اکبری دروازہ
متناسقات: 31°34′46″N 74°19′20″E / 31.5793976°N 74.3222089°E
قدیم لاہور میں داخلے کے مختلف دروازوں میں سے ایک ہے، جو قدیم شہر لاہور کی مشرقی سمت واقع ہے۔ اس دروازے کے بارے میں مشہور مؤرخ کنہیا لال لکھتا ہے کہ
” | اس دروازے کو بادشاہ وقت محمد اکبر نے اپنے نام سے موسوم کیا اور ہر قسم کے غلے کی منڈی اس دروازے کے اندر مقرر فرما کر اس کو بھی اکبری منڈی کے نام سے موسوم کیا۔ چنانچہ اب تک دروازہ اور منڈی دونوں اکبر کے نام سے موسوم ہیں۔ یہ دروازہ بھی خستہ و بوسیدہ ہو چکا تھا اور سرکارانگریزی کے عہد میں قدیمی قطع پر از سر نو بنایا گیا۔[1] | “ |
یہ دروازہ اکبری عہد میں تعمیر کیا گیا ۔ یہ ایک اونچا اور بھاری بھرکم دروازہ ہے جو دو نیم ہشت پہلوی فصیل داریوں کے درمیان بنا ہوا ہے۔اسے مزیدبُرج نمادیواروں سے مضبوط کیا گیا ہے۔جن میں پتھر پھینکنے والے کلاہی سوراخ بھی ہیں جو قلعہ کے صرف اسی دروازے کی خاصیت ہے۔ یہ تمام عمارات اکبری عہد کا حصہ ہیں۔
شہر کی دیوار کی مشرقی سمت میں واقع اکبر دروازے کا نام مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام پر رکھا گیا۔ اگرچہ برطانوی عہد میں اس کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ اب صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ اکبری منڈی واقع ہے جہاں ہر قسم کے اجناس کی تجارت ہوتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد اکبری دروازہ بھی گرا کر راستہ کھلا کر دیا گیا۔ آج اکبری منڈی پنجاب کی اناج و دیگر اجناس کی اہم ترین منڈی ہے۔ اکبری دروازے کے باہر حضرت شاہ غوث کامزار و مسجد ہے۔ اکبری دروازے کے ساتھ کسی زمانے میں ایک سرائے ہوتی تھی، آج وہاں تھانے کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔ اکبری دروازے کے اندرداخل ہوں تو دائیں طرف کا بازار دہلی دروازہ کی طرف جانکلتا ہے۔ جبکہ بائیں جانب مسجد صالح محمد کمبوہ کے پاس آن نکلتا ہے یہاں پتنگ کی معروف دوکانیں اور مشہور مٹھائی الفضل سویٹس اور رفیق سویٹس کی دوکانیں ہیں۔ یونس ادیب نے ’’میرا شہر لاہور‘‘ میں لکھا ہے۔[ترمیم]
’’داروغہ محمد علی کی عمر اکبری گیٹ کی مسماری کے وقت سو برس سے اوپر تھی، نوجوان ہونے سے پہلے ہی داروغہ بھرتی ہو گئے تھے ان کی ڈیوٹی لوہاری دروازے پر لگی تھی۔ لاہور کے دروازوں کی کہانی پہلی بار میں نے انہی سے سنی تھی۔ لاہور کے بارہ دروازے صبح وقت پر کھلتے تھے اور شام کو وقت پر بند ہو جاتے تھے۔ شام سے پہلے لاہور کے باسی اندر داخل ہو جاتے اور اگر دروازہ بند ہو جاتا تو شہر میں داخل ہونے کے لیے شناخت کرانا پڑتی۔ آبادی زیادہ نہ تھی شہر کے داروغے اپنے اپنے علاقوں کے باشندوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے بعد میں یہی داروغے کارپوریشن کے داروغوں میں بدل گئے۔‘‘[ترمیم]
بیرو ن اکبری دروازہ محنت کش طبقہ، ریڑھوں اور تانگوں کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ تانگوں کی وجہ سے گھوڑوں کے معالج اور پانی کا حوض بن گیا ہے جبکہ تھکے ہوئے محنت کشوں کے لیے مالشیئے موجود رہتے ہیں۔ اس علاقے میں مزدور طبقہ بکثرت مل جاتا ہے۔ سڑک پر اور تھڑوں پر حجام اپنی دوکانیں سجائے بیٹھے رہتے ہیں۔[ترمیم]
اکبری دروازے کے اندر داخل ہوں تو بالکل سامنے مسجد بلال دوکانوں کے جلو میں نظر آتی ہے۔ اس علاقے میں تقریباً تمام عمارات جدید تعمیر ہو چکی ہیں۔[ترمیم]
اکبری دروازے کے اندرون بائیں جانب چوک نواب صاحب آ جاتا ہے جو کئی حوالوں سے اہم ہے۔ یہیں سے لاہور کا سب سے بڑا تعزیہ اور ذوالجناح دس محرم کو نکلتا ہے۔اسی چوک کے قرب میں نثار حویلی اور مبارک حویلی ہیں۔ یہیں سے راستہ موچی دروازے کی جانب چلا جاتا ہے اور یہیں نواح میں مسجد چینیاں والی ہے جو کاشی کاری کے کام کی وجہ سے چینیاں والی مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ تین برس قبل پرانی عمارت کو گرا کر نئی مسجد کی تعمیر شروع کی گئی۔ مسجد کے صحن میں ایک طرف مدرسہ بھی ہے۔ چینیاں والی مسجد سے ہی ایک راستہ محلہ ککے زئی سے ہوتا ہوا مسجد وزیر خان کی جانب جا نکلتا ہے۔[ترمیم]
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)[ترمیم]
بیرونی روابط[ترمیم]
- اندرون شہر کے تیرہ دروازےآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ arijali-lahore.8m.net (Error: unknown archive URL)