہ قرآن، سنت،ادب، تاریخ اور عربی اشعار کے مجموعے کا منکر ہے۔ کیونک مؤلف نے مذکورہ تمام منابع سے ملل اور متقن قرائن و شواہد کے ساتھ اپنے مدعا کو ثابت کیا ہے۔ [3]

کتاب "الغدیر" میں مسلمانوں کے تقریبا 150 سے زائد اہم‌ترین کتابوں سے مطالب جمع آوری کیے گئے ہے، جنھوں نے مختلف علمی شعبوں میں افراد کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کے بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیے ہیں۔ اور خود اہل سنت کے معیار کے مطابق ان مطالب کی چھان بین کی گئی ہے یہاں تک کہ یہ کہنے میں کوئی مضایقہ نیہں ہے کہ الغدیر کے مصنف نے ایک طرح سے علوم کو دوبارہ زندہ کیا ہے اور مسلمانوں کی عمومی لائبریریوں کی تصحیح کی توفیق شامل حال ہوئی ہے۔ کیونکہ قدیم اور معاصر علما کے 150 سے زائد علمی خزانوں، تاریخ طبری سے لے کر احمد امینی کی کتاب فجر الاسلام تک ہمیں دیگر سینکڑوں اور ہزاروں مسائل کے حل کے لیے معیار اور میزان عطا کرتی ہیں۔[4]

پہلی جلد[ترمیم]

مصنف نے اس جلد میں حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے 110 نامور صحابہ کے نام لیے ہیں جنھوں نے اس حدث کو نقل کیا ہے۔ اور ان میں سے ایک ایک کا نام اہل سنت منابع سے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔[5]

صحابہ کے نام کے بعد تابعین میں سے بھی 84 افراد کا نام لیتے ہیں جنھوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس کے ضمن میں اہل سنت کے ان علما کا نام بھی لیتے ہیں جنھوں نے اپنی رجال کی کتابوں میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔[6]

تابعین کے بعد اس حدیث کو نقل کرنے والے علما میں دوسرے صدی ہجری قمری سے لے کر چودہویں صدی تک کے 360 علما کا نام ذکر کرتے ہیں.[7]

کتاب کی دوسری فصل میں ایسے مصنفین کا نام لیتے ہیں جنھوں نے حدیث غدیر پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔[8] کتاب کی تیسری فصل میں حدیث غدیر پر ہونے والے اعتراضات کا ذکر کیا ہے۔[9] حدیث غدیر کے بارے میں قرآن کی آیات کا تذکرہ اس جلد کے بعد والے مباحث میں شامل ہیں۔ اس کے بعد عید غدیر اور ابوبکر، عمر اور دوسرے صحابہ کا امام علی(ع) کو بعنوان جانشین آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبارک باد پیش کرنے کی داستان اور اہل بیت(ع) کے ہاں اس عید کی شان و منزلت پر بحث کی ہے اس کے بعد عید غدیر کے بارے میں بعض اہل سنت دانشمندوں کے کلمات کو ذکر کرنے کے ساتھ حدیث غدیر کی سند کے بارے میں بحث کی ہے۔[10]

کتاب کے آخری مطالب کو اس حدیث کے معنی اور اس کے مفہوم کے ساتھ مختص کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مصنف نے بعض اہل سنت دانشمندوں کی طرف سے پیش ہونے والے اعتراضات کو بیان کرکے مختلف قرائن و شواہد کی بنا پر اس حدیث کی دلالت کو شیعوں کی مدعا پر واضح اور آشکار طور پر بیان فرماتے ہیں۔[11]

دوسری جلد[ترمیم]

الغدیر کی دوسری جلد غدیر سے مربوط اشعار کے ساتھ مختص ہے۔ مصنف نے سب سے پہلے قرآن و سنت کی رو سے شعر اور شاعری کی شان و منزلت پر بحث کی ہے۔ اس کے بعد پہلی صدی ہجری کے ان شاعروں کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے غدیر کے حوالے سے شعر کہے ہیں۔ اس باب میں امیرالمؤمنین(ع)، حسان بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، عمرو بن عاص اور محمد بن عبداللہ حمیری وغیرہ کو متقن تاریخی اسناد کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔[12]

اس کے بعد دوسری صدی ہجری کے شاعروں کا نام لیتے ہیں جنھوں نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے یا کہے ہیں ان میں کمیت، سید حمیری، عبدی کوفی وغیرہ کا نام سر فہرست ہیں اس کی بعد تیسری صدی ہجری کے شاعروں میں ابوتمام طائی اور دعبل خزاعی کا نام لیتے ہیں۔[13]

تیسری جلد[ترمیم]

الغدیر کی تیسری جلد کے آغاز میں تیسری صدی ہجری کے شاعروں کے نام کے بقیہ حصے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے بعد موقع کی مناسبت سے اسلام کی بارے میں بعض مستشرقین کے آثار پر تنقید کرتے ہیں۔ [14] اس کے بعد ابن رومی اور افوہ حمانی کے تذکرے کے ساتھ تیسری صدی ہجری کے شاعروں کے نام کو جاری رکھتے ہیں۔ آگے چل کر بعض اہل سنت علما کی اعتراضات کو مد نظر رکھتے ہوئے زید شہید کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر پر گفتگو کرتے ہیں۔ [15]

بحث کو جاری رکھتے ہوئے، مصنف بعض اہل سنت علما کی طرف سے شیعوں پر لگائے جانے والی بعض تہمتوں کو مستند طور پر بیان کرتے ہوئے اہل بیت(ع) کے فضائل، قرآن، تحریف قرآن اور متعہ جیسے امور پر مفصل بحث کرتے ہیں۔[16]

اس جلد کے دوسرے مباحث میں چوتھی صدی ہجری کے شاعروں کا نام لیتے ہیں جن میں ابن طباطبا اصفہانی، ابن علویہ اصفہانی، مفجّع، ابوالقاسم صنوبری، قاضی تنوخی، ابوالقاسم زاہی، ابوفراس حمدانی کا نام سر فہرست ہیں. [17]

چوتھی جلد[ترمیم]

الغدیر کی چوتھی جلد میں بھی چوتھی صدی ہجری کے شاعروں کے نام کے ساتھ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے شاعروں کا نام بھی بیان فرماتے ہیں۔ ان میں ابوالفتح کشاجم، صاحب بن عباد، شریف رضی، شریف مرتضی، ابوالعلاء معرّیاور خطیب خوارزمی جیسے نامور شعرا کا نام دیکھنے میں آتا ہے۔

پانچویں جلد[ترمیم]

پانچویں جلد میں پانچویں صدی ہجری کے بقیہ شاعروں کے نام کے ساتھ دیگر مطالب بھی زیر بحث لاتے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:

  1. حدیث رد الشمس
  2. نماز ہزار رکعت
  3. اسلام میں محدّث
  4. شیعہ ائمہ کا علم غیب
  5. جنازوں کا مشاہد مشرفہ میں لے جانا
  6. زیارت
  7. جعل حدیث

مصنف نے ان تمام مباحث کو اہل سنت منابع سے مدلل بیان فرماتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بعض اہل سنت علما کی طرف سے لگائے جانے والی بعض تہمتوں کا بھی جواب دیتے ہیں۔[18]

چھٹی جلد[ترمیم]

الغدیر کی یہ جلد آٹھویں صدی ہجری کے شعرا پر مشتمل ہے جن میں امام شیبانی شافعی، شمس الدین مالکی اور علاء الدین حلی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اس جلد میں مطرح ہونے والے دوسرے موضوعات میں عمر بن خطاب کا علم اور مختلف قضاوتوں میں اس کے اشتباہات کو خود اہل سنت منابع کی روشنی میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہی مطالب کے ضمن میں عمر کا دو متعوں (متعہ حج اور عورت کے ساتھ متعہ) کو حرام قرار دینے کے واقعے کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔[19]

ساتویں جلد[ترمیم]

الغدیر کی یہ جلد نویں صدی ہجری کے شاعروں کے ناموں سے آغاز ہوتا ہے۔ اس کے بعد ابوبکر کے فضائل کے بارے میں موجود مبالغوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ابوبکر کے دین کے حوالے سے علم و آگاہی پر بحث کرتے ہوئے فدک کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

اس جلد کے آخری مباحث، ایمان ابوطالب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اپنے مدعا کے اوپر مختلف مستندات ذکر کیے ہیں جن میں اشعار، دوسروں کی گفتگو، ابوطالب کے کارناموں اور ان کے بارے میں معصومین کی احادیث کو بیان فرمایا ہے۔[20]

آٹھویں جلد[ترمیم]

اس جلد کا آغاز ایمان ابوطالب کی بحث کے ادامے سے ہوتا ہے اس حوالے سے بعض شبہات کا قرآن کی روشنی میں جواب دیتے ہیں۔ آگے چل کر ایمان ابوطالب کی بحث کو حدیث ضحضاح کے ساتھ ادامہ دیتے ہیں۔ [21]

اس جلد کے بقیہ مباحث میں ابوبکر کے فضائل کے حوالے سے موجود بعض دیگر مبالغوں کو بیان کرنے کے ساتھ عمر کے بارے میں موجود مبالغوں پر بھی بحث کرتے ہیں۔اس کی بعد عثمان کے بارے میں موجود مبالغوں پر بحث کے دوران اس کے علم و دانش اور اس کے زمانے میں بیت المال میں سے اپنے اقرباء اور رشتہ داروں کو دئے جانے والے بذل و بخششوں پر بحث کرتے ہوئے آخر کار ابوذر کی ربذہ کی طرف جلاوطنی پر بحث کرتے ہیں۔

نوبں جلد[ترمیم]

اس جلد میں عثمان کے فضائل پر بحث کو جاری رکھتے ہوئے اس کے زمانے میں ابن مسعود اور عمار اور کوفہ کے بعض بزرگوں کی شام کی طرف جلاوطنی پر بحث کرتے ہیں۔ اس کے بعد بعض صحابہ پیغمبر(ص) کا عثمان کے بارے میں نظریات اور آخر کار عثمان کے قتل کی بحث کے ساتھ اس جلد کا اختتام ہوتا ہے.

دسویں جلد[ترمیم]

خلفاء ثلاثہ کی فضائل پر مشمتل مباحث، الغدیر کی دسویں جلد کی ابتدائی مباحث کو تشکیل دیتی ہیں۔ آگے چل کر ابن عمر و اور اس کے بعض ناروا سلوک کے ضمن میں اس یزید کی بیعت پر بحث کرتے ہیں۔

معاویہ کے بارے میں موجود مبالغوں او، اس کے اشتباہات، بدعتیں، جنایتیں اور دیگر کارناموں منجملہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کی ساتھ جنگ اور حکمیت جیسے مطالب اس جلد کے دوسرے مباحث میں شامل ہیں۔

گیارہویں جلد[ترمیم]

اس جلد کا آغاز معاویہ کا امام حسن مجتبی(ع) کے ساتھ سلوک سے ہوتا ہے۔ اسی طرح اس میں معاویہ کا شیعیان امیرالمؤمنین(ع) کے ساتھ برتاؤ اور معاویہ کا حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کے اوپر انجام دینے والی ظلم و ستم کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد معاویہ کی جھوٹی فضیلتوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے دوسرے افراد کے بارے میں موجود خود ساختہ غلو آمیز داستانوں کو بھی ذکر کیا ہے۔

غدیر کے بارے میں شعر کہنے والے نوبں صدی سے لے کر بارہویں صدی ہجری تک کے شاعروں کا تذکرہ بھی اسی جلد میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس جلد کے آخر میں مصنف بارہویں جلد کی نوید بھی سناتا ہے جو غدیر کے دوسرے شعرا کے اسامی پر مشتمل ہوگا۔[22] لیکن آپ کی وفات نے آپ کو اس کام کی مہلت نہیں دی۔

الغدیر کی اہمیت[ترمیم]

محققین اور منتقدین، الغدیر کو مختلف اسلامی علوم جیسے تاریخ، کلام، حدیث، درایہ، رجال، تفسیر، تاریخ نزول، تاریخ ادبیات غدیر، نقد، تصحیح، کتابشناسی وغیرہ پر مشتمل ایک انسائکلوپیڈیا قرار دیتے ہیں جو اپنی مخصوص و منظم ترتیب، بہترین اور دیدہ زیب آفسٹ، حکیمانہ منطق، شاعرانہ نثر، بیشبہا مآخذ، محکم اور حماسی بیان، بے پناہ شوق اور جذبہ اور مدلل مطالب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ [23]

اس کتاب میں ایسے عمدہ مسائل مطرح ہوئی ہیں کہ ایک مورخ اسلام اور اسلام شناس کے لیے ان مسائل سے آگاہی کے بغیر اس کا کام کامل تصور نہیں کیا جاتا۔ مثلا اگر کوئی ماہر "علم الحدیث" اس علم کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی پانچویں جلد میں (سلسلۃ الکذابین والوضاعین) کا مطالعہ نہ کیا ہو یا ملل و نحل کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی تیسری جلد کا مطالعہ نہ کیا ہو یا تشیع کی مبانی اور مبادی سے بحث کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی پہلی، دوسری اور ساتویں جلد کا مطالعہ نہ کیا ہو تو بغیر کسی شک کے اس کا کام ادھورہ رہ جائے گا اور کامل نہیں ہوگا۔[24]

الغدیر کے بعض منتقدین کا اس کتاب کے بارے میں توصیفی جملات کچھ یوں ہے:[25]

توصیف توصیف کنندہ
الغدیر، محققین کی آخری منزل ہے ڈاکٹر محمد غلاب مصری
الغدیر، ایک بہت بڑا انسائکلوپیڈیا ہے محمد عبد الغنی حسن مصری
الغدیر، ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر مسلمان کے پاس ہونا چاہیے ڈاکٹر عبد الرحمان کیالی حلبی
الغدیر، کی مٹھاس نہایت گوارا اور ایک نادر انسائکلوپیڈیا ہے ڈاکٹر توفیق الفکیکی بغدادی
الغدیر، علم و آگاہی کا بیکراں سمندر عبد الفتاح عبدالمقصود مصری
الغدیر، کتاب اطمینان بخش تاریخ اور آفاقی معرفت کی کنجی ہے ڈاکٹر بولس سلامہ بیروتی
الغدیر، ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ڈاکٹر علی اکبر فیاض
الغدیر، تمام تاریخی وقایع کا مجموعہ شیخ محمدسعید دحدوح حلبی
الغدیر، ایک بے نظیر علمی کوشش ہے شرف الدین
الغدیر، ایک دہشت آفرین کتاب ہے علاء الدین خروفہ ازہری
الغدیر، دوسری تمام کتابوں سے ممتاز ایک کتاب ہے محمد تیسیر المخزومی شامی
الغدیر، ایک موج زن دریا ہے یوسف اسعد داغر بیروتی

ترجمہ، تلخیص اور نشر و اشاعت[ترمیم]

الغدیر گیارہ جلدوں میں تألیف سے لے کر اب تک کئی بار منظر عام پر آگئی ہے اور اس وقت اس کی دو عمدہ ایڈیشن موجود ہے:

  1. الغدیر پرانا ایڈیشن (تہران: دارالکتب الاسلامیہ، 1372ق؛ بیروت: دارالکتاب العربی، 1387ق) اب تک کئی بار آفسٹ ہو چکی ہے۔
  2. تحقیق "مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ" جو پہلی بار سنہ 1416ہجری قمری کو منتشر ہوئی ہے۔ اس ایڈیشن میں کئی تحقیقی کام منجملہ، حروف چینی، توضیحات اور حوالہ جات کا ارجاع وغیرہ شامل ہیں۔[26]

الغدیر کو فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے جبکہ عربی، اردو اور ترکی استانبولی میں اس کی تلخیص ہوئی ہے۔ [27]

الغدیر کی بعض مباحث جیسے متعہ اور حضرت علی(ع) کا حدیث غدیر کے ساتھ اپنی حقانیت پر احتجاج وغیرہ جداگانہ بھی منتشر ہوئی ہیں۔ اسی طرح "سیری در الغدیر" مؤلف محمدہادی امینی اور "فی رحاب الغدیر" مؤلف علی اصغر مروج خراسانی الغدیر کے منتخب مباحث پر مشتمل ہیں۔[28]

تکملۃ الغدیر[ترمیم]

"تکملة الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب: ثمرات الاسفار الی الاقطار" ایک چار جلدی کتاب کا عنوان ہے جسے صاحب الغدیر کی وفات کے بعد آپ کے نوٹ بک سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نوٹ بک دو حصوں پر مشتمل تھیں:

  1. پہلا حصہ: علامہ امینی کا سرزمین ہندوستان کی سفر کے بارے میں ہے جو سنہ 1380ق/1960 عیسوی میں انجام پائی اس سفر میں آپ نے 4 مہینے ہندوستان میں گزاریں اور وہاں کے لائبریریوں سے خطی اور چاپی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے یادداشت برداری کی۔[29]
  2. دوسرا حصہ: علامہ امینی کا سرزمین شام کی سفر کے بارے میں ہے جو سنہ 1384ق/1964 عیسوی میں انجام پائی اس سفر میں آپ نے وہاں کے لائبریریوں سے خطی اور چاپی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے یادداشت برداری کی۔[30]

تکملہ کے مصنف کا مقصد یہ تھا کہ ان دونوں نوٹ بکس کو الغدیر کے منبع کے عنوان سے اس کی مجلدات کا ادامہ شمار کیا جائے۔[31]

تکملۃ الغدیر 4 ابواب میں 4 جلدوں پر مشتمل ہے:[32]


پہلا باب[ترمیم]

یہ باب، فضائل امیرالمؤمنین(ع) پر مشتمل ہے جس کا آغاز آپ(ع) کے بارے میں نازل ہونے والی قرآنی آیات سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد حدیث غدیر سے مربوط مسائل اس کے مختلف اسنادی سلسلے اور واقعہ غدیر اور پیغبر اکرم اور حضرت علی(ع) کی مشترکہ فضائل کے بارے میں موجود اشعار اور امام علی(ع) کی مشہور احادیث پر مشتمل ہے۔

دوسرا باب[ترمیم]

فضائل اہل بیت(ع) اس باب کا موضوع ہے جس کا حضرت زہرا(س) کے فضائل سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد فضائل امام حسن(ع) و امام حسین(ع) اور واقعہ کربلا کا تذکرہ آیا ہے۔ اسی طرح اس باب میں امام سجاد(ع)، امام باقر(ع)، امام صادق(ع) اور امام مہدی(عج) کے بارے میں احادیث بھی مذکور ہیں۔[33]

تیسرا باب[ترمیم]

یہ باب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے بارے میں احادیث پر مشتمل ہے اس میں مندرج احادیث سنت پیغمبر(ص) کے بارے میں نہایت ہی کمیاب اور نادر احادیث پر مشتمل ہے۔

چوتھا باب[ترمیم]

اس باب میں کتاب کے منابع کو دو فصل میں ذکر کیا ہے۔ پہلی فصل علامہ امینی کی ہندوستان کی سفر سے مربوط ہے جبکہ دوسری فصل شام کے سفر سے مربوط ہے۔ چوتھی جلد کے آخر میں قرآنی آیات، احادیث، اعلام اور چاپی و خطی منابع کی فہرست آئی ہے۔[34]

موسوعة شعرا الغدیر[ترمیم]

موسوعۃ شعرا الغدیر: المستدرک علی کتاب الغدیر للشیخ الامینی، سات جلدی کتاب کا عنوان ہے جو سنہ 1431ق/2010عیسوی میں نجف اشرف میں العتبۃ العلویۃ المقدسۃ کے توسط سے منتشر ہوئی ہے۔ مجموعہ کے مصنفین نے پہلی جلد میں تیرہویں صدی سے پہلے کے وہ شعرا اور اشعار جو علامہ امینی کے قلم سے رہ گئے تھے کو قلمبند کیا ہے اور باقی جلدوں میں تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی کے شعرا کا ذکر کیا ہے۔ [35]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حکیمی، علامہ امینی، در یادنامہ علامہ امینی، ص 19
  2. حکیمی، یادنامہ.. ص26۔
  3. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج1، ص48.
  4. حکیمی، حماسہ غدیر، ص187.
  5. الغدیر، ج1، صص 41-144.
  6. الغدیر، ج1، صص 145-165.
  7. الغدیر، ج1، صص 167-311.
  8. الغدیر، ج1، صص 313-325.
  9. الغدیر، ج1، صص 327-422.
  10. الغدیر، ج1، صص 423-608.
  11. الغدیر، ج1، صص 609-707.
  12. الامینی، الغدیر، ج2.
  13. الامینی، الغدیر، ج2.
  14. الامینی، الغدیر، ج3، صص 23-49.
  15. الامینی، الغدیر، ج3، صص 105-114.
  16. الامینی، الغدیر، ج3، صص 115-459.
  17. الامینی، الغدیر، ج3، صص 463-566.
  18. الامینی، الغدیر، ج5.
  19. الامینی، الغدیر، ج6، صص 278-338.
  20. الامینی، الغدیر، صص 444-550.
  21. الامینی، ج8، صص 11-45.
  22. الامینی، الغدیر، ج11، ص520.
  23. حکیمی، حماسہ غدیر، صص185.
  24. حکیمی، حماسہ غدیر، صص185-186.
  25. حکیمی، حماسہ غدیر، ص186.
  26. ابوالحسنی، الغدیر، ص333.
  27. ابوالحسنی، الغدیر، ص333.
  28. ابوالحسنی، الغدیر، ص334.
  29. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج1، ص54.
  30. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج1، ص54-55.
  31. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج1، ص55.
  32. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج1، ص59.
  33. تکملۃ الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج2؛ اس باب کے مطالب تیسرے مجلد میں آیا ہے۔
  34. تکملة الغدیر، ثمرات الاسفار الی الاقطار، ج4.
  35. عبدالسادۃ، موسوعۃ شعرا الغدیر، ص21

مآخذ[ترمیم]

  • ابوالحسنی (منذر)، علی، الغدیر، در دانشنامہ امام علی(ع)، ج12، زیر نظر علی اکبر رشاد، تہران: مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380.
  • الامینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ق/1995؛ ترجمہ الغدیر، مترجم: گروہ مترجمان، تہران: بعثت، 1391ش.
  • الامینی، عبدالحسین، تکملۃ الغدیر: ثمرات الاسفار الی الاقطار، تحقیق: مرکز الامیر لاحیاء التراث الاسلامی،مراجعۃ و تصحیح: مرکز الغدیر للدراسات و النشر و التوزیع، بیروت: 1429ق/2008م.
  • حکیمی، محمد رضا، علامہ امینی، در یادنامہ علامہ امینی، بہ اہتمام سید جعفر شہیدی و محمدرضا حکیمی، تہران، مؤسسہ انجام کتاب، سال 1361ش/1403ق.
  • حکیمی محمدرضا، حماسہ غدیر، قم: دلیل ما، 1389ش.
  • المحقق الطباطبائی فی ذکراہ السنویۃ الاولی، قم: مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ق.
  • طباطبائی، سیدعبدالعزیز، مصاحبہ با محقق طباطبائی پیرامون شخصیت علامہ امینی، در المحقق الطباطبائی فی ذکراہ السنویۃ الاولی، ج 3، قم: مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ق.
  • عبدالسادۃ، رسول کاظم؛ الحسانی، کریم جہاد، موسوعۃ شعرا الغدیر، النجف الاشرف، 1431ق-2010م.

سانچہ:شیعہ کتب کلام