انتظام اللہ شہابی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انتظام اللہ شہابی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1892ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 ستمبر 1968ء (75–76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن پاپوش نگر قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1892–1949)
پاکستان (1949–8 ستمبر 1968)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ،  سوانح نگار،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تاریخ ملت  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مفتی انتظام اللہ شہابی (پیدائش: 1892ء— وفات: 8 ستمبر 1969ء) صاحب تصانیف مؤلف، مؤرخ اور سوانح نگار تھے۔ علاوہ ازیں وہ انجمن اسلامیہ آگرہ کے صدر بھی رہے اور صدر جناح کالج، کراچی کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ تھے۔ اُن کی وجہ شہرت تاریخ ملت ہے۔

سوانح[ترمیم]

مفتی انتظام اللہ 1892ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ والد مولوی اکرام اللہ شہابی تھے۔[1] ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی میں حاصل کی۔ آخری زمانے میں انگریزی اِس قدر سیکھ لی تھی کہ مختلف کتب سے استفادہ کرسکتے تھے۔ متوسطات تک دینیات کی تکمیل کی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بہت تھا۔ بعد ازاں نقشہ نویسی اور انجینرنگ کی تحصیل کی۔ ملازمت کی بجائے تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔ مدتِ مدید تک اپنے بہنوئی ارشاد حسین کی شراکت میں جانوروں یعنی شیر اور ہاتھیوں کی خرید و فروخت کرتے رہے۔ یہ مشغلہ دس سال تک یعنی 1925ء تک جاری رہا۔[2]

تصانیف[ترمیم]

مزید پڑھیں: تاریخ ملت

تصنیف و تالیف کا زمانہ 1925ء سے شروع ہوتا ہے جب انھوں نے بائبل سوسائٹی کی طرز پر دائرہ معارفِ قرآنیہ قائم کیا اور اِسی کی طرف سے قرآن، حدیث، سیرت پر متعدد رسالے شائع کیے۔ 1945ء میں دہلی آگئے اور نیا کتاب گھر (ناشرین) کے یہاں سوا سو روپئے میں ملازمت اختیار کرلی۔ نیا کتاب گھر سے اُن کی متعدد کتب شائع ہوئیں۔ اِسی زمانہ میں اُن کا تعلق ندوۃ المصنفین سے قائم ہوا جس کے لیے انھوں نے سلاطین ہند اور تاریخ ملت کے بیشتر حصے مرتب کیے۔ دہلی سے ماہنامہ برہان کی ترتیب میں بھی شریک کار رہے۔ مفتی انتظام اللہ کی پہلی کتاب داعی اسلام تھی جو 1914ء میں شائع ہوئی تھی اور آخری کتاب قافیہ سنجان اکبرآباد تھی جو 1968ء میں شائع ہوئی۔ اپنی تصنیف مشاہیر اکبرآباد میں انھوں نے اپنی 129 کتابوں کی نشان دہی کی ہے۔ اِن میں سے اکثر کئی کئی جلدوں میں ہیں اور بعض کے موضوعات بھی بہت متنوع ہیں۔ مشہور تصانیف میں یہ ہیں:

تاریخ ملت۔ بزم آخر۔ چند مسلم سائنس دان۔ حیاتِ ظفر۔ تذکرہ صابر۔ مشاہیر جنگِ آزادی۔ مشاہیر اکبرآباد۔ فاطمہ کا لال۔ ماہتاب اجمیر۔ اسلامی معاشرت۔ قاموس الکتب۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علما۔ نواب نجیب الدولہ اور جنگ پانی پت۔[3]

ہجرت[ترمیم]

1949ء میں مفتی انتظام اللہ پاکستان ہجرت کرگئے جہاں وہ متعدد علمی و ادبی اداروں سے منسلک ہو گئے۔ پاکستان میں بیس سال کے قیام کے دوران انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام بالکل نہ چھوڑا اور آخر عمر تک لکھتے رہے۔

وفات[ترمیم]

مفتی انتطام اللہ کا انتقال 77 سال کی عمر میں بروز اتوار 8 ستمبر 1968ء کی شام ساڑھے چھ بجے کراچی میں ہوا۔[4] تدفین پاپوش نگر قبرستان، شمالی ناظم آباد ٹاؤن، کراچی میں کی گئی۔[3]

اعتراضات[ترمیم]

چونکہ مفتی صاحب کی سب سے بڑی کمزوری حالات اور حوالہ جات وضع کرنا تھی، اِس کام کے لیے وہ بلا تکلف کسی کتاب کا حوالہ دے دیتے اور لکھ دیتے کہ یہ قلمی کتاب ہمارے خاندان گوپامئو کے کسی کتاب خانے میں موجود ہے۔ حالانکہ نہ وہ واقعہ ہی درست ہوتا اور نہ ہی اُس نام کی کوئی کتاب ہی موجود ہوتی اور نہ گوپامئو میں ایسا کوئی کتاب خانہ موجود ہوتا۔ لوگ اُن پر اعتراضات کرتے تھے مگر وہ پشیماں نہ ہوتے اور کہتے کہ میاں تم اعتراض کرتے رہو، میں اپنا کام کرتا رہوں گا، بعد کے لوگ درست کر لیں گے۔ اکثر خطوط میں یا بیانات میں "یارخاں" کا نام ملتا ہے جو غالباً اُن کا تکیہ کلام تھا اور اِس سے اُن کا اشارہ اپنی طرف ہوتا تھا۔

محقق و ماہر غالبیات مالک رام (متوفی 16 اپریل 1993ء) نے اپنی بابت بھی ایسا واقعہ لکھا ہے کہ: خود میں ایک مرتبہ بہت پریشان ہوا۔ انھوں نے اپنی ایک تحریر میں ایک قلمی کتاب کا حوالہ دیا اور لکھ دیا کہ یہ مخطوطہ قلمی ارکاٹ کے کتاب خانے میں محفوظ ہے، چونکہ موضوع سے مجھے دلچسپی تھی، میں نے اپنے بعض مدراسی دوستوں سے استمداد کی۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد راز کھلا کہ سب جعل تھا۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر منیر سلیچ: وفیات مشاہیر کراچی، صفحہ 84۔ مطبوعہ کراچی
  2. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد اول، صفحہ 159۔ مطبوعہ دہلی، 2011ء۔
  3. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ: وفیات مشاہیر کراچی، صفحہ 84۔ مطبوعہ کراچی
  4. ^ ا ب مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد اول، صفحہ 160۔ مطبوعہ دہلی، 2011ء۔