اللوح المحفوظ

لوح محفوظ ایک اصطلاح ہے جو اسلامی عقیدے میں استعمال ہوتی ہے اور اس سے مراد وہ مقام یا ذریعہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کی تقدیروں کو ان کی تخلیق سے پہلے محفوظ فرمایا۔ یہ اللہ کی مشیئتوں کا خزانہ اور ان کے فیصلوں کا مستودع (محفوظ مقام) ہے۔
قرآنِ کریم میں یہ اصطلاح براہِ راست سورۃ البروج میں آئی ہے، [1]جہاں اسے قرآنِ مجید کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر آیات میں بالواسطہ انداز میں اس کا ذکر "الکتاب"، "الامام المبين" اور "أمّ الكتاب" جیسے الفاظ سے ہوا ہے۔ لوحِ محفوظ کے حقیقی مفہوم کی وضاحت احادیثِ نبویہ، مفسرینِ قرآن اور اہل سنت کے علما نے کی ہے۔ بعض دیگر مذاہب و ادیان نے بھی اس تصور کی اپنی اپنی عقائد کے مطابق تفسیریں پیش کی ہیں۔
قرآن میں لوحِ محفوظ کا ذکر
[ترمیم]قرآنِ کریم میں کئی آیات ایسی ہیں جنہیں مفسرین نے لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ ان آیات کی تفسیر کے مطابق "لوح محفوظ" ہی "أمّ الكتاب" (اصل کتاب) ہے جو اللہ کے پاس ہے اور جس میں تخلیقِ کائنات سے لے کر اس کے انجام تک ہر چیز ثبت ہے۔ اس میں تمام سنن، قوانین اور واقعات تحریر ہیں اور یہ اللہ کے حفظ و امان میں ہے، کسی تبدیلی یا تحریف سے محفوظ۔
آیاتِ قرآنی اور ان کی تفسیر
[ترمیم]- . سورۃ البروج، آیت 22:
﴿فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ﴾ — یہاں لوحِ محفوظ کا براہِ راست ذکر ہے۔ امام طبری نے اس کو ایسا کندہ لوح قرار دیا ہے جسے اللہ نے ہر طرح کے تغیر و تبدل سے محفوظ رکھا۔ بعض نے کہا کہ یہ اسرافیل کی پیشانی پر ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا: یہ ایک سفید موتی (دُرّہ) کا لوح ہے، جس کی لمبائی آسمان و زمین کے درمیان ہے اور چوڑائی مشرق سے مغرب تک۔ اس کے کنارے دُرّ و یاقوت سے مزین ہیں، اس کا قلم نور ہے اور اس کا کلام عرش سے بندھا ہوا ہے۔[2]
- . سورۃ الحج، آیت 70:
> ﴿إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ﴾ — "کتاب" سے مراد لوح محفوظ لی گئی ہے۔ ابن عطیہ اور طبری دونوں نے اس کی تفسیر میں "کتاب" کو لوح محفوظ کہا۔ ابن کثیر کے مطابق اللہ نے قلم کو پیدا کر کے حکم دیا کہ وہ قیامت تک مخلوق کا علم لکھے، یہی لوح محفوظ ہے۔
- . سورۃ یٰس، آیت 12:
﴿وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ﴾ — "امام مبین" کی تفسیر ابن کثیر نے لوح محفوظ کے طور پر کی ہے۔ امام قرطبی نے ذکر کیا کہ اکثر مفسرین "امام مبین" کو "أمّ الكتاب" قرار دیتے ہیں، جو لوح محفوظ ہی ہے۔
- . سورۃ الحديد، آیت 22:
﴿مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ... إِلَّا فِي كِتَابٍ...﴾ — یہاں بھی "کتاب" سے مراد لوح محفوظ ہے۔ قرطبی نے اس کی تفسیر میں یہی بیان کیا کہ یہ وہی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر چیز کا اندراج پہلے سے موجود ہے۔[3]
لوحِ محفوظ کی تفصیل
[ترمیم]اسلامی عقائد اور تفاسیر میں لوحِ محفوظ کی ساخت، مقام اور نوعیت کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ مفسرین، محدّثین اور صحابۂ کرام سے منقول روایات اس کے بارے میں ہمیں متنوع اور تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہیں۔[4]
مفسرین کے اقوال
[ترمیم]- عرش کے مقام پر
کتاب فتح الباری میں ذکر ہے کہ: "لوح محفوظ عرش کے اوپر ہے۔"
- ابن عباسؓ کے متعدد اقوال
امام قرطبی نے ابن عباسؓ سے نقل کیا: "لوح محفوظ ایک سرخ یاقوت کا ہے، اس کا اوپر کا حصہ عرش سے بندھا ہوا ہے اور نیچے کا حصہ ایک فرشتے کے پاس ہے جس کا نام ماطریون ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر دن اس لوح پر 360 مرتبہ نظر فرماتا ہے۔"[5]
- امام سیوطی نے ابن عباس سے نقل کیا:
"اللہ نے لوح محفوظ کو سو سال کے سفر کے برابر بنایا۔"
- دیگر اقوال
- حضرت انسؓ نے فرمایا:
"لوح محفوظ اسرافیل کی پیشانی پر ہے۔"
- مقاتل کا قول:
"یہ عرش کے دائیں جانب ہے۔"
- سعید بن جبیر (اصبہانی کے واسطے سے):
"یہ یاقوت یا زمرد سے بنا ہوا ہے، اس پر سنہری خط سے تحریر ہے، الرحمن نے خود اپنے ہاتھ سے اسے لکھا ہے اور آسمانوں والے قلم کی آواز سنتے ہیں۔"[6] (4) .[7]
- ابن کثیر نے ابن عباس سے نقل کیا:
"لوح محفوظ ایک سفید درّہ (موتی) سے بنا ہے، اس کی لمبائی آسمان و زمین کے درمیان اور چوڑائی مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔"[8]
احادیثِ نبویہ میں ذکر
[ترمیم]- صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے 'ذکر' میں ہر چیز کو لکھ دیا، پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا۔"
- حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"یہاں 'ذکر' سے مراد لوح محفوظ ہے اور اس کا ذکر سورۃ البروج، آیت 22 میں بھی آیا ہے۔"
- ابن عباسؓ سے منقول ہے:"لوح سرخ یاقوت کا ہے، اس کا اوپر کا حصہ عرش سے بندھا ہوا ہے اور نیچے کا حصہ ایک فرشتے کے پاس ہے، اس پر نور سے لکھا گیا ہے، قلم بھی نور کا ہے، اللہ روزانہ 360 نظرِ کرم فرماتا ہے، جن میں ہر بار وہ جو چاہے کرتا ہے:
کسی کو بلند کرتا ہے، کسی کو پست، کسی کو امیر، کسی کو فقیر بناتا ہے، زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے۔"
- نیز روایت ہے کہ: "اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سو سال کے فاصلے پر پیدا فرمایا، پھر قلم سے فرمایا: میرے علم کے مطابق لکھو! چنانچہ اس نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزیں لکھ دیں۔"
شیعوں کے نزدیک
[ترمیم]شیعوں کے نزدیک، اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی تقدیریں دو کتابوں میں محفوظ ہیں: 1. کتابِ لوحِ محفوظ 2. کتابِ محو و اثبات پہلی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کا مضمون تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جبکہ دوسری کتاب (یعنی محو و اثبات) کا مضمون انسان کے اعمال اور ایمان کے درجے کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔[9][10]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ﴿بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ21فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ22سانچہ:قرآن-سورہ 85 آیت 2323﴾ [[[سورہ سانچہ:نام سورہ 85|85]]:21—23]
- ↑ إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي، البداية والنهاية. دار عالم الكتب. 2003م. ص26
- ↑ تفسير القرطبي ج19 ص298.
- ↑ فتح الباري شرح صحيح البخاري لأبي الفضل العسقلاني ج 13 ص 526
- ↑ تفسير القرطبي ج19 ص298
- ↑ كتاب العظمة لابن حيان الأصبهاني ج 2 ص 495
- ↑ كتاب الدر المنثور للسيوطي ج6 ص74
- ↑ تفسير بن كثير ج4 ص498
- ↑ موقع العقائد الإسلامية آرکائیو شدہ 2016-07-25 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ عفيف الدين، عبدالله بن اسعد بن علي اليافعي. "نشر المحاسن الغاليه في فضل مشايخ الصوفيه اصحاب المقامات العالية". ص. 39