امامت (اہل تشیع)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Imamah Islamic
إمام
بر سر عہدہ
امام مہدی امام مہدی -
محمد بن الحسن مہدی for اثنا عشریہ
Aṭ-Ṭayyib Abī'l-Qāṣim - طيب ابو القاسم for طیبیہ-Mustā‘lī اسماعیلی Muslims
The living Imām for نزاریہ Muslims
Imāms continuing by the President of Yemen for زیدیہ with no divine attributes
تفصیلات
پہلا بادشاہعلی ابن ابی طالب
قیام17 جون 656
بسم الله الرحمن الرحیم

مضامین بسلسلہ اسلام:
اہل تشیع
کوئی جوان نہیں سوائے علی کے اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے

امامت یا عقیدہ امامت تمام شیعہ مکاتب فکر کی اصل بنیاد اور شیعیت کا اصل الاصول ہے۔ اہل تشیع کے عقیدہ امامت سے مراد ہے جس طرح اللہ نے صفت عدل ااور حکمت و رحمت کے لازمی تقاضے سے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا اور انبیا و رسل کو لوگوں کی ہدایت رہنمائی اور ان کی قیادت و سربراہی کے لیے بھیجا۔ جن کی بعثت سے بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوئی تھی اور وہ اس اتمام حجت کے بعد ہی آخرت میں ثواب یا عذاب کے مستحق ہیں۔ اسی طرح اللہ نے انبیا و رسل کے بعد بندوں کی ہدایت و رہنمائی اور قیادت و سیادت جاری رکھنے کے لیے اور ان پر حجت قائم رہنے کے لیے امامت کا سلسلہ قائم کر کے قیامت تک کے لیے امام نامزد کر دیے۔ تمام شیعہ مکاتب فکر میں ہر شخص کے لیے اپنے زمانے کے امام کی معرفت اطاعت کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ ۔

مکاتب فکر[ترمیم]

اثنا عشری نقطہ نظر[ترمیم]

نشیعہ کے سب سے بڑے گروہ[کون سا؟] کا نظریہ ہے امامت ایک مکمل نظام ہے۔ اور ان پاک اور معصوم ہستیوں کے وجود سے کائنات کا نظام اللہ کے حکم سے چلتا ہے۔ شیعہ[کون سا؟] بارہ ائمہ کو مانتے ہیں۔ بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے بارہ ائمہ علیہم السلام پر کوئی تصریح نہیں فرمائی یا بعض لوگ کہتے ہیں کہ بارہ امام معاذ اللہ امام ہی نہيں ہیں بلکہ امام تو چار فقیہ ہیں جو چار فقہوں کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور ان کو بارہ اماموں کو امام کہا جاتا ہے تو یہ صرف احترام کی خاطر ہے جو ایک نادرست اور بے بنیاد دعوی ہے۔ اور اس قول کی سبکی اور خفت بخوبی واضح ہوگی بشرطیکہ فریقین کے منابع و مصادر کا اجمالی سا جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی رسالت کے دور میں بار بار امت اسلامی کی رہبری و امامت و پیشوائی کی وضاحت فرمائی ہے اور اپنے بعد مسلمانوں کے فرائض کو بھی واضح فرمایا ہے۔ البتہ ان احادیث میں اجمال اور تفصیل کے لحاظ سے اختلاف ہے جنہيں ہم تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : 1۔ پہلی قسم: وہ احادیث جو اجمالی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امامت و رہبری اور آپ(ص) کی جانشینی پر تصریح کرتی ہیں۔ یہ احادیث رسول خدا(ص) نے اپنے خاندان اور اہل بیت علیہم السلام تک محدود رکھی ہیں۔ ان احادیث میں مشہور ترین حدیث "حدیث ثقلین" ہے جو شیعہ اور سنی کتب میں تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ حدیث ثقلین مشابہ عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے لیکن عبارت ثابت ویکسان ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ نے فرمایا: "انی قد تركت فیكم الثقلین، ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدی واحدهما اكبر من الآخر، كتاب الله حبل ممدود من السماء الی الأرض وعترتی اهل بیتی، ألا وانهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض([1])»; یعنی بے شک میں تمھارے درمیان در گران بہا امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کا دامن تھامے رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب خدا ہے اور دوسری میری عترت اور اہل بیت، ان میں سے ایک امانت دوسری سے بڑی ہے، کتاب اللہ جو اللہ کی کھنچی ہوئی رسی ہے آسمان سے زمین تک اور میری عترت یعنی میرا خاندان۔ اور جان لو کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کہ قیامت کے دن حوض کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ اہل بیت اور عترت رسول(ص) کو قرآن کے برابر ثقل و عِدل کے طور پر بیان متعارف کرایا گیا ہے اور اگر کوئی ان دونوں کا سہارا لے تو وہ گمراہی سے نجات پائے گا اور قیامت تک قرآن کے ہمراہ ہیں اور قرآن کے مفسر اور مُبَیِّن ہیں۔ یہ ارشاد نبوی شیعہ عقائد کے ساتھ مکمل طور پر موافق و مطابق ہے اور اسلام کے بعض فرقوں کے عقائد کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ پس امامت صرف گل سر سبد اور سرسلسلۂ امامت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات با برکات میں ہی محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ بعد کے زمانوں میں ان کے فرزندوں تک اور قائم آل محمد حضرت مہدی(عج) تک میں جلوہ گر ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ثقلین سے تمسک کا حکم ناقص ہوتا جبکہ قرآن مجید میں ارشاد رب متعال ہے : "وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى"۔ (2) اور وہ نفسانی خواہشوں سے بات نہیں کرتا ٭ نہیں ہوتی وہ (آپ(ص) کی بات) مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے۔ 2۔ دوسری قسم: یہ وہ روایات ہیں جن میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعداد پر تصریح کی گئی ہے اور ان روایات میں تعداد کو 12 ائمہ طاہرین تک محدود کیا جاتا ہے۔ یہ احادیث مختلف اسناد اور مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں : الف) صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جابر بن سمرہ کہتا ہے : میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ(ص) نے فرمایا: "یكون بعدی اثنا عشر امیراً۔۔۔ كلهم من قريش"۔ میرے بعد بارہ امیر اور خلیفہ ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہوں گے۔ یہ حدیث اسی صورت میں شیخ صدوق کی الامالی اور الخصال میں بھی نقل ہوئی ہے اور دوسرے شیعہ منابع میں بھی۔ (3) ب) صحیح مسلم میں بھی جابر بن سمرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: "لا یزال هذا الامر عزیزاً الی اثنی عشر خلیفهً۔۔۔ كلهم من قریش"۔ امامت کا یہ امر باقی ہے اور بار خلفاء کے ذریعے ہمیشہ قائم و دائم ہے اور وہ سب قریش سے ہیں۔ #۔ ج) شعبی مسروق سے نقل کرتا ہے کہ: ہم عبد اللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے لیے قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص نے ابن مسعود سے کہا: کیا آپ نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا ہے کہ کتنے افراد اس امت پر خلافت کریں گے؟ تو انھوں نے جواب دیا: "نعم و لقد سألنا رسول الله ـ صلی الله علیه و آله و سلم ـ فقال: اثنا عشر، كعدّه نقباء بنی اسرائیل"۔ جی ہاں! ہم نے پوچھا اور آپ(ص) نے جواب دیا: بارہ افراد بنی اسرائیل کے دینی پیشواؤں کے تعداد کے برابر۔ یہ حدیث مسند ابن حنبل (5)، مجمع الزوائد ہیثمی (6)، مسند ابی یعلی (7) اور حاکم نیسابوری کی مستدرک (8) میں بھی نقل ہوئی ہے۔ 3ـ تیسری قسم: وہ روایات جو ائمہ علیہم السلام کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کے ناموں پر بھی تصریح کرتی ہیں۔ یہ حدیثیں فریقین کے منابع میں نقل ہوئی ہیں اور ہم یہاں نمونے کے طور پر بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : الف) خوارزمی نے مقتل الحسین میں سلمان المحمدی سے نقل کیا ہے کہ: ہم رسول خدا(ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے جبکہ حسین(ع) آپ(ص) کی آغوش میں تھے، آپ(ص) نے ان کی آنکھوں کا بوسہ لیا اور فرمایا: "انك سید ابو سادة، انك امام ابن ائمه، انك حجة ابن حجة ابو حجج تسعة من صلبك، تاسعهم قائمهم۔ (9) بے شک تم سید ہو سادات کے فرزند، بے شک تم امام ہو ائمہ کے فرزند، آپ حجت ہیں 9 حجتوں کے باپ، جو تمھاری صلب سے ہیں جن میں آخری قائم آل محمد(ص) ہیں۔ ب) جوینی نے فرائد السمطین میں نقل کیا ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: ہمیں اپنے جانشین سے آگاہ کریں، کیونکہ کوئی بھی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کا کوئی جانشین نہ ہو اور ہمارے نبی نے یوشع بن نون کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جواب دیا: بے شک میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسن اور حسین اور ان کے بعد نو مزید امام ہیں جو حسین بن علی کی صلب سے ہیں۔ نعثل نے کہا: اے محمد(ص)! ان نو جانشینوں کے نام بھی میرے لیے بیان کریں۔ اور رسول اللہ(ص) نے ان کے نام بھی بیان فرمائے۔ (10) البتہ اہل سنت میں سے بعض نے اپنی کتب میں حقائق سے بھاگنے کی کوشش میں ان روایات کو نقل نہيں کیا ہے۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جب وہ بارہ امرا اور ائمہ کی حدیث کو تسلیم کرکے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رکھتا سوا اس کے شیعیان آل رسول(ص) کے بارہ اماموں کو قبول کريں کیونکہ اہل سنت میں سے بعض علما بارہ اماموں کو اپنے عقیدے کے مطابق مرتب کرنے کی کوشش میں انحراف کا شکار ہوئے ہیں اور غلط راستے پر چل نکلے ہیں۔ (11) اور انھوں نے ایسے افراد کے نام بارہ اماموں کے عنوان سے ذکر کیے ہیں جن کا فسق و فجور واضح و آشکار ہو چکا ہے اور حتی اہل سنت کی اپنی کتابوں میں بھی ان کے فسق و فجور پر تاکید ہوئی ہے۔ (12) حالانکہ ائمہ اور رسول اللہ(ص) کے جانشینوں کو ہادی و راہبر اور ضلالت و گمراہی سے نجات دہندہ ہونا چاہیے نہ یہ کہ وہ خود ہدایت و راہنمائی کے محتاج ہوں۔ ایک اعتراض اور اس کا جواب بعض لوگوں نے کہا ہے کہ تمام شیعہ مکاتب ائمہ کی تعداد پر متفق القول نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا اشارہ اسماعیلی، بوہری اور زیدی فرقوں کی طرف ہے جن کے ہاں ائمہ کی تعداد 4 یا چھ یا سات ہے ؛ اور ان کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ اگر مسلمانوں کے بعض فرقے اہل تشیع کے ساتھ بعض عقائد میں متفق ہیں اور شیعہ کہلاتے ہیں تو اس بات کی دلیل ہرگز نہيں ہے کہ وہ سب ایک مکتب میں شامل ہیں اور دوسرے فرقوں کو بھی مکتب امامیہ کا جزء قرار دیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کا نام بغیر کسی قید و شرط کے صرف اور صرف امامیہ اثناعشریہ اور جعفریہ مکتب کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہی مکتب ہے جس کے ماننے والے اپنے آپ کو فرقہ ناجیہ یا نجات یافتہ مکتب اور مذہب حقہ سمجھتے ہیں اور شیعہ اثنا عشریہ کے علما کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اسی بنا پر شیعہ اثنا عشریہ ان فرقوں کو باطل اور مکتب سے خارج سمجھتے ہیں جو ائمہ علیہم السلام کی تعداد میں اس مکتب کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ کہلائیں کیونکہ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرمان کی مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں چنانچہ وہ شیعہ سے جدا ہیں۔ جیسا کہ شیعیان امامیہ نے غالیوں کو خارج از اسلام قرار دیا ہے جو امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کے لیے الوہیت کے قائل ہیں اور انھیں خدا سمجھتے ہیں۔ (معاذ اللہ) یہ لوگ شیعہ امامیہ کے ہاں کافر ہیں۔ علاوہ بریں یہ اعتراض خود اہل سنت پر بھی وارد ہے کیونکہ سنیوں کے بھی مختلف فرقے ہیں جیسے : اشعریہ، معتزلہ، ماتریدیہ اور آج کل کے زمانے میں سلفیہ، تکفیریہ، وہابیہ، اخوانیہ، دیوبندیہ، بریلویہ وغیرہ جو اگرچہ نام "سنی" میں سب شریک ہیں تاہم ان میں سے ہر ایک کے اپنے خاص عقائد و نظریات ہیں اور بہت سے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں جن میں تکفیری ـ وہابی فرقہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو تقریباً تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔

امام[ترمیم]

بارہ امام[ترمیم]

ذیل میں ان ائمہ کرام کی فہرست دی گئی ہے جو اہل تشیع کے فرقہ امامیہ کے نزدیک بارہ امام مانے جاتے ہیں۔ اہل تشیع کے کچھ فرقے ان میں سے کچھ ائمہ کی امامت سے اختلاف بھی کرتے ہیں البتہ ان میں زیادہ تر پر متفق ہیں خصوصاً امام جعفر صادق تک کسی کا ابھی اختلاف نہیں ہے۔

بارہ اماموں کی فہرست[ترمیم]

نمبر شمار خطاطی میں اسم
(مکمل/کنیت)
لقب
(عربی/ترکی)[1]
تاریخ
پیدائش
وفات
(ع/ھ)[2]
اہمیت جائے پیدائش وجہ وفات اور جائے وفات
اور مقام مدفن[3]
1 امام علی ابن ابی طالب
علي بن أبي طالب

أبو الحسن
امیرالمومنین
(مومنوں کے سردار)[4]


المرتضیٰ

(پسند کیا جانے والا)


علی بن ابی طالب[5]
600–661[4]
23 (قبلھجری)–40[6]
[7] تمام شیعہ فرقوں کے نزدیک وہ پہلے امام[8] اور پیغمبر اسلام کے حقیقی وارث اورجانشین ہیں جبکہ اہلسنت حضرات بھی ان کی تقلید میں انھیں خلیفہ چہارم کا رتبہ دیتے ہیں۔ اہل تصوف کے اکثر سلاسل حضرت علی کے ذریعے ہی پیغمبر اسلام ﷺ سے ملتے ہیں۔ تینوں وں سنی، شیعہ اور صوفی ذرائع علی کی علمی بلندگی، سخاوت، شجاعت، عدالت، پیغمبر ﷺ سے قربت اور تقوٰی پر متفق ہیں۔[4] مکہ[4] انھیں ابن ملجم، ایک خارجی، نے کوفہ، میں ان پر زہر آلود تلوار سے وار کیا اوروہ اس زخم سے جانبر نہ ہو سکے۔[4][9]
وہ امام علی مسجد نجف، عراق میں آسودہ خاک ہیں۔
2 امام حسن بن علی
حسن بن علي

أبو محمد
المجتبیٰ


(چنا ہوا)


اکنسی علی[5]
625–670[10]
3–50[11]
وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے اور آنحضرت کے سب سے بڑے نواسے تھے۔ حسن اپنے والد کے جانشینی سنبھالتے ہوئے کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے انھوں نے معاویہ بن ابو سفیانٰ سے امن معاہدہ کیا، وہ سات ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے پھر انھوں نے یہ خلافت اس معاہدے کے تحت امیر معاویہ کے سپرد کردی۔[10] مدینہ[10]
جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عربِ۔
3 امام حسین بن علی
حسین بن علي

أبو عبد الله
سید الشہداء


(شہیدوں کے سردار)


اکنکو علی[5]
626–680[12]
4–61[13]
وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے نواسے اور امام حسن کے بھائی تھے یزید اول کے خلافت کی اہلیت کے خلاف کھڑے ہونے پر انھیں واقعہ کربلا میں یزیدی فوجوں نے قتل کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی یاد میں ماتم کرنا شیعوں کا ایک اہم مذہبی دستور بنا[12] مدینہ منورہ[12] انھیں واقعہ کربلا میں قتل اور سر بریدہ کیا گیا .
ان کا مدفن روضۂ امام حسين کربلا، عراق ہے .[12]
4 امام زین العابدین
علي بن الحسین

أبو محمد
السجاد، زین العابدین


(عابدوں کے سردار)[14]


دردنکو علی[5]
658/9[14] – 712[15]
38[14]–95[15]
وہ صحیفہ سجادیہ، کے مصنف تھے جو اہلبیت کے دعاوں کا مجموعہ ہے۔ .[15] مدینہ منورہ[14] زیادہ تر شیعہ علما کے نزدیک انھیں بادشاہ ولید نے زہر دیا مدینہ منورہ، سعودی عرب.[15]
وہ جنت البقیع، مدینہ منورہ، میں دفن ہیں سعودی عرب۔
5 امام محمد باقر
محمد بن علي

أبو جعفر
باقر العلوم


(علوم کو منکشف کرنے والے)[16]


بسنسی علی[5]
677–732[16]
57–114[16]
دونوں شیعہ و سنی حضرات کے نزدیک وہ ایک بڑے اور اولین فقیہ تھے .[16][17] مدینہ منورہ[16] کچھ شیعہ علما کے نزدیک انھیں ابراہیم بن ولید بن عبد اللہ نے مدینہ منورہ، سعودی عرب میں ہشام بن عبدالملک کے کہنے پر زہر دیا۔[15]
جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
6 امام جعفر صادق
جعفر بن محمد
Abu Abdillah[18]
أبو عبد الله
الصادق[19]


(ایماندار)


الٹنسی علی[5]
702–765[19]
83–148[19]
وہ ایک بڑے فقیہ تھے وہ اس شعبے میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے استاد بھی رہے ہیں اور وہ مشہور مسلم کیمیادان،جابر بن حیان کے بھی استاد تھے۔ شیعہ حضرات فقہ جعفری کو ان سے منسوب کرتے ہیں۔ نیز علم کلام میں ان کے شاگردوں میں واصل ابن عطا اورہشام ابن حکم شامل تھے .[19] مدینہ منورہ[19] شیعہ ذرائع کے مطابق آپ مدینہ منورہ، سعودی عرب میں خلیفہ ابو جعفر المنصور کے حکم پر زہر دے کر قتل کیے گئے۔[19] جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
7 امام موسیٰ کاظم
موسی بن جعفر

أبو الحسن الاول[20]
الکاظم[21]


(حلیم طبع)


یدنسی علی[5]
744–799[21]
128–183[21]
یہ امام جعفر الصادق کی وفات کے بعد اسماعیلی فرقے کے وجود میں آنے کے دور میں شیعہ اور دوسرے ذیلی فرقوں کے لوگوں کے امام تھے۔[22] انھوں نے اپنے دور میں اپنے مریدوں کا ایک باقاعدہ نظام بنایا جو مشرق وسطی اور خراسان میں شیعوں سے خمس وصول کرتے تھے۔ وہ مہدویہ فرقے میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں جو ان کے ذریعے اپنے سلسلے کو نبی ﷺ سے جوڑتے ہیں۔ .[23] مدینہ منورہ[21] شیعہ عقائد کے مطابق انھیں خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد عراق میں پابند سلاسل کیا اورا سی قید میں انھیں زہر دیا گیا۔
جائے مدفن کاظمین بغداد عراق۔[21]
8

امام علی رضا
علي بن موسی

أبو الحسن الثانی[20]
الرضا، رضا[24]



(جس سے راضی ہوا)


سکیزنسی علی[5]
765–817[24]
148–203[24]
انھیں مامون الرشید نے بظاہر اپنا جانشین شہزادہ قرار دیا وہ مسلموں اور غیر مسلموں سے مباحثوں کے لیے شہرت رکھتے تھے۔[24] مدینہ منورہ[24] شیعوں کے مطابق انھیں مامون الرشید نے زہر دیا .
جائے مدفن مزار امام علی رضا مشہد، ایران.[24]
9 امام محمد تقی
محمد بن علي

أبو جعفر
التقی، الجواد[25]


(خدا سے ڈرنے والا، سخی)


ڈوکوزنسو علی[5]
810–835[25]
195–220[25]
وہ اپنی سخاوت اور عباسی خلفاء کی کوتاہیوں پر کھل کر نکتہ چینی کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ[25] شیعہ ذرائع میں انھیں ان کی بیوی جو مامون کی بیٹی تھی نے خلیفہ المعتصم کے حکم پر زہر دیا۔
جائے مدفن کاظمین بغداد .[25]
10 امام علی نقی
علي بن محمد

أبو الحسن الثالث[26]
الہادی، النقی[26]


(رہنما،پاک)


اوننسو علی[5]
827–868[26]
212–254[26]
انھوں نے خمس وصول کرنے اور اپنے مریدوں کو ہدایات دینے کے نظام کو فعال اور بہتر کیا۔[26] سریا جو مدینہ سے قریب ایک گاؤں ہے[26] شیعوں کے نزدیک، انھیں المعتعز کے حکم پر زہر دیا گیا .[27]
جائے مدفن العسکری مسجد سامرا عراق۔
11 امام حسن عسکری
الحسن بن علي

أبو محمد
العسکری[28]


(ایک فوجی قصبے کا شہری)


انبرنسی علی[5]
846–874[28]
232–260[28]
ان کی زندگی کا بڑا حصہ ان کے والد کی وفات کے بعد عباسی خلیفہ المعتمد کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں میں گذرا۔ شیعوں کی بڑھتی تعداد اور قوت کی وجہ سے بھی ان پر اس دور میں سختیاں کی گئی .[29] مدینہ منورہ[28] شیعوں کے نزدیک انھیں، خلیفہ المعتمد کے حکم پر سامرا، عراق میں زہر دیا گیا۔
جائے مدفن العسکری مسجد سامرا عراق۔[30]
12 امام مہدی
محمد بن الحسن

أبو القاسم
مہدی،[31]
امام غائب،[32]
الحجہ[33]


(ہدایت یافتہ، ثبوت)


اونکسنسی علی[5]
868–نامعلوم[34]
255–نامعلوم[34]
شیعوں کے نزدیک وہ ایک تاریخی اور اہم معجزاتی شخصیت ہیں اور وہ قیامت کے قریب میں مسیح کے ساتھ ظہور ہوں گے اور دنیا پر اسلامی حکومت قائم کر کے اسے عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔[35] سامرا، عراق[34] شیعوں کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور 872ء سے حالت غیبت میں موجود ہیں اور ایک دن خدا کی مرضی سے ظہورکریں گے۔[34]

اسماعیلی امام[ترمیم]


170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

زیدی امام[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حواشی[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

1۔ یہ روایت شیعہ اور سنی کتب میں مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ رجوع کریں : صحیح مسلم، ج4، ص1873 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی؛ سنن ترمذی، دار احیاء التراث العربی، ج5، ص663 و كنز العمال، فاضل هندی، مؤسسه الرساله، ج1، ص380، و بحار الانوار، مجلسی، دار احیاء التراث العربی، ج23، ص106۔ 2۔ سورہ نجم آیات 3 و 4۔ 3۔ صحیح بخاری، باب الاستخلاف حدیث 6796۔ دار احیاء التراث العربی، ج9، ص101۔ 4۔ صحیح مسلم، ج3، ص1453۔ 5۔ سند احمد بن حنبل، شعیب الارنؤوط، مؤسسة الرساله، ج6، ص321۔ 6۔ هیثمی، مجمع الزوائد، دار الكتاب العربی، بیروت، ج5، ص190۔ 7۔ مسند ابویعلی موصلی، دار المأمون، بیروت، ج8، ص444۔ 8۔ حاكم نیشابوری، مستدرك، دار المعرفه، بیروت، ج4، ص501۔ 9۔ خوارزمی، مقتل الحسین، مكتبه المفید، قم، ج1، ص146۔ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حدثنا أبي (ر) قال: حدثنا سعد بن عبد الله بن أبي خلف قال حدثني يعقوب بن يزيد عن حماد بن عيسى عن عبد الله بن مسكان عن أبان بن تغلب عن سليم بن قيس الهلالي عن سلمان الفارسي رحمه الله قال: دخلت على النبي صلی الله عليه وآله وإذا الحسين عليه السلام على فخذيه وهو يقبل عينيه ويلثم فاه، وهو يقول: أنت سيد إبن سيد، أنت إمام إبن إمام أبو الأئمة، أنت حجة إبن حجة أبو حجج تسعة من صلبك، تاسعهم قائمهم۔ الشيخ الصدوق - الخصال - رقم الصفحة 475۔ 10۔ جوینی، فرائد السمطین، مؤسسه المحمودی، بیروت، ج2، ص134۔ 11۔ رجوع کریں : فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، بیروت، دار المعرفة، ج13، ص214۔ (اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور پھر ایک قول کو پسند کرتا ہے اور بعض افراد کو ائمہ اثنا عشر کے عنوان سے ذکر کرتا ہے جن میں ایک یزید بن معاویہ ہے) اور رجوع کریں : البدایة والنهایة، ابن كثیر، دار المكتب العلمیة، بیروت، ج6، ص256۔ 12۔ جن میں سے ایک یزید بن معاویہ ہے جس کے فسق و فجور میں کسی کو بھی شک و شبہہ نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر لکھتا ہے : "اكثر ما نقم علیه فی عمله (یزید) شرب الخمر واتیان بعض الفواحش" (البدایة والنهایة، ابن كثیر، دار الكتب العلمیة، ج8، ص235) یزید کے اعمال میں اس سے نفرت کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ وہ شراب خوار تھا اور بعض فحش اعمال انجام دیتا تھا۔ اور ابن حجر لکھتا ہے : اهل سنت یزید کی تکفیر میں اختلاف رکھتے ہیں۔ ۔۔ تاہم اگر اس کو مسلمان قرار دیا جائے تو بھی وہ ایک فاسق اور شراب خوار شخص تھا۔ (الصواعق المحرقة، ابن حجر هیثمی، مكتبة القاهرة، 1385 ق، ص221) تو کیا جس شخص کے کفر میں اختلاف ہو اور اس کے فسق و فجور پر اتفاق، مسلمانوں کا امام اور خلیفہ ہو سکتا ہے؟

  1. الامام عربی القابات بارہ امامی شیعوں کی اکثریت استعمال کرتی ہے Arabic بطور عبادتی زبان، جن میں اصولی، Akhbari، شیخی اور کسی حد تک Alavi (surname). ترک القاب زیادہ تر Alavi (surname) لوگ استعمال کرتے ہیں، جو ایک بارہ امامی شیعہ گروہ جو مجموعی شیعہ آبادی کا 10 فیصد ہے۔ ہر امام کے القاب کا ترجمہ کچھ یوں کیا جاتا ہے "اول علی"، "علی دوم"، so forth. Encyclopedia of the Modern Middle East and North Africa۔ Gale Group۔ ISBN 978-0-02-865769-1 
  2. ع سے مراد عام زمانہ شمسی تقویم،ھ سے مراد اسلامی ہجری قمری تقویم.
  3. ماسوائے بارہویں امام
  4. ^ ا ب پ ت ٹ Seyyed Hossein Nasr۔ "Ali"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2007 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ Encyclopedia of the Modern Middle East and North Africa۔ Gale Group۔ 2004۔ ISBN 978-0-02-865769-1 
  6. طباطبائی (1979)، pp.190–192
  7. E. Kohlberg، I. K. Poonawala۔ "ʿALI B. ABI ṬĀLEB"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2014 
  8. Mohammad Ali Amir-Moezzi۔ "SHIʿITE DOCTRINE"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2014 
  9. طباطبائی (1979)، p.192
  10. ^ ا ب پ Wilferd Madelung۔ "ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولا‎ئی 2012 
  11. طباطبائی (1979)، pp.194–195
  12. ^ ا ب پ ت Wilferd Madelung۔ "ḤOSAYN B. ʿALI"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2008 
  13. طباطبائی (1979)، pp.196–199
  14. ^ ا ب پ ت Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ B. ḤOSAYN B. ʿALĪ B. ABĪ ṬĀLEB، ZAYN-AL-ʿĀBEDĪN"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2007 
  15. ^ ا ب پ ت ٹ طباطبائی (1979)، p.202
  16. ^ ا ب پ ت ٹ Wilferd Madelung۔ "BĀQER، ABŪ JAʿFAR MOḤAMMAD"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2007 
  17. طباطبائی (1979)، p.203
  18. "JAʿFAR AL-ṢĀDEQ، ABU ʿABD-ALLĀH"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2014 
  19. ^ ا ب پ ت ٹ ث طباطبائی (1979)، p.203–204
  20. ^ ا ب Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ AL-REŻĀ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2007 
  21. ^ ا ب پ ت ٹ طباطبائی (1979)، p.205
  22. طباطبائی (1979) p. 78
  23. Sachedina 1988, pp. 53–54
  24. ^ ا ب پ ت ٹ ث طباطبائی (1979)، pp.205–207
  25. ^ ا ب پ ت ٹ طباطبائی (1979)، p. 207
  26. ^ ا ب پ ت ٹ ث Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ AL-HĀDĪ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2007 
  27. طباطبائی (1979)، pp.208–209
  28. ^ ا ب پ ت H Halm۔ "ʿASKARĪ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2007 
  29. طباطبائی (1979) pp. 209–210
  30. طباطبائی (1979)، pp.209–210
  31. "THE CONCEPT OF MAHDI IN TWELVER SHIʿISM"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2014 
  32. "ḠAYBA"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جولا‎ئی 2014 
  33. "Muhammad al-Mahdi al-Hujjah"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2007 
  34. ^ ا ب پ ت طباطبائی (1979)، pp.210–211
  35. طباطبائی (1979)، pp. 211–214