رام پرساد بسمل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(بسمل شاہجہانپوری سے رجوع مکرر)

رام پرساد بسمل

معلومات شخصیت
پیدائش 11 جون 1897ء
شاہجہاں پور
وفات 19 دسمبر 1927ء
گورکھپور
وجہ وفات پھانسی  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش شاہجہاں پور  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام بسمل شاہجہاں پوری
مذہب ہندو مت
عملی زندگی
پیشہ مصنف،  انقلابی،  شاعر،  مورخ،  حریت پسند  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  ہندی[1]،  سنسکرت  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت مجاہد آزادی

رام پرساد بسمل audio speaker iconتلفظ  (پ۔ 11 جون، [2] 1897ء  – و۔ 19 دسمبر، 1927ء[3]) ہندوستان کے ایک انقلابی اور معروف مجاہد آزادی تھے نیز وہ معروف شاعر، مترجم، ماہر السنہ، مورخ اور ادیب بھی تھے۔ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کی کوششوں کو دیکھ کر انگریزوں نے انھیں خطرہ جانتے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی تھی۔[4]

وہ کانگریس کے رکن تھے اور ان کی رکنیت کے حوالے سے کانگریسی رہنما اکثر بحث کرتے تھے، جس کی وجہ بسمل کا آزادی کے حوالے سے انقلابی رویہ تھا، بسمل کاکوری ٹرین ڈکیتی میں شامل رہے تھے، جس میں ایک مسافر ہلاک ہو گيا تھا۔[5] 11 جون 1897ء (ہندو جنتری کے مطابق بروز جمعہ نرجلا ایکادشی بكرمی سن 1954) کو اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ رام پرساد کو 30 سال کی عمر میں 19 دسمبر 1927ء (پیر پوش کرشن نرجلا ایکادشی (جسے سپھل ایکادشی بھی کہا جاتا ہے) بكرمی سن 1984) کو برطانوی حکومت نے گورکھپور جیل میں پھانسی دے دی۔

بسمل ان کا اردو تخلص تھا جس کا مطلب مجروح (روحانی طور پر ) ہے۔ بسمل کے علاوہ وہ رام اور نا معلوم کے نام سے بھی مضمون لکھتے تھے اور شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے سن 1916ء میں 19 سال کی عمر میں انقلابی راستے میں قدم رکھا اور 30 سال کی عمر میں پھانسی چڑھ گئے۔

11 سال کی انقلابی زندگی میں انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انھیں شائع کیا۔ ان کتابوں کو فروخت کرکے جو پیسہ ملا اس سے وہ ہتھیار خریدا کرتے اور یہ ہتھیار وہ انگریزوں کے خلاف استعمال کیا کرتے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں، جن میں 11 کتابیں ہی ان زندگی کے دور میں شائع ہوئیں۔ برطانوی حکومت نے ان تمام کتابوں کو ضبط کر لیا۔[6]

بنكم چندر چٹوپادھیائے نوشتہ وندے ماترم کے بعد رام پرساد بسمل کی تخلیق سرفروشی کی تمنا نے کارکنانِ تحریکِ آزادی میں بہت مقبولیت پائی۔

دادا اور والد[ترمیم]

بسمل کے دادا نارائن لال کا آبائی گاؤں بربائی تھا جو اس وقت ریاست گوالیر میں دریائے چمبل کے بیهڑو کے درمیان واقع تومرگھار علاقے کے مورینا ضلع ( موجودہ مدھیہ پردیش ) میں آج بھی ہے۔ بربائی کے دیہاتی بڑے ہی غیر ملنسار فطرت کے تھے۔ وہ آئے دن انگریزوں اور ان کے قبضہ والے دیہاتیوں کو تنگ کرتے تھے۔ خاندانی اختلاف کی وجہ سے نارائن لال نے اپنی بیوی وچترا دیوی اور دونوں بیٹوں مرلیدھر اور كلیان مل سمیت اپنا آبائی گاؤں چھوڑ دیا۔[7] ان کے گاؤں چھوڑنے کے بعد بربائی میں صرف ان کے دو بھائی - امن سنگھ اور سمان سنگھ ہی رہ گئے جن کے خاندان آج بھی اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ آج بربائی گاؤں کے ایک پارک میں مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے رام پرساد بسمل کا ایک مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مورینا میں بسمل کا ایک مندر بھی بنا دیا گیا ہے۔[8] وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خاندان اترپردیش کے تاریخی شہر شاہجہاں پور آ گیا۔ شاہجہاں پور میں منوگنج کے دروازے کے قریب واقع ایک عطار کی دکان پر صرف تین روپے ماہانہ پر نارائن لال نے نوکری کر لی۔ اتنے کم پیسے میں ان کے خاندان کا گزارا نہ ہوتا تھا۔ دونوں بچوں کو روٹی بنا کر دی جاتی لیکن شوہر اور بیوی نصف بھوکے پیٹ ہی پر گزارا کرتے۔ ساتھ ہی کپڑوں اور کرایہ کا مسئلہ بھی تھا۔ بسمل کی دادی وچترا دیوی نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے مزدوری کرنے پر غور کیاتھا، لیکن نامعلوم خاتون کو کوئی بھی آسانی سے اپنے گھر میں کام پر نہ رکھتا تھا۔ آخر انھوں نے اناج پیسنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کام میں ان کو تین چار گھنٹے اناج پیسنے کے بعد ایک یا ڈیڑھ پیسہ مل جاتا تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً دو تین سال تک چلتا رہا۔[7]

نارائن لال تھے تو تومر ذات کے چھتریہ لیکن ان کے افکارواعمال، سنجیدگی اور مذہبی رجحان کی وجہ سے مقامی لوگ اکثر انھیں " پنڈت جی " ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس سے انھیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ہر تہوار پر دان دکشنا اور کھانے وغیرہ گھر میں آ جایا کرتے تھے۔ اسی درمیان نارائن لال کو مقامی باشندوں کی مدد سے ایک اسکول میں سات روپیے ماہانہ پر نوکری مل گئی۔ کچھ وقت بعد انھوں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا اور ریزگاری ( ایک آنہ - دو آنہ - چونی کے سکے ) فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر دیا۔ اس سے انھیں روزانہ پانچ - سات آنے کی آمدنی ہونے لگی۔ اس سے ان کی معاشی حالت سدھرنے لگی۔ نارائن لال نے رہنے کے لیے ایک مکان بھی شہر کے كھرنی باغ محلے میں خرید لیا اور بڑے بیٹے مرلی دھر کی شادی اپنے سسرال والوں کے خاندان کی ہی ایک نیک طینت مول متی سے کر کے اسے اس نئے گھر میں لے آئے۔ گھر میں بہو کے قدم پڑتے ہی بیٹے کی بھی قسمت بدلی اور مرلی دھر کو شاہجہاں پور کی بلدیہ میں 15 روپیے ماہانہ تنخواہ پر نوکری مل گئی۔ لیکن انھیں یہ کام پسند نہیں آیا۔ کچھ دن بعد انھوں نے ملازمت ترک کرکے کچہری میں سٹامپ پیپر فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کاروبار میں انھوں نے اچھا خاصا پیسہ کمایا۔ تین بیل گاڑیاں کرایہ پر چلنے لگیں اور سود پر روپیہ بھی دینے لگے۔[7]

پیدائش، ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

جون 1897ء کو اتر پردیش کے شاہجہاں پور شہر کے كھیرنی باغ محلے میں پنڈت مرلیدھر کی بیوی مولمتی کے بطن سے پیدا ہوئے بسمل اپنے ماں باپ کی دوسری اولاد تھے۔ ان سے پہلے ایک بیٹے پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا۔ بچے کا زائچہ اور دونوں ہاتھ کی دسوں انگلیوں کی گولائی دیکھ کر ایک نجومی نے پیش گوئی کی تھی۔ " اگر اس بچے کی زندگی کسی طرح کی نظریاتی بندش سے بچی رہے، جس کا امکان بہت کم ہے، تو اسے عنان حکومت سنبھالنے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں پائے گی۔[9] ماں باپ دونوں ہی زائچہ کے ستارے "اسد" کے حامل تھے اور بچہ بھی یہی صفت رکھتاتھا۔ لہذا نجومی نے بہت سوچ بچار کرکے زائچہ کے اعتبار سے میزان کے حرف نام "ر" ہی پر نام رکھنے کا مشورہ دیا۔ ماں باپ دونوں ہی رام کے پرستار تھے، لہذا بچے کا نام رام پرساد رکھا گیا۔ ماں مول متی تو ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ انھیں رام جیسا بیٹا چاہیے تھا سو رام نے ان کی عبادت سے خوش ہو کر پرساد کے طور پر یہ بیٹا دیا، ایسا یہ لوگ مانتے تھے۔ بچے کو گھر میں تمام لوگ محبت سے رام کہ کر ہی پکارتے تھے۔ رام پرساد کی پیدائش سے قبل ان کی ماں ایک بیٹے کو کھو چکی تھیں لہذا جادو ٹونے کا سہارا بھی لیا گیا۔ ایک خرگوش لایا گیا اور نوزائیدہ بچے کے اوپر سے اتار کر آنگن میں چھوڑ دیا گیا۔ خرگوش نے آنگن کے دو چار چکر لگائے اور فورًا مر گیا۔ یہ واقعہ عجیب ضرور لگتا ہے لیکن حقیقی واقعہ ہے اور تحقیق کا موضوع ہے۔ اس کا ذکر رام پرساد بسمل نے خود اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مرلیدھر کے کل 9 اولادیں ہوئیں جن میں پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ رام پرساد ان کی دوسری اولاد تھے۔ آگے چل کر دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کا بھی انتقال ہو گیا۔[7]

عالم طفلی ہی سے رام پرساد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ جہاں کہیں وہ غلط حروف لکھتا، اس کی خوب پٹائی کی جاتی لیکن اس میں شوخی اور شرارت بھی کم نہ تھی۔ موقع پاتے ہی پاس کے باغ میں گھس کر پھل وغیرہ توڑ لاتا تھا۔ شکایت آنے پر اس کی پٹائی بھی ہوا کرتی لیکن وہ شیطانی سے باز نہیں آتا تھا۔ اس کا دل کھیلنے میں زیادہ لیکن پڑھنے میں کم لگتا تھا۔ اس کی وجہ سے اس کے والد تو اس کی خوب پٹائی لگاتے لیکن ماں ہمیشہ اسے پیار سے یہی سمجھاتی کہ بیٹا رام ! یہ بہت بری بات ہے مت کرو۔ اس محبت بھری سیکھ کا اس کے دل پر کہیں نہ کہیں اثر ضرور پڑا۔ اس کے والد نے پہلے ہندی حروف شناسی کرائی لیکن ہندی حرف उ (اُ) سے الو نہ تو اس نے پڑھنا سیکھا اور نہ ہی لکھ کر دکھایا۔ ان دنوں ہندی کے حروف تہجی میں " उ (اُ) سے الو " ہی پڑھایا جاتا تھا۔ اس بات کی وہ مخالفت کرتا تھا اور بدلے میں والد کی مار بھی کھاتا تھا، ہار کر اسے اردو کے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ شاید یہی فطرتی خصوصیات رام پرساد کو ایک انقلابی بنا پائیں۔ یعنی وہ اپنے خیالات میں پیدائش سے ہی بڑا پکا تھا۔

تقریبًا 14 سال کی عمر میں رام پرساد کو اپنے والد کے صندوقچے سے رقم چرانے کی لت پڑ گئی۔ چرائے گئے روپے سے اس نے ناول وغیرہ خرید کر پڑھنا شروع کر دیا اور سگریٹ پینے اور بھانگ چڑھانے کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔ مجموعی طور پر روپیے چوری کا سلسلہ چلتا رہا اور رام پرساد اب اردو کے عشق یہ ناولوں اور غزلوں کی کتابیں پڑھنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اتفاق سے ایک دن بھانگ کے نشے میں ہونے کی وجہ سے رام پرساد کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ خوب پٹائی ہوئی، ناول اور دیگر کتابیں پھاڑ ڈالی گئی لیکن روپیے چرانے کی عادت نہیں چھوٹی۔ آگے چل کر جب ان کو تھوڑی سمجھ میں آئی تبھی وہ اس لت سے آزاد ہو سکے۔[7]

رام پرساد نے اردو مِڈِل کے امتحان میں پاس نہ ہونے پر انگریزی پڑھنا شروع کیا۔ ساتھ ہی پڑوس کے ایک پجاری نے رام پرساد کو پوجا کا طریقہ کار کا علم کروا دیا۔ پجاری ایک سلجھی ہوئی علمی شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی شخصیت کا اثر رام پرساد کی زندگی پر بھی پڑا۔ پجاری کی تعلیمات کی وجہ سے رام پرساد پوجا کے ساتھ تجرد پر عمل کرنے لگا۔ پجاری کی دیکھا دیکھی رام پرساد نے ورزش کرنا بھی شروع کر دیا۔ سن بلوغ کی جتنی بھی بری عادات ذہن میں تھیں وہ بھی چھوٹ گئی۔ صرف سگریٹ پینے کی لت نہیں چھوٹی۔ لیکن وہ بھی کچھ دنوں بعد اسکول کے ایک ہم درس سشیل چندر سین کی مصاحبت سے چھوٹ گئی۔ سگریٹ چھوٹنے کے بعد رام پرساد کا من پڑھائی میں لگنے لگا۔ بہت جلد ہی وہ انگریزی کے پانچویں درجے میں آ گیا۔[7]

رام پرساد میں غیر متوقع تبدیلی ہو چکی تھی۔ جسم خوبصورت اور طاقتور ہو گیا تھا۔ وہ باقاعدہ پوجا میں وقت گزارنے لگا تھا۔ اسی دوران مندر میں آنے والے نمائندے اندرجیت سے اس کا رابطہ ہوا۔ منشی اندرجیت نے رام پرساد کو آریہ سماج کے بارے میں بتایا اور سوامی دیانند سرسوتی کی لکھی کتاب ستیارتھ پرکاش پڑھنے کو دی۔ ستیارتھ پرکاش کے سنجیدہ مطالعے سے رام پرساد کی زندگی پر حیرت انگیز اثر پڑا۔[7]

سوامی سوم دیو سے ملاقات[ترمیم]

جب رام پرساد گورنمنٹ اسکول شاہجہاں پور میں نویں جماعت کے طالب علم تھے، تبھی اتفاق سے سوامی سوم دیو کی آریہ سماج بھون میں آمد ہوئی۔ منشی اندرجیت نے رام پرساد کو سوامی جی کی خدمت میں مقرر کر دیا۔ یہیں سے ان کی زندگی کے حال اور سمت دونوں میں تبدیلی شروع ہوئی۔ ایک طرف ستیارتھ پرکاش کا سنجیدہ مطالعہ اور دوسری طرف سوامی سوم دیو کے ساتھ سیاسی موضوعات پر کھلی بحث سے ان کے ذہن میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوا۔ 1916ء کے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں صدراستقبالیہ پنڈت جگت نارائن ' ملا ' کے حکم کی دھجیاں بكھیرتے ہوئے رام پرساد نے جب برسرعام بال گنگادھر تلک کا، پورے لکھنؤ شہر میں پروقارجلوس نکالا تو سبھی نوجوانوں کی توجہ ان کے عزم وحوصلہ پر مرکوز ہوئی۔ اجلاس کے دوران ان کا تعارف کیشو چکرورتی، سوم دیو شرما اور مكندی لال وغیرہ سے ہوا۔ بعد میں ان ہی سوم دیو شرما نے کسی سدھ گوپال شکل کے ساتھ مل کر شہری ادبی مطبع، کانپور سے ایک کتاب بھی شائع کی جس کا عنوان رکھا گیا تھا امریکا کی آزادی کی تاریخ۔ یہ کتاب بابو گنیش پرساد کے زیراہتمام کرمی پریس، لکھنؤ میں 1916ء میں شائع ہوئی تھی۔ رام پرساد نے یہ کتاب اپنی ماتاجی سے دو الگ وقتوں میں دو دو سو روپے لے کر شائع کی تھی۔ اس کا ذکر انھوں نے اپنی سوانح عمری میں کیا ہے۔ یہ کتاب شائع ہوتے ہی ضبط کر لی گئی تھی بعد میں جب كاكوری سازش کا مقدمہ چلا تو ثبوت کے طور پر یہی کتاب پیش کی گئی تھی۔ اب یہ کتاب تبدیلی کرکے سرفروشی کی تمنا نامی مجموعہ کتب کے حصہ سوم میں مرتب کی جا چکی ہے اور تین مورتی بھون کتب خانہ، نئی دہلی سمیت کئی دیگر کتب خانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

مین پوری سازش[ترمیم]

1915ء میں بھائی پرمانند کی پھانسی کی خبر سن کر رام پرساد برطانوی سلطنت کو ہندوستان باہر کرنے کا عہد کر چکے تھے۔ 1916ء میں ایک کتاب شائع ہو كر آ چکی تھی، کچھ نوجوان ان سے جڑ چکے تھے۔ سوامی سوم دیو کا آشیرباد بھی انھیں حاصل ہو چکا تھا۔ اب تلاش تھی تو ایک تنظیم کی جو انھوں نے پنڈت گیندالال دیکشت کی رہنمائی میں ماتروویدی کے نام سے خود ہی بنا لی تھی۔ اس تنظیم کی طرف سے ایک اشتہار اور ایک عہد بھی شائع کیا گیا۔ تنظیم کے لیے فنڈز جمع کرنے کے مقصد سے رام پرساد نے، جو اب تک بسمل کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، جون 1918ء میں دو اور ستمبر 1918ء میں ایک - مجموعی طور پر تین ڈکیتیاں بھی کر ڈالی، جس سے پولیس ہوشیار ہو کر ان نوجوانوں کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے ڈال رہی تھی۔ 26 سے 31 دسمبر 1918ء تک دہلی میں لال قلعہ کے سامنے ہوئے کانگریس اجلاس میں اس تنظیم کے نوجوانوں نے چلا چلا کر جیسے ہی کتابیں فروخت کرنا شروع کیا کہ پولیس نے چھاپہ مار ڈالا تھا، لیکن بسمل کی سوجھ بوجھ سے تمام کتابیں بچ گئیں۔

پنڈت گیندالال دیکشت کی پیدائش جمنا کنارے واقع مئی گاؤں میں ہوئی تھی۔ اٹاوہ ضلع کے ایک مشہور قصبے اوریا کے ڈی اے وی اسکول میں استاد تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ سوار ہوا تو شیواجی کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم بنا لی اور ہتھیار جمع کرنے شروع کر دیے۔ آگرہ میں ہتھیار لاتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ قلعہ میں قید تھے وہاں سے پولیس کو چکما دے کر رفوچكر ہو گئے۔ بسمل کی ماتروویدی ادارے کا الحاق شیواجی کمیٹی میں کرنے کے بعد دونوں نے مل کر کئی کام انجام دیے۔ پنڈت صاحب ایک بار دوبارہ بھی پکڑے گئے تھے۔ فرار ہوئے تو پولیس پیچھے پڑی تھی، بھاگ کر دہلی چلے گئے وہیں آپ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ بسمل نے اپنی آپ بیتی میں پنڈت گیندا لال کا بڑے ہی دل کو چھولینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔

مین پوری سازش میں شاہجہاں پور سے 6 نوجوان شامل ہوئے تھے جن کے لیڈر رام پرساد بسمل تھے لیکن وہ پولیس کے ہاتھ نہیں آئے، فوری طور پر فرار ہو گئے۔ 1 نومبر 1919ء کو مجسٹریٹ بی ایس کرس نے مین پوری سازش کا فیصلہ سنا دیا۔ جن جن کو سزائیں ہوئیں ان میں مكندیلال کے علاوہ تمام کو فروری 1920ء میں عام معافی کے اعلان پر چھوڑ دیا گیا۔ بسمل پورے 2 سال روپوش رہے۔ ان کی پارٹی کے ہی کچھ ساتھیوں نے شاہجہاں پور میں جا کر یہ افواہ پھیلا دی کہ بھائی رام پرساد تو پولیس کی گولی سے ہلاک ہوئے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ پولیس تصادم کے دوران جمنا میں چھلانگ لگا کر پانی کے اندر ہی یوگا کی طاقت سے تیرتے ہوئے کافی دور آگے جا کر دریا سے باہر نکلے اور جہاں آج کل گریٹر نوئیڈا آباد ہو چکا ہے وہاں کے غیر آباد علاقوں میں چلے گئے۔ وہاں ان دنوں صرف ببول کے ہی پیڑ ہوا کرتے تھے۔ چونکہ یہ ایک بنجر زمین تھی، اس لیے آدمی تو کہیں دور دور تک نظر ہی نہ آتا تھا۔

روپوشی اور ادبی تخلیق[ترمیم]

رام پرساد بسمل نے یہاں کے ایک چھوٹے سے گاؤں رام پور جاگیر ( رامپور جہانگیر ) میں پناہ لی اور کئی ماہ یہاں کے اجاڑ جنگلوں میں گھومتے ہوئے گاؤں کے گوجروں کی گائے بھینس چرائی۔ اس کا بڑا دلچسپ بیان انھوں نے اپنی آپ بیتی کے دوسرے باب میں کیا ہے۔ یہیں رہ کر انھوں نے اپنا انقلابی ناول بولشیویكوں کے کرتوت لکھا۔ عملی طور پر یہ ناول اصل میں بنگالی زبان میں چھپی کتاب نهلسٹ رہسیہ کا ہندی ترجمہ ہے جس کی زبان اور انداز دونوں ہی بڑے دلچسپ ہیں۔ اروند گھوش کی ایک انتہائی بہترین بنگالی کتاب یوگیک سادھن کا ہندی ترجمہ بھی انھوں نے زیر زمین رہتے ہوئے ہی کیا تھا۔ جمنا کنارے کی كھادر زمین ان دنوں پولیس سے بچنے کے لیے محفوظ سمجھی جاتی تھی اس لیے بسمل نے اس غیر مخاطرہ مقام کا بھرپور استعمال کیا۔ موجودہ وقت میں یہ گاؤں چونکہ گریٹر نوئیڈا کے بیٹا ون سیکٹر کے تحت آتا ہے اس لیے ریاستی حکومت نے رام پور جاگیر گاؤں کے علاقے میں آنے والی محکمہ جنگلات کی محفوظ زمین پر ان کی یاد میں امر شہید پنڈت رام پرساد بسمل باغ تیار کر دیا ہے جس کی نگرانی گریٹر نوئیڈا انتظامیہ کا ریاستی محکمہ جنگلات کرتا ہے۔[10]

بسمل کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ کسی بھی مقام پر زیادہ دنوں تک ٹھہرتے نہ تھے۔ کچھ دن رام پور جاگیر میں رہ کر اپنی سگی بہن شاستری دیوی کے گاؤں كوسما ضلع مین پوری میں بھی رہے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کی اپنی بہن تک ان کو پہچان نہ پائی۔ كوسما سے چل کر باه پہنچے۔ کچھ دن باه رہے پھر وہاں سے پنهٹ، آگرہ ہوتے ہوئے گوالیار ریاست میں واقع اپنے دادا کے گاؤں بربائی ( ضلع مورینا، مدھیہ پردیش ) چلے گئے۔ انھوں نے وہاں کسان کے بھیس میں رہ کر کچھ دنوں ہل بھی چلایا۔ جیساکہ اوپر مذکور ہے کہ ان کی بہن تک پہچان نہ پائی، اس طرح پولیس تو بالکل بھی نہیں پہچان پائی۔ نقل مقام کے دوران، انھوں نے 1918ء میں شائع انگریزی کتاب دی گرینڈمدر آف رشین روولیوشن کا ہندی ترجمہ کیا۔ ان کے تمام ساتھیوں کو یہ کتاب بہت پسند آئی۔ اس کتاب کا نام انھوں نے كیتھے ران رکھا تھا۔ اتنا ہی نہیں، بسمل نے سشیل مالا سیریز سے کچھ کتابیں بھی شائع کیں تھیں جن میں دماغ کی لہر نامی نظموں کا مجموعہ، کیتھے رائن یا آزادی کی دیوی، برشكووسكی کی مختصر سوانح عمری اور دیسی رنگ اور ان کے علاوہ بولشیویكیوں کے کرتوت نامی ناول شامل تھے۔ دیسی رنگ کے علاوہ دیگر تینوں کتابیں عام قارئین کے لیے آج دور میں بھی کتب خانوں میں دستیاب ہیں۔

چوری چورا واقعہ[ترمیم]

تحریک خلافت کے عروج میں چوری چورا، اترپردیش میں گورکھپور کے قریب ایک قصبہ ہے جہاں 4 فروری، 1922ء کو ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت کی ایک پولیس چوکی کو آگ لگا دی تھی جس سے اس میں چھپے ہوئے 22 پولیس ملازم زندہ جل کے مر گئے تھے۔ اس واقعہ کو 'چوری چورا سانحہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس واقعہ کے فوراً بعد گاندھی نے عدم تعاون تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ بہت سے لوگوں کو گاندھی کا یہ فیصلہ مناسب نہیں لگا۔ بالخصوص انقلابیوں نے اس کی براہ راست یا بالواسطہ مخالفت کی۔ گایا کانگریس میں رام پرساد بسمل اور ان نوجوان ساتھیوں نے گاندھی کی مخالفت کی۔ کانگریس میں كھنہ اور ان کے ساتھیوں نے رام پرساد بسمل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاكر گاندھی مخالف ایسا احتجاج کیا کہ کانگریس میں دو گروپ بن گئے - ایک اعتدال پسند یا لبرل اور دوسرا باغی یا انقلابی۔ گاندھی باغی نظریے کے حامیوں کو کانگریس کے عام جلسوں میں احتجاج کرنے کی وجہ سے ہمیشہ ہلڑباز کہا کرتے تھے۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔ گاندھی کے اس کام سے تحریک خلافت کو نقصان پہنچا اور اتنی بڑی تحریک دم توڑ گئی ہندو مسلم اتحاد و اعتماد پارہ پارہ ہو گیا۔

ایچ آر اے کی تشکیل[ترمیم]

جنوری 1923ء میں موتی لال نہرو اور دیش بندھو چترجن داس جیسے دولت مند لوگوں نے مل کر سوراج پارٹی بنا لی۔ نوجوانوں نے ایڈہاک پارٹی کے طور پر ریولیوشنری پارٹی کا اعلان کر دیا۔ ستمبر 1923ء میں ہوئے دہلی کے خصوصی کانگریس اجلاس میں اسنتشٹ نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی پارٹی کا نام و آئین وغیرہ کا یقین کرکے سیاست میں دخل ہونا شروع کریں گے۔ دوسری جانب میں ملک میں جمہوریت کے نام پر غاصبیت حاوی ہو نے کا اندیشہ تھا۔ دیکھا جائے تو اس وقت ان کی یہ بڑی بصیرت افروز سوچ تھی۔ مشہور انقلابی لالہ ہردیال، جو ان دنوں بیرون ملک رہ کر ہندوستان کو آزاد کرانے کی حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے تھے، رام پرساد بسمل کے رابطہ میں سوامی سوم دیو کے وقت سے ہی تھے۔ لالہ جی نے ہی خط لکھ کر رام پرساد بسمل کو شچیدرناتھ سانیال اور ید گوپال مکھرجی سے مل کر نئی پارٹی کا آئین تیار کرنے کی صلاح دی تھی۔ لالہ جی کا مشورہ مان کر رام پرساد الہ آباد گئے اور شچیدرناتھ سانیال کے گھر پر پارٹی کا آئین تیار کیا۔[11]

نوتشکیل شدہ پارٹی کا نام مختصر میں ایچ آر اے رکھا گیا اور اس کا آئین پیلے رنگ کے پرچے پر ٹائپ کرکے ارکان کو بھیجا گیا۔ 3 اکتوبر 1924ء کو اس پارٹی (ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن) کی ایک مجلس عاملہ کا اجلاس کانپور میں ہوا جس میں شچیندرناتھ سانیال، یوگیش چندر چٹرجی اور رام پرساد بسمل وغیرہ کئی اہم رکن شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں پارٹی کی قیادت بسمل کو سونپ كر سانیال اور چٹرجی بنگال چلے گئے۔ پارٹی کے لیے چندہ جمع کرنے میں مشکل کو دیکھتے ہوئے آئرلینڈ کے انقلابیوں کا طریقہ اپنایا گیا تھا اور پارٹی کی طرف سے پہلی ڈکیتی 25 دسمبر 1924ء (کرسمس کی رات ) کو بمرولی میں ڈالی گئی جس کی قیادت بسمل نے کی تھی۔ اس کا ذکر چیف کورٹ آف اودھ کے فیصلے میں ملتا ہے۔[12]

دی ریوولیوشنری " (اعلامیہ) کی اشاعت[ترمیم]

انقلابی پارٹی کی طرف سے 1 جنوری، 1925ء کو کسی گمنام جگہ سے شائع اور 28 سے 31 جنوری، 1925ء کے درمیان پورے ہندوستان کے تمام اہم مقامات پر تقسیم 4 صفحہ کے پمفلٹ " دی ریوولیوشنری " میں رام پرساد بسمل نے وجے کمار کے تخلص سے اپنے دل کی خیالات کا تحریری طور پر اظہار کرتے ہوئے صاف الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ انقلابی اس ملک کے نظام حکومت میں کس طرح کی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کیا کیا کر سکتے ہیں؟ صرف اتنا ہی نہیں، انھوں نے موہن داس گاندھی کی پالیسیوں کا مذاق بناتے ہوئے یہ سوال بھی کیا تھا کہ جو شخص خود کو روحانی کہتا ہے وہ انگریزوں سے کھل کر بات کرنے میں ڈرتا کیوں ہے؟ انھوں نے ہندوستان کے تمام نوجوانوں کو ایسے فرضی مہاتما کے بہکاوے میں نہ آنے کا مشورہ دیتے ہوئے ان کی انقلابی پارٹی میں شامل ہو کر انگریزوں سے ٹکر لینے کا کھلا مطالبہ کیا تھا۔ دی ریوولیوشنری کے نام سے انگریزی میں شائع اس انقلابی ( منشور ) میں انقلابیوں کے نظریاتی تفکر [13] کو بہ حسن طرز سمجھا جا سکتا ہے۔ اس خط کا عکس ہندی كاویانواد میں [14] اب دستیاب ہے۔

كاكوری سانحہ[ترمیم]

دی روولیوشنری نام سے شائع اس 4 صفحاتی منشور کو دیکھتے ہی برطانوی حکومت اس کے مصنف کو بنگال میں تلاش کرنے لگی۔ اتفاق سے شچیندر ناتھ سانیال باكرا میں اس وقت گرفتار کر لیے گئے جب وہ یہ پمفلٹ اپنے کسی ساتھی کو پوسٹ کرنے جا رہے تھے۔ اسی طرح یوگیش چندر چٹرجی کانپور سے پارٹی کی میٹنگ کرکے جیسے ہی ہاوڑہ اسٹیشن پر ٹرین سے اترے کہ ایچ آر اے کے آئین کی ڈھیر ساری نقول کے ساتھ پکڑ لیے گئے۔ انھیں ہزاری باغ جیل میں بند کر دیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کے گرفتار ہو جانے سے رام پرساد بسمل کے کندھوں پر اترپردیش کے ساتھ ساتھ بنگال کے انقلابی ارکان کی ذمہ داری بھی آ گئی۔ بسمل کا مزاج تھا کہ وہ یا تو کسی کام کو ہاتھ میں لیتے نہ تھے اور اگر ایک بار کام ہاتھ میں لے لیا تو اسے مکمل کیے بغیر چھوڑتے نہ تھے۔ پارٹی کے کام کے لیے رقم کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن اب تو اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کہیں سے بھی پیسہ حاصل ہوتا نہ دیکھ انھوں نے 7 مارچ 1925ء کو بچپری اور 24 مئی 1925ء کو دواركاپور میں دو سیاسی ڈكیتیاں کیں۔ لیکن ان میں کچھ خاص دولت کو حاصل نہ ہو سکی۔

ان دونوں ڈکیتیوں میں ایک ایک شخص موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اس سے بسمل کو بے انتہا تکلیف ہوئی۔ آخر کار انھوں نے یہ پکا فیصلہ کر لیا کہ وہ اب صرف سرکاری خزانہ ہی لوٹیں گے، ہندوستان کے کسی بھی رئیس کے گھر چوری بالکل نہ ڈالیں گے۔

شاہجہاں پور میں ان کے گھر پر ہوئی ایک ایمرجنسی میٹنگ میں فیصلہ لے کر منصوبہ بنا اور 9 اگست 1925ء کو شاہجہاں پور ریلوے اسٹیشن سے بسمل کی قیادت میں کل 10 لوگ، جن میں اشفاق اللہ خان، راجندر لہری، چندر شیکھر آزاد، شچیندرناتھ بخشی، منمتھ ناتھ گپت، مكندی لال، کیشو چکرورتی (فرضٰی نام یا تخلص)، مراری شرما ( اصلی نام مراری گپت ) اور بنواری لال شامل تھے، 8 ڈاؤن سہارنپور - لکھنؤ پسینجر ٹرین میں سوار ہوئے۔ ان سب کے پاس عام پستولوں کے علاوہ جرمنی کے بنے چار موزر پستول بھی تھے جن کے بٹ میں كندا لگا لینے سے وہ چھوٹی آٹومیٹك رائفل کی طرح لگتا تھا اور سامنے والے کے دل میں مزید خوف پیدا کر دیتا تھا۔ ان کے ٹریگروں کی صلاحیت [15] بھی عام پستولوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ ان دنوں یہ ٹریگر آج کی اے کے - 47 رائفل کی طرح مشہور تھے۔ لکھنؤ سے پہلے كاكوری ریلوے اسٹیشن پر رک کر جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی، انقلابیوں نے چین کھینچ کر اسے روک لیا اور گارڈ کے ڈبے سے سرکاری خزانے کا بکس نیچے گرا دیا۔ اسے کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ نہیں کھلا تو اشفاق اللہ خاں نے اپنا پستول منمتھ ناتھ کو پکڑا دیا اور ہتھوڑا لے کر تالا توڑنے میں مصروف ہو گئے۔ منمتھ ناتھ گپت نے غلطی سے ٹریگر دبا دیا جس سے گولی چلی اور احمد علی نام کے مسافر کو لگ گئی اور وہ موقع پر ہی انتقال کر گیا۔ چاندی کے سکوں اور نوٹوں سے بھرے چمڑے کے تھیلے شیٹ میں باندھ کر وہاں سے فرار یہ لوگوں کی جلدی میں ان کی ایک چادر وہیں چھوٹ گئی۔ اگلے دن اخبارات کے ذریعے اس ڈکیتی کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ برطانوی حکومت نے اس ٹرین ڈکیتی کو سنجیدگی سے لیا اور ڈی آئی جی۔ کے اسسٹنٹ ( سی آئی ڈی انسپکٹر ) آر اے ہارٹن [16] کی قیادت میں سب سے تیز طرار پولیس اہلکاروں کو اس کی جانچ کا کام سونپ دیا۔

گرفتاری اور مقدمہ[ترمیم]

سی آئی ڈی نے بہ تعمق چھان بین کرکے حکومت کو اس بات کی تصدیق کی کہ كاكوری ٹرین ڈکیتی انقلابیوں کی ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ پولیس نے كاكوری سانحہ کے بارے میں معلومات دینے اور سازش میں شامل کسی بھی شخص کو گرفتار کروانے کے لیے انعام کا اعلان کرکے اشتہار تمام اہم مقامات پر لگا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کو جائے واردات پر ملی چادر میں لگے دھوبی کے نشان سے اس بات کا پتہ چل گیا کہ چادر شاہجہاں پور کے ہی کسی شخص کی ہے۔ شاہجہاں پور کے دھوبیوں سے تفتیش پر معلوم ہوا کہ چادر بنارسی لال کی ہے۔ بنارسی لال سے مل کر پولیس نے سارا ماجرا حاصل کر لیا۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ 9 اگست 1925ء کو شاہجہاں پور سے اس کی پارٹی کے کون کون لوگ شہر سے باہر گئے تھے اور وہ کب کب واپس آئے؟ جب خفیہ طور سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رام پرساد بسمل، جو ایچ آر اے کا لیڈر تھا، اس دن شہر میں نہیں تھا تو 26 ستمبر 1925ء کی رات میں بسمل کے ساتھ پورے ہندوستان سے 40 سے بھی زیادہ [17] لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

كاكوری سانحہ میں صرف 10 ہی لوگ حقیقی طور پر شامل تھے اس لیے ان تمام کو نامزد کیا گیا۔ ان میں سے پانچ، چندر شیکھر آزاد، مراری شرما [18] (فرضی نام )، کیشو چکرورتی ( فرضی نام )، اشفاق اللہ خان اور شچیندر ناتھ بخشی کو چھوڑ کر، جو پولیس کے ہاتھ نہیں آئے، باقی تمام افراد پر مقدمہ چلا اور انھیں 5 سال کی قید سے لے کر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ فرار ملزمین کے علاوہ جن جن انقلابیوں کو ایچ آر اے کا سرگرم کارکن ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے 16 کو ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔ اسپیشل مجسٹریٹ عین الدین نے ہر انقلابی کی کافی پوچھ تاچھ کی۔ صرف اتنا ہی نہیں، کیس کو سیشن کورٹ میں بھیجنے سے پہلے ہی اس بات کے تمام گواہ اور ثبوت جمع کر لیے تھے کہ اگر اپیل بھی کی جائے تو ایک بھی ملزم بغیر سزا کے چھوٹنے نہ پائے۔

بنارسی لال کو حوالات میں ہی پولیس نے سخت سزا کا خوف دکھا کر اپنا ہمنوا بنالیا۔ شاہجہاں پور ضلع کانگریس کمیٹی میں پارٹی فنڈ کو لے کر اسی بنارسی کا بسمل سے جھگڑا ہو چکا تھا۔ بسمل نے، جو اس وقت ضلع کانگریس کمیٹی کے آڈیٹر تھے، بنارسی پر پارٹی فنڈ میں خردبرد کا الزام ثابت کرتے ہوئے اسے کانگریس پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے معطل کر دیا تھا۔ بعد میں جب موہن داس گاندھی 16 اکتوبر 1920ء ( ہفتہ ) کو شاہجہاں پور آئے تو بنارسی نے ان سے مل کر اپنا موقف ركھا۔ گاندھی جی نے اس وقت یہ کہ کر کہ چھوٹی موٹی ہیرا پھیری کو اتنا طول نہیں دینا چاہیے، ان دونوں میں صلح کرا دی۔ لیکن بنارسی بڑا ہی کدورت والا آدمی تھا۔ اس نے پہلے تو بسمل سے معافی مانگ لی پھر گاندھی جی کو الگ لے جا کر ان کے کان بھر دیے کہ رام پرساد بڑا ہی مجرم قسم کا شخص ہے۔ وہ اس کی کسی بات کا نہ تو خود یقین کریں نہ ہی کسی اور کو کرنے دیں۔

آگے چل کر اسی بنارسی لال نے بسمل سے دوستی کر لی اور میٹھی میٹھی باتوں سے پہلے ان کا اعتماد حاصل کیا اور اس کے بعد ان کے ساتھ کپڑے کے کاروبار میں حصہ دار بن گیا۔ جب بسمل نے موہن داس گاندھی کی تنقید کرتے ہوئے اپنی الگ پارٹی بنا لی تو بنارسی لال انتہائی خوش ہوا اور موقع کی تلاش میں چپ سادھے بیٹھا رہا۔ پولیس نے مقامی لوگوں سے بسمل اور بنارسی کے گذشتہ جھگڑے کا قضیہ جان کر ہی بنارسی لال کو اپروور ( سرکاری گواہ ) بنایا اور بسمل کے خلاف پورے مقدمہ میں ایک معصوم اوزار کی طرح استعمال کیا۔ بنارسی لال کاروبار میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے پارٹی سے متعلق ایسی ایسی خفیہ باتیں جانتا تھا، جنہیں بسمل کے علاوہ اور کوئی نہ جان سکتا تھا۔ اس کا ذکر رام پرساد بسمل نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

لکھنؤ جیل [19] میں تمام انقلابیوں کو ایک ساتھ ركھا گیا اور ہجرت گنج چوراہے کے پاس رنگ تھیٹر نام کی ایک عالی شان عمارت میں عارضی عدالت کا انعقاد کیا گیا۔ رنگ تھیٹر نام کی یہ بلڈنگ کوٹھی حیات بخش اور ملکہ عہد سلطنت کے درمیان ہوا کرتی تھی جس میں برطانوی افسر آ کر فلم اور ڈراما وغیرہ دیکھ کر تفریح کیا کرتے تھے۔ اسی رنگ تھیٹر میں مسلسل 18 ماہ تک کنگ امپرر ورسیس رام پرساد بسمل اینڈ ادرس (King Emperor v. Ram Prasad Bismil) کے نام سے چلائے گئے تاریخی مقدمے کا ڈراما کرنے میں برطانوی حکومت نے 10 لاکھ روپے [17] اس وقت خرچ کیے تھے جب سونے کی قیمت 20 روپیے تولہ ( 12 گرام ) ہوا کرتا تھا۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ برطانوی حکمرانوں کے حکم سے یہ عمارت بھی بعد میں منہدم کر دی گئی اور اس کی جگہ سن 1929ء-1932ء میں جی پی او (جنرل پوسٹ آفس ) لکھنؤ [20] کے نام سے ایک دوسری شاندار عمارت برطانوی حکومت کی جانب سے کھڑی کر دی گئی۔ مگر جب 1947ء میں جب بھارت آزاد ہو گیا تو یہاں گاندھی کی شاندار مورتی نصب کی گئی۔ جب مرکز میں غیر كانگریسی جنتا پارٹی حکومت پہلی بار تشکیل ہوئی تو اس وقت کے زندہ انقلابیوں کی اجتماعی کوششوں سے 1977ء میں منعقد كاكوری شہید نصف صدی تقریب کے وقت یہاں پر كاكوری کالمز کا سورج اتر پردیش کے گورنر گنپتی راؤ دیوراؤ تپاسے نے نصب کیا تاکہ اس مقام کی یاد قائم رہے۔

اس تاریخی مقدمے میں سرکاری خرچ سے ہركرن ناتھ مشرا کو انقلابیوں کا وکیل مقرر کیا گیا جبکہ جواہر لال نہرو کے رشتے میں سالے لگنے والے مشہور وکیل کے جگت نارائن ' ملا ' کو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سرکاری وکیل بنایا گیا۔ جگت نارائن نے اپنی طرف سے تمام انقلابیوں کو سخت سے سخت سزا دلوانے میں کوئی کسر باقی نہ ركھی۔ یہ وہی جگت نارائن تھے جن کی مرضی کے خلاف 1916ء میں بسمل نے مقبول عام رہنما بال گنگادھر تلک کا شاندار اور پر وقار جلوس پورے لکھنؤ شہر میں نکالا تھا۔ اسی بات سے چڑ کر مین پوری سازش میں بھی انہی ملاجی نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے زور تو کافی لگایا لیکن وہ رام پرساد بسمل کا ایک بھی بال بانكا نہ کر پائے تھے، کیونکہ مین پوری سازش میں بسمل فرار ہو گئے تھے اور دو سال تک پولیس کے ہاتھ ہی نہ آئے۔

مقدمے کی کارروائی کا ایک غیر ارادی پہلو[ترمیم]

غیر منقسم ہندوستان میں کچھ دائیں بازو کی تنظیمیں کانگریس کی پالیسیوں کی مخالف تھیں کہ تحریک خلافت اور بعض معاملوں میں وہ مسلمانوں کے مفادات کو ہندوؤں کے مقابلے ترجیح دے رہی ہے۔ ایسے میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا کہ رام پرساد بسمل مقدمے کی تیاری میں مسلمان پولیس افسروں کا نمایاں رول رہا جنھوں نے مقدمے کی تیاری اور پھانسی یا سخت ترین سزا کی بھرپور کوشش کی۔[21] تاہم پروپگنڈا پھیلانے والے یہ لوگ اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ بسمل کے ایک قریب ترین ساتھی جنھوں نے بھی تختہ دار سے جان گنوائی تھی ایک مسلمان تھے اور ان کا نام اشفاق اللہ خان تھا۔[22]

پھانسی کی سزا اور اپیل[ترمیم]

6 اپریل 1927ء کو خصوصی سیشن جج اے ہیملٹن نے 115 صفحات کے فیصلے میں ہراس انقلابی پر لگائے گئے الزامات پر غور کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کوئی عام ٹرین ڈکیتی نہیں، بلکہ برطانوی سلطنت کو اکھاڑ پھینکنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی ملزم اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس منصوبے میں شامل نہیں ہوا لیکن چونکہ کسی نے بھی نہ تو اپنے کیے پر کوئی توبہ کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس طرح کی سرگرمیوں سے خود کو الگ رکھنے کا وعدہ دیا ہے، لہذا جو بھی سزا دی گئی ہے سوچ سمجھ کر دی گئی ہے اور اس حالت میں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ پھر بھی، ان میں سے کوئی بھی ملزم اگر تحریری میں توبہ ظاہر کرتا ہے اور مستقبل میں ایسا نہ کرنے کا وعدہ دیتا ہے تو ان کی اپیل پر ایڈیشنل کورٹ غور کر سکتی ہے۔

فرار انقلابیوں میں اشفاق اللہ خان اور شچیندر ناتھ بخشی کو بہت بعد میں پولیس گرفتار کر پائی۔ اسپیشل جج جے آر ڈبلیو بینٹ کی عدالت میں كاكوری سازش کا سپلیمنٹری کیس دائر کیا گیا اور 13 جولائی 1927ء کو یہی بات دہراتے ہوئے اشفاق اللہ خان کو پھانسی اور شچیندرناتھ بخشی کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ سیشن جج کے فیصلے کے خلاف 18 جولائی 1927ء کو اودھ چیف کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ چیف کورٹ کے چیف جسٹس سر لوئیس شرٹس اور خصوصی جج محمد رضا کے سامنے دونوں معاملے پیش ہوئے۔ جگت نارائن ' ملا ' کو سرکاری موقف رکھنے کا کام سونپا گیا جبکہ سزا یافتہ انقلابیوں کی طرف سے کے سی دت، جےكرن ناتھ مشرا اور كرپا شنكر ہجیلا نے بالترتیب راجندر ناتھ لاہڑی، ٹھاکر روشن سنگھ اور اشفاق اللہ خان کی پیروی کی۔ رام پرساد بسمل نے اپنی پیروی خود کی کیونکہ سرکاری خرچ پر انھیں لكشمی شنكر مشرا نام کا ایک بڑا عام سا وکیل دیا گیا تھا جس کو لینے سے انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ بسمل نے چیف کورٹ کے سامنے جب رواں انگریزی میں فیصلے کے خلاف بحث کی تو سرکاری وکیل جگت ناراین ' ملا ' چونک گئے تھے۔ بسمل کی اس دلیلی صلاحیت پر چیف جسٹس لوئیس شرٹس کو ان سے یہ پوچھنا پڑا - مسٹر رام پرساد ! فرام ویچ یونیورسٹی ڈیڈ یو ٹیک دی ڈگری آف لا؟ ( رام پرساد ! تم نے کس یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی؟ ) اس پر انھوں نے ہنس کر کہا تھا - ایكسكیوز می سر! اے كنگ میكر ڈزنٹ ریكوائر اے ڈگری۔ ( معذرت چاہیے ! بادشاہ بنانے والے کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔) عدالت نے اس کے جواب میں سختی سے بسمل کی طرف سے 18 جولائی، 1927ء کو دی گئی خود وکالت کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد انھوں نے 76 صفحہ کی تحریری بحث پیش کی۔ اسے پڑھ کر ججوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ بحث بسمل نے خود نہ لکھ کر کسی پیشہ ور سے لكھوائی ہے۔ آخر کار عدالت کی طرف سے انھیں لكشمی شنكر مشرا کو بحث کرنے کی اجازت دی گئی جنہیں لینے سے بسمل نے منع کر دیا تھا۔

كاكوری سانحہ کا مقدمہ لکھنؤ میں چل رہا تھا۔ پنڈت جگت نارائن ملا سرکاری وکیل کے ساتھ اردو کے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے ملزمان کے لیے " ملازم " لفظ بول دیا۔ پھر کیا تھا، پنڈت رام پرساد بسمل نے جھٹ سے ان پر یہ چٹیلی پھبتی کسی:

ملازم ہم کو مت کہئے، بڑا افسوس ہوتا ہے
عدالت کے ادب سے ہم یہاں تشریف لائے ہیں
پلٹ دیتے ہیں ہم موج حوادث اپنی جرات سے
کہ ہم نے آندھیوں میں بھی چراغ اکثر جلائے ہیں۔

ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ ملازم وہ ( بسمل ) نہیں، بلکہ ملا ہیں جو حکومت سے تنخواہ پاتے ہیں۔ وہ ( بسمل وغیرہ ) تو سیاسی قیدی ہیں اس لیے ان کے ساتھ تمیز سے پیش آئیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ انتباہ بھی دے ڈالی کہ وہ سمندر کی لہروں تک کو اپنے حوصلہ سے پلٹنے کا دم رکھتے ہیں ؛ مقدمے کی بازی پلٹنا کون سی بڑی بات ہے؟ ملا نے اس دن کوئی جرح نہیں کی کیونکہ وہ اس حاضرجوابی کے لیے تیار نہیں تھے۔

چیف کورٹ میں شچیندر ناتھ سانیال، بھوپندر ناتھ سانیال اور بنواری لال کو چھوڑ کر باقی تمام انقلابیوں نے اپیل کی تھی۔ 22 اگست، 1927ء کو جو فیصلہ سنایا گیا اس کے مطابق رام پرساد بسمل، راجندر ناتھ لاہڑی اور اشفاق اللہ خان کو آئی پی سی کی دفعہ 121 ( اے ) اور 120 ( بی ) کے تحت عمر قید اور 302 اور 396 کے مطابق پھانسی اور ٹھاکر روشن سنگھ کو پہلی دو دفعہ میں 5 +5 = کل 10 سال کی سخت قید اور اگلی دو دفعہ کے مطابق پھانسی کا حکم ہوا۔ شچیندر ناتھ سانیال، جب جیل میں تھے تبھی تحریری طور پر اپنے کیے پر توبہ کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں کسی بھی انقلابی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا وعدہ دے چکے تھے۔ اس کی بنیاد پر ان کی عمر قید برقرار رہی۔ شچیندر کے چھوٹے بھائی بھوپندر ناتھ سانیال اور بنواری لال نے اپنا اپنا جرم قبول کرتے ہوئے عدالت کی کوئی بھی سزا بھگتنے کی رضامندی پہلے ہی دے رکھی تھی اس لیے انھوں نے اپیل نہیں کی اور دونوں کو 5-5 سال کی سزا کے حکم جوں کی توں رہی۔ چیف کورٹ میں اپیل کرنے کے باوجود یوگیش چندر چٹرجی، مكندی لال اور گووندچرن کار کی سزائیں 10-10 سال سے بڑھا کر عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ شچندر بھٹاچاریہ اور وشنوشرن دبلش کی سزائیں بھی جوں کی توں ( 7 – 7 سال) قائم رہیں۔ اپنی انفرادی خوشخطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپیل دینے کی وجہ صرف پرویش چٹرجی کی سزا کو 5 سال سے کم کرکے 4 سال کر دیا گیا۔ اس سانحہ میں سب سے کم سزا ( 3 سال) رام ناتھ پانڈے [23] کو ہوئی۔ منمتھ ناتھ گپت، جن کی گولی سے ایک مسافر ہلاک ہوا تھا، کی سزا 10 سے بڑھا کر 14 سال کر دی گئی۔[24] كاكوری سانحہ میں استعمال ماجر پستول کے کارتوس چونکہ پریم كرش کھنہ کے ہتھیار - لائسنس پر خریدے گئے تھے جس کے کافی ثبوت مل جانے کی وجہ سے پریم كرش کھنہ کو 5 سال کے سخت قید کی سزا بھگتنا پڑی۔

چیف کورٹ کا فیصلہ آتے ہی پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی۔ ٹھاکر منجیت سنگھ راٹھور نے مرکزی لیجسلیٹیوکاؤنسل میں كاكوری سانحہ کے تمام پھانسی ( سزائے موت) حاصل قیدیوں کی سزائیں کم کرکے عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرنے کی اطلاع دی۔ كونسل کے کئی ارکان نے سر ولیم مورس کو، جو اس وقت متحدہ علاقہ کے گورنر تھے، اس ارادے کی ایک عرضداشت بھی دی لیکن انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔ نئے مرکزی كونسل کے 78 ارکان نے اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل ایڈورڈ فریڈرک لڈلے ووڈ کو شملہ میں دستخط پر مشتمل میمورنڈم بھیجا جس پر خاص طور پر پنڈت مدن موہن مالویہ، محمد علی جناح، این سی كے لكر، لالہ لاجپت رائے، گووند ولبھ پنت، وغیرہ نے دستخط کیے تھے لیکن وائسرائے پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ آخر میں مدن موہن مالویہ کی قیادت میں پانچ افراد کا ایک نمائندہ منڈل شملہ جا کر وائسرائے سے ملا اور ان سے یہ درخواست کی کہ چونکہ ان چاروں ملزمان نے تحریری طور پر حکومت کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ مستقبل میں اس قسم کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہ لیں گے اور انھوں نے اپنے کیے پر توبہ کا اظہار کیا ہے لہذا ججمینٹ پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ چیف کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی یہ بات لکھی تھی۔ اس کے باوجود وائسرائے نے انھیں صاف انکار کر دیا۔

آخر کار بیرسٹر موہن لال سکسینہ نے شاہی كونسل میں درخواست معافی کے دستاویز تیار کر کے انگلینڈ کے مشہور وکیل ایس ایل پولک کے پاس بھجوائے لیکن لندن کے ججوں اور بادشاہ کے قانونی صلاح کاروں نے اس پر بڑی سخت دلیل دی کہ اس سازش کا محرک رام پرساد بسمل بڑا ہی خطرناک اور پیشہ ورانہ مجرم ہے۔ اگر اسے معاف کر دیا گیا تو وہ مستقبل میں اس سے بھی بڑا اور شدید سانحہ کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو ہندوستان میں حکومت کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاہی كونسل میں بھیجی گئی درخواست معافی کی اپیل بھی مسترد ہو گئی۔

پھانسی کی سزا کے لیے بسمل اور اس کی ماں کی آمادگی[ترمیم]

بسمل کی سزائے موت کی تعمیل سے ایک رات قبل ان کی ماں ان سے ملنے آئیں۔ بسمل آبدیدہ ہوئے جبکہ ان کی ماں اس پر سوال پوچھنے لگی: "ہو گیا انقلاب، ہو گئی کرانتی؟ کیوں کایروں (بُزدلوں) کی طرح آنسو بہا رہے ہو؟" اس پر بسمل گویا ہوئے: "تمھارا بیٹا کایر نہیں ہے۔ آنسو اس لیے ہے کہ نہ تمھاری جیسی ماں اور نہ تمھاری جیسی گود پھر ملے گی"۔ حالانکہ بسمل کی ماں کبھی بھی عملی سیاست کا حصہ نہیں رہی، تاہم بسمل کی سزائے موت کے بعد ایک تقریر میں اس نے اپنے دوسرے بیٹے کا ہاتھ اٹھاکر کہا کہ ملک کے لیے دینے کے لیے اس کے پاس ایک اور بیٹا بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس نے وضاحت کی کہ اس قربانی کے بدلے وہ کچھ نہیں چاہتی۔[25]

جیل میں سوانح نگاری اور اس کی روانگی[ترمیم]

سیشن کورٹ نے اپنے فیصلے میں پھانسی کی تاریخ 16 ستمبر، 1927ء متعین کی تھی جسے چیف کورٹ کے فیصلے پر آگے بڑھا کر 11 اکتوبر 1927ء کر دیا گیا۔ كاكوری سانحہ کے انقلابیوں کی مدد کے لیے گنیش شنكر ودیارتھی نے ایک ڈیفینس کمیٹی بنائی تھی جس میں شیو پرساد گپت، گووند ولبھ پنت اور شری پرکاش وغیرہ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے کلکتہ کے مشہور وکیل بی کے چودھری اور ایک اور ایڈووکیٹ موہن لال سکسینہ کو شاہی كونسل میں عرضی دائر کرنے کی ذمہ داری تفویض کی۔ گورکھپور کی جیل میں جب موہن لال سکسینہ بسمل سے ملنے گئے تو اپنے ساتھ بہت سے سادہ کاغذ، پینسل، ربڑ اور نیچے رکھنے کے لیے ایک فل اسکیاپ سائز کا کتابی رجسٹر بھی لے گئے تھے اور جیلر کی اجازت سے اس شرط کے ساتھ کہ ملزم ان سب کا استعمال اپنی اپیل لکھنے کے لیے ہی کرے گا، بسمل کو دے آئے تھے۔

بسمل نے اپیل تیار کرنے میں بہت کم کاغذ خرچ کیے اور باقی بچی اسٹیشنری کا استعمال اپنی سوانح عمری لکھنے میں کر ڈالا۔ یہ تھی ان کی سوجھ بوجھ اور محدود وسائل سے اپنا کام چلا لینے کی غیر معمولی قابلیت ! شاہی كونسل سے اپیل منسوخ ہونے کے بعد پھانسی کی نئی تاریخ 19 دسمبر، 1927ء کی نوٹس گورکھپور جیل میں بسمل کو دے دی گئی تھی لیکن وہ اس سے ذرا بھی متزلزل نہیں ہوئے اور بڑے بے فکر انداز سے اپنی آپ بیتی، جسے انھوں نے "نجی زندگی کا ایک چھٹا" نام دیا تھا، پوری کرنے میں دن رات ڈٹے رہے، ایک لمحے کو بھی نہ سستائے اور نہ سوئے۔ انھیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ برطانوی حکومت انھیں مکمل طور پر ختم کر کے ہی دم لے گی تبھی تو انھوں نے سوانح عمری میں ایک جگہ اردو کا یہ شعر لکھا تھا:

کیا ہی لذت ہے کہ رگ رگ سے یہ آتی ہے صدا دم نہ لے تلوار جب تک جان بسمل میں رہے

جب بسمل کو شاہی كونسل سے اپیل مسترد ہو جانے کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنی ایک غزل لکھ کر گورکھپور جیل سے باہر بھجوائی جس کا مطلع ( مکھڑا ) یہ تھا۔

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیادل کی بربادی کے بعد ان کا پیام آیا تو کیا

جیسا انھوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا بھی اور ان کی یہ تڑپ بھی تھی کہ کہیں سے کوئی انھیں ایک ریوالور جیل میں بھیج دیتا تو پھر ساری دنیا یہ دیکھتی کہ وہ کیا کیا کرتے؟ ان کی ساری حسرتیں ان کے ساتھ ہی مٹ گئیں۔ مرنے سے پہلے آپ بیتی کے طور پر وہ ایک ایسی وراثت ہمیں ضرور سونپ گئے جسے اپنا کرکے ہندوستان ہی نہیں، ساری دنیا میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ حیرت انگیز سوانح آج انٹرنیٹ پر بنیادی طور پر ہندی زبان میں بھی دستیاب ہے تاہم یہاں پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ یہ سب کس طرح ممکن ہو سکا۔

بسمل کو جیل کے تمام ملازمین بڑی عزت کرتے تھے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مضامین اور شعری کلام جیل سے باہر بھیجتے بھی رہے ہوں تو انھیں اس کی سہولت ضرور ہی جیل کے ان ملازمین نے دستیاب کرائی ہوگی۔ بہرحال اتنا سچ ہے کہ یہ سوانح عمری اس وقت کے برطانوی دور اقتدار میں جتنی بار شائع ہوئی، اتنی بار ضبط ہوئی۔

پرتاپ پریس کانپور سے كاكوری کے شہید نامی کتاب کے اندر جو سوانح عمری شائع ہوئی تھی اسے برطانوی حکومت نے نہ صرف ضبط کیا بلکہ انگریزی زبان میں ترجمہ کراکر پورے ہندوستان کی خفیہ پولیس اور ضلع كلیكٹرس کو سرکاری تبصرے کے ساتھ بھیجا تھا۔[26] سرکاری تبصرے میں صاف لکھا تھا کہ اپنی آپ بیتی میں جو کچھ رام پرساد بسمل نے لکھا ہے وہ ایک دم سچ نہیں ہے۔ اس نے حکومت پر جو الزام لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ کوئی بھی ہندوستانی، جو سرکاری خدمت میں ہے، اسے سچ نہ مانے۔ اس سرکاری بیان سے اس بات کا انکشاف اپنے آپ ہو جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے بسمل کو اتنا خطرناک سازشی سمجھ لیا تھا کہ ان کی سوانح عمری پڑھنے تک سے اسے سرکاری معاملات میں بغاوت پھیل جانے کا خوف ہو گیا تھا۔ موجودہ دور کے یو پی کے سی آئی ڈی ہیڈ کوارٹر، لکھنؤ کے خفیہ محکمہ میں اصل سوانح عمری کا انگریزی ترجمہ آج بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بسمل کی جو سوانح كاكوری سازش کے نام سے موجودہ پاکستان کے سندھ صوبے میں اس وقت کتاب پبلیشر بھجن لال بكسیلر نے آرٹ پریس، سندھ ( موجودہ پاکستان ) سے پہلی بار 1927ء میں بسمل کو پھانسی دیے جانے کے کچھ دنوں بعد ہی شائع کر دی تھی وہ بھی سرفروشی کی تمنا گرنتھاولی (مجموعہ کلام) کے تین حصوں میں مدون ہو کر 1927ء میں آ چکی ہے۔

گورکھپور جیل میں پھانسی[ترمیم]

16 دسمبر 1927ء کو بسمل نے اپنی آپ بیتی کا آخری باب ( آخری بار وقت کی باتیں ) مکمل کرکے جیل سے باہر بھجوا دیا۔ 18 دسمبر 1927 کو ماں باپ سے آخری بار ملاقات کی اور پیر 19 دسمبر 1927 کو صبح کے 6 بج کر 30 منٹ پر گورکھپور کی ضلع جیل میں انھیں پھانسی دے دی گئی۔ بسمل کے قربانی کی خبر سن کر بہت بڑی تعداد میں عوام جیل کے دروازے پر جمع ہو گئے۔ جیل کا اہم دروازہ بند ہی ركھا گیا اور پھانسی گھر کے سامنے والی دیوار کو توڑ کر بسمل کی لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔ لاش کو ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے جلوس نکال کر پورے شہر میں گھماتے ہوئے راپتی دریا کے کنارے راج گھاٹ پر آخری رسومات کے ساتھ سپرد آتش کر دیا۔[27]

پھانسی کے بعد انقلابی تحریک کی مشتعل شکل[ترمیم]

1927ء میں بسمل کے ساتھ 3 دیگر انقلابیوں کی قربانی نے پورے ہندوستان کے دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ چونکہ یہ چاروں انقلابی سماج کے عام طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور انھوں نے کوئی ذاتی جائداد یا جاگیر حاصل کرنے کے مقصد سے وادئ غربت یاپھر کانٹوں بھری راہ میں قدم نہیں ركھا تھا لہذا اس کا پورے ملک کے عوام کی نفسیات پر اثر ہونا فطری تھا اور وہ اثر ہوا بھی۔ 9 اگست 1925ء کے كاكوری سانحہ کے فیصلے سے پیدا صورت حال نے ہندوستانی آزادی کی جدوجہد کی ہیئت اور سمت دونوں ہی تبدیل کر دی۔ پورے ملک میں جگہ جگہ پر چنگاریوں کے طور پر نئی - نئی کمیٹیاں قائم ہو گئیں۔ بیتیا ( بہار) میں پھیندرناتھ کا ہندوستانی سیوا ٹیم، پنجاب میں سردار بھگت سنگھ کی نوجوان سبھا اور لاہور (پاکستان ) میں سكھدیو کی گپت سمیتی کے نام سے کئی انقلابی ادارے جنم لے چکے تھے۔ ہندوستان کے کونے کونے میں انقلاب کی آگ سیلاب کی طرح پھیل چکی تھی۔ کانپور سے گنیش شنكر ودیارتھی کا پرتاپ اور گورکھپور سے دشرتھ پرساد دویدی کا سودیس جیسے اخبار اس آگ کو ہوا دے رہے تھے۔

كاكوری سانحہ کے ایک اہم انقلابی چندر شیکھر آزاد، جنہیں رام پرساد بسمل ان کے پارے ( mercury ) جیسے چنچل مزاج کی وجہ سے "کویک سلور" (Quick Silver) کہا کرتے تھے، پورے ہندوستان میں بھیس بدل کر گھومتے رہے۔ انھوں نے مختلف کمیٹیوں کے سربراہوں سے رابطہ کرکے ساری انقلابی سرگرمیوں کو ایک تسبیح میں پرونے کا کام کیا۔ 8 اور 9 ستمبر، 1928ء میں فیروز شاہ کوٹلہ دہلی میں ایچ آر اے، نوجوان سبھا، ہندوستانی سیوا دل اور گپت سمیتی کا الحاق کرکے ایچ ایس آر اے نام سے ایک نئی انقلابی پارٹی کی تشکیل ہوئی۔ اس پارٹی کو بسمل کے بتائے راستے پر چل کر ہی ملک کو آزاد کرانا تھا لیکن برطانیہ کے ظالمانہ شکنجوں نے ایسا بھی نہیں ہونے دیا۔

30 اکتوبر 1928ء کو سائمن کمیشن کی مخالفت کرتے ہوئے لالہ لاجپت رائے، ڈپٹی سپرٹینڈینٹ جے پی سانڈرس کے وحشیانہ لاٹھی چارج سے بری طرح زخمی ہوئے اور 17 نومبر 1928ء کو ان کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ سے ناراض ایچ ایس آر اے کے چار نوجوان 17 دسمبر 1928ء کو لاہور جا کر دن دہاڑے سانڈرس کا قتل کرکے فرار ہو گئے، ساڈرس سانحہ قتل کے اہم ملزم سردار بھگت سنگھ کو پولیس پنجاب میں تلاش کر رہی تھی جبکہ وہ یورپی بھیس میں کلکتہ جاکر بنگال کے انقلابیوں سے بم بنانے کی ٹیکنالوجی اور مواد حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ دہلی سے 20 میل دور گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے کے قریب واقع نلگڑھا گاؤں میں رہ کر بھگت سنگھ نے دو بم تیار کیے اور بٹُو كیشور دت کے ساتھ جا کر 8 اپریل 1929ءکو دہلی کی نئی مرکزی اسمبلی میں اس وقت دھماکا کر دیا جب حکومت عوام مخالف قانون منظور کرنے جا رہی تھی۔ اس دھماکے نے سرکار پر بھلے ہی اثر نہ کیا ہو لیکن پورے ملک میں حیرت انگیز بے داری کا کام ضرور کیا۔

بم دھماکے کے بعد دونوں نے " انقلاب ! زندہ باد ! " اور " سامراج ! مردہ باد ! ! " کے زبردست نعرے لگائے اور ایچ ایس آر اے کے پمفلٹ ہوا میں اچھال دیے۔ اسمبلی میں موجود سکیورٹی سارجنٹ ٹیری اور انسپکٹر جانسن نے انھیں وہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ یہ سنسنی خیز خبر اگلے ہی دن پورے ملک میں پھیل گئی۔ 4 مئی 1929ء کے "ابھیُدئے" میں الہ آباد سے یہ خبریں شائع - اسمبلی کا بم کیس : كاكوری کیس سے اس کا تعلق ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 307 اور ایکسپلوسیو ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت ان دونوں کو عمرقید کی سزا دے کر الگ - الگ جیلوں میں ركھا گیا۔ جیل میں سیاسی قیدیوں جیسی خصوصیات کی مانگ کرتے ہوئے جب دونوں نے بھوک ہڑتال شروع کی تو ان دونوں کا تعلق سانڈرس قتل سے جوڑتے ہوئے ایک اور کیس قائم کیا گیا جسے لاہور سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کیس میں کل 24 لوگ نامزد ہوئے، ان میں سے 5 فرار ہو گئے، 1 کو پہلے ہی سزا ہو چکی تھی، باقی 18 پر کیس چلا۔ ان میں سے ایک - یتیندرناتھ داس کی بورسٹل جیل لاہور میں مسلسل بھوک ہڑتال کرنے سے موت ہو گئی، باقی بچے 17 میں سے 3 کو پھانسی، 7 کو عمرقید، ایک کو 7 سال اور ایک کو 5 سال کی سزا کا حکم ہوا۔ تین کو ٹربیونل نے رہا کر دیا۔ باقی بچے تین ملزمان کو عدالت نے ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔

پھانسی کی سزا پائے تینوں ملزمان - بھگت سنگھ، شیو رام راج گرو اور سكھ دیو نے اپیل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ دیگر سزا یافتہ ملزمان میں سے صرف 3 نے ہی شاہی كونسل میں اپیل کی۔ 11 فروری 1931ء کو لندن کی شاہی كونسل میں اپیل کی سماعت ہوئی۔ ملزمان کی طرف سے ایڈوکیٹ پرنٹ نے بحث کی اجازت مانگی تھی لیکن انھیں اجازت نہیں ملی اور بحث سنے بغیر ہی اپیل مسترد کر دی گئی۔ چندر شیکھر آزاد نے ان کی سزا کم کرانے کا کافی کوشش کی۔ وہ سیتاپور جیل میں جا کر گنیش شنكر ودیارتھی سے ملے۔ ودیارتھی سے مشورہ کرکے وہ الہ آباد گئے اور جواہر لال نہرو سے ان کی رہائش گاہ بمقام آنند بھون میں ملاقات کی اور ان سے یہ درخواست کی کہ وہ گاندھی پر لارڈ ارون سے ان تینوں کی پھانسی کو عمرقید میں بدلوانے کے لیے زور ڈالیں۔ نہرو نے جب آزاد کی بات نہیں مانی تو آزاد نے ان سے کافی دیر تک بحث کی۔ اس پر نہرو نے غصے میں آکر آزاد کو فوری طور پر وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ آزاد اپنے تكیہ كلام " سالا " کے ساتھ بھنبھناتے ہوئے نہرو کے ڈرائنگ روم سے باہر نکلے اور اپنی سائیکل پر بیٹھ کر الفریڈ پارک کی طرف چلے گئے۔ الفریڈ پارک میں اپنے ایک دوست سكھ دیو راج سے محو گفتگو ہی تھے تبھی سی آئی ڈی کا ایس ایس پی بابر جیپ پر وہاں آ پہنچا۔ اس کے پیچھے پیچھے بھاری تعداد میں كرنل گنج تھانے سے پولیس بھی آ گئی۔ دونوں طرف سے ہوئی شدید فائرنگ میں آزاد کی موت واقع ہوئی۔ یہ 27 فروری 1931ء کا واقعہ ہے۔ 23 مارچ 1931ء کو مقررہ وقت سے 13 گھنٹے پہلے بھگت سنگھ، سكھ دیو اور راج گر کو لاہور کی مرکزی جیل میں شام کو 7 بجے پھانسی دے دی گئی۔ یہ جیل قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ان تینوں کی پھانسی کی خبر ملتے ہی پورے ملک میں ماركاٹ مچ گئی۔ کانپور میں ہندو - مسلم فسادات بھڑک اٹھے جسے خاموش کروانے کی کوشش میں انقلابیوں کے خیرخواہ گنیش شنكر ودیارتھی بھی مارے گئے۔ اس طرح دسمبر 1927ء سے مارچ 1931ء تک ایک ایک کرکے ملک کے 11 مجاہدین آزادی جان گنوا بیٹھے تھے۔

شمالی بھارت کی انقلابی سرگرمیوں کے علاوہ بنگال کے واقعات کا حساب اور ان کا ریکارڈ بھی تاریخ میں درج ہے۔ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں بنگال کے بھی کئی انقلابی شامل تھے جن میں سے ایک راجیندرناتھ لاهڑی کو مقرر تاریخ سے 2 دن پہلے 17 دسمبر 1927ء کو پھانسی دیے جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ بنگال کے انقلابیوں نے پھانسی کی مقررہ تاریخ سے ایک دن قبل یعنی 18 دسمبر 1927ء کو ہی انھیں گوڈا جیل سے چھڑا لینے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اس کی اطلاع سی آئی ڈی نے برطانوی حکومت کو دے دی تھی۔ 13 جنوری 1928ء کو میندرناتھ بنرجی نے چندر شیکھر آزاد کے اکسانے پر اپنے سگے چچا کو، جنہیں كاكوری سانحہ میں اہم کردار ادا کرنے کے انعام کے طور پر ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا، ان کی سروس ریوالور سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دسمبر 1929ء میں مچھا مارکیٹ گلی واقع نرنجن سے نگپتا کے گھر چھاپا پڑا، جس میں 27 انقلابیوں کو گرفتار کرکے کیس قائم ہوا اور 5 کو كالے پانی کی سزا دی گئی۔ 18 اپریل، 1930ء کو ماسٹر سورج سین کی قیادت میں چاٹگام میں ہتھیاروں کو لوٹنے کی کوشش ہوئی جس میں سورج سین اور تارکیشور دستیگار کو پھانسی اور 12 دیگر کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ 8 اگست، 1930ء کو کے۔ کے۔ شکلا نے جھانسی کے کمشنر اسمتھ پر گولی چلا دی، اسے موت کی سزا ملی۔ 27 اکتوبر، 1930ء کو یگانتر پارٹی کے ارکان نے سریش چندر داس کی قیادت میں کلکتہ میں تلا تحصیل کی ٹریژری لوٹنے کی کوشش کی، تمام پکڑے گئے اور كالے پانی کی سزا ہوئی۔ اپریل 1931ء میں میمنسه ڈکیتی ڈالی گئی جس میں گوپال آچاریہ، ستیش چندر ہومی اور هیمیندر چکرورتی کو عمر قید کی سزا ملی۔ ان واقعات کی بہت لمبی فہرست ہے جو سرفروشی کی تمنا گرنتھاولی کے حصہ ایک میں صفحات 155 سے لے کر 161 تک تفصیل سے دی گئی ہے۔

ان سب واقعات کا کانگریس پارٹی پر بھی وسیع اثر پڑا۔ سبھاش چندر بوس جیسے نوجوان گاندھی جی کی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرنے لگے تھے۔ جو گاندھی سن 1922ء سے 1927ء تک سیاسی منظر سے بالکل پوشیدہ ہو چکے تھے اب وہی گاندھی جی رام پرساد بسمل اور ان کے ساتھیوں کی قربانی کے بعد پھر سے تیور بدلتے ہوئے کانگریس میں اپنی من مرضی کا صدر چنوانے اور حسب منشا پالیسیوں کو نافذ کروانے لگے تھے۔ ان سے تنگ آکر سبھاش چندر بوس نے مسلسل دو بار - 1938ء کے میں تریپورہ اور 1939ء کے ہری پورہ انتخابات میں کانگریس صدر کا عہدہ جیتا تھا۔ لیکن گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں لابیئنگ کرکے سبھاش کو تنگ کرنا شروع کر دیا جس سے دکھی ہو کر انھوں نے آل انڈیا کانگریس چھوڑ دی اور فارورڈ بلاک کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنا لی۔ اس کے بعد جب انھیں لگا کہ گاندھی حکومت سے مل کر ان کے کام میں رکاوٹ اٹکاتے ہی رہیں گے تو انھوں نے ایک دن ہندوستان چھوڑ دیا اور جاپان پہنچ کر آئی این اے یعنی آزاد ہند فوج کی کمان سنبھال لی۔

دوسری جنگ عظیم میں انگلینڈ کو بری طرح الجھتا دیکھ کرجیسے ہی نیتا جی نے آزاد ہند فوج کو " دلی چلو " کا نعرہ دیا، گاندھی نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے 8 اگست، 1942ء کی رات میں ہی بمبئی سے انگریزوں کو " بھارت چھوڑو " اور بھارت کو " کرو یا مرو " کا حکم جاری کیا اور سرکاری سیکیورٹی میں یرودا ( پونے ) واقع آغا خان محل میں چلے گئے۔ 9 اگست، 1942ء کے دن اس تحریک کو لال بہادر شاستری جیسے ایک چھوٹے سے شخص نے ہنگامی شکل دے دیا۔ 19 اگست، 1942ء کو شاستری جی گرفتار ہو گئے۔ 9 اگست، 1942ء کو برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کے مقصد سے بسمل کی قیادت میں ہندوستان پرجاتنتر یونین کے دس محنتی کارکنوں نے كاكوری سانحہ کیا تھا جس کی یادگار تازہ رکھنے کے لیے پورے ملک میں ہر سال 9 اگست کو " كاكوری سانحہ کا یادگار دن" منانے کی روایت بھگت سنگھ نے شروع کر دی تھی اور اس دن بہت بڑی تعداد میں نوجوان جمع ہوتے تھے۔ گاندھی نے اسی 9 اگست، 1942ءکے دن کا انتخاب کیا تھا۔

9 اگست، 1942ء کو دن نکلنے سے پہلے ہی کانگریس ورکنگ کمیٹی کے تمام رکن گرفتار ہو چکے تھے اور کانگریس کو غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا۔ گاندھی کے ساتھ سروجنی نائیڈو کو یرودا ( پونے ) کے آغا خان محل میں ساری مراعات کے ساتھ، ڈاکٹر راجندر پرساد کو پٹنہ جیل میں اور دیگر تمام ارکان کو احمدنگر کے قلعہ میں نظربند رکھنے کا ڈراما برطانوی سلطنت نے کیا تھا تاکہ عوامی تحریک کو دبانے میں زور استعمال کرنے سے ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہ ہو۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس عوامی تحریک میں 940 افراد ہلاک اور 1630 زخمی ہوئے، 18000 نظربند ہوئے اور 60229 گرفتار ہوئے۔ تحریک کو کچلنے کے یہ اعداد و شمار دہلی کی مرکزی اسمبلی میں آنریبل ہوم ممبر نے پیش کیے تھے۔

سن 1943ء سے 1945ء تک سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کی قیادت کی۔ ان کے فوجی " سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ؛ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے؟ " جیسا معنی خیز گیت اور " قدم قدم بڈھائے جا، خوشی کے گیت گائے جا ؛ یہ زندگی ہے قوم کی، تو قوم پہ لٹائے جا ! " جیسے قومی ترانے فوجی بینڈ کی دھن کے ساتھ گاتے ہوئے سنگاپور کے راستے كوہیما ( ناگالینڈ ) تک آ پہنچے۔ تبھی جاپان پر امریکی ایٹمی حملے کی وجہ سے بوس کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی۔ وہ طیارے سے روس جانے کی تیاری میں جیسے ہی فارموسا کے تایهوكو ائیر بیس سے اڑے کہ 18 اگست 1945ء کو ان کے 97-2 ماڈل ہیوی بمبار جہاز میں آگ لگ گئی۔ انھیں زخمی حالت میں تایهوكو آرمی اسپتال لے جایا گیا جہاں رات 9 بجے ان کی موت ہو گئی۔[28]

بوس کی موت اور آزاد ہند فوج کے افسران پر مقدمے کی خبر نے پورے ہندوستان میں طوفان مچا دیا۔ اس کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بمبئی بندرگاہ پر اترے بحری دستے نے بغاوت کر دی۔ 18 فروری 1946ء کو بمبئی سے شروع ہوئی یہ فوجی بغاوت ملک کے تمام بندرگاہوں اور بڑے شہروں میں پھیل گئی۔ 21 فروری 1946ء کو برطانوی آرمی نے بمبئی پہنچ کر ہندوستانی بحری دستے پر گولیاں چلائیں۔ نتیجے میں صرف 22 فروری 1946ء کو ہی 228 افراد ہلاک اور 1046 زخمی ہوئے۔

بسمل کا انقلابی فلسفہ[ترمیم]

ہندوستان کو برطانوی سلطنت سے آزاد کرانے میں یوں تو ہزا رہا بہادروں نے اپنی انمول قربانی دی لیکن رام پرساد بسمل ایک ایسے حیرت انگیز انقلابی تھے جنھوں نے انتہائی غریب خاندان میں پیدائش لے کر عام تعلیم کے باوجود غیر معمولی حوصلہ اور غیر متزلزل عزم کے زور پر ہندوستان پرجاتنتر یونین کے نام سے ملک گیر تنظیم قائم کی جس میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار اور عظیم الفطرت نوجوان شامل تھے بسمل کی پہلی کتاب سن 1916ء میں شائع ہوئی تھی جس کا نام تھا "امریکا کی آزادی کی تاریخ" تھا۔ بسمل کے پیدائش کے سو سال کے موقع پر 1996ء-1997ء میں یہ کتاب آزاد بھارت میں پھر سے شائع ہوئی جس کی رسم رونمائی بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کی۔ اس پروگرام میں آر ایس ایس کے اس وقت کے سرسنگھچالك پروفیسر راجندر سنگھ (رجو بھیا ) بھی موجود تھے۔ اس مکمل گرنتھاولی (مجموعہ کلام) میں بسمل کی تقریبًا دو سو سے زائد نظموں کے علاوہ پانچ کتابیں بھی شامل کی گئی تھیں۔ لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے بسمل کے انقلابی فلسفہ کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کروانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جبکہ گاندھی کی طرف سے 1909ء میں ولایت سے ہندوستان لوٹتے وقت پانی کے جہاز پر لکھی گئی کتاب ہند سوراج کئی مذاکرے ہوئے۔

بھارت اور عالمی ادب میں بسمل[ترمیم]

سال 1985ء میں وگیان بھون، نئی دہلی میں منعقد "بھارت اور وشو ساہتیہ پر انتراشٹریہ سنگوشٹھی" (بھارت اور عالمی ادب پر بین الاقوامی مذاکرہ) میں ایک بھارتی نمائندے[29] نے اپنے مضمون کے ساتھ پنڈت رام پرساد بسمل کے کچھ مقبول عام کلام کی دو لسانی شعری صورتگری (ہندی/ اردو اور انگریزی میں) پیش کی تھی۔ اس کا کچھ اقتباس آگے کے قطعوں میں دیا گیا ہے۔

سرفروشی کی تمنا[ترمیم]

(بسمل کی مشہور تخلیق)

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماںہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے؟
رہروئے راہ محبت! رہ نہ جانا راہ میںلذّت صحرانووردی دوری منزل میں ہے
کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچہ قاتل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑایک مٹ جانے کی حسرت اب دل 'بسمل' میں ہے

اس غزل کی شہرت رام پرساد بسمل کی وجہ سے ہی ہے، تاہم محققین نے اس حقیقت کو آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے مطلع کے خالق رام پرساد بسمل نہیں بلکہ اس کے خالق شاعر بسمل عظیم آبادی تھے اور ان کے مجموعہ کلام حکایت ہستی میں بقیہ کچھ مختلف ابیات کے ساتھ موجود ہے۔ مگر رام پرساد بسمل نے بھی اسی مطلع کو لے کر اسی زمین پر غزل کہی تھی۔ اور آخری ایام میں آخری دم تک ان کا ورد زباں رہی۔

اس طرح بسمل کی درج بالا پسندیدہ غزل انقلابی گاکر قیدی جیل سے پولیس کی لاری میں عدالت میں جاتے ہوئے، عدالت میں مجسٹریٹ کو چڑھاتے ہوئے اور عدالت سے لوٹ کر واپس جیل آتے ہوئے کورس کے روپ میں گایا کرتے تھے۔ بسمل کے انتقال کے بعد تو یہ انتخاب سبھی انقلابیوں میں زبان زد عام ہو گیا تھا۔۔[30] جتنی تحریر یہاں دی جا رہی ہے وہ لوگ اتنی ہی گاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ نظم سب سے پہلے 1965ء میں منوج کمار کی فلم ’’ شہید آن دا لائف ‘‘ بھگت سنگھ میں شامل کی گئی تھی۔ دوبارہ اس صدی کے شروع کے دور میں اسے کچھ مبدل سطور کے ساتھ 2002ء میں ہندی فلم ’’ لیجنڈ بھگت سنگھ ‘‘ میں شامل کیا گیا تھا، اس کے بعد 2006ء میں اس کی سطور ’’ رنگ دے بسنتی ‘‘ میں استعمال کی گئیں،اور یہی نظم ایک بار پھر 2009ء میں اورنگ کاشیپ کی فلم ’’ گلال‘‘ میں بھی شامل کی گئی تھی۔

جذبہ شہید[ترمیم]

(بسمل کی مشہور اردو مخمس)

ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم کو بھی پالا تھا ماں باپ نے دکھ سہہ سہہ کر
وقت رخصت انہیں اتنا بھی نہ آئے کہہ کر
گود میں اشک جو ٹپکیں کبھی رخ سے بہہ کر
طفل ان کو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
اپنی قسمت میں اجل ہی سے ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا محن رکھی تھی غم رکھا تھا
کس کو پروا تھی اور کس میں یہ دم رکھا تھا
ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
اپنا کچھ غم نہیں لیکن یہ خیال آتا ہے
مادر ہند پہ کب تک یہ زوال آتا ہے
قومی آزادی کا کب ہند پہ سال آتا ہے
قوم اپنی پہ تو رہ رہ کے ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو !
نوجوانوں! جو طبیعت میں تمہاری کھٹکے
یاد کر لینا کبھی ہم کو بھی بھولے بھٹکے
آپ کے عضو بدن ہوویں جدا کٹ کٹ کے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجا پھٹ کے
پر نہ ماتھے پہ شکن آئے قسم کھانے کو !
ایک پروانے کا بہتا ہے لہو نس نس میں
اب تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرفروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھائی خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنیں تیار چتاؤں سے لپٹ جانے کو !
سر فدا کرتے ہیں قربان جگر کرتے ہیں
پاس جو کچھ ہے وہ ماتا کی نظر کرتے ہیں
خانہ ویران کہاں دیکھیے گھر کرتے ہیں!
خوش رہو اہل وطن! ہم تو سفر کرتے ہیں
جا کے آباد کریں گے کسی ویرانے کو !
نوجوانو ! یہی موقع ہے اٹھو کھل کھیلو
خدمت قوم میں جو آئے بلا سب جھیلو
دیش کے واسطے سب اپنی زبانیں دے دو
پھر ملیں گی نہ یہ ماتا کی دعائیں لے لو
دیکھیں کون آتا ہے یہ فرض بجا لانے کو ؟

نوٹ: بسمل کا یہ اپروکت اردو مخمس بھی ان دنوں مقبول عام ہوا کرتا تھا یہ ان کی غیر معمولی تخلیق ہے یہ اتنی زیادہ جذباتی ہے کہ لاہور کانسپریسی کیس کے وقت جب پریمدت نام کے ایک قیدی نے عدالت میں گاکر سنائی تھی تو سامعین رو پڑے تھے۔[31] جج اپنا فیصلہ فورًا بدلنے کو مجبور ہو گیا اور اس نے پریمدت کی سزا اسی وقت کم کر دی تھی۔

زندگی کا راز[ترمیم]

( بسمل کی ایک اور اردو غزل )

چرچا اپنے قتل کا اب دشمنوں کے دل میں ہےدیکھنا ہے یہ تماشا کون سی منزل میں ہے ؟
قوم پر قربان ہونا سیکھ لو اے ہندیو !زندگی کا راز مضمر خنجر قاتل میں ہے !
ساحل مقصود پر لے چل خدارا ناخدا !آج ہندوستان کی کشتی بڑی مشکل میں ہے !
دور ہو اب ہند سے تاریکی بغض و حسداب یہی حسرت یہی ارماں ہمارے دل میں ہے !
بام رفعت پر چڑھا دو دیش پر ہوکر فنابسمل' اب اتنا ہوش باقی ہمارے دل میں ہے !

نوٹ :بسمل کی مندرجہ بالا غزل میں زندگی کا اصلی فلسفہ موجود ہے شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس کا عنوان زندگی کا راز [32] دیا تھا۔ اصل میں اپنے لیے جینے والے مرنے کے بعد معدوم ہو جاتے ہیں پر دوسروں کے لیے جینے والے ہمیشہ کے لیے حیات ابدی پاتے ہیں۔

بسمل کی تڑپ[ترمیم]

(بسمل کی آخری تخلیق[33])

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا !دل کی بربادی کے بعد ان کا پیام آیا تو کیا !
مٹ گئیں جب سب امیدیں مٹ گئے جب سب خیالاس گھڑی گر نام اور لیکر پیام آیا تو کیا !
اے دل نادان مٹ جا تو بھی کوئے یار میںپھر میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا !
کاش! اپنی زندگی میں ہم وہ منظر دیکھتےیوں سرے تربت کوئی محشرخرام آیا تو کیا !
آخری شب دید کے قابل تھی 'بسمل' کی تڑپصبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا !

نوٹ: گورکھپور جیل سے چوری چھپے باہر بھجوائی گئی اس غزل میں علامتوں کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو یہ پیام بھیجا تھا کہ اگر کچھ کر سکتے ہو تو جلد کر لو ورنہ پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ بسمل کی آپ بیتی کے مطابق اس بات کا انھیں ملال ہی رہ گیا کہ ان کی پارٹی کا کوئی ایک بھی نوجوان ان کے پاس ان کا ریوالور تک نہ پہنچا سکا۔ ان کے اپنے وطن شاہجهاں پور کے لوگ بھی اس میں بھاگ دوڑ کے علاوہ کچھ نہ کر پائے۔ بعد میں تاریخ دانوں نے نہ جانے کیا کیا حسب مرضی لکھ دیا۔

بسمل پر لکھی گئی کتابیں اور تحقیقی مواد[ترمیم]

  1. سرفروشی کی تمنا (حصہ اول): کرانتی کاری بسمل کے سمپورن وِیَکْتِتْو اور کری تِتْو کا 25 اَدھیایوں میں سندربھ سہِت مُولیانکن۔[34]
  2. سرفروشی کی تمنا (حصہ 1): امر شہید رام پرساد بسمل کی دو سو سے ادھیک ضبط شدہ آشیں شعری تخلیقات حوالہ جات، قطعات کا مجموعہ۔
  3. سرفروشی کی تمنا (حصہ 2): امر شہید رام پرساد بسمل کی اصلی خود نوشت آتم کتھا- نج جیون کی ایک چھٹا، 1916 میں ضبط۔
  4. امریکا کی سوتنترتا کا اتہاس، بسمل کا بنگالی سے ہندی میں مترجم یوگیک سادھن (اصلی تخلیق کار: اروند گھوش)، اس کے علاوہ بنیادی طور پر انگریزی سے ہندی میں لکھی گئی سوانح کیتیھرائن سوتنترتا کی دیوی۔
  5. سرفروشی کی تمنا (آخری قسط): کرانتی کاری جیون (بسمل کے خود کے مضامین اور ان کی شخصیت پر دیگر انقلابیوں کے مضامین)۔[35]
  6. بولشیویکوں کے کرتوت[36]:بھارت کی آزادی کے بعد بسمل کا پہلا مطبوعہ ناول جو 2006 میں شائع ہوا۔
  7. دماغ کی لہر[37]: آزاد ہند میں طبع ہونے والا بسمل کا پہلا نظمی مجموعہ جو سنہ 2006ء میں شائع ہوا۔
  8. کرانتی گیتانجلی[38]: آزاد ہند میں چھپنے والا نظمی مجموعہ جو سنہ 2006ء میں شائع ہوا۔

ان کے علاوہ جن کتب میں رام پرساد بسمل کا خصوصی تذکرہ ملتا ہے، وہ اس طرح ہیں:[39]

  1. مین پوری شڈينتر
  2. دیسی رنگ
  3. چینی شڈینتر (چین کی سازش)
  4. تپونشٹھ اروند کی داستان اسیری
  5. اشفاق کی یاد میں
  6. سوناكھان کے امر شہید' وير نارائن سنگھ
  7. جنرل جارج واشنگٹن
  8. امریکا کیسے خود مختار ہوا؟

بسمل کی خود نوشت سوانح عمری[ترمیم]

بسمل کی آپ بیتی کو ہندی میں كاكوری شڈینتر نامی ایک کتاب کے اندر نج زندگی کی ایک چھٹا کے نام سے بھجن لال بكسیلر نے آرٹ پریس سندھ ( پاکستان ) سے اور كاكوری کے شہید عنوان سے گنیش شنکر ودیارتھی نے پرتاپ پریس، کانپور سے طبع کیا تھا۔ سپرٹینڈینٹ گورنمنٹ پریس الہ آباد سے کسی بھیشم کے فرضی نام سے ترجمہ شدہ ہو کر یہی کتاب 1929ء میں انگریزی میں بھی شائع ہوئی تھی۔ برطانوی راج کے دوران متحدہ علاقہ آگرہ اور اودھ کے خفیہ محکمہ نے یہ کتاب ہر ضلع کے پولیس افسران کو بھجوائی تھی۔[26]

ہندیانگریزی کے علاوہ كاكوری شڈینتر عنوان سے بنگالی میں ،[40] امر انقلابی : رام پرساد بسمل کے نام سے سنسکرت میں ،[41] اتمكتھا رام پرساد بسمل کے عنوان سے پنجابی میں ،[42] رام پرساد بسمل کے نام سے گجراتی میں ،[43] بسمل سوانح عنوان سے تیلگو میں [44] اور رام پرسادو بسمورا جدین کے نام سے جاپانی زبان [45] سمیت آٹھ زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔[46]

بھگت سنگھ کے افکار[ترمیم]

جنوری 1928 کے "كیرتی" میں بھگت سنگھ نے كاكوری کے شہیدوں کے بارے میں مضمون لکھا تھا۔ "كاكوری کے شہیدوں کی پھانسی کے حالات" عنوان سے مضمون میں بھگت سنگھ بسمل کے بارے میں لکھتے ہیں :

" مسٹر رام پرساد بسمل بڑے ذہین نوجوان تھے۔ غضب کے شاعر تھے۔ دیکھنے میں بھی بہت خوبصورت تھے۔ قابل بہت تھے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ اگر کسی اور جگہ یا کسی اور ملک یا کسی اور وقت پیدا ہوئے ہوتے تو چیف بنتے۔ پوری سازش کا لیڈر مانا گیا ہے۔ چاہے بہت زیادہ پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن پھر بھی پنڈت جگت نارائن جیسے سرکاری وکیل کی سدھ بدھ ہلا دیتے تھے۔ چیف کورٹ میں اپنی اپیل خود ہی لکھی تھی، جس سے کہ ججوں کو کہنا پڑا کہ اسے لکھنے میں ضرور ہی کسی ذہین اور قابل شخص کا ہاتھ ہے۔" [47]

رجو بھیا کے افکار[ترمیم]

آر ایس ایس کے چوتھے سرسگھچالك رجو بھیا نے ایک کتاب [48] میں بسمل کے بارے میں لکھا ہے :

میرے والد صاحب سن 1921–22 کے قریبی دور میں شاہجہاں پور میں انجینئر تھے۔ ان کے قریب ہی انجینئرز کی اس کالونی میں كاكوری سانحہ کے ایک اہم فرد مسٹر پریم كرشن کھنہ کے والد جناب رائے بہادر رام كرشن کھنہ بھی رہتے تھے۔ شری رام پرساد بسمل پریم كرشن کھنہ کے ساتھ اکثر اس کالونی کے لوگوں سے ملنے آتے تھے۔ میرے والد صاحب مجھے بتایا کرتے تھے کہ بسمل جی کے تئیں تمام کے دل میں بے پناہ عقیدت تھی۔ ان کی زندگی بڑی خالص اور سادہ، روزانہ باقاعدگی سے یوگا اور ورزش کی وجہ سے جسیم تھے۔ ان کی مردانہ وجاہت ان پر زندگی بھر قائم رہی۔ مجھے بھی ایک سماجی کارکن مان کر وہ اکثر بسمل جی کے بارے میں بہت سی باتیں بتایا کرتے تھے۔

اردو ادب اور بسمل کی سدابہار یاد[ترمیم]

اردو ادبی حلقوں میں بسمل کو جو مقام حاصل ہے، اسی کی مناسبت سے اکثر اہل علم کو ان سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس اور شبنم رومانی کے سانحات رحلت کو سپردقلم کرتے ہوئے اہل قلم نے بسمل کو اس کی شاعری اور شاہجہاں پور کی ولادت کے لیے یاد کیا گیا جہاں سے ان اہل علم کا بھی تعلق رہا ہے۔[49]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13526986b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८१
  3. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८३
  4. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार (प्रस्तावना)
  5. "دا کاکوری ریل ڈکیتی" 
  6. Verma, 'Krant' Madan Lal (1998) (Hindi में) Krantikari Bismil Aur Unki Shayri (1 ed.) Delhi: Prakhar Prakashan प॰ 18 OCLC 466558602۔
  7. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج रामप्रसाद, बिस्मिल (2007) डॉ.कृष्णवीर सिंह, चौहान ed. (Hindi में) स्वाधीनता की देवी कैथरिन (1 ed.) जयपुर: साहित्य चन्द्रिका प्रकाशन pp. 103 आई॰ऍस॰बी॰ऍन॰ 81-7932-061-8۔
  8. "Temple for martyr Pandit Ram Prasad Bismil in MP district"۔ news.webindia123.com۔ 08 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2019 
  9. सरफरोशी की तमन्ना भाग-१ पृष्ठ १७
  10. "वतन की ख्वाहिशों पे जिंदगानी कुर्बान". दैनिक जागरण (जागरण सिटी-ग्रेटर नोएडा नई दिल्ली: p. 24. 12 अगस्त 2012.
  11. जितेन्द्र नाथ सान्याल. अमर शहीद सरदार भगतसिंह.
  12. चीफ कोर्ट ऑफ अवध जजमेंट १९२७ नवलकिशोर प्रेस लखनऊ पृष्ठ ६२ (Kept with political file 53/27 of Home department in the National Archives of India)
  13. सरफरोशी की तमन्ना ( भाग-एक) पृष्ठ १७० से १७४ तक
  14. स्वाधीनता संग्राम के क्रान्तिकारी साहित्य का इतिहास (लेखक:मदनलाल वर्मा 'क्रान्त') पुस्तक के भाग-तीन में पृष्ठ ६४४ से ६४८ तक
  15. मन्मथनाथ गुप्त भारतीय क्रान्तिकारी आन्दोलन का इतिहास पृष्ठ-२१० (१००० गज तक)
  16. चीफ कोर्ट आफ अवध जजमेण्ट फाइल १९२७, नवल किशोर प्रेस, लखनऊ पृष्ठ सं० १
  17. ^ ا ب मन्मथनाथ गुप्त भारतीय क्रान्तिकारी आन्दोलन का इतिहास पृष्ठ-२१२
  18. [जगदीश 'जगेश' कलम आज उनकी जय बोल पृष्ठ १५७-१५८
  19. एक बैरक में इतिहास (History in a barrack) – 12 जुलाई 2009 इंडियन एक्सप्रेस का एक समाचार
  20. "GPO, Lucknow - Lucknow Travel Guide"۔ sites.google.com۔ 08 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2019 
  21. "About Dr Kesava Ram Baliram Hedgewar"۔ www.speakingtree.in 
  22. "The Saga of Two friends………….."۔ 6 ستمبر، 2011 
  23. डा० भगवान दास माहौर काकोरी शहीद स्मृति पृष्ठ-७८
  24. विद्यार्णव शर्मा युग के देवता-बिस्मिल और अशफाक पृष्ठ-११८/११९
  25. http://www.sagepub.in/SAGEClassics/images/SAGE%20Classics_Thapar.pdf[مردہ ربط]
  26. ^ ا ب Bhishma, (pseud) (1929). Kakori-ke-shahid : martyrs of the Kakori conspiracy case. Government Press, United Provinces, Allahabad. pp. 125. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  27. Verma, 'Krant' Madan Lal (1998) (Hindi में) Krantikari Bismil Aur Unki Shayri (1 ed.) Delhi: Prakhar Prakashan प॰ १३-१४ OCLC 466558602۔ अभिगमन तिथि: ५ मार्च २०१४ "मातृभूमि का यह अनन्य भक्त अपनी भेंट चढ़ाकर मरते-मरते भी यही कहकर गया था - मरते बिस्मिल रोशन लहड़ी अशफ़ाक अत्याचार से, होंगे पैदा सैकड़ों उनके रुधिर की धार से!"
  28. स्वाधीनता संग्राम के क्रान्तिकारी साहित्य का इतिहास भाग-३ प.८४६
  29. Dr.A.K.Maurya, International Symposium On India & World Literature 1985, Department Of Modern Europeon Languages, University Of Delhi, India, Page 81
  30. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८
  31. खलीक अंजुम मुज्तबा हुसैन जब्तशुदा नज्में पृष्ठ-१८ नूरनबी अब्बासी जब्तशुदा नज्में पृष्ठ-२९
  32. खलीक अंजुम मुज्तबा हुसैन जब्तशुदा नज्में पृष्ठ-१४ नूरनबी अब्बासी जब्तशुदा नज्में पृष्ठ-२५
  33. मन्मथनाथ गुप्त भारतीय क्रान्तिकारी आन्दोलन का इतिहास पृष्ठ २१५
  34. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८१
  35. मदन लाल वर्मा 'क्रान्त' प्रवीण प्रकाशन दिल्ली
  36. आशारानी व्होरा स्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८३
  37. आशारानी व्होरास्वाधीनता सेनानी लेखक-पत्रकार पृष्ठ-१८३
  38. प्रवीण प्रकाशन दरियागंज दिल्ली
  39. स्वाधीनता संग्राम के क्रान्तिकारी साहित्य का इतिहास (भाग-दो) पृष्ठ-५२३ से ५३२
  40. Perti, Rajesh (1984) (English में). Patriotic Writings Banned by the Raj. National Archives of India, New Delhi. प॰ 8.
  41. Śarmā, Keśavarāma (2001) (Sanskrit में). Amarakrāntikārī Paṃ. Rāmaprasāda "Bismilaḥ". Śakti Prakāśana, Dillī. pp. 56. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  42. Rāhī, Prītama Siṅgha (2009) (Panjabi में). Ātamakathā : Rāmaprasāda Bisamila. Bishana Canda,Dillī. pp. 104. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  43. Śeṭh, Dhāraṇā (2006) (Gujrati में). Rāmaprasāda Bismila. Āra. Āra. Śeṭhanī Kampanī, Mumbaī. pp. 125. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  44. Śarma, Mallikārjuna (1989) (Telugu में). Bismil ātmakatha. Mārksisṭu Adhyayana Vēdika, Haidarābādu, (Iṇḍiyā). pp. 156. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  45. Koga, Katsuro (Japanese में). ラームプラサード・ビスミル自伝 / Ramupurasado bisumiru jiden. Koga Katsuro, 古賀勝郎. pp. 94. अभिगमन तिथि: 7 March 2014.
  46. विश्व पुस्तक सूचीपत्र (वर्ल्डकैट) में राम प्रसाद 'बिस्मिल' की पुस्तकों की सूची, accessdate=7 March 2014
  47. भगतसिंह और उनके साथियों के दस्तावेज़, जगमोहन सिंह और चमनलाल, गूगल बुक पृष्ठ ८६
  48. मदनलाल वर्मा 'क्रान्त' सरफ़रोशी की तमन्ना (भाग-१) पृष्ठ ७ १९९७ प्रवीण प्रकाशन दिल्ली
  49. "پروفیسر قمر رئیس کا انتقال - Hyderabadi | My city Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature"۔ urduhyd.blogspot.com