باب:قرآن/منتخب سورت/34

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سورہ سبا میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت توحید و آخرت پر اور خود آپ کی نبوت پر زیادہ طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔ ان اعتراضات کا جواب کہیں تو ان کو نقل کر کے دیا گیا ہے، اور کہیں تقریر سے خود یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کس اعتراض کا جواب ہے۔ جوابات اکثر و بیشتر تفہیم و تذکیر اور استدلال کے انداز میں ہیں، لیکن کہیں کہیں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی کے برے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ اسی سلسلے میں حضرت داؤد، سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ تمہارے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور وہ شوکت و حشمت عطا کی جو پہلے کم ہی کسی کو ملی ہے مگر یہ سب کچھ پا کر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے اس کے شکر گزار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھ کر خود رائے قائم کر لو کہ توحید و آخرت کے یقین اور شکر نعمت کے جذبے سے جو زندگی بنتی ہے وہ زیادہ بہتر ہے یا وہ زندگی جو کفر و شرف اور انکارِ آخرت اور دنیا پرستی کی بنیاد پر بنتی ہے۔ مکمل مضمون