النکت الوفیۃ بما فی شرح الالفیہ
النکت الوفیۃ بما فی شرح الالفیہ | |
---|---|
(عربی میں: النكت الوفية بما في شرح الألفية) | |
مصنف | برہان الدین بقاعی |
اصل زبان | عربی |
موضوع | علم حدیث |
درستی - ترمیم ![]() |
النکت الوفیۃ بما فی شرح الالفیہیہ کتاب علمِ حدیث میں امام عبد الرحیم العراقی کی ألفیہ کی شرح ہے، جسے امام برہان الدین البقاعی نے تحریر کیا۔ یہ کتاب ألفیة العراقی پر مشتمل نادر و قیمتی فوائد و تحقیقات پر مبنی ہے، تاہم امام بقاعی نے اسے مکمل نہ کیا اور یہ شرح نصف کے قریب جا کر رک گئی۔ امام برہان الدین البقاعی اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
> "النُّكت الوفیة بما في شرح الألفیة" اما بعد، تو یہ فوائد، نکت اور تحقیقی مباحث ہیں جو ألفیة الحدیثیہ اور اس کی شرح سے متعلق ہیں، دونوں ہی شیخ الحفّاظ زین الدین ابی الفضل عبد الرحیم بن الحسین العراقی کی تصنیف ہیں – اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے – ان مباحث کو میں نے اس وقت قلم بند کیا جب میں ان کے شاگرد ہمارے شیخ، شیخ الاسلام، حافظ العصر، ابو الفضل شهاب الدین احمد بن علی بن حجر الكنانی العسقلانی المصری الشافعی، قاضی القضاة بالدیار المصریہ سے یہ شرح سن رہا تھا – اللہ ان کی عمر میں برکت دے اور ان کے فیض کو عام رکھے –۔ میں نے اس کا نام رکھا: "النُّكت الوفیة بما في شرح الألفیة"۔
> اور جان لو کہ جہاں میری ذاتی تحقیق ہے، وہاں میں نے اکثر "قلت" (میں نے کہا) سے آغاز کیا ہے اور آخر میں "والله أعلم" کہہ کر بات ختم کی ہے۔ اور جو کچھ میں نے اپنے شیخ کے علاوہ دیگر کتب سے نقل کیا ہے، وہاں میں نے اسے ان کے حوالے سے منسوب کیا ہے۔ باقی تمام کلام، جو غالب حصہ ہے، وہ میرے شیخ ابن حجر کا کلام ہے۔ اگر کسی بات میں میری اپنی تحقیق ہے تو میں نے وہ درس کے بعد اپنے فہم کے مطابق نقل کی ہے اور اگر میں نے کسی اور سے نقل کیا ہے تو اس کا نام بھی اسی وقت لکھا اور اس کے قول کو واضح انداز میں بیان کیا، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا۔ اگر آپ کو میری کسی بات میں کسی ایسے شخص کا اختلاف ملے جو مجھ سے زیادہ ثقہ ہو، تو میرا عذر معلوم ہے اور میرے شیخ کے بارے میں میرا عذر یہ ہے کہ علمی گفتگو کے وقت کبھی کچھ تسامح ہو جاتا ہے۔ اور توفیق صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔[1]
کتاب کے اہم خصائص اور امام بقاعی کا شرح نویسی کا منہج
[ترمیم]- . امام بقاعی نے ألفیة العراقی کے بعض اشعار پر اعتراضات کیے اور وہ اشعار ذکر کیے جنہیں وہ زیادہ موزوں، جامع اور نافع سمجھتے تھے۔
- . وہ نقلی عبارات میں ہمیشہ لفظی التزام کے پابند نہیں رہے، بلکہ معنیٰ اور مقصد کو برقرار رکھتے ہوئے تصرف کرتے تھے اور اکثر اس تصرف کی صراحت بھی کرتے۔
- . انھوں نے اپنے شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی سے علمِ حدیث اور محدّثین کے مناہج کے بہت سے علمی فوائد نقل کیے، جن میں سے بعض صرف اسی کتاب میں ملتے ہیں۔
- . کتاب میں انھوں نے ایسے نادر کتب کے حوالے دیے ہیں جو اب موجود نہیں اور ان سے منتخب اقتباسات بھی نقل کیے، بعض کے علمی اثرات بھی واضح کیے۔
- . کتاب میں کئی مقامات پر "وبخطّ بعض أصحابنا" (ہمارے بعض اصحاب کے قلم سے)، "قال بعض أصحابنا" اور "قال صاحبنا" جیسے الفاظ آئے ہیں، جن سے بسا اوقات سخاوی مراد ہوتے ہیں، لیکن شاید ان کے درمیان تعلق میں سرد مہری کے باعث نام کو مبہم رکھا۔
- . انھوں نے ابن الصلاح کی کتاب معرفة أنواع علوم الحديث پر کیے گئے کئی اعتراضات کا جواب دیا۔
- . انھوں نے اپنے شیخ ابن حجر کی بعض آراء پر بھی تنقیدی تعقبات پیش کیے، مگر احترام کو ملحوظ رکھا۔
- . کتاب میں لغوی و بلاغی فوائد کی بھرمار ہے۔ انھوں نے لغات، معاجم اور نادر الفاظ کی توضیح میں بہت محنت کی۔
- . انھوں نے اصولی فوائد اور فقہی قواعد بھی کتاب میں ذکر کیے۔
- . انھوں نے بعض مقامات پر منطقی عبارات بھی پیش کیں۔[1]