محمد تقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(امام جواد سے رجوع مکرر)
محمد تقی
(عربی میں: أبو جعفر محمد بن علي الجواد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 12 اپریل 811ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 نومبر 835ء (24 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاظمیہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات زہر  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد کاظمیہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد علی نقی،  موسیٰ مبرقع،  حکیمہ خاتون  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی رضا[1]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
بارہ امام (9 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
818  – 835 
علی رضا 
علی نقی 
عملی زندگی
نمایاں شاگرد علی نقی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان،  مذہبی رہنما،  امام  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

محمد الجواد تقی، علی رضا کے فرزند اور اہلِ تشیع کے نویں امام ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

محمد نام , ابو جعفر کنیت اور تقی علیہ السّلام وجوّاد علیہ السّلام دونوں مشہور لقب تھے اسی لیے اسم و لقب کو شریک کرے آپ امام محمدتقی علیہ السّلام کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ چونکہ آپ کو پہلے امام محمد باقر علیہ السّلام کی کنیت ابو جعفر ہو چکی تھی اس لیے کتب میں آپ کو ابو جعفر ثانی اور دوسرے لقب کو سامنے رکھ کر حضرت جوّاد بھی کہا جاتا ہے۔ والد بزرگوار آپ کے حضرت امام رضا علیہ السّلام تھے اور والدہ معظمہ کانام جناب سبیکہ یاسکینہ علیہ السّلام تھا۔[2]

علی ابن ابی طالب
حسین ابن علی
زین العابدین
محمد باقر
جعفر الصادق
موسی کاظم
علی رضا
محمد تقی

ولادت[ترمیم]

5 رمضان 195ھجری کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی . اس وقت بغداد کے دارلسلطنت میں ہارون رشید کابیٹا امین تخت حکومت پر تھا .

نشو و نما اور تربیت[ترمیم]

یہ ا یک حسرت ناک واقعہ ہے کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کو نہایت کمسنی ہی کے زمانے میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاناپڑا .انھیں بہت کم ہی اطمینان اور سکون کے لمحات میں باپ کی محبت , شفقت اور تربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کاموقع مل سکا .آپ کو صرف پانچواں برس تھا۔ جب حضرت امام رضا علیہ السّلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمدتقی علیہ السّلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السّلام کی وفات ہو گئی۔ دنیا سمجھتی ہوگی کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے لیے علمی وعملی بلندیوں تک پہنچنے کاکوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفر صادق علیہ السّلام کی علمی مسند شاید خالی نظر ائے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علما سے فقہ، حدیث، تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا . اس کی حیرت اس وقت تک دور ہوناممکن نہ تھی , جب تک وہ مادی اسباب کی بجائے ایک مخصوص خدا وندی مدرسہ تعلیم و تربیت کے قائل نہ ہوتے , جس کے بغیر یہ معما نہ حل ہوا اور نہ کبھی حل ہو سکتا ہے .

عراق کا پہلا سفر[ترمیم]

جب امام رضا علیہ السّلام کو مامون نے ولی عہد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ہوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کیے جائیں اور اس طرح شیعیان اہل بیت علیہ السّلام کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص واتحاد کے مظاہرے کے لیے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ہاشمی خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے ہے , کچھ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کردی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جہاں ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی۔ اس نے اپنی بہن ام حبیبہ کاعقد امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیاا ور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کاامام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ اعلان کیا . غالباً اس کا خیال تھا کہ اس طرح امام رضا علیہ السّلام بالکل اپنے بنائے جا سکیں گے مگر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ اپنے ان منصبی فرائض کو جو رسول کے وارث ہونے کی بنا پر ان کے ذمہ ہیں۔ کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے اور اب عباسی سلطنت کارکن ہونے کے ساتھ ان اصول پر قائم رہنا . مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرنے سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے۔ تو اسے اپنے مفاد سلطنت کی تحفظ خاطر اس کی ضرورت ہوئی کہ وہ زہر دے کر حضرت علیہ السّلام کی زندگی کاخاتمہ کر دے مگر وہ مصلحت جوامام رضا علیہ السّلام کوولی عہد بنانے کی تھی یعنی ایرانی قوم اور جماعت ُ شیعہ کو اپنے قبضے میں رکھنا وہ اب بھی باقی تھی اس لیے ایک طرف تو امام رضا علیہ السّلام کے انتقال پر اس نے غیر معمولی رنج وغم کااظہار کیا تاکہ وہ اپنے دامن کو حضرت علیہ السّلام کے خون ناحق سے الگ ثابت کرسکے . اور دوسری طرف اس نے اپنے اعلان کی تکمیل ضروری سمجھی کہ جو وہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے ساتھ اپنی لڑکی سے منسوب کرنے کا کرچکا تھا , اس نے اس مقصد سے امام محمدتقی علیہ السّلام کو مدینہ سے عراق کی طرف بلوایا . اس لیے کہ امام رضا علیہ السّلام کی وفات کے بعد وہ خراسان سے اب اپنے خاندان کے پرانے دار السلطنت بغداد میں آچکا تھا اور ا س نے یہ تہیّہ کر لیا کہ وہ ام الفضل کاعقد اس صاحبزادے کے ساتھ بہت جلد کر دے .

علما سے مناظرہ[ترمیم]

بنی عباس کو مامون کی طرف سے امام رضا علیہ السّلام کا ولی عہد بنایا جانا ہی ناقابل برداشت تھا امام رضا علیہ السّلام کی وفات سے ایک حد تک انھیں اطمینان حاصل ہوا تھا اور انھوں نے مامون سے اپنے حسبِ دلخواہ اس کے بھائی موئمن کی ولی عہدی کااعلان بھی کرادیا جو بعد میں معتصم بالله کے نام سے خلیفہ تسلیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی کے زمانہ میں عباسیوں کامخصوص شعار یعنی کالالباس تبدیل ہو کر سبز لباس کارواج ہو رہا تھا اسے منسوخ کرکے پھر سیاہ لباس کی پابندی عائد کردی گئی , تاکہ بنی عباس کے روایات ُ قدیمہ محفوظ رہیں . یہ باتیں عباسیوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ وہ مامون پر پورا قابو پاچکے ہیں مگر اب مامون یہ ارادہ کہ وہ امام محمد تقی علیہ السّلام کو اپنا داماد بنائے ان لوگوں کے لیے پھر تشویش کاباعث بنا . اس حد تک کہ وہ اپنے دلی رجحان کو دل میں نہ رکھ سکے اورایک وفد کی شکل میں مامون کے پاس اکر اپنے جذبات کااظہار کر دیا , انھوں نے صاف صاف کہا کہ امام رضا کے ساتھ جو آپ نے طریقہ کار استعمال کیا وہی ہم کو ناپسند تھا۔ مگر خیر وہ کم از کم اپنی عمر اور اوصاف وکمالات کے لحاظ سے قابلِ عزت سمجھے بھی جا سکتے ہیں مگر ان کے بیٹے محمد علیہ السّلام تو ابھی بالکل کم سن ہیں ایک بچے کو بڑے بڑے علما اور معززین پر ترجیح دینا اور اس قدر اس کی عزت کرنا ہر گز خلیفہ کے لیے زیبا نہیں ہے پھر ام حبیبہ کانکاح جو امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے ہم کو کیا فائدہ پہنچا . جو اب ام الفضل کانکاح محمد ابن علی علیہ السّلام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مامون نے اس تمام تقریر کا یہ جواب دیا کہ محمد علیہ السّلام کمسن ضرور ہیں مگر میں نے خوب اندازہ کر لیا ہے۔ اوصاف وکمالات میں وہ اپنے باپ کے پورے جانشین ہیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علمائ جن کا تم حوالہ دے رہے ہو علم میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے . اگر تم چاہو تو امتحان لے کر دیکھ لو . پھر تمھیں بھی میرے فیصلے سے متفق ہونا پڑے گا . یہ صرف منصافانہ جواب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا جس پر مجبوراً ان لوگوں کو مناظرے کی دعوت منظور کرنا پڑی حالانکہ خود مامون تمام سلاطین ُ بنی عباس میں یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ مورخین اس کے لیے یہ الفاظ لکھ دیتے ہیں: کان یعد من کبار الفقہاء یعنی اس کا شمار بڑے فقیہوں میں ہے۔ اس لیے اس کا فیصلہ خود کچھ کم وقعت نہ رکھتا تھا مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفاء نہیں کی بلکہ بغداد کے سب سے بڑے عالم یحییٰ بن اکثیم کو امام محمدتقی علیہ السّلام سے بحث کے لیے منتخب کیا . مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لیے منعقد کیا اور عام اعلان کرادیا . ہر شخص اس عجیب اور بظاہر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ہو گیا جس میں ایک طرف ایک اٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک ازمود کار اور شہرئہ افاق قاضی القضاة . اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر طرف سے خلائق کا ہجوم ہو گیا۔مورخین کا بیان ہے کہ ارکان ُ دولت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علما وفضلاء کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دار السلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کھنچ کر جمع ہو گئے تھے۔ اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی- مامون نے حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لیے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت علیہ السّلام کے سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی- ہر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ہمہ تن چشم و گوش بنا ہوا گفتگو شروع ہونے کے وقت کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا تھا-» حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر علیہ السّلام سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟ مامون نے کہا،» تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہیے-« یحیٰی امام علیہ السّلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا-»کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں؟« فرمایا-» تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو-« یحیٰی نے پوچھا کہ »حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے?« اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیٰی حضرت امام محمد تقی کو علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا- وہ اپنے غرور علم اور جہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادے تو ہیں ہی- روزمرہ کے روزے نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں مگر حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاں واقف ہوں گے- امام علیہ السّلام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی، جس سے بغیر کوئی جواب اصل مسئلے کا دیے ہوئے آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیٰی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہو گیا، یحیٰی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع بھی اس کا سبک ہونا محسوس کرنے لگا- آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارا سوال بالکل مبہم اور مجمل ہے- یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف- اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا دھوکے سے قتل ہو گیا وہ شخص آزاد تھا یا غلام کمسن تھا یا بالغ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کر چکا تھا۔ شکار پرندکا تھا یا کوئی اور۔ چھوٹا یا بڑا۔ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے۔ رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن دہاڑے اورعلانیہ۔ احرام عمرہ کا تھا یا حج کا۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نہیں بتایا جا سکتا- یحییٰ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر بھی تھی- وہ ان کثیر التعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لیے آسان نہیں ہے- اس کے چہرے پر ایسی شکستگی کے آثار پیداہوئے جن کاتمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا- اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا- مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچھ کہنا بیکار سمجھا اور حضرت علیہ السّلام سے عرض کیا کہ پھر آپ ہی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجیئے , تاکہ سب کو استفادہ کا موقع مل سکے- امام علیہ السّلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے یحیٰی ہکا بکا امام علیہ السّلام کا منہ دیکھ رہا تھا اور بالکل خاموش تھا- مامون کو بھی کد تھی کہ وہ اتمام حجت کو انتہائی درجے تک پہنچا دے اس لیے اس نے امام علیہ السّلام سے عرض کیا کہ اگر مناسب معلوم ہو تو آپ علیہ السّلام بھی یحییٰ سے کوئی سوال فرمائیں- حضرت علیہ السّلام نے اخلاقاً یحییٰ سے یہ دریافت کیا کہ »کیا میں بھی تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں?«یحییٰ اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا، اپنا اور امام علیہ السّلام کا درجہ اسے خوب معلوم ہو چکا تھا- اس لیے طرز گفتگو اس کا اب دوسراہی تھا- اس نے کہا کہ حضور علیہ السّلام دریافت فرمائیں اگر مجھے معلوم ہو گا تو عرض کر دوں گا ورنہ خود حضور ہی سے معلوم کر لوں گا، حضرت علیہ السّلام نے سوال کیا- جس کے جواب میں یحییٰ نے کھلے الفاظ میں اپنی عاجزی کا اقرار کیا اور پھر امام نے خود اس سوال کا حل فرما دیا- مامون کو اپنی بات کے بالا رہنے کی خوشی تھی- اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر کہا: دیکھوں میں نہ کہتا تھا کہ یہ وہ گھرانا ہے جو قدرت کی طرف سے علم کا مالک قرار دیا گیا ہے- یہاں کے بچوں کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا- مجمع میں جوش و خروش تھا- سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ بے شک جو آپ کی رائے ہے وہ بالک ٹھیک ہے اور یقیناً ابو جعفر علیہ السّلام محمد ابن علی کو کوئی مثل نہیں ہے- مامون نے اس کے بعد ذرا بھی تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی جلسے میں امام محمد تقی کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا- نکاح کے قبل جو خطبہ ہمارے یہاں عموماً پڑھا جاتا ہے وہی ہے جو امام محمد تقی نے اس عقد کے موقع پر اپنی زبان مبارک پر جاری کیا تھا- یہی بطور یادگار نکاح کے موقع پر باقی رکھا گیا ہے مامون نے اس شادی کی خوشی میں بڑی فیاضی سے کام لیا- لاکھوں روپیہ خیر و خیرات میں تقسیم کیا گیا اور تمام رعایا کو انعامات و عطیات کے ساتھ مالا مال کیا گیا-

مدینہ کی طرف واپسی[ترمیم]

شادی کے بعد تقریباً ایک سال تک بغداد میں مقیم رہے اس کے بعد مامون نے بہت اہتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت علیہ السّلام کے ساتھ رخصت کر دیا اور امام علیہ السّلام مدینہ میں واپس تشریف لائے-

اخلاق و اوصاف[ترمیم]

امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا . ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا۔ غرباً کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا . مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پہلے لکھے جاچکے ہیں۔ اہل دنیا کو جو آپ کے بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے انھیں یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہو سکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا۔بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کا ال ُ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا۔ جتنا ان کے صفات سے وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ کسی طرح ٹوٹ جائے . اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ , فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی . جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے , اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زہر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ اب مامون کے نقطۂ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ہے جو تین برس سے پہلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت اسان ہے او را س کے بعد وہ مرکز جو حکومت ُ وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا . مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد ی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نہیں تصور کرتا تھا ،ا س لیے کہ امام رضا علیہ السّلام کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی .ا س میں تبدیلی اگر نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی علیہ السّلام جوآٹھ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو و نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رہیں . سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے۔اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون ہی کا ہم خیال ہوگا . مگر دنیا تو حیران ہو گئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار کردیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا تو ایک علاحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتے ہیں۔ اس سے بھی امام علیہ السّلام کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے . اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے . مگر امام محمد تقی علیہ السّلام نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کر دیا۔ یقیناً یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام علیہ السّلام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے۔ مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے بعد پہلے تھا۔ نہ پہریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک , نہ تزک واحتشام نہ اوقات ُ ملاقات نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق . زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرات ان کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان ُ حدیث دریافت کرتے تھے . طالب علم مسائل پوچھتے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ جعفرصادق علیہ السّلام ہی کا جانشین ہے جو اسی مسند علم پر بیٹھا ہوا ہدایت کاکام انجام دے رہا ہے۔ امور خانہ داری اور ازواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا . آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں۔ چنانچہ ام الفضل کے ہوتے آپ نے حضرت عمار یاسررض کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا۔ یہی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ہوئیں . ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی . مامون کے د ل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا۔ مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا۔ اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر علیہ السّلام کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں . مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔ جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجة علیہ السّلام الکبریٰ اور حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کے لیے جناب فاطمہ زہرا علیہ السّلام مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے۔ اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے ال محمد محافظ تھے اس لیے امام محمدتقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا .

تبلیغ و ہدایت[ترمیم]

آپ کی تقریر بہت دلکش اور پرتاثیر ہوتی تھی . ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علما دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی . امام رضا علیہ السّلام کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جو امام علیہ السّلام موسیٰ کاظم علیہ السّلام پر توقف کرتا تھا۔ یعنی آ پ کے بعد امام رضا علیہ السّلام کی امامت کا قا ئل نہیں تھا اور اسی لیے واقفیہ کہلاتا تھا۔ امام محمد تقی نے اپنے کردار میں اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ہو گئے اور آپ کے زمانہ ہی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی ہو بہت سے بزرگ مرتبہ علما نے آپ سے علوم اہل بیت علیہ السّلام کی تعلیم حاصل کی . آپ کے ایسے مختصر حکیمانہ مقولوں کو بھی ایک ذخیرہ ہے جیسے آپ کے جدِ بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر علیہ السّلام کے بعد امام محمدتقی علیہ السّلام کے مقولوں کو ایک خاص درجہ حاصل ہے۔ الٰہیات اور توحیدکے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ہیں .

عراق کا آخری سفر[ترمیم]

218 ھجری میں مامون نے دنیا کو خیر باد کہا .اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا کے بعد ولی عہد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشہور ہوا . اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی۔ جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے۔ مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کر دیا تھا اس لیے اپنی بات کی پچ اور کیے کی لاج رکھنے کی خاطر ا س نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ہوئے تھا اور امام محمد تقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا۔ اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا۔ حق بجانب ثابت کرنا تھا , پھر سب سے زیادہ امام محمد تقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت آپ کے اخلاقی اثر کاشہرہ جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پہنچا ہوا تھا وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی او ر پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ہوجانا جو اس عقد کامحرک ہوا تھا جس کی تشریح پہلے ہو چکی ہے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لیے امادہ ہو گیا۔ اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمد تقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلو ابھیجا . حاکم مدینہ عبد المالک کو اس بارے میں تاکید ی خط لکھا . مجبوراً امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ہوئے .

شہادت[ترمیم]

بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاہر آپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا۔ آپ کی زندگی کاخاتمہ کر دیا گیا اور 29 ذی القعدہ 220ھجری میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی اور اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے پاس دفن ہوئے .آپ ہی کی شرکت کا لحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شہر کانام کاظمین (دوکاظم یعنی غصہ کو ضبط کرنے والے) مشہور ہوا ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے لقب کوصراحةً سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کانام جوادّین (دوجواد المعنی فیاض) درج ہے جس میں صراحةً حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لقب کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چونکہ آپ کا لقب تقی بھی تھا اور جواد بھی۔

زيارت الإمام الجوادؑ[ترمیم]

السَّلامُ عَلَيْكَ ياأَبا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ البَرَّ التَّقِيَ الإمام الوَفِيَّ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ، السَّلامُ عَلَيْكَ ياوَلِيَّ الله السَّلامُ عَلَيْكَ يانَجِيَّ الله السَّلامُ عَلَيْكَ ياسِرِّ الله السَّلامُ عَلَيْكَ ياضِياءَ الله السَّلامُ عَلَيْكَ ياسَناءَ الله السَّلامُ عَلَيْكَ ياكَلِمَةَ الله السَّلامُ عَلَيْكَ يارَحْمَةَ اللهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها النُّورُ السَّاطِعُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها البَدْرُ الطَّالِعُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الطَّيِّبُ مِنَ الطَّيِّبِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الطَّاهِرُ مِنَ المُطَهَّرِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الايَةُ العُظْمى السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الحُجَّةُ الكُبْرى، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها المُطَهَّرُ مِنَ الزَّلاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها المُنَزَّهُ عَنِ المُعْضِلاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها العَلِيُّ عَنْ نَقْصِ الاَوْصافِ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّها الرَّضِيُّ عِنْدَ الاشْرافِ السَّلامُ عَلَيْكَ ياعَمُودَ الدِّينِ. أَشْهَدُ أَنَّكَ وَلِيُّ اللهِ وَحُجَّتُهُ فِي أَرْضِهِ وَأَنَّكَ جَنْبُ الله وَخِيَرَةُ الله وَمُسْتَوْدَعُ عِلْمِ الله وَعِلْمِ الأَنْبِياءِ وَرُكْنُ الإيْمانِ وَتَرْجُمانُ القُرْآنِ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مَنِ اتَّبَعَكَ عَلى الحَقِّ وَالهُدى وَأَنَّ مَنْ أَنْكَرَكَ وَنَصَبَ لَكَ العَداوَةَ عَلى الضَّلالَةِ وَالرَّدى. أَبْرأُ إِلى الله وَإِلَيْكَ مِنْهُمْ فِي الدُّنْيا وَالآخِرةِ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ مابَقَيْتُ وَبَقِيَ اللَيْلُ وَالنَّهارُ. وقل في الصلاة عليه: اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ وَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ بْنَ عَلِيٍّ الزَّكِيّ التَقِيّ وَالبَرِّ الوَفِيّ وَالمُهَذَّبِ النَّقِيِّ، هادِي الاُمَّةِ وَوارِثِ الأَئِمَّةِ وَخازِنِ الرَّحْمَةِ وَيَنْبُوعِ الحِكْمَةِ وَقائِدِ البَرَكَةِ وَعَدِيلِ القُرْآنِ فِي الطَّاعَةِ وَواحِدِ الأَوْصِياء فِي الاِخْلاصِ وَالعِبادَةِ وَحُجَّتِكَ العُلْيا وَمَثَلِك الاَعْلى وَكَلِمَتِكَ الحُسْنى الدَّاعِي إِلَيْكَ وَالدَّالِّ عَلَيْكَ، الَّذِي نَصَبْتَهُ عَلَما لِعِبادِكَ وَمُتَرْجِما لِكِتابِكَ وَصادِعاً بِأَمْرِكَ وَناصِراً لِدِينِكَ وَحُجَّةً عَلى خَلْقِكَ وَنُوراً تُخْرَقُ بِهِ الظُّلَمُ وَقُدْوَةً تُدْرَكُ بِها الهِدايَةُ وَشَفِيعاً تُنالُ بِهِ الجَنَّةُ ، اللّهُمَّ وَكَما أَخَذَ فِي خُشُوعِهِ لَكَ حَظَّهُ وَاسْتَوْفى مِنْ خَشْيَتِكَ نَصِيبَهُ فَصَلِّ عَلَيْهِ أَضْعافَ ماصَلَّيْتَ عَلى وَلِيٍّ ارْتَضَيْتَ طاعَتَهُ وَقَبِلْتَ خِدْمَتَهُ وَبَلِّغْهُ مِنَّا تَحِيَّةً وَسَلاماً، وَآتِنا فِي مُوالاتِهِ مِنْ لَدُنْكَ فَضْلاً وَإِحْساناً وَمَغْفِرَةً وَرِضْوانا إِنَّكَ ذُو المَنِّ القَدِيمِ وَالصَّفْحِ الجَمِيلِ

  • نماز زیارت کے بعد یہ پڑھیے۔

اللّهُمَّ أَنْتَ الرَّبُّ وَأَنا المَرْبُوبُ

رضوی سیّد[ترمیم]

عمومی طور پر سادات رضوی تقوی ہیں یعنی حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد ہیں۔ امام رضا علیہ السّلام کی شخصی شہرت سلطنتِ عباسیہ کے ولی عہد ہونے کی وجہ سے جمہور مسلمین میں بہت ہو چکی تھی اس لیے امام محمد تقی کی اولاد کاحضرت امام رضا علیہ السّلام کی طرف منسوب کرکے تعارف کیاجانے لگا اور رضوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ایک رضوی احمد رضا کی طرف منسوب ہوتا ہے


حوالہ جات[ترمیم]