مندرجات کا رخ کریں

اے ایل ایس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس
دیگر ناملو گیریگ کی بیماری؛ چارکوٹ کی بیماری؛ موٹر نیورون کی بیماری (ایم این ڈی)[1]
ایک ایم آر آئی میں انٹرنل کیپسول کے پچھلے حصے میں سگنل میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو موٹر کارٹیکس تک پہنچتا ہے — یہ اے ایل ایس (امیوٹروفک لیٹرل اسکلروسیس)کی تشخیص سے مطابقت رکھتا ہے۔
اختصاصعلم العصبیات
علاماتپٹھوں میں اکڑن، پٹھوں کا پھڑکنا، آہستہ آہستہ کمزوری بڑھنا[2]
عمومی ہدف50s–60s[3]
سببنامعلوم (زیادہ تر)، وراثتی (چند)[3][4]
تشخیصی طریقہعلامات کی بنیاد پر[4]
معالجی تدابیرغیر جراحی معاون تنفس[5]
علاجریلوزول، ایدراوون[6][7]
قابل علاجمتوقع زندگی 2-4 سال[5]
تعدد2.6/100,000 فی سال (یورپ)[8]

امیوٹروفک لیٹرل اسکلیروسیس ( اے ایل ایس )، جسے موٹر نیورون بیماری ( ایم این ڈی ) یا لو گیریگ کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسی بیماری ہے جو اُن نیورونز (اعصابی خلیات) کو نقصان پہنچاتی ہے جو ارادی پٹھوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ [4] [9]بعض اوقات موٹر نیورون بیماری کی اصطلاح مختلف اقسام کی مشابہ بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن میں اے ایل ایس سب سے عام ہے۔ [2] اے ایل ایس کی خصوصیت میں شامل ہیں- پٹھوں کا اکڑنا، پٹھوں کا جھٹکوں سے پھڑکنا اور پٹھوں کے سائز میں کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ کمزوری میں اضافہ۔ [2] یہ بیماری بازوؤں یا ٹانگوں میں کمزوری یا بولنے یا نگلنے میں دشواری کے ساتھ شروع ہو سکتی ہے۔ [10] متاثرہ افراد میں سے تقریباً نصف کو سوچنے اور رویے میں کم از کم ہلکی سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور زیادہ تر لوگ درد بھی محسوس کرتے ہیں۔ [11] [12] بیماری میں اضافہ کے ساتھ زیادہ تر مریض چلنے، اپنے ہاتھ استعمال کرنے، بولنے، نگلنے اور سانس لینے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ [5]

90 سے 95 فیصد معاملات میں اے ایل ایس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے [4] لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں جینیاتی اور ماحولیاتی دونوں عوامل شامل ہیں۔ [13] باقی 5-10فیصد کیسز موروثی ہوتے ہیں اور یہ والدین سے وراثت میں ملتے ہیں۔ [3] ان موروثی کیسز میں سے تقریباً آدھے دو مخصوص جینز کی خرابی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ [4] بنیادی میکانزم میں اوپری اور نچلے موٹر نیوران کو نقصان پہنچنے سے جڑا ہوتا ہے، جو جسم کی حرکت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ [2] تشخیص مریض کی علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور دیگر ممکنہ وجوہات کو مسترد کرنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ [4]

کوئی بیماری کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ [4] علاج کا مقصد علامات کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ [11] ریلوزول نامی دوائی زندگی کو دو سے تین ماہ تک بڑھا سکتی ہے۔ [6] غیر جراحی معاون تنفس سے نہ صرف زندگی کا معیار بہتر ہو سکتا ہے بلکہ عمر میں بھی کچھ اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ [5] مکینیکل وینٹیلیشن سے زندگی بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن یہ بیماری کی پیش رفت کو نہیں روکتا ہے۔ [14] فیڈنگ ٹیوب بعض مریضوں میں غذا کی فراہمی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ [15] یہ بیماری کسی بھی عمر کے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن عام طور پر 60 سال کی عمر میں اور وراثتی صورتوں میں 50 سال کی عمر کے لگ بھگ ظاہر ہوتی ہے- [3] ابتدائی علامات ظاہر ہونے سے لے کر موت تک کا اوسط عرصہ دو سے چار سال ہوتا ہے، اگرچہ یہ مختلف ہو سکتا ہے۔تقریباً 10فیصد مریض دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔۔ [5] [16] [4] زیادہ تر مریضوں کی موت سانس لینے میں ناکامی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ [3] یورپ میں، یہ بیماری ہر سال 100,000 میں تقریباً دو سے تین افراد کو متاثر کرتی ہے۔ [8] دنیا کے بیشتر حصوں میں شرح واضح نہیں ہیں۔ [17] ریاستہائے متحدہ میں، یہ سیاہ فام لوگوں کے مقابلے سفید فام لوگوں میں زیادہ عام ہے۔ [18]

اس بیماری کی ابتدائی تفصیلات کم از کم 1824 میں چارلس بیل نے بیان کی تھیں۔ 1869 میں، ژاں مارٹین شاکو نے پہلی بار اس بیماری کی علامات اور اعصابی خرابیوں کے درمیان تعلق کو واضح کیا اور 1874 میں انھوں نے پہلی بار "امیوٹروفک لیٹرل اسکلروسیس (اے ایل ایس)" کی اصطلاح استعمال کی۔ یہ بیماری امریکا میں 20ویں صدی میں اُس وقت مشہور ہوئی جب 1939 میں مشہور بیس بال کھلاڑی لو گیریگ کو یہ مرض لاحق ہوا اور بعد میں عالمی سطح پر اُس وقت مزید شہرت ملی جب 1963 میں ماہرِ کائنات اسٹیفن ہاکنگ کو اس کی تشخیص ہوئی۔ پہلا اے ایل ایس سے منسلک جین 1993 میں دریافت ہوا- پہلا جانوروں پر مبنی ماڈل 1994 میں تیار کیا گیا- 2014 میں "آئس بکٹ چیلنج " کے وائرل ہونے سے انٹرنیٹ پر اس بیماری کے بارے میں عوامی آگاہی میں زبردست اضافہ ہوا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. LC Wijesekera، PN Leigh (فروری 2009)۔ "Amyotrophic lateral sclerosis"۔ Orphanet Journal of Rare Diseases۔ ج 3 شمارہ 4: 3۔ DOI:10.1186/1750-1172-4-3۔ PMC:2656493۔ PMID:19192301{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر نشان زد مفت ڈی او آئی (link)
  2. ^ ا ب پ ت "Motor Neuron Diseases Fact Sheet"۔ National Institute of Neurological Disorders and Stroke۔ 2014-04-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-11-07
  3. ^ ا ب پ ت ٹ MC Kiernan، S Vucic، BC Cheah، MR Turner، A Eisen، O Hardiman، JR Burrell، MC Zoing (مارچ 2011)۔ "Amyotrophic lateral sclerosis"۔ Lancet۔ ج 377 شمارہ 9769: 942–55۔ DOI:10.1016/s0140-6736(10)61156-7۔ PMID:21296405
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ "Amyotrophic Lateral Sclerosis (ALS) Fact Sheet"۔ National Institute of Neurological Disorders and Stroke۔ 19 ستمبر 2014۔ 2017-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-02
  5. ^ ا ب پ ت ٹ EV Hobson، CJ McDermott (ستمبر 2016)۔ "Supportive and symptomatic management of amyotrophic lateral sclerosis" (PDF)۔ Nature Reviews. Neurology۔ ج 12 شمارہ 9: 526–38۔ DOI:10.1038/nrneurol.2016.111۔ PMID:27514291۔ 2020-12-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-01
  6. ^ ا ب RG Miller، JD Mitchell، DH Moore (مارچ 2012)۔ "Riluzole for amyotrophic lateral sclerosis (ALS)/motor neuron disease (MND)"۔ The Cochrane Database of Systematic Reviews۔ ج 3 شمارہ 3: CD001447۔ DOI:10.1002/14651858.CD001447.pub3۔ PMID:22419278
  7. "FDA approves drug to treat ALS"۔ U.S. Food and Drug Administration۔ 5 مئی 2017۔ 8 مئی 2017 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا آرکائیو شدہ 8 مئی 2017 بذریعہ وے بیک مشین
  8. ^ ا ب O Hardiman، A Al-Chalabi، C Brayne، E Beghi، LH van den Berg، A Chio، S Martin، G Logroscino، J Rooney (جولائی 2017)۔ "The changing picture of amyotrophic lateral sclerosis: lessons from European registers"۔ Journal of Neurology, Neurosurgery, and Psychiatry۔ ج 88 شمارہ 7: 557–63۔ DOI:10.1136/jnnp-2016-314495۔ PMID:28285264۔ 2019-12-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-01
  9. "Motor neurone disease"۔ NHS Choices۔ 2014-12-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-01-02
  10. O Hardiman، A Al-Chalabi، A Chio، EM Corr، G Logroscino، W Robberecht، PJ Shaw، Z Simmons، LH van den Berg (اکتوبر 2017)۔ "Amyotrophic lateral sclerosis" (PDF)۔ Nature Reviews. Disease Primers۔ ج 3 شمارہ 17071: 17071۔ DOI:10.1038/nrdp.2017.71۔ PMID:28980624۔ 2020-12-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-01
  11. ^ ا ب MA van Es، O Hardiman، A Chio، A Al-Chalabi، RJ Pasterkamp، JH Veldink، LH van den Berg (نومبر 2017)۔ "Amyotrophic lateral sclerosis"۔ Lancet۔ ج 390 شمارہ 10107: 2084–2098۔ DOI:10.1016/S0140-6736(17)31287-4۔ PMID:28552366
  12. A Chiò، G Mora، G Lauria (فروری 2017)۔ "Pain in amyotrophic lateral sclerosis"۔ The Lancet. Neurology۔ ج 16 شمارہ 2: 144–57۔ arXiv:1607.02870۔ DOI:10.1016/S1474-4422(16)30358-1۔ PMID:27964824
  13. TS Wingo، DJ Cutler، N Yarab، CM Kelly، JD Glass (2011)۔ "The heritability of amyotrophic lateral sclerosis in a clinically ascertained United States research registry"۔ PLOS ONE۔ ج 6 شمارہ 11: e27985۔ Bibcode:2011PLoSO...627985W۔ DOI:10.1371/journal.pone.0027985۔ PMC:3222666۔ PMID:22132186{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر نشان زد مفت ڈی او آئی (link)
  14. M Soriani، C Desnuelle (مئی 2017)۔ "Care management in amyotrophic lateral sclerosis"۔ Revue Neurologique۔ ج 173 شمارہ 5: 288–89۔ DOI:10.1016/j.neurol.2017.03.031۔ PMID:28461024
  15. S Connolly، M Galvin، O Hardiman (اپریل 2015)۔ "End-of-life management in patients with amyotrophic lateral sclerosis"۔ The Lancet. Neurology۔ ج 14 شمارہ 4: 435–42۔ DOI:10.1016/S1474-4422(14)70221-2۔ PMID:25728958
  16. B Swinnen، W Robberecht (نومبر 2014)۔ "The phenotypic variability of amyotrophic lateral sclerosis"۔ Nature Reviews. Neurology۔ ج 10 شمارہ 11: 661–70۔ DOI:10.1038/nrneurol.2014.184۔ PMID:25311585۔ 2018-12-31 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-08-01
  17. A Al-Chalabi، O Hardiman (نومبر 2013)۔ "The epidemiology of ALS: a conspiracy of genes, environment and time"۔ Nature Reviews. Neurology۔ ج 9 شمارہ 11: 617–28۔ DOI:10.1038/nrneurol.2013.203۔ PMID:24126629
  18. P Mehta، W Kaye، J Raymond، R Punjabi، T Larson، J Cohen، O Muravov، K Horton (نومبر 2018)۔ "Prevalence of Amyotrophic Lateral Sclerosis – United States, 2015"۔ Morbidity and Mortality Weekly Report۔ ج 67 شمارہ 46: 1285–1289۔ DOI:10.15585/mmwr.mm6746a1۔ PMC:5858037۔ PMID:30462626