مندرجات کا رخ کریں

انوسیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

انوسیم یا انوس (عبرانی جمع: אנוסים، واحد: انوس، عبرانی:אָנוּס یا بہ صورت مونث انوسہ، عبرانی: אָנוּסָה) جس کے لغوی معنی "مجبور کر دیے گئے" کے ہیں۔ یہودی شریعت (ہلاخاہ) کی ایک فقہی اصطلاح جس کا اطلاق ان یہودیوں پر ہوتا ہے جنھیں جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہوئے ہوں اور وہ تلاش ذات میں سرگرداں اور دور جبر میں بھی آئین یہودیت کے پابند ہوں۔ یہ لفظ تلمود کی اصطلاح عورہ بانس (עבירה באונס) سے لیا گیا ہے جس کے معنی "ایسا گناہ جو زبردستی کروایا گیا ہو” کے ہیں۔ انوسیم، مشومد (عبرانی: מְשֻׁמָּד) کا متضاد ہے۔ مشومد اس فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جس نے اپنی مرضی سے بلا اکراہ یہودیت ترک کر دی ہو۔

فقہ یہودی

[ترمیم]

فقہ یہودی یا ہلاخاہ میں دین ترک کر دینے والوں کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں؛

  • انوسیم (عبرانی: אֲנוּסִים) وہ جسے اس کی منشا و رضا کے خلاف جبراً ترک یہودیت کر کے کوئی دوسرا دین اختیار کروایا گیا ہو لیکن وہ درپردہ تلاش ذات اور قوانین یہودیت پر عمل پیرا ہو۔
  • مین (عبرانی: מין) وہ جس نے دین یہودیت ترک کر دیا ہو اور منکر خدا ہو۔
  • مشومد (عبرانی: מְשֻׁמָּד) وہ جس نے دین یہودیت اپنی مرضی سے جان بوجھ کر ترک کر دیا ہو اور علانیہ قوانین و شعار دین یہودیت کا ناقد و مخالف ہو۔

یہودی اصطلاحات کی تاریخ

[ترمیم]

انوس کی اصطلاح یا لفظ پہلی دفعہ گیارہویں صدی میں جرمنی کے اشکنازی یہود کے کیفیات جبری کے تناظر میں ملتا ہے۔ رشی نامی فرانسیسی ربی نے اس زمانے میں مسئلہ انوسیم پر لکھا۔ کئی صدیوں بعد جب کیتھولک مسیحیوں نے اسپین فتح کر لیا تو یہودی ظاہراً مسیحی ہو گئے لیکن درپردہ یہودی ہی رہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں یہودی تحریروں میں انوسیم کثرت اور شدت سے استعمال ہوا۔ انوس یہودیوں کا ایک گروہ مشہد کے ایرانی یہودیوں کا تھا جنھوں نے واقعہ اللہ داد کے بعد مجبوراً مذہب تبدیل کیا تھا۔ غیر مذہبی یہودی تحریروں میں کچھ اور لغوی الفاظ بھی ملتے ہیں جو ان جیسے گروہوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں: کانورسو ( یعنی ایسا شخص جو یہودی سے مسیحی ہو گیا ہو )، جدید مسیحی ( ہسپانوی اور پرتگالی ) مخفی یہودی اور مارانو ( ہسپانوی اور پرتگالی میں سؤر کو کہتے ہیں )

ربیائی یہودیت میں

[ترمیم]

انوسیوں کے بارے میں خاخاموں/ربیوں کے پاس بہت مواد ہے۔ جو شخص اپنی مرضی سے دین یہودیت ترک کر دے مشومد (بدفال، نحس اور بدسرشت) شمار کیا جاتا ہے۔ مشومد کو اب بھی یہودی ہی سمجھا جاتا ہے لیکن وہ یہویت کی تمام مراعات سے فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ لیکن انوس کو کامل یہودی اور یہودیت کی تمام مراعات و برکات کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ زبردستی اپنی مرضی کے خلاف مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور اس نے شرع یہودی کو مخفی رکھا اگرچہ وہ عمل نہ کر سکا لیکن اس کے لیے وہ جوابدہ نہیں اور اس وجہ سے اس کا شمار اصل کامل یہودیوں میں ہی کیا جاتا ہے۔

اکابرین یہودیت کے مطابق

[ترمیم]

پندرھویں صدی کا معروف یہودی ربی سعدیا بن میمون ابن درتان لکھتا ہے:

جب نسل و ذات کی بات آتی ہے تو واضح رہے کہ تمام فرزندان اسرائیل آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک باپ کے بیٹے ہیں، چاہے باغی (رشائیم) اور مجرم ہوں یا ملحد (مشومدیم)، مجبور شدہ (انوسیم) اور نو یہودی (گریم)، سب کے سب یعقوب کے گھرانے سے ہیں۔ سب اسرائیلی ہیں۔ اگرچہ وہ خدا کا انکار کر کے روگردانی کریں اور اس کے قانون کو توڑ دیں پھر بھی اس قانون کا جوا ان کے کاندھوں پر رہے گا اور ان سے کبھی جدا نہیں ہوگا۔

ربی موسی ابن میمون تفسیر تورات کے باب السفر میں لکھتا ہے:

اور مگر بیٹے اور پوتے (جھوٹے یہودی) جو اپنے باپوں کو گمراہ کرتے تھے … اور وہ ان بچوں کی مانند جو کسی غیر یہودی کے زیر اثر رہے ہوں اور ان ہی کے قول و فعل اور تربیت کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ وہ انوسیوں جیسے ہی ہیں کیونکہ انہیں بعد میں علم ہوا کہ وہ یہودی ہیں۔ یہودیوں کے ساتھ رہتے رہے اور ان ہی کے قوانین سے متمسک تھے تو ان کی وضع قطع انوسیوں کی سی اس لئے ہے کہ ان کے باپ بھی اسی ماحول میں بوڑھے ہوگئے تھے۔۔۔ اس لیے ضرورت اس کام کی ہے کہ کوشش یہ ہو کہ انہیں تائب ہونے اور یہودیت کی طرف واپس لانے پر راغب کیا جائے اور ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ ہونا چاہئیے تاکہ وہ تورات کی تعلیمات کے مطابق ڈھل جائیں۔

ایران میں

[ترمیم]
یروشلم میں اھارون ھا کوہن کے بیٹے حاجی آدونیہ کا کنیسہ کا دروازہ جو مشہد کے بچ جانے والے مخفی یہویوں کے لیے مختص تھا۔

واقعہ اللہ داد

[ترمیم]

ایران کے مشہور ترین انوس مشہد کے یہودی تھے جنہیں واقعہ اللہ داد کے بعد زبردستی مسلمان کیا گیا تھا۔[1][2] یہ مشہد کے وہ یہودی تھے جنھیں 1839 عیسوی میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے شدید تنازعے کے بعد زبردستی مسلمان کیا گیا تھا۔[3] ان میں سے بیشتر نے دوہری زندگی گزارنا شروع کر دی یعنی گھر میں یہودی اور گھر سے باہر مسلمان۔ انھوں نے اپنی اولادوں کے رشتے بچپن ہی میں ایک دوسرے کے ہاں طے کر دیے تاکہ مسلمانوں کو رشتہ دینے سے جان چھوٹے۔ وہ مسلمانوں سے حلال گوشت خریدتے لیکن کھاتے نہ تھے بلکہ خفیہ طور پر یہودی قصابوں سے کوشر گوشت خریدتے تھے۔ ان میں سے بعض نے تو اپنے بچوں تک سے چھپایا ہوا تھا کہ وہ یہودی ہیں۔ کیونکہ بعض مسلمان شبہات دور کرنے کے لیے ان کے بچوں سے یہودیت کی عیدوں کے موقع پر سوال کرتے کہ آیا ان کے ماں باپ نے روزہ رکھا یا نہیں۔ مشہد کا ایک نو مسلم یہودی اس وقت کے یہودیوں کی زندگی اس طرح سے بیان کرتا ہے:

جو یہودی اسلام قبول کر چکے تھے ان کے دو نام ہوا کرتے تھے: جیسا کہ میرے دادا کا اسلامی نام شیخ ابو القاسم اور عبرانی نام بنیامین تھا۔ میرے باپ کا اسلامی نام ابراھیم اور عبرانی نام آبرھام تھا۔ مجھے گھر سے باہر موسی اور گھر میں موشہ کہا جاتا تھا۔ میرے باپ کے زمانے میں اسلامی تسلط کی وجہ سے بیشتر یہودیوں کے اسلامی نام تھے حتی کہ وہ لوگ مکہ جا کر حج بھی کر آئے”[4]

اکثر یہودی مسلمانوں کی نسبت مذہبی معاملات میں بہت زیادہ راسخ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہودی شریعت (ہلاخاہ) کے نظریے سے ہی متمسک تھے جس کے قوانین شریعت اسلامی سے بدرجہا سخت ترین تھے۔[4]

منگول دور

[ترمیم]

منگول دربار کے وزیر رشید الدین ہمدانی جو بادشاہ کے توسط سے جبری مسلمان ہوا تھا کے زیادہ تر دشمن انوس ہی تھے۔ بادشاہ کو زہر دینے کے الزام میں اس پر جو مقدمہ چلا اس میں اس کے یہودی النسل ہونے کا بارہا ذکر کیا گیا۔ اس جرم کی پاداش میں اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ کچھ آدمی اس کا سر اٹھا کر شہر میں لے آئے اور لوگ کہتے تھے: «یہ یہودی کا سر ہے جس نے خدا کے نام کا غلط استعمال کیا، اس پر خدا کی لعنت ہو۔» 100 سال بعد جلال الدین میران شاہ تیموری نے رشید الدین ہمدانی کی قبر کو تباہ کر دیا اور اس کی باقیات یہودیوں کے قبرستان میں منتقل کر دی گئیں۔[5]

جنگ عظیم دوم کا دور

[ترمیم]

جنگ عظیم دوم کے دوران میں رضا شاہ نے جرمنی سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ اس دور میں برلن ریڈیو کے شعبہ فارسی سے رات کی نشریات میں ایرانی حکام کی اکثریت کو جرمن نازیوں کے مخالف اور برطانوی حمایتی کہا جاتا تھا اور یہودیوں کو انوس یا مخفی یہودی خیال کیا جاتا تھا۔[6] بہت سے لوگ محمد علی فروغ جو ذکاء الملک کے نام سے مشہور تھا کو بھی مخفی یہودی گردانتے تھے۔

اسرائیل میں

[ترمیم]

بے شمار یہودی جو اسلامی اور مسیحی ممالک میں مخفی زندگی گزار رہے تھے ملک اسرائیل کے قیام کے بعد وہاں ہجرت کر گئے اور دین یہودیت میں واپس آگئے۔ 2015ء میں اسرائیل کی مجلس قانون ساز کنیست نے فیصلہ کیا کہ جو یہودی انوسیم کہلاتے ہیں اور زبردستی مسیحی کیے گئے تھے ان کی منتقلی اور آباد کاری کو تیز تر کیا جائے۔ اس قانون کو پیش کرنے والے نمائندے رابرٹ ایلاتوف کا کہنا تھا : “یہ لوگ اپنی یہودی اقدار و شناخت اور مملکت میں واپسی کے لیے 500 برس منتظر رہے”۔[7]

اور آج بے شمار بین الاقوامی یہودی تنظیمیں انوسیوں کو سرزمین اسرائیل کی طرف ہجرت (علیا) کرانے اور آباد کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔[8][9]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Mashhadi Jews in New-York
  2. انوسیان مشهدی
  3. Jadid al-Islam: The Jewish “New Muslims” of Meshhed By Raphael Patai ، Wayne State University Press, Jun 1, 2015 ، Page 60-65.
  4. ^ ا ب Sad Fate of Iran's Jews | IWPR
  5. Buddhism and Islam on the Silk Road ، Johan Elverskog ، University of Pennsylvania Press, page 145, 2011.
  6. تروعا یهودیان ایرانی در تاریخ معاصر – جلد اول، ہما سرشار، انتشارات مرکز تاریخ شفاهی یهودیان ایرانی، 1996، صفحہ 100-105
  7. MKs launch Knesset lobby for Sephardic Jews forcibly converted to Christianity – Israel News – Jerusalem Post
  8. "Cyrus Foundation Helping Jews Return to Israel"۔ 10 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2018 
  9. http://www.americananusim.org