مندرجات کا رخ کریں

باتکبر مرد و زن گفتگو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایک آدمی میخانے کے ماحول میں بااعتماد انداز میں اپنی گرل فرینڈ سے ہم کلام ہو رہا ہے جب کہ وہ کم اعتمادی کی وجہ سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھی ہوئی ہے۔
با تکبر مرد و زن گفتگو پر جرمن زبان میں ایک تصویری پیش کش

عصری دور میں جب صنفی مساوات پر بات ہوتی ہے تو باتکبر مرد و زن گفتگو "Mansplaining" کا لفظ خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ انگریزی زبان میں اصطلاح مرد اور خواتین کے مابین گفتگو میں پوشیدہ طاقت کے توازن کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ لفظ "man" (مرد) اور "explaining" (وضاحت کرنا) کو ملا کر بنایا گیا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ مرد، کسی عورت کو ایسے انداز میں وضاحت کرتا ہے جو نہ صرف غیر ضروری بلکہ تکبر آمیز اور اکثر غلط ہوتی ہے، خاص طور پر ایسے موضوعات پر جہاں عورت کا علم یا تجربہ مرد سے کم نہیں ہوتا۔

اصطلاح کی ابتدا اور تعریف

[ترمیم]

"باتکبر مرد و زن گفتگو" کی اصطلاح کو مقبولیت اس وقت ملی جب ربیکا سولوینٹ نے اپنے مشہور مضمون "Men Explain Things to Me" میں اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ اس مضمون میں انھوں نے بتایا کہ کیسے بعض مرد خواتین کو اس انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں گویا انھیں خود علم حاصل نہیں ہے، حالانکہ حقیقت میں خواتین کو اس موضوع پر مردوں سے کہیں زیادہ مہارت حاصل ہوتی ہے۔ اس اصطلاح نے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور پیشہ ورانہ ماحول میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والی اس برابری کے منافی رویے کی نمائندگی کرنی شروع کر دی۔

نفسیاتی اور سماجی اثرات

[ترمیم]

باتکبر مرد و زن گفتگو نہ صرف گفتگو کے فوری منظرنامے پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اس کے وسیع سماجی اور نفسیاتی اثرات بھی ہیں۔ خواتین جو اس کا شکار ہوتی ہیں، اکثر مایوسی، خود اعتمادی میں کمی اور نظر انداز کیے جانے کا احساس کرتی ہیں۔ یہ رویہ پیشہ ورانہ ماحول کو زیادہ چیلنجنگ اور غیر معاون بنا دیتا ہے، خاص طور پر ایسے شعبوں میں جو مردوں کی غلبہ میں سمجھے جاتے ہیں، جیسے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور سیاست۔

یہ عمل مردوں اور خواتین دونوں میں دقیانوسی تصورات کو فروغ دیتا ہے۔ مرد یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ گفتگو میں اپنی بالا دستی ثابت کرنا ان کی فطری ذمہ داری ہے، جبکہ خواتین کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی آراء اور علم کی اہمیت کم ہے۔

پیشہ ورانہ ماحول اور تعلیمی اداروں میں باتکبر مرد و زن گفتگو

[ترمیم]

باتکبر مرد و زن گفتگو عام طور پر دفتر اور علمی محفلوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ خواتین ملازمین اکثر شکایت کرتی ہیں کہ ان کی باتوں کو توجہ سے نہیں سنا جاتا، ان کی تجاویز کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کے علم کو مرد ساتھیوں کی طرف سے غیر ضروری وضاحت کے ذریعے کم سمجھا جاتا ہے۔ علمی کانفرنسوں اور سیمینارز میں بھی یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں مرد محققین خواتین محققین کے کام کو آسان یا غلط طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ رویہ نہ صرف انفرادی سطح پر خواتین کو متاثر کرتا ہے بلکہ مجموعی طور پر صنفی مساوات کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔

باتکبر مرد و زن گفتگو کا سدِ باب: مساوی گفتگو کی طرف پیش قدمی

[ترمیم]

باتکبر مرد و زن گفتگو کے خلاف سب سے پہلا قدم اس کی پہچان ہے۔ مردوں کو اپنی بات چیت کے انداز پر غور کرنا چاہیے تاکہ وہ بغیر کسی فرضی بالا دستی کے خواتین کی رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔ ادارے ایسے قواعد و ضوابط نافذ کریں جو ہر فرد کو عزت سے پیش آنے اور تکبر آمیز رویے کی اجازت نہ دیں۔

اسی طرح، خواتین کو بھی حوصلہ دیا جانا چاہیے کہ وہ اس رویے کی نشان دہی کریں اور اپنی مہارت کا بھرپور اظہار کریں۔ خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حامیوں کو بھی آگے آ کر ایسے مواقع پر بیچ میں آنا چاہیے اور خواتین کی آراء کی حمایت کرنی چاہیے۔

نتیجہ

[ترمیم]

باتکبر مرد و زن گفتگو محض ایک نیا اصطلاح نہیں بلکہ ایک ایسا مظہر ہے جو جنس کی بنیاد پر معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس رویے کو سمجھ کر، اس کی نشان دہی کرکے اور اس کے خلاف عملی اقدامات کرکے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں علم اور مہارت کی قدر جنس کی بنیاد پر نہ کی جائے بلکہ قابلیت کی بنیاد پر ہو۔ خواتین اور مرد مل کر ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں گفتگو مساوات، احترام اور باہمی اعتماد پر مبنی ہو۔

ایک محقق برِگز (Briggs) کا کہنا ہے کہ اس قسم کے رویے خواتین کے کیریئر اور کام کی جگہ پر زندگی پر وقت کے ساتھ بہت حقیقی اثرات ڈال سکتے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ ہمارے پاس یہ معلوم نہیں کہ خواتین کام کرنے والیوں کو باتکبر مرد و زن گفتگو کا سامنا کس حد تک اور کس شرح سے ہوتا ہے۔ بِرِگز کے مطابق ہم کچھ اقدامات کر سکتے ہیں تاکہ باتکبر مرد و زن گفتگو کو روکنے میں مدد ملے، جن میں شامل ہیں: باتکبر مرد و زن گفتگو سے متعلق مسائل کے بارے میں شعور بیدار کرنا؛ کام کی جگہ کی تربیت میں باتکبر مرد و زن گفتگو کی معلومات شامل کرنا؛ اور ورچوئل میٹنگز کی ریکارڈنگز کی نگرانی کرنا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ لوگ کب کتنی بار بولنے کی کوشش کرتے وقت روکے یا نظر انداز کیے جاتے ہیں۔[1]


حوالہ جات

[ترمیم]