انفلیشن اور ڈیفلیشن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جب زیادہ نوٹ چھاپنے کی وجہ سے زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اسے افراط زر یا انفلیشن (inflation) کہتے ہیں۔ عام طور پر اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
جب زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے تو اسے قلت زر یا ڈی فلیشن (deflation) کہتے ہیں۔ عام طور پر ایسے موقع پر قیمتیں گرنے لگتی ہیں۔

بچت[ترمیم]

انفلیشن کی وجہ سے بچت کی قوت خرید گرتی ہے اس لیے لوگوں میں بچت کا رجحان کم ہوتا ہے۔
ڈی فلیشن میں بچت کی قوت خرید وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے بچت کا رجحان بڑھ جاتا ہے جو خریداری (consumption) کے رجحان کو کم کر دیتا ہے۔
As a rule, inflation is good for government and bad for savers; while deflation is bad for government and good for savers.

Consumption[ترمیم]

انفلیشن کے زمانے میں لوگ جلد خریداری کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دیر کرنے سے قیمت بڑھ جائے گی۔
ڈی فلیشن کے زمانے میں قیمتوں کے کم ہونے کا رجحان ہوتا ہے اس لیے لوگ خریداری ملتوی کر دیتے ہیں تاکہ بعد میں سستا ہونے پر خریداری کریں۔

قرض خواہ اور مقروض[ترمیم]

انفلیشن سے مقروض لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ کرنسی کی قیمت گرنے کی وجہ سے اب نسبتاً کم محنت کر کے یا کمتر اثاثے بیچ کر وہ قرضہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
ڈی فلیشن سے ان کو فائدہ ہوتا ہے جنھوں نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہو۔ قرض خواہ کو جب رقم واپس ملتی ہے تو اس رقم کی قوت خرید بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مقروض کی مشکلات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ چونکہ حکومتیں بھی مقروض ہوتی ہیں اس لیے ایسے حالات میں وہ عوام پر ٹیکس بڑھا دیتی ہیں۔

سینٹرل بینک[ترمیم]

سارے سینٹرل بینک نوٹ چھاپ کر دولت تخلیق کرتے ہیں اور اسے مارکیٹ میں پھیلانے (float) کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انفلیشن وجود میں آتا ہے۔ اس لیے سینٹرل بینک انفلیشن کے سب سے بڑے حامی ہوتے ہیں اور ہمیشہ یہ وکالت کرتے ہیں کہ انفلیشن معیشت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کبھی قیمتوں کا بڑھنا بے قابو ہونے لگتا ہے تو سینٹرل بینک شرح سود بڑھا دیتے ہیں جس سے زیر گردش نوٹوں کی بڑی مقدار بینک یا بچت اسکیموں میں جمع ہو جاتی ہے اور انفلیشن کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
سینٹرل بینکوں کے لیے ڈی فلیشن کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ شرح سود بڑھانے کی کوئی حد نہیں ہوتی مگر گرانے کی حد ہوتی ہے (جو صفر ہے)۔ اس لیے سینٹرل بینک ڈی فلیشن کو نہایت تباہ کن قرار دیتے ہیں حالانکہ قیمتیں گرنے سے عام آدمی کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن قیمتیں گرنے سے کارخانوں کے مالکان کا منافع کم ہو جاتا ہے اور وہ بینکوں سے لیا گیا قرضہ واپس چُکانے کے قابل نہیں رہتے اس لیے بینک نقصان اٹھاتے ہیں۔[1] سرمایہ دار کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی حکومت کی ٹیکس سے ہونے والی آمدنی بھی گر جاتی ہے۔
ڈیفلیشن کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے یورپ کے کئی سینٹرل بینکوں نے شرح سود گرا کر منفی کر دی اور بڑی مقدار میں نوٹ چھاپنا شروع کر دیا۔[2]

قرض اور جی ڈی پی کا تناسب[ترمیم]

ڈی فلیشن کے زمانے میں قرض اور جی ڈی پی کا تناسب تیزی سے بڑھتا ہے۔ اس کی وجہ سے کرنسی کے ڈوبنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے یہ جاپان میں ہو رہا ہے۔


اقتباس[ترمیم]

  • Inflation is a monetary phenomenon and yet nowhere in the economic textbooks does it say that an accommodative monetary policy will cause inflation to only appear in the published price indices of the federal government.[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی ربط[ترمیم]

Rickards: A central banker’s worst nightmareآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ darientimes.com (Error: unknown archive URL)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. [https://www.zerohedge.com/news/2019-04-11/polleit-how-central-banks-lift-stock-prices Polleit: How Central Banks Lift Stock Prices]
  2. "Negative interest rates explained"۔ 25 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2015 
  3. Financial Crises Have Always Been "Made In Washington"