برقی گاڑی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

برقی گاڑی عام گاڑی کے برعکس بجلی سے چلتی ہے، عام گاڑی کو برقی گاڑی میں بدلا جا سکتا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا انجن بدل کر برقی انجن لگا دیا جائے جو پیٹرول سے بجلی پر منتقلی کا آسان ترین طریقہ ہے، برقی انجن کو درکار ضروری توانائی ایسی بیٹریوں سے دی جاتی ہے جو برقی رو کو محفوظ کرسکتی ہیں، برقی گاڑی کے ڈھانچے کا انحصار بنیادی طور پر برقی انجن اور ایک طاقتور بیٹری پر ہوتا ہے جسے دوبارہ چارج کیا جاسکے اور جس کا وزن نہ صرف کم ہو بلکہ کم قیمت بھی ہو، برقی گاڑی پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست ہوتی ہیں کیونکہ ان سے ایسے کسی قسم کے مواد کا اخراج نہیں ہوتا جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہو اور آلودگی کا باعث بنے .

برقی گاڑی کی ترقی تا حال مسائل کا شکار ہے، اب تک بننے والی برقی گاڑیوں میں کافی بھاری اور مہنگی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں، گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں برقی گاڑی کے لیے ایسی بیٹری بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی قیمت بیس ڈالر یا اس سے بھی کم ہو، اب تک بننے والی برقی گاڑیاں صرف 200 کلومیٹر تک ہی چل پاتی ہیں، تاہم گاڑیاں بنانے والی عالمی کمپنیاں حکومتوں کے تعاون سے لیتھیم Li-Tec نوعیت کی بیٹری بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، اس نوعیت کی بننے والی اب تک کی بہترین بیٹری تجربات کے دوران 3000 مرتبہ چارج کی جاسکی جس کا مطلب ہے کہ اس بیٹری پر چلنے والی گاڑی 300.000 کلومیٹر تک کا سفر طے کر سکتی ہے، تاہم سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دفعہ چارج کرنے پر اس کی مسافت 200 کلومیٹر سے زیادہ کس طرح کی جائے اور چارجنگ کا وقت کیونکر کم کیا جائے جس میں 8 گھنٹے صرف ہوتے ہیں جس کے دوران گاڑی ہل بھی نہیں سکتی۔

برقی گاڑی کی ترقی[ترمیم]

گذشتہ صدی میں جتنی ترقی پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑی نے کی اتنی ترقی برقی گاڑی نہ کر سکی، اس صورت حال میں تھوڑی سی تبدیلی گذشتہ صدی کی چالیس کی دہائی میں ٹرانزسٹر کی ایجاد سے ہوئی جب 1947ء میں ایک کمپنی نے ٹرانزسٹر کے استعمال سے پہلی برقی گاڑی بنائی جسے ہینی کلو واٹ Henney Kilowatt کا نام دیا گیا، اگرچہ یہ گاڑی چلنے کے اعتبار سے کامیاب تھی تاہم اس کی قیمت روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی جس کی وجہ سے یہ گاڑی ناکام ہو گئی اور 1961ء میں اس کی تیاری بند کردی گئی، کچھ عرصہ بعد 3 جولائی 1971ء میں انسان نے پہلی برقی گاڑی چاند پر چلائی جس کا نام Lunar rover تھا اور جو اپالو 15 مشن کا حصہ تھی جسے بوئنگ کمپنی نے تیار کیا تھا تاکہ خلاء نورد اسے چاند پر چلا سکیں، اس گاڑی میں ڈی سی DC وولٹ کے چار انجن تھے جن میں سے ہر انجن ایک پہیا سے منسلک تھا جبکہ چاندی، زنک اور پوٹیشیم ہائیڈروکسائیڈ کی دو بیٹریاں تھیں، ہر بیٹری کی طاقت 36 وولٹ تھی۔

نوے کی دہائی میں برقی گاڑی پر توجہ[ترمیم]

1999ء میں تیار کی گئی جنرل موٹرز کی EV1 برقی گاڑی جو 160 کلومیٹر تک چل سکتی ہے اور NiMH نوعیت کی بیٹری استعمال کرتی ہے

مارکیٹ سے غائب ہونے اور 1973ء کے تیل کے بحران کے بعد ایک بار پھر برقی گاڑی پر توجہ دی جانے لگی، صرف اس لیے نہیں کہ مشرق وسطی کے ممالک سے درآمد کردہ تیل پر انحصاری کم کی جائے بلکہ اس لیے بھی کہ آلودگی پر قابو پایا جاسکے، ریاست کیلی فورنیا میں ایک قانون منظور کیا گیا جس میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ماحول دوست گاڑیاں بنائیں، ہدف یہ تھا کہ 2003ء تک ریاست میں ماحول دوست گاڑیوں کی تعداد ریاست کی مجموعی گاڑیوں کا دس فیصد 10% ہو، تاہم تیار کی گئی گاڑیاں بہت مہنگی تھیں، ایک گاڑی کی قیمت عام گاڑی کی قیمت سے دو تین گنا زیادہ تھی جس کی وجہ سے یہ گاڑیاں خریداروں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں نتیجتاً توجہ ایک بار پھر روایتی گاڑیوں کی طرف چلی گئی۔

2000ء کے بعد کی پیش رفت[ترمیم]

2000ء کے بعد کچھ تجرباتی گاڑیاں تیار کی گئیں جن کی رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی بلکہ کچھ گاڑیاں تو 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے میں بھی کامیاب رہیں، مگر یہ تجرباتی اور کافی مہنگی گاڑیاں تھیں، ان کی بیٹریاں بہت وزنی تھیں جبکہ ان کی چارجنگ کا وقت 8 گھنٹے تھا جو بہت زیادہ ہے۔

2005ء کے بعد بعض عالمی کمپنیوں نے کچھ بہتر برقی گاڑیاں تیار کر کے فروخت کے لیے پیش کیں، مگر ان کی بیٹری کی قیمت اب بھی کافی زیادہ تھی، یہ کہا جا سکتا ہے کہ برقی گاڑی کی لیتھیم آئن نوعیت کی ایک بیٹری کی طاقت اسی نوعیت کی موبائل فون میں استعمال ہونے والی 6000 بیٹریوں کی طاقت کے برابر ہے اور یہی اس کے مہنگے ہونے کی وجہ ہے، یہ اور اس جیسے دوسرے مسائل کے حل کے لیے امریکا، جرمنی اور جاپان کی حکومتیں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کو اربوں ڈالر کے فنڈ فراہم کرتے ہیں تاکہ اس سلسلے میں ہونے والی تحقیق جاری رہ سکے .

امریکا اپنی آٹو انڈسٹری کو سالانہ 2 ارب ڈالر کے فنڈ فراہم کرتا ہے جبکہ جرمنی اپنی آٹو انڈسٹری میں سالانہ 5 ارب یورو صرف کرتا ہے، جرمن حکومت نے 2009ء میں ایک پروگرام بھی تشکیل دیا ہے جس کے تحت 2020ء تک ایک ملین برقی گاڑیاں جرمنی کی سڑکوں پر لائی جائیں گی تاکہ تیل پر انحصار کم ہو اور آلودگی پر قابو پایا جاسکے .

اس ضمن میں چین کے ارادے بہت بڑے ہیں، چین پہلے ہی روایتی آٹو انڈسٹری میں جاپان اور مغرب سے سو سال پیچھے ہے، مگر چین یہ وقت مختصر کرتے ہوئے براہ راست برقی گاڑی کی تیار میں مصروف ہے جسے کم وقت میں دوبارہ چارج کیا جاسکے، جس کی بیٹری سستی اور ہلکی ہو اور جو برق رفتار بھی ہو، اس سلسلے میں چین کو کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، چین ایک امریکی کمپنی کے اشتراک سے 2010ء تک ذاتی استعمال کے لیے برقی گاڑی تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جسے امریکا میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا، چین کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ ہر طرح کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی حاصل کر کے اسے اپنے ملک کے فائدے کے لیے استعمال میں لائے، چین کو سستی لیبر کا فائدہ بھی حاصل ہے جس سے وہ عالمی مارکیٹ میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے، اس کے علاوہ چین کی اپنی بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، چینیوں کو جن کی تعداد 1300 ملین سے بھی متجاوز ہے کئی سو ملین گاڑیاں درکار ہیں جبکہ کئی سو ملین چینی ایسی سستی گاڑی خریدنے کے خواہش مند ہیں، اس کی وجہ چین کی سال بہ سال مضبوط ہوتی معیشت ہے چنانچہ چین کی ایک بہت بڑی آبادی گاڑی خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ چین اس میدان میں جلد پیش رفت کرنا چاہتا ہے تاکہ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی مارکیٹوں میں بھی اسے فروخت کر سکے، اس سے نہ صرف چین کا تیل پر انحصار کم ہوگا بلکہ وہ بڑھی ہوئی آلودگی پر بھی قابو پاسکے گا۔

کچھ برقی گاڑیاں[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]