بریدہ بن حصیب
بریدہ بن حصیب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | 680ء کی دہائی خراسان |
عملی زندگی | |
پیشہ | جنگجو |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ خیبر، فتح مکہ |
درستی - ترمیم ![]() |
بریدہ بن حصیب رسول اللہ ﷺ کے مخلص صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔
نام ونسب[ترمیم]
بُرَیْدَہْ نام، ابوعبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے کہ بریدہ بن حصیب بن عبد اللہ بن حارث بن اعرج بن سعد بن زراح بن عدی بن سہم بن مازن بن حارث بن سلامان بن اسلم اسلمی۔
اسلام[ترمیم]
بریدہ عین زمانہ ہجرت میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام کے واقعہ یہ ہے کہ جب مرکز نبوت مکہ کے ستم کدہ سے مدینہ کے بیت الامن میں مدینہ میں منتقل ہونے لگا اورکوکب نبوی غمیم پہنچا تو یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اسلام پیش کیا، بریدہ نے بلا پس و پیش قبول کر لیا، ان کے ساتھ بنو اسلم کے اسی خانوادے حلقہ بگوشہ اسلام ہوئے، پھر کچھ دنوں قرآن کی تعلیم حاصل کرکے گھر لوٹ گئے۔[1]
کاتب وحی[ترمیم]
متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ [2]
ہجرت اور غزوات[ترمیم]
بدرواحد کے معرکے ان کے وطن کے قیام کے زمانہ میں ختم ہوچکے تھے، غالباً 6ھ یا اس سے کچھ پہلے ہجرت کا شرف حاصل کیا، 7ھ میں غزوۂ خیبر پیش آیا، اس میں یہ پیش پیش تھے؛ چنانچہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگوں نے خیبر کا محاصرہ کیا، پہلے دن ابوبکرؓ نے علم لیا؛ لیکن فتح نہ کر سکے دوسرے دن پھر یہی ہوا، لوگ بہت تھک چکے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا، جس کو اللہ اور اس کا رسول محبوب رکھتا ہے اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے وہ فتح کرکے لوٹے گا، لوگ بہت خوش ہوئے کہ کل یہ مہم سر ہوگی، دوسرے دن صبح کو آنحضرتﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر علم منگوایا، لوگ اپنی اپنی صفوں میں تھے، پھر علی بن ابی طالب کو طلب فرمایا، ان کو آشوب چشم کی شکایت تھی، آنحضرتﷺ نے لعاب دہن لگا کر علم مرحمت فرمایا اور ان ہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
8ھ میں آنحضرتﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی، اس میں بھی یہ ہمرکاب تھے؛ چنانچہ بیان کرتے تھے کہ فتح کے دن آنحضرتﷺ نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں۔[3]
فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے خالد کی ماتحتی میں جو سریہ یمن بھیجا تھا، بریدہ بھی اس میں ساتھ تھے، بعد کو پھر اسی مقام پر علی کی ماتحتی میں مسلمانوں کی ایک جماعت بھیجی گئی اور پوری فوج کی امارت حضرت علی ؓ کو تفویض ہوئی، جنگ کے بعد انہوں نے مال غنیمت میں سے ایک لونڈی خمس میں اپنے لیے مخصوص کرلی، حضرت بریدہؓ کو یہ بات پسند نہ آئی، انہوں نے لوٹ کر یہ واقعہ آنحضرتﷺ سے بیان کیا، آپ نے سن کر فرمایا، بریدہؓ کیا تم کو علیؓ سے کینہ ہے، انہوں نے صفائی سے اس کا اقرار کیا، فرمایا ان سے کینہ نہ رکھو، ان کو خمس میں سے اس سے زیادہ کا حق ہے، (صحیح بخاری، جلد2 باب بعث علی الی الیمن ومسند احمد بن حنبل:5/350) حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت کی زبان مبارک سے یہ لفظ سن کر میری ساری شکایت حضرت علیؓ سے جاتی رہی اور ان سے اتنی محبت ہو گئی جو کسی دوسرے سے نہیں تھی۔[4]
آنحضرتﷺ کی زندگی میں جس قدر غزوات بھی ہوئے، بریدہؓ تقریباً سب میں شریک تھے، ان کے غزوات کی مجموعی تعداد سولہ ہے، (بخاری کتاب المغازی باب کم غز النبی ﷺ ) آنحضرتﷺ نے اپنے مرض الموت میں اسامہؓ کی زیر سرکردگی جو سریہ شام بھیجا تھا، اس میں بھی یہ شریک اور سریہ کے علمبردار تھے۔
ابن حجر کے مطابق ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی۔
آنحضرتﷺ کی زندگی بھر دیار حبیب میں رہے، آپ کی وفات کے بعد جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بصرہ آباد ہوا تو دوسرے صحابہ کے ساتھ یہاں منتقل ہو گئے اور یہیں مستقل گھر بنالیا۔
ان کی رگ رگ میں جہاد کا خون دوڑتا تھا، لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ زندگی کا مزہ گھوڑے کدانے میں ہے، اسی جذب و ولولہ کی بنا پر خلفاء کے زمانہ میں بھی مجاہدانہ شریک ہوتے تھے، حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں خراسان پر فوج کشی ہوئی، اس میں آپ کی تلوار نے اپنے جوہر دکھائے۔ مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی، چنانچہ شیخین کے بعد جس قدر خانہ جنگیاں ہوئیں ان میں سے کسی میں شریک نہیں ہوئے؛ بلکہ شدت احتیاط کی بنا پر ان لوگوں کے بارہ میں جو اس میں شریک تھے کوئی رائے بھی نہ قائم کرتے تھے، ایک شخص نے حضرت علیؓ، عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیر کے بارہ میں ان کی رائے معلوم کرنے کے لیے ان کے سامنے ان بزرگوں کا تذکرہ کیا، بریدہؓ فوراً قبلہ رو ہوکر دست بدعا ہو گئے کہ خدایا علیؓ کی مغفرت فرما، عثمانؓ کی مغفرت فرما اور زبیرؓ کی مغفرت فرما، پھر اس شخص سے مخاطب ہوکر کہا کہ تو مجھ کو میرا قاتل معلوم ہوتا ہے، اس نے کہا حاشا میں قاتل کیوں ہونے لگا، اس استفسار سے میرا یہ مقصد تھا، فرمایا ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے گا تو ان کی نیکیوں کے بدلہ میں بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو ان کی غلطیوں کی سزا میں عذاب دے گا۔[5]
وفات[ترمیم]
یزید کے عہد حکومت میں 63ھ میں وفات پائی، دولڑکے یادگار چھوڑے عبد اللہ اور سلیمان۔
فضل وکمال[ترمیم]
فضل وکمال کے اعتبار سے بھی عام صحابہ کی جماعت میں ممتاز ہیں، احادیث نبوی کی کافی تعداد ان کے حافظہ میں محفوظ تھی، ان کی مرویات کا شمار 164 حدیثوں تک پہنچتا ہے، اس میں ایک متفق علیہ ہے اور 2 میں بخاری اور 11 میں مسلم منفرد ہیں، [6] ان کی مرویات تمامتربراہ راست زبان نبوت سے منقول ہیں، ان کے تلامذہ میں ان کے صاحبزادہ عبداللہ اور سلیمان اوردوسرے لوگوں میں عبداللہ بن عوس خزاعی، شعبی اورملیح بن اسامہ قابل ذکر ہیں۔ [7]
عام حالات[ترمیم]
حضرت بریدہؓ کو بارگاہ نبویﷺ میں پذیرائی حاصل تھی، حضورﷺ انور ان سے بے تکلفانہ ملتے تھے، کبھی کبھی آنحضرتﷺ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیے ہوئے نکلتے تھے، ایک مرتبہ یہ کسی ضرورت سے کہیں جارہے تھے، راستہ میں آنحضرتﷺ سے ملاقات ہوگئی، آپ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اورآگے بڑھے۔ [8]
حق گوئی[ترمیم]
حق گوئی ان کا خاص وصف تھا اور وہ بڑی سے بڑی شخصیت کے مقابلہ میں بھی کلمہ حق کے اظہار سے باز نہ رہتے تھے، ایک مرتبہ امیر معاویہؓ کے پاس گئے، ایک شخص بیٹھا ہوا ان سے باتیں کررہا تھا، بریدہؓ نے کہا میں بھی کچھ کہہ سکتا ہوں، معاویہؓ سمجھے یہ بھی پہلے شخص کی طرح مجھے سراہیں گے، کہا شوق سے، فرمایا :میں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ کو امید ہے کہ قیامت کے دن میں روئے زمین کے کنکر، پتھر اور درختوں کی تعداد کے برابر لوگوں کی شفاعت کروں گا، معاویہ !کیا اس عام شفاعت کے تم مستحق ہو اور علی نہیں ہیں [9] (غالباً پہلا شخص حضرت علیؓ کی مذمت کررہا تھا اور معاویہ بریدہؓ کی زبان سے بھی یہی سننا چاہتے تھے)
فرمان نبوی پر عمل[ترمیم]
آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے ایک مرتبہ جو سن لیا، وہ حرزجان بن گیا، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا کہ میری امت کو ڈھال کی طرح چوڑے چوڑے اورچھوٹی آنکھ والی قوم تین مرتبہ ہنکائے گی؛ یہاں تک کہ اس کو ہنکاتے ہنکاتے جزیرۃ العرب کے اندر محدود کردے گی، اس کے پہلے ہلہ میں جو لوگ بھاگ جائیں گے، وہ بچ جائیں گے، دوسرے ہلہ میں بعض بچیں گے اور بعض ہلاک ہوجائیں گے، تیسرے ہلہ میں سب کے سب اس آگ میں پڑ جائیں گے، لوگوں نے پوچھا یا نبی اللہﷺ وہ کون ہیں؟ فرمایا ترک، پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ اپنے گھوڑوں کو مسلمانوں کی مسجدوں کے ستونوں سے باندھیں گے، اس ہولناک پیشین گوئی کے بعد بریدہؓ ہمیشہ دو تین اونٹ زادسفر اورپانی پینے کا برتن ساتھ رکھتے تھے کہ جیسے ہی یہ وقت آئے فوراً اس عذاب سے بھاگ نکلیں۔ [10]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ ابن سعدجز 4،ق1:178 ، استیعاب:1/69
- ↑ عیون الاثر 2/ 316 العجالة السنیہ شرح الفیہ 246، المصباح المضئی 7/ ب
- ↑ مسند احمد بن حنبل:5/353
- ↑ صحیح بخاری، جلد2 باب بعث علی الی الیمن ومسند احمد بن حنبل:5/350
- ↑ طبقات ابن سعد، جز4،ق1:176۔ تذکرہ بریدہ بن حصیب
- ↑ (تہذیب الکمال:47)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/433)
- ↑ (مسند احمدبن حنبل:5/350)
- ↑ (ایضا:347)
- ↑ (مسند احمد بن حنبل:5/349)