ایثار القاسمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایثار القاسمی شہید اکتوبر 1964 میں چک484 گ ب تحصیل سمندری فیصل آباد میں پیدا ہوئے .آپ کے والد کا نام رانا عبد المجید تھا جو راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔1972 میں جب آپ کی عمر 8 سال تھی آپ کے والد سمندری سے ترک سکونت اختیار کرکے لاہور منتقل ہو گئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم لاہور اے ایک انگریزی میڈیم اسکول سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو جامعہ اسلامیہ گلبرگ لاہور میں داخل کرایا گیا۔ جہاں سے آپ نے حفظ قرآن اور تجوید کی سند حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے دار العلوم حنفیہ اور جامعہ عثمانیہ سے مزید دینی تعلیم حاصل کی جہاں آپ نے مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد مولانا عبد العلیم قاسمی سے درس نظامی مکمل کیا۔ درس نظامی مکمل کرنے کے بعد آپ لاہور کے مدارس مخزن العلوم اور دارلحق میں قرآن مجید اور درس نظامی کی تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسجد داراسلام میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیے۔بعد ازاں آپ اوکاڑہ منتقل ہوئے ہور صدیق نگر کی مسجد صدیقیہ کی امامت سنبھالی۔ کچھ عرصہ یہاں خدمات انجام دینے کے بعد جامع مسجد انواریہ نزد ریلوے اسٹیشن کے خطیب مقرر ہوئے .1988 میں تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ کے نواح میں آباد اایک معزز راجپوت خاندان میں آپ کی شادی ہوئی۔ سیاسی مذہبی معاملات کے گہری نظر رکھنے کے باعث آپ نے جلد ہی اوکاڑہ کے سیاسی و مذہبی حلقوں میں اہمیت حاصل کرلی۔

سپاہ صحابہ میں شمولیت[ترمیم]

ساہیوال میں منعقد ایک جلسے میں آپ کی ملاقات مولانا حق نواز جھنگوی سے ہوئی جس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کو ناموس صحابہ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کی۔ یہیں آپ کو پہلی بار پابند سلاسل کیا گیا اور کئی روز آپ نے ساہیوا ل جیل میں گزارے .

گڑھ مہاراجا تشکیل[ترمیم]

گڑھ مہاراجا میں عوام اہلسنت پر اس وقت ظلم کی انتہا ہو گئی جب آپ کی تشکیل گڑھ مہاراجا کردی گئی۔آپ نے وہاں کی جامع مسجد میں خطابت کی اور اپنی شعلہ بیانی سے اہلسنت کا ناطقہ بند کر دیا۔ یہاں بھی آپ کو حق گوئی کے جرم میں دو بارگرفتار کیا گیا اور مظفرگڑھ جیل میں آپ کو رکھا گیا۔

اوکاڑہ واپسی[ترمیم]

1989 میں آپ کی ایک بار پھر اوکاڑہ تشکیل ہوئی جہاں آپ نے اپنے جامعہ قاسمیہ کی بنیاد رکھی۔ اوکاڑہ کے ایک معروف عالم دین مولانا اسماعیل رشیدی نے ایک عظیم الشان جامعہ شروع کی تو آپ کو ہی اس کا پہلا رئیس مقرر کیا گیا۔

سپاہ صحابہ کی سربراہی[ترمیم]

22 فروری کو مولانا حق نواز جھنگوی کے واصل بحق ہونے کے بعد سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلی مولانا ضیاءالرحمن فاروقی نے آپ کو سپاہ صحابہ کا امیر مقرر کیا۔

انتخابات1990[ترمیم]

اکتوبر 1990 میں ہونے والے عام انتخابات میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے اصرار پر آپ نے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کے حلقہ68 اور صوبائی حلقہ65 پر انتخابات میں حصہ لیا۔ آپ نے 61000 ووٹ لے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔

ایوان زیریں میں[ترمیم]

31 دسمبر 1990 میں آپ نے ایوان زیریں کے اجلاس سے خطاب کیا۔ جس میں آپ نے، صدر پاکستان کی تقریر، نفاذ شریعت، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت کا جائزہ، اسلامی جمہوری اتحاد کی نئی قائم شدہ حکومت کے فرائض، بے روزگاری کے تدارک کے علاوہ ایک پڑوسی ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے حساس معاملات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بحیثیت رکن ایوان زیریں کئی ممالک بشمول سعودی عرب کے دورے کیے .

شہادت[ترمیم]

10 جنوری 1991 کو آپ اپنی خالی کی ہوئی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر پولنگ اسٹیشنوں کے دورے پر تھے کہ بستی گھوگیاں والی ضلع جھنگ کے پولنگ اسٹیشن پر شقی القلب دہشت گردوں نے آپ کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر واصل بحق کر دیا۔ آپ کی نمازجنازہ 11 جنوری 1991 بروز جمعہ المبارک شفقت شہید گراونڈ میں مولانا ذو الفقار احمد نقشبندی نے پڑھائی۔ آپ جامعہ محمودیہ جھنگ میں مولانا حق نواز جھنگوی کے پہلو میں محو استراحت ہوئے . آپ نے اپنے پسماندہ گان میں والدین، بیوہ، چھ بھائی، دو بہنیں اور لاکھوں کارکنان سوگوار چھوڑے .

حوالہ جات[ترمیم]