انارکلی (1958ء فلم)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انارکلی
Anarkali
ہدایت کارانور کمال پاشا
پروڈیوسرمختار احمد
تحریرقمر اجنالوی (مکالمے)
منظر نویسانور کمال پاشا
کہانیامتیاز علی تاج
ماخوذ ازانارکلی
از امتیاز علی تاج
ستارے
موسیقی
پروڈکشن
کمپنی
نگار پکچرز
تاریخ نمائش
4 جون 1958ء (1958ء-06-04)
دورانیہ
~ 2 گھنٹے
ملکپاکستان
زباناردو

انارکلی (انگریزی: Anarkali) 1958ء کی ایک پاکستانی تاریخی دور ڈراما فلم ہے، جس کی ہدایت کاری انور کمال پاشا نے کی تھی اور اس میں نور جہاں (گلوکارہ) اور سدھیر (پاکستانی اداکار) نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ امتیاز علی تاج کے اسی نام کے اردو ڈرامے پر مبنی، اسکرین پلے انور کمال پاشا نے لکھا ہے جس کے مکالمے قمر اجنالوی نے لکھے ہیں۔

فلم کی کہانی مغلیہ سلطنت کے شہزاہ سلیم (نورالدین جہانگیر) کی ایک لونڈی انارکلی سے محبت کے گرد گھومتی ہے جو شہزادہ سلیم اور اس کے والد، مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے درمیان میں شدید تنازع پیدا کرتی ہے۔ یہ فلم 4 جون 1958ء کو ریلیز ہوئی تھی اور باکس آفس پر اس کی کارکردگی 'اوسط' تھی۔ زیادہ پروڈکشن کے بجٹ کے ساتھ بنائی گئی، فلم کا عام طور پر تاریخی بالی ووڈ فلم مغل اعظم سے موازنہ کیا جاتا ہے جو اسی ڈرامے پر مبنی تھی۔ فلم کو اس کی موسیقی کے لیے سراہا گیا جسے ماسٹر عنایت حسین اور رشید عطرے نے ترتیب دیا تھا۔ [1] نگار ایوارڈز تقریب میں 1958ء میں، اس نے دو ایوارڈز جیتے۔ بہترین گیت نگار قتیل شفائی اور بہترین پلے بیک سنگر نور جہاں (گلوکارہ)

تاریخی حقائق[ترمیم]

انارکلی، مغل بادشاہ اکبر کی ایک کنیز تھی جس کے ساتھ اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم (شہزادہ سلیم بعد میں بادشاہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہوا) کے محبت کے قصے مشہور ہیں۔ اسے ایک روایت کے مطابق بادشاہ اکبر کے حکم پر لاہور کے قریب دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ لاہور کا مشہور انارکلی بازار اسی کے نام پر ہے۔ دراصل یہ تمام قصے یورپی مؤرخ اور سیاحوں کے گھڑے ہوئے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ڈاکٹر انیس ناگی نے اس موضوع پر ایک کتابچہ تالیف کیا ہے جس کا نام" انار کلی حقیقت یا رومان" ہے۔ اس میں ان مختلف مضامین کو اکٹھا کیا گیا ہے جن میں انار کلی کے واقعے کے سچ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں لکھا گیا۔ اکثر مسلمان مورخوں نے اس واقعے کو جھٹلایا ہیں۔

فلمی تجزیہ[ترمیم]

فلمی تجزیہ کاروں نے نور جہاں کو انارکلی کے کردار میں کاسٹ کرنے پر تنقید کی کیونکہ نور جہاں اس وقت 30 سال کی تھیں اور اس وقت قدرے موٹی تھی۔ وہ کہیں بھی ایک نوجوان خوبصورت کنیز سے مشابہت نہیں رکھتی تھی جیسا کہ اسی نام سے 1920ء کے ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم فلمی موسیقی کو سراہا گیا۔ [2][3][4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Film 'Anarkali' to be screened on Saturday"۔ Associated Press of Pakistan (APP) website۔ 6 مئی 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2022 
  2. Aijaz Gul (8 مئی 2016)۔ "'Anarkali' screened at Mandwa"۔ The News International (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2022 
  3. Amjad Parvez (23 ستمبر 2019)۔ "Noor Jahan's top 10 most memorable songs"۔ Daily Times (newspaper)۔ 23 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2022 
  4. Karan Bai (19 مارچ 2016)۔ "The fascinating tales of the many Anarkalis"۔ Scroll.in website۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2022