ایشیائی طبع پیداوار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایشیائی طبع پیداوار کا نظریہ کارل مارکس  نے 1850کی دہائی میں پیش کیا تھا جس کے مطابق علاقوں اس مخصوص طبع پیداوار پر مبنی معاشرے کی بنیادی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان معاشرے میں ارتقا مغرب سے یکسر مختلف ہے[1]۔   مارکس نے 1853ء تا 1858ء نیویارک ٹریبون میں ہندوستان پر اپنے مشہور مضامین میں اس طبع پیداوار کی وضاحت کی۔ نظریے کے مرکزی نقطہ کے مطابق ایشیائی خطوں کو استبدادی حکمران طبقہ  کے ساتھ یہ معاشرے برسو ں تک ٹھہراؤ کا شکار رہے۔

مارکس کی تحریروں کی روشنی میں مختصر خاکہ یوں تیار کیا جا سکتا ہے:[2]

1۔ زراعت اور دستکاری کے باہمی ربط کی بنیاد پر قدرتی معیشت، جس میں محنت کی واضح تقسیم موجود تھی۔

2۔ زمین کی اشتراکی ملکیت پر مبنی معاشرہ۔

3۔ زراعت کے لیے عوامی تعمیرات، یعنی آبپاشی کے نظام کی لازمیت کے باعث مشرقی استبدادکے طرز کی حکومت

4۔ ریاست کا گاؤں سے لگان کی شکل میں مشترکہ قدر زائد نچوڑنا [2]

خصوصیات[ترمیم]

قدیم ہندوستان کی ایک شاہراہ کا منظر

مارکس نے ایشائی طبع پیداوار کو تاریخی حوالوں سے دیگر طبع پیدوار سے یکسر مختلف اور الگ قرار دیا جس کی معاشی و سماجی بناوٹ دیگر طریقہ پیداوار سے یکسر مختلف تھی۔ مارکس نے 1853ء تا 1858ء نیویارک ٹریبون میں ہندوستان پر اپنے مشہور مضامین میں ’ ایشیائی طبع پیداوار‘ پر کافی روشنی ڈالی۔  ان مضامین میں اس مخصوص طریق پیداوار پر مبنی معاشرے کی بنیادی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاشرے میں ارتقا مغرب سے یکسر مختلف ہے، یہاں پر غلام داری وجود نہیں رکھتی اور اس سماج کی بنیاد کھڈی، چرخہ، زراعت اوردستکاری کے مابین ربط پر مشتمل تھی جس کو برطانوی بھاپ کے انجن اور سائنس نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس نظام کی اہم خصوصیت اس کی سماجی شکل تھی جس میں تین ہزارسالوں تک کئی حملے، خانہ جنگیاں، فتوحات اور قحط وغیرہ آئے لیکن وہ تمام بالائی سطح تک محدود رہے اور اس کی بنیاد کو متاثر نہ کر سکے۔ اس طبع پیدوار کی بنیاد خود کفیل دیہاتوں پر مشتمل تھی جو اپنے اندرونی معاملات میں بڑی حد آزاد تھے۔ ان معاشروں کی قابل ذکر خاصیت یہاں نجی ملکیت کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے زمین کسی ایک فرد کی ملکیت کی بجائے پورے کمیون کی مشترکہ ملکیت میں تھی جسے گاؤں کا ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق بروئے کا ر لا سکتا تھا[3]۔ مارکس نے ’Grundrisse‘ میں لکھا، ’’ایشائی طر ز میں ( کم از کم بنیادی طور پر)فرد کسی جائداد کامالک نہیں بلکہ اس کوصرف تصرف کا حق حاصل ہے اور حقیقی مالک کیمون ہے۔ لہٰذا زمین کی ملکیت صرف مشترکہ ملکیت کی شکل میں ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے باشندوں نے سلطنتوں کے منقسم ہونے اور شیرازے بکھرنے پر کبھی کوئی فکر و تردد نہیں کیا۔ اگر گاؤں صحیح سالم ہے تو انھیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی کہ اقتدارکس کو منتقل ہو ا یاپھر وہ کس فرمانروا کے زیر سایہ آئے ہیں اور اندرونی معیشت جوں کی توں رہی۔ ان دیہاتوں کی ایک اہم خصوصیت ان کی پیداوار کی تنظیم کا سادہ ہونا تھا جو حادثاتی طور پر برباد ہو جاتی تو انہی ناموں کے ساتھ انہی جگہوں پر دوبارہ اپنے آپ کو دوبارہ قائم کر لیتی[4]۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں منتشر کمیونز اپنے آپ کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھ سکے۔ ہندوستان کے ایک علاقے میں آنے والی کسی بربادی یا خوش حالی سے دیگر علاقے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ اس سماج میں فرد کی بقا کا انحصار پھر اپنے کمیون پر تھا۔

مارکس نے ایشائی طبع پیداوار کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ جہاں ایک طرف اس طبع پیداوار نے صدیوں تک ہندوستانی معاشرے کو قائم رکھا وہیں پراس کی مخصوص نوعیت اِس خطے کی پسمانگی اور تاریخی طور پر پچھڑے رہنے کا باعث بنی۔ یہاں زراعت کے لیے پانی کے مشترکہ اور کفایت شعار استعمال کی ضرورت نے مرکزیت پیدا کرنے والی قوت یعنی مشرقی استبداد کو جنم دیا، جس کے ذمے آبپاشی کا نظام تھا۔ مارکس نے اپنی تحریر ’ہندوستان میں برطانوی راج‘ میں لکھا کہ

’ ’پانی کے مشترکہ اور کفایت شعار استعمال کی اسی اولین اور اہم ضرورت نے مشرق میں حکومت کی مرکزیت پیدا کرنے والی قوت کی دخل اندازی کو لازمی بنایا، کیو نکہ وہاں تہذیب کی سطح اس قدر نیچی تھی اور علاقے اس قدر وسیع اور پھیلے ہوئے تھے کہ رضاکارانہ ساجھے داری کو بروئے کا ر نہیں لایا جا سکتا تھا، لہٰذا تمام ایشیائی حکومتوں پر تعمیرات عامہ مہیا کرنے کا فرض عائد ہوا۔[3]‘‘

مادی حالات اور ریاست[ترمیم]

ہندوستانی سماج کی بنیاد کھڈی، چرخہ، زراعت اوردستکاری کے مابین ربط پر مشتمل تھی

ایشیائی طرز پیداوارکی بنیادیں پھر ہمیں اس کے مادی حالات میں ملتی ہیں۔ ہندوستان کے مخصوص علاقے اور موسم کی وجہ سے یہاں کی زرعی معیشت کے لیے آبپاشی کا مربوط نظام ایک لازمی ضرورت تھا اوراس صورت حال نے ایک مرکزی طاقت یعنی ریاست کو جنم دیا۔ مارکس نے لکھا کہ ’ ’آب و ہوا، علاقائی حالات اور خصوصاً وسیع ریگستان کی موجودگی نے نہروں اور آب رسانی کے انتظامات کے ذریعے مصنوعی آب پاشی کو مشرقی کاشت کاری کی بنیاد بنا دیاہے۔ ‘‘ اینگلز نے اینٹی ڈیورنگ میں اس پر لکھا کہ ’’فارس اور ہندوستان میں آبپاشی دریاؤں کے ذریعے کی گئی جس کے بغیر یہاں کوئی زراعت ممکن نہ تھی۔‘‘ اس آبپاشی کے مربوط نظام کو کنٹرول اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ناگزیر طور پر افراد کی ضرورت تھی۔ ان افراد کا بنیادی فرض اس مربوط نظام کو رواں رکھنا تھا تاکہ زراعت برقرار رہ سکے۔ یہ بالکل ایساہی ہے جیسے انسانی جسم میں خون کو رواں رکھنے کے لیے دل کا ایک مرکزی کردار ہے[5]۔ مارکس نے سرمایہ کی جلد اول کے 13ویں باب میں واضح کیا کہ تمام مشترکہ محنت کوبڑے پیمانے پر ایک منتظم کی ضرورت ہو تی ہے تاکہ انفرادی سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ یہ منتظم افراد آگے چل کر ریاستی اہلکاروں کا روپ اختیار کر گئے جن کے مقاصد میں آبپاشی کے نظام کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ لگان وصول کرنا شامل تھا[6]۔

لیکن ایشائی طرز پیداوار پر مبنی ریاست اپنی ساخت میں مغرب سے یکسر مختلف تھی۔ مغرب میں غلام داری یا جاگیرداری ادوار میں تشکیل پانے والی ریاست کی بنیاد نجی ملکیت پر تھی جبکہ ایشائی طرز پیداوار میں نجی ملکیت وجود نہیں رکھتی تھی۔ جیسے مارکس نے لکھا کہ’اس پر اتفاق ہے کہ اکثر ایشیائی ملکوں کی طرح ہندوستان میں زمین کی اصلی ملکیت حکومت کی ہوتی ہے۔ ‘ اینگلز نے بھی مشرقی استبداد کی بنیاد مشترکہ ملکیت کوقرار دی[5]۔ مارکس اور اینگلز نے اپنی تحریروں میں واضح طور پر ایشیائی طرز پیداوار میں اشتراکی ملکیت پر زور دیا، انھوں نے بیان کیا کہ یہاں پر فرد کے پاس زمین کی ملکیت موجود نہ تھی تاہم زمین کا تصرف موجود تھا۔ ملکیت اور تصرف میں فرق کرنا ضروری ہے، تصرف میں کمیون کا کوئی بھی فرد اپنے کمیون کی مرضی سے زمین کو کاشت کرسکتا تھا اور اسے استعمال میں لا سکتا تھا۔ لیکن زمین کبھی بھی اس کی ذاتی ملکیت قرار نہیں دی گئی بلکہ کمیون اس زمین کو کسی بھی وقت واپس لینے کا حق رکھتا تھا۔ اس سوال پر مارکس نے Grundrisse میں لکھا،

’’ملکیت صرف اشتراکی ملکیت کے طور پر موجود ہے، یہاں کوئی انفرادی رکن کسی خاص حصے کو محض تصرف میں لا سکتا ہے، کوئی بھی فردزمین کو محض کمیون کے ایک ممبر کے طور پر بر وئے کار لا سکتا ہے… صرف سماجی ملکیت اور شخصی تصرف موجود ہے[5]۔‘‘

مارکس نے اپنے مضمون ’لارڈکیننگ کا اعلان اورہندوستان میں زمین کی ملکیت‘ میں ان بنیادی یونٹوں کے کام کرنے کے طریقے پر لکھا، ’’زمین دیہاتی اداروں کی ملکیت تھی جنہیں یہ اختیار حاصل تھا کہ کاشت کے لیے اسے افراد کو الاٹ کریں اور زمیندار اورتعلق دار سرکاری افسروں کے علاوہ او رکچھ نہ تھے جو اس لیے مقرر کیے جاتے تھے کہ گاؤں کے ذمے جو لگان ہے اسے جمع کریں اور راجا کو ادا کر دیں۔‘[7]‘ مارکس نے اس ریاست کے شعبوں پر لکھا، ’

’ایشیا میں بہت پرانے وقتوں سے عام طور پر حکومت کے صرف تین شعبے ہوتے چلے آئے ہیں: مالیت یا اندرونی لوٹ کھسوٹ کاشعبہ، جنگ یا بیرونی لوٹ کھسوٹ کا شعبہ اور ان کے علاوہ تعمیرات عامہ (یعنی آبپاشی کا نظام) کا شعبہ۔‘‘ ان وجوہات سے ایشیائی استبداد کی ساخت اور کردار مغرب میں غلام دارانہ یا جاگیردارانہ سماج کی ریاستوں سے یکسر مختلف تھا۔ یہاں پر موجود مادی حالات نجی ملکیت کے فروغ کے منافی تھے لیکن معاشی ضرورتوں کے تحت ان یونٹوں کی بقا کے لیے ریاست کی شکل میں ایک مرکزی قوت ناگزیر تھی، لہٰذا ایشیائی طرز پیداوار میں قدیم کمیونزم کی باقیات کی شکل میں گاؤں کا اشتراکی نظام موجود تھا جو پیداوار میں خود کفیل تھیں اور بالائی سطح پر ایک مرکزی ریاست قائم تھی جو آبپاشی کے نظام اور تعمیرات عامہ کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل اور مالیات کے شعبے قائم رکھتی تھی[3]۔

قدر زائد اور استحصال[ترمیم]

ایشیائی استبداد میں سماج مکمل طور پر استحصال سے پاک نہ تھا۔ یہ ریاست بھی قدر زائد نچوڑتی رہی، آغاز میں ریاست ’’Corvee Labour‘‘ یا بلا اجرت محنت عارضی بنیادوں پر بیگار لیتی تھی۔ اس محنت کو اکثر حکمران جنگ کے میدان میں یا تعمیرات کے کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس عارضی بیگار محنت کی جگہ باقاعدہ لگان نے لے لی، جس میں تمام یونٹوں سے ان کی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ وصول کیا جاتا تھا۔ اس لگان سے جہاں ایک طرف ریاست کے مالیاتی شعبوں کو مستحکم کیا جاتا تھا وہیں پر اس کا ایک حصہ وصولی کرنے والے سرکاری کارندوں یعنی ’زمینداروں‘ اور ’تعلق داروں‘کی اجرتوں کی ادائیگیوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ اس عارضی محنت اور لگان سے ایشیائی حکمران عام رعایا اور دیگر ممالک پر رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے اکثر پر تعیش عمارات، مقبرے اور حکومتی عمارات کی تعمیرات کرواتے تھے۔ مارکس نے Grundisse میں لکھا، ’’ایشیائی سماجو ں میں بادشاہ زمین سے حاصل ہونے والی قدر زائد کا واحد مالک تھا۔ ‘‘ [5]اسی پر مارکس نے ’سرمایہ ‘ کے 14ویں باب میں واضح کیا کہ اس سماج میں پیدا ہونے والی زیادہ تر پیداوار کموڈیٹی کا روپ نہیں اختیار کر تی تھی۔ مارکس نے لکھا، ’’مصنوعات کا بڑا حصہ براہِ راست کمیونٹی کے استعمال میں آتا ہے[6]۔‘‘

مغربی سماجوں میں غلام یا مزارعے کی پیدا کردہ قدر زائد پر انفرادی آقا یا جاگیردار براہ راست قابض ہوتا تھا جبکہ ایشیائی سماجوں میں پوری آبادی کی اشتراکی پیداوار سے ریاست مشترکہ طور پر قدر زائد نچوڑتی تھی۔ ان معاشروں میں محنت کی تقسیم بھی دیگر سماجوں سے منفرد تھی۔ یہاں افراد ہر چیز کی تیاری کا جدا گانہ عمل سر انجام نہیں دیتے تھے بلکہ اجتماعی ملکیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی کوئی شے تیار کی جا سکتی تھی۔ مارکس اور اینگلز کے بعد لینن کی تحریروں میں بھی ایشیائی طرز پیداوار کا واضح ذکر ملتا ہے۔ 1899ء میں لینن نے اپنی اہم تصنیف ’روس میں سرمایہ داری کا ارتقا‘ میں روس میں پائی جانے والی ایشائی خصوصیات کو چین سے تشبیہ دی اور زار کے زمین اور کسانوں پر کنٹرول کو ’ زمین کی مالیاتی ملکیت ‘ قرار دیا[8]۔ اسی طرح ٹراٹسکی نے اپنے مارچ اور اپریل 1928ء کے Three Letters to Preobrazhensky میں لکھا، ’’چین میں بورژوازی کے مقابلے میں کوئی جاگیردار نہیں ہیں… درحقیقت چین میں کوئی جاگیرداری وجود نہیں رکھتی… چین میں جاگیردار ی ثابت کرنے کی کوشش حقائق کے بر خلاف بورژوازی سے اتحاد کرنے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔‘‘ اسی طرح اس نے ایک اور جگہ لکھا کہ’چین میں بطور طبقہ جاگیردار وجود نہیں رکھتے[9]۔ ‘ اسی طرح ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’انقلاب روس کی تاریخ ‘ کی جلد اول کے باب اول میں ایشیائی طرز پیداوار پر لکھا، ’’روسی شہروں کی عدم اہمیت، جس نے بڑھ کر ایشیائی طرز کے ارتقا کو جنم دیا، نے تجدید یعنی جاگیردارانہ افسر شاہانہ قدامت پرستی کی عیسائیت کی کسی ایسی جدید شکل سے تبدیلی جو بورژوا سماج کے مطالبات سے ہم آہنگ ہو، کو بھی ناممکن بنا دیا۔‘‘ [10]اس کتاب میں ٹراٹسکی نے روس کو یورپ اور ایشیا یعنی ایشیائی طرز پیداوا ر اور جاگیرداری کے درمیان قرار دیا۔

معاشرتی ٹھہراؤ اور زوال[ترمیم]

برطانوی ہندوستان کا نقشہ

جیسا پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جن عوامل نے ایشیائی سماجوں کو دیگر سماجوں سے معاشی و ثقافتی فوقیت دی وہی عوامل اس نظام کے ٹھہراؤ اور غیر تغیر پذیری کا باعث بنے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مارکس نے تاریخ کے جبر سے تشبیہ دی ہے۔ یہ طرز پیداوار اپنی مخصوص خصوصیات کے باعث کئی ہزار سالوں تک وجود رکھ سکا اور اس تمام عہد میں اس کے بنیادی کردار میں زیادہ بڑی تبدیلیاں رونما نہیں ہوئیں۔ مارکس نے لکھا، ’یہ پر سکون دیہی برادریاں بظاہر بھلے ہی بے ضرر معلوم ہوں لیکن وہ ہمیشہ سے مشرقی استبداد کی ٹھوس بنیاد رہی ہیں اور انھوں نے ہمیشہ انسانی ذہن کو حتی الامکان تنگ ترین دائرے میں قید رکھا ہے۔‘‘ مغرب نے جس عرصے میں سرمایہ داری تک کا سفر طے کیا اس دوران ایشیائی ریاستیں ٹھہراؤ کا شکار رہیں۔ اس کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے مارکس نے اینگلز کے نام ایک خط میں لکھا، ’’سیاسی افق پر موجود تمام تبدیلیوں کے باوجود ایشیائی خطے کے ٹھہراؤ کی وجوہات باہمی انحصارپر مبنی دو کیفیات میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ اول، تعمیرات عامہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ دوم، چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں نے اپنے اندر چھوٹی سی دنیا بسا رکھی تھی۔ میرا نہیں خیال کہ ایشیائی استبداد کے ٹھہراؤ کی اس سے بہتر کوئی بنیاد تلاش کی جا سکتی ہے[11]۔‘‘ ہندوستان میں اِس ٹھہراؤ کو برطانوی سامراج نے توڑا۔ مارکس نے ہندوستان میں برطانوی سامراج کی آمد کا جدلیاتی طریقہ کار سے تجزیہ کرتے ہوئے اس کو ’ثالثی کے مندر کی ڈراؤنی او ر بد شکل مقدس مخلوقات‘ سے بد تر قرار دیا۔

مارکس کے مطابق اپنے پیش رو بیرونی حملہ آوروں کے برعکس برطانوی سامراج نے یہاں ایشیائی طرزپیداوار کے بنیادوں کو تہس نہس کر دیا۔ ہندوستانی سماج دو ستونوں پر کھڑا تھا جس میں ایک زراعت اور دوسرا کرگھے اور چرخے پر مبنی دستکاری تھی۔ برطانوی سامراج نے یہاں زراعت اور دستکاری کے باہمی اتحاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ لیکن جہاں ایک طرف برطانوی سامراج نے لوٹ مار، تباہی اور بربادی پھیلائی وہاں ایک ترقی پسند کردار بھی ادا کیا، صدیوں سے ٹھہراؤ کے شکار سماج کا جمود توڑا اور نئے پیداواری رشتوں کو جنم دیا۔ مارکس نے لکھا، ’’حیا تِ نو بخشنے کا کام کھنڈروں کے ڈھیر کے پیچھے بمشکل ہی سے دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ کام شروع ہو گیا ہے۔ ‘[11]‘ مارکس نے واضح کیا کہ ’برقی تار پر مبنی مستحکم اور پائیدار سیاسی اتحاد‘، ’دفاع کے لیے دیسی فوج کی تعمیر‘، ’آزاد اخبار نویسی‘، ’یورپی سائنس سے آگاہی‘، ’ ہندوستان کا بیرونی دنیا سے تیز رابطہ‘ اور ’ریلوے کے ذریعے فاصلوں میں کمی‘ جیسے اقدامات ناگزیر طور پر سماج کو آگے بڑھانے کا کام کریں گے۔ اس نے یہ حقیقت بھی دریافت کی کہ برطانوی سامراج کا ہر ایک قدم اپنی قبر خود کھودنے کے مترادف ہے۔ مارکس اور اینگلز نے سامراجی لوٹ مار کے اس عمل میں مستقبل کے پرولتاریہ کی پیدائش اور ہندوستان کے دنیا کے ساتھ جڑنے کے عمل کو عالمی سوشلسٹ تحریک میں اہم سنگ میل قرار دیا۔ ان کا تناظر مستقبل کے واقعات مثلاً ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک، 1920ء کی محنت کشوں کی جدوجہد اور بالخصوص 1946ء کی انقلابی بغاوتوں کی شکل میں درست ثابت ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Martin Lewis، Kären Wigen (1997)، The Myth of Continents: A Critique of Metageography، Berkeley: University of California Press، صفحہ: 94، ISBN 978-0-520-20743-1. 
  2. ^ ا ب "ایشیائی طرز پیداوار کی بحث"۔ The Struggle | طبقاتی جدوجہد (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  3. ^ ا ب پ Karl Marx۔ "The British Rule in India by Karl Marx"۔ www.marxists.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  4. Marcello Musto (2008-07-25)۔ Karl Marx’s Grundrisse: Foundations of the critique of political economy 150 years later (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 9781134073818 
  5. ^ ا ب پ ت Frederick Engels (2016-10-27)۔ Anti-Duhring (بزبان انگریزی)۔ CreateSpace Independent Publishing Platform۔ ISBN 9781539766872۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  6. ^ ا ب Karl Marx (2013)۔ Capital: A Critical Analysis of Capitalist Production (بزبان انگریزی)۔ Wordsworth Editions Limited۔ ISBN 9781840226997۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  7. The Labour Monthly۔ "Marx and Engels on India (pt. II)"۔ www.marxists.org (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  8. V.I. Lenin۔ "Lenin: 1899: The Development of Capitalism in Russia"۔ www.marxists.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  9. Leon Trotsky۔ "Leon Trotsky: On the Canton Insurrection - 3 Letters to Preobrazhensky (1928)"۔ www.marxists.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2018 
  10. Leon Trotsky (2008)۔ History of the Russian Revolution (بزبان انگریزی)۔ Haymarket Books۔ ISBN 9781931859455 
  11. ^ ا ب ض انصاری (1936)۔ کارل مارکس اور اینگلز کے ہندوستان پر مضامین۔ پراگریسیو پبلشرز [مردہ ربط]