امام علی شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواجہ امام علی شاہ نقشبندی ضلع گورداسپور انڈیا کی نقشبندی شخصیات میں سے ہیں

نام ونسب[ترمیم]

اسمِ گرامی:سید امام علی شاہ۔والد کا اسمِ گرامی: سید حیدر علی شاہ۔آپ " سامرہ "عراق کے خاندانِ سادات سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کا تعلق خالصتاً دینی گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد محترم سید حیدر علی شاہ عابد و زاہد بزرگ تھے۔

تاریخِ ولادت[ترمیم]

خواجہ امام علی شاہ کی ولادت باسعادت 1211ھ ،بمطابق 1796ء میں (موضع رتر چھتر ،کے علاقہ "مکان شریف"ضلع گوردا سپور ،پنجاب انڈیا )میں ہوئی ۔

تحصیلِ علم[ترمیم]

خواجہ امام علی شاہ نے اپنے والد محترم کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی ابھی آپ کمسن ہی تھے کہ والد ماجد کا وصال ہو گیا اُس وقت تک آپ نے مولانا فقیر اللہ دھرم کوٹی سے بعض فارسی کی کتب پڑھ لی تھیں۔ پھر آپ نے مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے حافظ محمد رضا اور مولانا نور احمد چشتی ،اور مولانا جان محمدچشتی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان سے درسی کتب پڑھیں اور طب کی کتب سے بھی استفادہ کیا۔ آپ کا ذہن تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں خوب روشن تھا اس لیے سب طالب علموں سے زیادہ ذہین اور لائق سمجھے جاتے تھے۔ایک مرتبہ شاہ حسین نے آپ کے چہرۂ مبارک کی طرف غور سے توجہ فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی انوار اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے دریافت فرمایا کہ بیٹا!کون سی کتاب پڑھتے ہو؟ ابھی آپ جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ ارشاد فرمایا :مثنوی شریف پڑھا کرو کہ اس سے عمل و اعتقاد میں پختگی اور قلب کی صفائی اور روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے اس پر آپ نے مثنوی شریف کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اگلے روز شاہ حسین نے آپ کو بلایا اور مثنوی شریف کے تین اشعار کی شرح اس انداز سے فرمائی کہ آپ کے دل پر اس کا بہت اثر ہوا اور آپ نے پھر باقاعدہ طور پر شاہ حسین سے مثنوی شریف کا درس لینا شروع کر دیا۔آپ علیہ کا شمار اپنے وقت کے جیدعلماء میں ہوتا تھا،بلکہ علما اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

خواجہ امام علی شاہ سولہ برس کی عمر میں شاہ حسین کے دست حق پرست پر بیعت ہو گئے اپنے مرشد کی تعلیمات و ارشادات پر عمل کرنے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ عبادت و مجاہدہ: عبادت و ریاضت میں آپ سکون محسوس کرتے تھے اور بڑی توجہ و یکسوئی سے اللہ رب العزت کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ روزانہ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد "مکان شریف" سے باہر دو میل کے فاصلے پر واقع ایک تالاب کے کنارے پر تشریف لے جاتے یہ جگہ "ڈھولی ڈھاب" کے نام سے مشہور ہے اس جگہ پر آپ کو انتہائی اور یکسوئی میسر ہوتی تھی اور آپ فجر تک پانی کے کنارے مراقبہ کی حالت میں بیٹھے رہتے غرض یہ کہ آپ نے عبادت و ریاضت اور مجاہدے کرنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھا۔ایک دن مرشدِ کامل شاہ حسین نے آپ سے فرمایا۔

"صفوت وقدسِ جبریل علیہ السلام،خلتِ ابراہیم،شوقِ موسیٰ،طہارتِ عیسیٰ اور محبتِ مصطفٰی (صلواۃ اللہ علیہم اجمعین)اگر تمھیں مل جائیں توخبردار اس پرراضی مت ہونا،بلکہ اس سے زیادہ کی آرزو کرناکہ اس سے زیادہ بہت کچھ ہے۔صاحبِ ہمت بنے رہواورسرِ ہمت کبھی نیچا نہ کرنا۔"

سیرت وخصائص[ترمیم]

تاج العارفین،برہان الواصلین،شیخ الکاملین،عارف باللہ ،مجدد وقت خواجہ سید امام علی شاہ نقشبندی مکان شریفی مستجاب الدعوات اور صاحب کرامت ولی اللہ تھے۔بڑے نامی گرامی علما ومشائخ آپ سے بیعت ہوئے اوردرجۂ کمال کو پہنچے۔جن میں سے فقیہ الہند مفتی شاہ محمد مسعود دہلوی شاہی امام وخطیب جامع مسجد فتح پوردہلی،اور خواجہ امیرالدین ،ان سے قطبِ ربانی شیرِ یزدانی میاں شیر محمدشرقپوری جیسے مردِ کامل اور ولیِ کامل ہوئے۔جنھوں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی پورے برصغیر میں خوب ترویج واشاعت فرمائی۔

آپ علم وعمل،اتباعِ سنت،شریعت پراستقامت،تربیت وتسلیک،ناقصوں کی تکمیل،فقراء وغرباء پر شفقت ومہربانی،حسنِ خلق،توضع ومسکنت،عفو و درگزر،ایثار وانعام،اکرام واحسان،زہدوتقویٰ،عبادت وریاضت الغرض آپ حضورِ اکرم ﷺ کے حقیقی وارثِ اوردینِ اسلام کے داعیِ صادق تھے۔

وفات[ترمیم]

وصال:13/شوال المکرم 1282ھ،بمطابق 6/مارچ 1866ء کو بوقتِ عصر آپ کا وصال ہوا،آپ کا مزارضلع گرداسپور انڈیا میں ہے[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ماہ و انجم،پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، مکتبہ نعمانیہ اقبال روڈ سیالکوٹ