انجم رومانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انجم رومانی
معلومات شخصیت
پیدائش 28 ستمبر 1920ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کپور تھلہ ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 13 اپریل 2001ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن گلشن راوی ،  لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مترجم ،  شاعر ،  پروفیسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت ديال سنگھ کالج، لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک حلقہ ارباب ذوق   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

انجم رومانی (پیدائش: 28 ستمبر، 1920ء- وفات: 13 اپریل، 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

انجم رومانی 28 ستمبر، 1920ء کو سلطان پور لودھی، کپور تھلہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام فضل دین تھا[1][2]۔ وہ 1948ء سے 1972ء تک ديال سنگھ کالج، لاہور میں شعبۂ ریاضی کے صدر اور 1972ء سے 1977ء تک اسی کالج کے وائس پرنسپل بھی رہے۔ وہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔[2]

ادبی خدمات[ترمیم]

انجم رومانی کی تصانف میں کوئے ملامت، پس انداز، دنیا کے کنارے سے اور ثناء اور طرح کی شامل ہیں جبکہ ان کے کلام کی کلیات کلیات انجم رومانی کے نام سے اشاعت پزیر ہو چکی ہے۔[2]

تصانیف[ترمیم]

  • ثناء اور طرح کی (نعتیں)
  • دنیا کے کنارے سے
  • پس انداز
  • کوئے ملامت
  • کلیات انجم رومانی
  • اقبال کا منتخب فارسی کلام (ترجمہ)

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم
دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خالآئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
یاں تو ہر ایک قدم پہ خلل ہے حواس کا اے خضر باز آئے تری ہم رہی سے ہم
دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نامپڑھتے تھے لوحِ دل پہ کچھ آشفتگی سے ہم
رہتی ہے انجم ایک زمانے سے گفتگوکرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم

غزل

ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیےانسان ہیں سبھی تو مساوات چاہیے
اچھا چلو خدا نہ سہی ان کا کیا ہواآخر کوئی قاضی حاجات چاہیے
ہے عاقبت خراب تو دنیا ہی ٹھیک ہوکوئی تو صورت گزر اوقات چاہیے
آئے گی ہم کو راس نہ یک رنگیٔ خلااہلِ زمیں ہیں ہم ہمیں دن رات چاہیے
وا کردیئے ہیں علم نے دریائے معرفت اندھوں کو اب بھی کشف و کرامات چاہیے
جب قیس کی کہانی اب انجم کی داستاندنیا کو دل لگی کے لیے بات چاہیے

وفات[ترمیم]

انجم رومانی 13 اپریل، 2001ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں گلشن راوی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]