براء بن عازب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
براء بن عازب
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 600ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 690ء (89–90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طبی کیفیت اندھا پن  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد،  غزوہ خیبر  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (وفات: 72ھ)صحابی رسول ابتدائی مسلمان ہونے والے اور راوی صحابہ میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت عقبہ میں مشرف باسلام ہوئے۔غزوہ بدر میں چھوٹے تھے ، غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 72ھ میں کوفہ میں وفات پائی ۔

نام و نسب[ترمیم]

براء نام، ابو عمارہ کنیت، خاندان حارثہ سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے براء بن عازب بن حارث بن عدی بن جشم بن مجدعہ بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس، ننہال کی طرف سے ابو بردہ بن نیار جو غزوہ بدر میں آنحضرت کے ہمرکاب تھے اور قبیلۂ بلی سے تھے، [1] ان کے ماموں تھے، [2] پیشتر وہ اپنی سسرال کے حلیف بھی بن چکے تھے۔ براء کے والد (عازب ) صحابی تھے، صحیحین میں ان کا یہ واقعہ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے اونٹ کا پالان خریدا اور کہا اس کو اپنے بیٹے سے اٹھوا کر میرے ساتھ بھیجئے جواب دیا پہلے ہجرت کا قصہ سنائیے پھر آپ جا سکتے ہیں۔[3] [4]

اسلام[ترمیم]

مدینہ میں دعوت اسلام عام ہو چکی تھی، ماموں عقبہ میں بیعت کرچکے تھے، باپ نے بھی توحید و رسالت کا اقرار کر لیا تھا، بیٹے نے ان ہی دونوں خاندانوں میں تربیت پائی تھی۔ [5]

غزوات و دیگر حالات[ترمیم]

قبول اسلام کے بعد احکام و مسائل کے سیکھنے میں مصروف ہوئے،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درس گاہ کتاب و سنت کا مرکز بنی ہوئی تھی، انھوں نے وہیں تعلیم پائی، پہلے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا , آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی سورۃ زیر درس تھی۔ غزوہ بدر میں اگرچہ کمسن تھے، تاہم جوش ایمان عین شباب پر تھا، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے لڑائی کے ناقابل سمجھ کر واپس کر دیا۔[6] غزوہ احد میں پندرہ سال کی عمر میں لڑائی میں شریک ہوئے، خندق، حدیبیہ، خیبر میں بھی شرف شرکت حاصل تھی۔ غزوۂ حنین میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا، ایک شخص نے پوچھا حنین میں تم بھاگے تھے؟ فرمایا بہر حال میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ رسول نے پیٹھ نہیں پھیری، جلدباز لوگ البتہ دور تک پھیل گئے تھے۔ اس روایت سے لوگوں نے براء کے عدم فرار پر استدلال کیا ہے کہ بھاگنے کی صورت میں وہ ان واقعات کو دیکھ نہ سکتے تھے جن کے بچشم خود دیکھنے کے مدعی ہیں۔ غزوہ طائف کے بعد اور حجۃ الوداع کے قبل آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ لوگوں کے ہمراہ یمن روانہ کیا، براء بھی ساتھ تھے، ان کے پیچھے علی المرتضی کو بھیجا اور فرما دیا کہ اصحاب خالد میں جو لوگ وہاں رہنا چاہیں تمھارے ساتھ رہ سکتے ہیں اور جو آنا چاہتے ہوں وہ مدینہ منورہ چلے آئیں، براء بن عازب یمن میں ٹھہر گئے اور وہاں بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔

24ھ (خلافت فاروقی) میں رے فتح کیا، غزوہ تستر میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں جو لڑائیاں ہوئیں سب میں علی کی طرف سے شریک ہوئے۔ [7]

وفات[ترمیم]

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 72ھ میں کہ مصعب بن زبیر امیر کوفہ تھے، کوفہ میں انتقال فرمایا۔ [5][8]

اولاد[ترمیم]

حسبِ ذیل اولاد چھوڑی، عبید، ربیع، لوط، سوید، یزید، ان میں سے موخر الذکر عمان کے امیر تھے، سوید کے حالت میں صاحب طبقات نے لکھا ہے کہ عمان کے بہترین امیر ثابت ہوئے تھے، ممکن ہے کہ یزید اور سوید دونوں عمان کے امیر مقرر ہوئے ہوں۔ سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے، سونا مردوں کے لیے شرعاً حرام ہے، لوگوں نے اعتراض کیا، فرمایا پہلے واقعہ سن لو،ایک مرتبہ آنحضرت نے مال غنیمت تقسیم کیا، صرف یہ انگوٹھی رہ گئی ادھر ادھر دیکھا، پھر مجھ کو بلا کر فرمایا، تم اس کو پہنو خدا اور رسول نے تم کو پہنائی ہے، اب تم ہی بتاؤ، جو چیز اللہ اور رسول نے مجھے پہنائی ہو اس کو کیونکر اتار پھینکوں۔ [9]

فضل و کمال[ترمیم]

فضلا صحابہ میں تھے، حدیث کے نشر و اشاعت میں خاص اہتمام تھا، ان کے سلسلہ سے جو حدیثیں روایت کی گئی ہیں، ان کی تعداد 305 ہے، ان میں سے 22 پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے۔ روایت حدیث میں خاص احتیاط رکھتے تھے اور اس کی تعلیم خود آنحضرت سے پائی تھی، آنحضرت نے ان کو ایک دعا بتائی اور خود سنا کر ان سے پڑھوایا انھوں نے" بِرَسُوْلِکَ" پڑھا، آنحضرت نے" بِنَبِیِّکَ" بتایا تھا، اس لیے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں" بِنَبِیِّکَ"پڑھو۔ اس کا یہ اثر تھا کہ حدیث بیان کرتے وقت ان نزاکتوں کا پورا خیال رکھتے تھے، ایک مرتبہ اپنی روایتوں کی نوعیت بیان کی، فرمایا:مَا كُلُّ الْحَدِيثِ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحَدِّثُنَا أَصْحَابُنَا عَنْهُ كَانَتْ تَشْغَلُنَا عَنْهُ رَعِيَّةُ الْإِبِلِ [10] یعنی جتنی حدیثیں میں بیان کروں، ضروری نہیں سب رسول اللہ سے سنی بھی ہوں، ہم اونٹ چرایا کرتے تھے، اس بنا پر آنحضرت کے پاس ہر وقت حاضر نہ رہ سکتے تھے، بہت حدیثیں میں صحابہ سے روایت کرتا ہوں۔ جن صحابہؓ سے حدیث روایت کی وہ اپنے طبقہ کے سربر آوردہ تھے مثلاً حضرت ابو بکرؓ صدیق، حضرت عمرؓ فاروق ، حضرت علیؓ، حضرت ابو ایوبؓ انصاری، حضرت بلالؓ، حضرت عازبؓ۔ جن لوگوں کو تلمذ کا فخر حاصل تھا وہ اکابر تابعین سے تھے، ابن ابی لیلیٰ، عدی بن ثابت ابو اسحاق، معاویہ بن سوید بن مقرن، ابو بردہ، ابوبکر پسرانِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ۔ بسا اوقات حدیث کی مجلس میں صحابہ بھی شریک ہوتے تھے، ابو حجیفہ اور عبد اللہ بن زید خطمی تو راویوں کے زمرہ میں داخل ہو چکے تھے، ان کے علاوہ اور بھی صحابہ کرام آتے تھے ایک روز کعب بن حجرہ چند صحابہ کے ساتھ ان کی مجلس میں تشریف لائے تھے۔ [11] ایک شخص نے پوچھا کہ ‘لا تلقوا باید یکم الی التھکۃ ’اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو، میں مشرکین پر حملہ کرنا داخل ہے یا نہیں، فرمایا کیسے ہو سکتا ہے، اللہ تعالی نے خود آنحضرت ﷺ کو جہاد کرنے کا حکم دیا اور فرمایا تھا، "فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ" (خدا کی راہ میں لڑائی کرو تم صرف اپنے نفس کے مکلف ہو) تم نے جو آیت پیش کی، خرچ کے بارہ میں ہے یعنی یہ نہ سمجھو کہ راہ خدا میں صرف کرنے سے ہم تباہ ہوجائیں گے، ایسا سمجھنا ہلاکت ہے۔ ایک مرتبہ، [12] عبد الرحمن بن مطعم(ابو منہال) کے ساتھی نے بازار میں کچھ درہم ایک مدت معینہ تک کے لیے فروخت کیے، عبد الرحمن نے کہا یہ جائز بھی ہے؟ بولا ہاں میں نے اس سے پہلے بھی بیچے ہیں؛ لیکن کسی نے برانہ کہا، یہ براء بن عازب کے پاس گئے اور واقعہ بیان کیا، فرمایا آنحضرت جب مدینہ تشریف لائے تو ہم لوگ اسی طرح خرید وفروخت کرتے تھے، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ہاتھوں ہاتھ ہو اس میں مضائقہ نہیں ؛لیکن ادھار ناجائز ہے، مزید اطمینان کے لیے زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاکر پوچھو، وہ ہم سب میں بڑے تاجر تھے، عبد الرحمن زید بنؓ ارقم کے پاس گئے، انھوں نے براء کی تائید کی۔ [13] [14] [15]

اخلاق و عادات[ترمیم]

اخلاق و عادات میں اتباع سنت، حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، انکسار و تواضع نمایاں ہیں، اتباع سنت کا یہ حال تھا کہ نماز کی ایک ایک چیز رسول اللہ ﷺ سے مشابہ تھی، ایک روز گھر والوں کو جمع کرکے کہا جس طرح رسول اللہ ﷺ وضو کرتے اور نماز پڑہتے تھے، آج تم کو دکھا دوں، خدا معلوم میری زندگی کب تک رہے اور وضو کرکے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، پھر عصر، مغرب، عشا سب اسی طرح پڑھائیں۔ [16] ایک روز آنحضرت کے سجدہ کی نقل کرکے بتائی۔ [17] ایک مرتبہ ابوداؤد ملاقات کو آئے تو انھوں نے خود سلام کیا اوران کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر خوب ہنسے، پھر فرمایا جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ ایک مرتبہ ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ جب دو مسلمان اس طرح ملیں اور کوئی ذاتی غرض درمیان میں نہ ہو تو دونوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ [18] صف نماز میں داہنی طرف کھڑے ہونے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، اس لیے حضرت براءؓ داہنی طرف کھڑا ہونا پسند کرتے تھے۔[19] رسول اللہ ﷺ کی محبت جان و مال سے زیادہ تھی اور اس کا اثر ہر ہر بات پر نمایاں تھا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ بیان کرتے تو ہر لفظ محبت کے آب حیات میں ڈوبا ہوا نکلتا، فرماتے کے آنحضرت سب آدمیوں سے خوبصورت تھے، میں نے سرخ چادر اوڑھے دیکھا تھا، جتنی آپ پر کھلتی تھی کسی پر نہ کھلتی تھی۔ [20] ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا کہ آنحضرت کا چہرہ (چمک میں)تلوار کے مانند تھا؟ فرمایا نہیں ؛بلکہ چاند کے مانند تھا۔ انکسار وتواضع کا یہ حال تھا کہ گو آپ جلیل القدر صحابی تھے، لیکن اپنے کو نہایت ناچیز سمجھتے تھے۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ خوش بختی مبارک! آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور بیعت الرضوان میں بھی شریک ہو چکے ہیں، فرمایا؟ برادر زادے! تم کو معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ہم نے کیا کیا۔ [21] [22] [23] .[24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الاصابہ فی تمیز الصحابہ مؤلف: ابن حجر العسقلانی ناشر: دار الكتب العلمیہ - بیروت
  2. مسند:4/282
  3. بخاری:1/557
  4. الخطيب البغدادي۔ تاريخ بغداد۔ الأول۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 177 
  5. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة > البراء بن عازب. آرکائیو شدہ 2017-11-14 بذریعہ وے بیک مشین
  6. بخاری:1/762
  7. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني > البراء بن عازب (1). آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  8. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني > البراء بن عازب (2). آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  9. خير الدين الزركلي (2002)۔ الأعلام۔ مج2 (15 ایڈیشن)۔ بيروت: دار العلم للملايين۔ صفحہ: 46 
  10. (مسند احمد، باب حدیث البراء بن عازبؓ، حدیث نمبر:17762)
  11. (مسند:4/303)
  12. (مسند:4/281)
  13. (بخاری:1/)
  14. الطبقات الكبرى لابن سعد > البراء بن عازب. آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  15. سير أعلام النبلاء > الصحابة رضوان الله عليهم > البراء بن عازب. آرکائیو شدہ 2018-04-01 بذریعہ وے بیک مشین
  16. (مسند:4/48)
  17. (مسند:4/303)
  18. (مسند:4/289)
  19. (مسند:304)
  20. (بخاری:1/502)
  21. (بخاری:1/599)
  22. تهذيب الكمال في أسماء الرجال > البراء بن عازب بن الحارث (1) آرکائیو شدہ 2017-11-07 بذریعہ وے بیک مشین
  23. تهذيب الكمال في أسماء الرجال > البراء بن عازب بن الحارث (2) آرکائیو شدہ 2017-11-07 بذریعہ وے بیک مشین
  24. تهذيب الكمال في أسماء الرجال > البراء بن عازب بن الحارث (3) آرکائیو شدہ 2017-11-07 بذریعہ وے بیک مشین
== سانچے ==