مندرجات کا رخ کریں

بعد الموت معائنہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بعد الموت معائنہ
بعد الموت معائنہ کی مصوری از ریمبرانٹ

اختصاص قانونی امراضیات
نوع عمل تشریح   ویکی ڈیٹا پر (P279) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شناخت کنندگان
میش آئی ڈی D001344

معائنۂ نعش[1][2] یا بعد الموت معائنہ[3] جسے عموماً پوسٹ مارٹم کہا جاتا ہے[1] ایسا جراحی عمل ہے جس میں کسی میت کا تفصیلی معائنہ بذریعہ چیڑ پھاڑ کیا جاتا ہے تاکہ سببِ موت، طریقۂ موت اور نوعیتِ موت کا تعین کیا جا سکے؛ یا یہ معائنہ تحقیقی یا تعلیمی مقاصد کے لیے کسی بیماری یا زخم کی موجودگی کا جائزہ لینے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی زبان میں جانوروں اور انسانوں کے بعد الموت معائنے کے لیے الگ اصطلاحات ہیں، نیکروپسی کی اصطلاح عام طور پر غیر انسانی اجسام کے بعد الموت معائنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جب کہ آٹوپسی کی اصطلاح عموماً انسانی اجسام کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

بعد الموت معائنہ عموماً ایک منجھا ہوا طبیب انجام دیتا ہے جسے ماہر امراضیات کہا جاتا ہے۔ صرف چند مخصوص حالات میں اموات کا بعد الموت معائنہ ضروری ہوتا ہے۔ زیادہ تر صورتوں میں طبی معائنہ کار یا مفتش مَوتیٰ موت کی وجہ کا تعین کر لیتے ہیں۔

اصطلاحات

[ترمیم]

اردو

[ترمیم]

اردو لغات اور کتب میں پوسٹ مارٹم کے مختلف نام وارد ہوئے ہیں، جن میں ”معائنہ لاش“،[4][5][6]لاش بینی“،[5]معائنہ نعش“،[1][2]لاش کا طبی معائنہ“،[7][8]بعد الموت معائنہ“،[9][3]امتحانِ نعش“،[10]امتحان بعد الموت“،[11][12]جانچِ نعش“،[13]بَعْدَ الْمَوتٰی“،[14]تشریح بعد الموت[15] اور ”فتح الجثہ[16] شامل ہیں۔

انگریزی

[ترمیم]

انگریزی میں طبی سائنس کی اصطلاح میں پوسٹ مارٹم کے عمل کو آٹوپسی کہتے ہیں۔ لفظ آٹوپسی/آٹاپسی کا تعلق یونانی زبان کے لفظ αὐτοψία (آفتوپسیا) ہے، جسے ”گواہ“ یا ”مشاہدہِ ذات“ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔[انگ 1] شاید اسی سبب بعض اردو لغات میں اسے ”ذاتی معائنہ“ بھی لکھا گیا ہے۔[17] یہ لفظ تقریباً سترھویں صدی عیسوی سے استعمال میں ہے۔[انگ 2]

اصطلاح ”پوسٹ مارٹم“ لاطینی کے دو الفاظ post (یعنی ’بعد‘) اور mortem (یعنی ’موت‘) سے ماخوذ ہے۔ اسے پہلی بار سنہ 1734ء میں استعمال کیا گیا۔[انگ 3] لاطینی میں mortem کا مطلب ’موت‘ ہوتا ہے اور اصطلاحی معنوں میں موت کی وجوہات جاننے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اصطلاح ”نیکروپسی“ / ”نیکراپسی“ یونانی الفاظ νεκρός (نیکروس، ’مُردہ‘) اور ὄψις (اوپسیس، ’نظر، مشاہدہ‘) سے ماخوذ ہے،[انگ 4][انگ 5] اس کا مطلب ”لاش بینی“ ہے۔[5] انگریزی میں حیوانات کے پوسٹ مارٹم کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

مقاصدِ انجام دہی

[ترمیم]

بعد الموت معائنہ قانونی یا طبی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کو اس وقت انجام دیا جاتا ہے جب درج ذیل معلومات درکار ہوں:

  • بہر صورت موت کا طریقہ معلوم کرنا ہو۔
    • یہ جانچنا ہو کہ موت طَبَعی تھی یا غیر طبعی۔
    • لاش پر چوٹ یا زخم کے منبع اور شدت کا تعین۔
  • موت کے بعد گذرے وقت کا اندازہ۔
  • متوفی کی شناخت کا تعین۔
  • متعلقہ اعضا کو محفوظ رکھنا۔
  • اگر متوفی نو زائیدہ ہو تو زندہ زچگی اور قابلِ بقا ہونے کا پتہ لگانا

مثال کے طور پر قانونی بعد الموت معائنہ (فارینسک آٹوپسی) اس وقت انجام دیا جاتا ہے جب موت کسی مجرمانہ معاملے سے متعلق ہو جب کہ سریری یا علمی بعد الموت معائنہ (کلینکل یا اکیڈمک آٹوپسی) موت کی طبی وجہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے خاص طور پر ان معاملات میں جہاں موت غیر واضح ہو یا تحقیق کے مقصد کے لیے ہو۔ بعد الموت معائنے کی مزید اقسام بھی ہوتی ہیں، بعض صورتوں میں صرف ظاہری معائنہ کافی ہوتا ہے جب کہ دیگر میں اندرونی معائنہ کے لیے جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔ کئی ممالک یا دائرہ ہائے اختیار میں اندرونی بعد الموت معائنے کے لیے قریبی رشتہ داروں کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اندرونی معائنہ مکمل ہونے کے بعد جسم کو دوبارہ سی کر اس کی اصل حالت میں لایا جاتا ہے۔

اغراض و مقاصد

[ترمیم]

بعد از موت معائنہ (آٹوپسی) کا اصل مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ موت کیوں اور کیسے ہوئی، مرنے والے کی صحت وفات سے پہلے کیسی تھی اور یہ بھی کہ جو علاج یا تشخیص ہوئی تھی، وہ درست تھی یا نہیں۔[انگ 6]

سنہ 1950ء سے مغربی دنیا کے ہسپتالوں میں آٹوپسی کا رجحان بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ ناقدین، جیسے معروف ماہر امراضیات اور سائنسی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق مدیر جارج ڈی۔ لُنڈبَرگ کا خیال ہے کہ بعد الموت معائنہ کم ہونے کی وجہ سے طبی شعبے کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ جب غلطی سے کسی کی جان چلی جائے اور اس کی تحقیق نہ ہو تو طبی عملہ وہ غلطی پہچان ہی نہیں پاتا یوں سبق بھی نہیں سیکھا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں آٹوپسی کی اجازت دے چکا ہو تو اسے طبی تحقیق یا تدریسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آٹوپسی عام طور پر تب کی جاتی ہے جب موت اچانک ہو طبیب موت کی سَنَد (سرٹی فکیٹ) جاری نہ کر سکے یا شبہ ہو کہ موت طبعی نہیں تھی۔ ان صورتوں میں یہ معائنہ قانونی اختیار رکھنے والے افسر کی نگرانی میں کیا جاتا ہے جیسے طبی معائنہ کار، مفتشِ موتیٰ یا پراکیوریٹر فِسْکَل (اسکاچستانی مقامی تفتیش کنندہ افسر) اور اس کے لیے ورثا کی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔ قتل کے معاملات میں تو بعد الموت معائنہ ناگزیر ہو جاتا ہے کیونکہ معائنہ کرنے والے ماہرین کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ موت کیسے ہوئی گولی لگی گلا گھونٹا گیا یا زہر دیا گیا۔ اسلام اور یہودیت میں عام طور پر لاش کے طبی معائنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔[انگ 7] کلینکل میڈیسن بھی آٹوپسی اہم ہے کیونکہ بعض بیماریوں یا خطرات (جیسے چھپی ہوئی متعدی بیماری یا زہریلے مواد سے لاحق مسائل) کا علم صرف اسی طرح ممکن ہوتا ہے۔[انگ 8] ایک تحقیق میں دل کے دورے کو موت کی وجہ سمجھا گیا مگر آٹوپسی نے یہ بات غلط ثابت کی[انگ 9] بہت سے ایسے معاملے تھے جو دل کے دورے نہیں تھے اور کئی ایسے جنھیں نظر انداز کر دیا گیا تھا حالانکہ وہ دراصل دل کے دورے ہی تھے۔

ایک باضابطہ جائزے کے مطابق تقریباً ہر چار آٹوپسیوں میں سے ایک میں کوئی نہ کوئی بڑی تشخیصی غلطی سامنے آتی ہے[انگ 10] تاہم وقت کے ساتھ یہ شرح کم ہوئی ہے اور مطالعے کے مطابق موجودہ دور کے امریکی طبی اداروں میں کی جانے والی 8.4 سے 24.4 فیصد آٹوپسیوں میں بڑی تشخیصی غلطیاں سامنے آ سکتی ہیں۔

ایک بڑے تجزیے سے یہ بھی پتا چلا کہ ہر تین میں سے ایک سندِ وفات میں غلطی ہوتی ہے اور آدھی آٹوپسیوں میں کچھ نہ کچھ ایسا نکل آتا ہے جس کا پہلے کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔[انگ 11] مزید برآں ماہرین کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک غیر متوقع طبی دریافت ایسی ہوتی ہے جس کی تشخیص صرف نسیجی تشخیص (بایوپسی) یا آٹوپسی کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے اور تقریباً ایک چوتھائی غیر متوقع دریافتیں یعنی تمام کیسوں کا لگ بھگ پانچ فیصد اتنی سنگین ہوتی ہیں کہ ان کا پتا بھی صرف بافتوں سے ہی چلایا جا سکتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 694 تشخیص شدہ اموات کا جائزہ لینے پر آٹوپسی کے ذریعے 171 ایسی بیماریاں سامنے آئیں جو زندگی میں تشخیص نہیں ہو سکی تھیں ان میں 21 سرطان، 12 اسٹروک، 11 دورۂ قلب، 10 ریوی سدادیت اور 9 بطانۂ قلب / التہاب درونِ قلب کے معاملات شامل تھے۔[انگ 12]

نلکی پر رکھے گئے مریضوں کے حوالے سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ پیٹ کی بعض سنگین بیماریوں جیسے پھوڑے، امعا میں سوراخ یا خون کی روانی میں رکاوٹ کی شرح ریوی سدادیت جتنی ہی تھی، یعنی یہ بھی اتنی ہی بار پہلے درجے کی غلطیوں (class I errors) کی وجہ بنیں۔ حالانکہ ان مریضوں نے عمومی طور پر دردِ شکم کی شکایت کی تھی، معائنے کے دوران ان کا شکم معمول کے مطابق محسوس ہوا اور اس علامت کو مزید جانچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔[انگ 13]

اقسام

[ترمیم]
سنہ 1928ء میں فن لینڈ کی جامعہ ہیلسنکی میں تشریحِ لاش کا کمرہ۔

آٹوپسی کی بنیادی چار اقسام ہوتی ہیں:[انگ 14]

  • طبی و قانونی یا قانونی معائنۂ لاش: اس کا مقصد موت کی وجہ اور طریقہ جاننا اور متوفی کی شناخت کرنا ہوتا ہے۔[انگ 14] یہ عموماً قانون کے تحت اُن صورتوں میں کیا جاتا ہے جب موت پُر تشدد، مشتبہ یا اچانک ہو، طبی امداد کے بغیر ہو یا جراحی کے دوران ہو۔[انگ 14]
  • سریری یا امراضیاتی معائنہ لاش: یہ کسی مخصوص بیماری کی تشخیص یا تحقیق کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وہ طبی تشخیص واضح یا ثابت کرنا ہوتا ہے جو مریض کی زندگی میں غیر یقینی یا نامعلوم رہ گئی ہو۔[انگ 14]
  • تشریحی یا تعلیمی معائنہ لاش: یہ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے علمِ تشریح کے طلبہ انجام دیتے ہیں تاکہ جسمانی ساخت کا مطالعہ کیا جا سکے۔
  • مجازی یا طبی تصویر سازی سے معائنۂ لاش: یہ صرف تصویر سازی کی ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا جاتا ہے جیسے میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر آئی) اور کمپیوٹڈ ٹوموگرافی (سی ٹی)۔[انگ 15]

قانونی معائنہ لاش

[ترمیم]
شارلیتے برلن، جرمنی کا کمرۂ معائنہ لاش، سنہ 2010ء

قانونی معائنۂ لاش (فارنزک آٹوپسی) وہ معائنۂ لاش ہے جس کا مقصد موت کی وجہ، طریقہ اور نوعیت کو معلوم کرنا ہوتا ہے۔ یہ معائنہ عام طور پر ایسے حالات میں کیا جاتا ہے جہاں موت کی نوعیت مشتبہ، پُر تشدد، ناگہانی یا غیر طبعی ہو۔

قضائی علم (فارنزک سائنس) وہ شعبہ ہے جس میں سائنسی علوم کو قانونی نظام سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

معائنہ کرنے والے طبی معائنہ کار موت کے وقت، وجہ اور ممکنہ واقعات جیسے مزاحمت یا جھگڑا کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قانونی معائنۂ لاش میں بعض اوقات میت سے حیاتیاتی نمونے حاصل کیے جاتے ہیں تاکہ سمّیات کی جانچ (toxicological testing) کی جا سکے، جس میں معدے کے مشمولات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

سمّیات کی جانچ سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا جسم میں کوئی کیمیاوی زہر موجود تھا یا نہیں اور اگر تھا تو اس کی مقدار کیا تھی۔ چونکہ موت کے بعد جسم میں گلنے سڑنے کا عمل اور رطوبتوں کا کششِ ثقل کے تحت بہاؤ، جسمانی ماحول کو بدل دیتا ہے، اس لیے سمیاتی نتائج میں کسی کیمیکل کی مقدار حقیقت سے زیادہ ظاہر ہو سکتی ہے۔[انگ 16]

تمام شواہد کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد طبی معائنہ کار یا مفتش موتی موت کی نوعیت (طبعی، حادثاتی، خودکُشی، قتل وغیرہ) کا تعین کرتے ہیں اور موت کے طریقہ کار سے متعلق شواہد کو تفصیل سے قلمبند کرتے ہیں۔

سریری معائنہ لاش

[ترمیم]
ایک ماہر امراضیات آٹوپسی روم میں انسانی شکم اور صدر کے اعضا کی تقطیع کر رہا ہے

سریری یا کلینکی معائنۂ لاش (کلینکل آٹوپسی) دو اہم مقاصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ مرض کی نوعیت کو بہتر طور پر سمجھنے اور یہ تعین کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ مریض کی موت میں کن عوامل نے کردار ادا کیا۔ مثلاً آٹوپسی کے دوران متعدی امراض کی جانچ کے لیے درکار مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔[انگ 17] آٹوپسی اس لیے بھی کی جاتی ہے تاکہ اسپتال میں علاج کے معیار کو جانچا جا سکے۔ یہ عمل اس بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے کہ مستقبل میں مریض کی موت جیسے واقعات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔

برطانیہ میں سریری معائنۂ لاش صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے جب مرحوم کے اہلِ خانہ اس کی اجازت دیں برخلاف قانونی معائنۂ لاش کے جو کارونر (انگلستان و ویلز) یا پراکیوریٹر فِسْکَل (اسکاٹ لینڈ) کی ہدایت پر کیا جاتا ہے اور جس پر خاندان کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ہوتا۔[انگ 18]

تعلیمی معائنہ لاش

[ترمیم]

تعلیمی معائنہ لاش وہ ہوتا ہے جو تشریح الاعضا کے طلبہ مطالعے کی غرض سے انجام دیتے ہیں تاکہ طب کے طلبہ اور ہاؤس جاب کرنے والوں کو جسمانی ساخت اور امراض کو براہ راست دیکھنے کا تجربہ حاصل ہو۔ بعد الموت معائنوں کے لیے یہ مہارت درکار ہوتی ہے کہ تشریحی اور کلینکی امراضیات کو آپس میں جوڑا جا سکے کیونکہ یہ معائنے عضوی نظاموں اور مرنے سے پہلے اور بعد کی تبدیلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایسے تعلیمی معائنے طلبہ کو امراضیات میں مشق اور مہارت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ آئندہ معاملات میں باریک بینی سے کام لے سکیں۔[انگ 19]

مجازی معائنہ لاش

[ترمیم]

مجازی معائنۂ لاش (ورچوئل آٹوپسی) وہ معائنہ ہے جو لا شعاعی عکس (ریڈیو گرافی) کی تکنیکوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے اور اسے مرنے والے افراد کے بعد الموت معائنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔[انگ 20] یہ طبی معائنے کا ایک متبادل طریقہ ہے جس میں لاش کو چیرے لا شعاعی تصویر حاصل کی جاتی ہیں، مثلاً میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر ائی) اور کمپیوٹڈ ٹوموگرافی (سی ٹی اسکین) جیسے طریقوں کے ذریعے، تاکہ موت کی وجہ، نوعیت اور طریقہ معلوم کیا جا سکے۔[انگ 21] یہ طریقہ میت کی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کی مدد سے معائنۂ لاش سے متعلق سوالات کا جواب حاصل کیا جا سکتا ہے، بغیر اس کے کہ معائنہ کرنے والا کسی حیاتیاتی خطرے (biohazard) سے دوچار ہو، جو کسی فرد کے جُثے میں موجود ہو سکتے ہیں۔

رواج

[ترمیم]

سنہ 2004ء میں انگلستان اور ویلزستان میں مجموعی طور پر 5 لاکھ 14 ہزار اموات ہوئیں جن میں سے 2 لاکھ 25 ہزار 500 اموات مفتش موتی (کارونر) کو رپورٹ کی گئیں۔ ان میں سے تقریباً 1 لاکھ 15 ہزار 800 (یعنی تمام اموات کا 22.5 فیصد) کے بعد پوسٹ مارٹم کیا گیا جب کہ 28 ہزار 300 معاملات میں باقاعدہ تفتیش ہوئی جن میں سے 570 تفتیشات میں پنچ بھی شامل تھا۔[انگ 22]

گذشتہ پچاس برسوں کے دوران برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ہسپتالوں میں رضامندی سے کیے جانے والے لاش کے معائنوں کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سنہ 2013ء میں برطانیہ میں بالغ مریضوں کی ہسپتال میں اموات کے بعد صرف 0.7 فیصد معاملات میں رضامندانہ معائنۂ نعش کیے گئے۔[انگ 23]

المانیا میں بعد الموت معائنے کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے جو یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ حکومتی مالی امداد اکثر اس عمل کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے اسی لیے جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے ڈوئچس ایرٹسے بلیٹ نے بعد الموت معائنے (آٹوپسی) کی کم مالی معاونت پر توجہ مبذول کروائی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق سویڈن اور فن لینڈ میں آٹوپسی کی شرح 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔[انگ 24]

امریکا میں بھی بعد الموت معائنے کی شرح میں بتدریج کمی دیکھی گئی ہے؛ سنہ 1980ء[انگ 25] میں یہ شرح 17 فیصد تھی، جو سنہ 1985ء میں گھٹ کر 14 فیصد اور سنہ 1989ء[انگ 26] میں 11.5 فیصد رہ گئی۔ البتہ یہ شرح مختلف کاؤنٹیوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔[انگ 27]

طریقہ

[ترمیم]
تشریحِ لاش کے عمل میں استعمال ہونے والی میزیں اُن میزوں سے مشابہ ہوتی ہیں جو طبی یا قانونی معائنہ لاش میں استعمال کی جاتی ہیں۔

لاش کو تھیلے میں یا شواہدی چادر میں طبی معائنہ کار کے دفتر، بلدیاتی مردہ خانے یا ہسپتال لایا جاتا ہے۔ ہر لاش کے لیے نیا تھیلا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس تھیلے میں صرف اسی لاش سے متعلق شواہد محفوظ رہیں۔ شواہدی چادر ایک متبادل طریقہ ہے جس کے ذریعے لاش کو منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک جراثیم سے پاک چادر ہوتی ہے جو لاش پر ڈالی جاتی ہے۔ اگر شک ہو کہ ہاتھوں پر کوئی اہم شواہد موجود ہو سکتے ہیں مثلاً گولی کے بارود کے ذرات یا ناخنوں کے نیچے جلد، تو ہر ہاتھ پر الگ کاغذی تھیلا چڑھا کر کلائی کے گرد ٹیپ سے بند کر دیا جاتا ہے۔

جسمانی معائنے کے دو حصے ہوتے ہیں: بیرونی معائنہ اور اندرونی معائنہ۔ ان کے علاوہ اکثر سمیاتی ٹسٹ، حیاتی کیمیائی ٹسٹ یا جینیاتی ٹسٹ/سالماتی معائنۂ لاش (genetic testing یا molecular autopsy) بھی کیے جاتے ہیں جو ماہر امراضیات کو موت کے سبب یا اسباب کے تعین میں مدد دیتے ہیں۔

بیرونی معائنہ

[ترمیم]

کئی اداروں میں جو شخص لاش کو سنبھالتا، صاف کرتا اور منتقل کرتا ہے، اسے ڈینہ (diener) کہا جاتا ہے جو جرمن زبان میں خادم کے لیے مستعمل لفظ ہے۔ برطانیہ میں یہ کام اناٹومکل پیتھالوجی ٹیکنیشن (اے پی ٹی) انجام دیتا ہے جو ماہر امراضیات کی مدد سے لاش کے اندرونی اعضا نکالتا اور پوسٹ مارٹم کے بعد لاش کی بحالی کا کام کرتا ہے۔ جب لاش موصول ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ اس کے بعد تفتیش کار کپڑے اتارنے سے قبل یہ ملاحظہ کرتا ہے کہ مرنے والے نے کس قسم کے کپڑے پہن رکھے ہیں (اگر کوئی ہوں) اور وہ جسم پر کس حالت میں موجود ہیں۔ بعد ازاں جسم کی بیرونی سطح سے کوئی بھی ممکنہ شواہد جیسے کہ رنگ کے ذرات، باقیات یا دیگر مواد اکٹھا کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات جسم کی سطح پر ایسے شواہد کی تلاش کے لیے بالائے بنفشی روشنی (الٹرا وائلٹ لائٹ) بھی استعمال کی جاتی ہے جو ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ بال، ناخن اور اسی قسم کے دیگر نمونے لیے جاتے ہیں اور بعض اوقات لاش کی لا شعاعی تصویر سازی (ریڈیو گرافک امیجنگ) بھی کی جاتی ہے۔ جب بیرونی شواہد جمع ہو جائیں تو لاش کو تھیلے سے نکالا جاتا ہے، کپڑے اتارے جاتے ہیں اور اگر کوئی زخم موجود ہوں تو ان کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لاش کو صاف کیا جاتا ہے، وزن اور قد ناپا جاتا ہے تاکہ اندرونی معائنے کی تیاری ہو سکے۔

بعد ازاں لاش کی عمومی شناخت درج کی جاتی ہے جس میں نسل، جنس، عمر، بالوں کا رنگ و لمبائی، آنکھوں کا رنگ اور دیگر منفرد جسمانی علامات (مثلاً پیدائشی نشان، پرانے زخموں کے نشانات، تِل، گودے ہوئے نقش وغیرہ) شامل ہوتے ہیں۔ یہ معلومات عام طور پر وائس ریکارڈر یا کسی دوسرے معیاری آلے پر محفوظ کی جاتی ہیں۔

بعض ممالک (مثلاً اسکاچستان، فرانس، المانیا، روس اور کینیڈا) میں[انگ 28][انگ 29] پوسٹ مارٹم محض بیرونی معائنہ پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس طریقہ کار کو بعض اوقات ”ویو اینڈ گرانٹ“ کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت میڈیکل ریکارڈ، فوت شدہ کی طبّی تاریخ اور موت کے حالات کی بنیاد پر موت کی وجہ اور نوعیت طے کر لی جاتی ہے اور اندرونی معائنہ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔[انگ 30]

اندرونی معائنہ

[ترمیم]

اگر پہلے سے نہ رکھا گیا ہو، تو لاش کے کندھوں کے نیچے ایک پلاسٹک یا ربڑ کی اینٹ نما چیز رکھی جاتی ہے جسے ’’ہیڈ بلاک‘‘ (head block) کہا جاتا ہے۔ اس سے گردن آگے کی طرف ضرورت سے زیادہ جھک جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ریڑھ کی ہڈی پیچھے کی جانب خم کھاتی ہے اور سینہ اوپر کی طرف تن جاتا ہے۔ یہ حالت سینے کی جلد کو چیرنے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ اس طریقے سے اے پی ٹی (اناٹومیکل پیتھالوجی ٹیکنیشن) یا ماہرِ امراضیات کو دھڑ تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اندرونی معائنہ شروع کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جسم کے اندرونی اعضا کو چیر کر اُن کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ چوٹ، اندرونی نقصان یا موت کی ممکنہ وجوہات کی نشان دہی کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے چیرنے کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، مثلاً:

  • Y کی شکل کا گہرا اور بڑا چیرا: یہ چیرا دونوں کندھوں کے اوپری حصے سے شروع ہوتا ہے، سینے کے سامنے سے ہوتا ہوا نیچے آتا ہے اور عظم القص (سینے کی ہڈی) کے نچلے سرے پر آ کر ملتا ہے۔
  • نصف دائری (قوس نما) چیرا: یہ دونوں کندھوں کے سِروں سے شروع ہو کر سینے کے اوپر ایک نیم دائرہ بناتا ہے، جو تقریباً دوسری پسلی کی سطح تک پہنچتا ہے اور پھر دوسرے کندھے تک واپس مڑ جاتا ہے۔
  • یک عمودی چیرا: یہ گردن کی بنیاد پر موجود گڑھے (اسٹرنل نوچ) سے شروع ہو کر سینے کے وسط میں نیچے کی طرف لگایا جاتا ہے۔
  • U کی شکل کا چیرا: یہ چیرا دونوں کندھوں کے سِروں سے شروع ہو کر سینے کے اطراف سے نیچے کی طرف آتا ہے اور پسلیوں کے نچلے سرے تک پہنچتا ہے۔ یہ طریقہ عام طور پر خواتین پر یا جب صرف سینے کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو، تب استعمال ہوتا ہے۔

عام طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ چیرے کے ایسے نشانات نہ چھوڑے جائیں جو بعد میں کفن پہنانے کے بعد بھی نظر آئیں۔ مذکورہ بالا اقسام میں چیرا ناف کے دونوں جانب سے ہٹ کر پیڑو کی ہڈی (عظم العانہ) تک بڑھا دیا جاتا ہے اور جہاں ممکن ہو پرانے زخموں یا داغوں کو کاٹنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

چیرنے سے خون بہنا بہت کم ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا کیونکہ دل کے رک جانے کے باعث جسم میں خون کا دباؤ باقی نہیں رہتا صرف کششِ ثقل ہی معمولی سا دباؤ پیدا کرتی ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں (مثلاً ڈوب کر مرنے کے واقعات میں) غیر رسمی مشاہدات سے پتا چلا ہے کہ خون کا بہاؤ خاصا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔

اس مرحلے پر سینہ کھولنے کے لیے قینچی نما آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ معائنہ کرنے والا فرد پسلیوں کے کنارے پر موجود کرکری ہڈی کو کاٹ کر سینے کی ہڈی (عظم القص) الگ کرتا ہے تاکہ دل اور پھیپھڑوں کو اپنی اصل جگہ پر واضح طور پر دیکھا جا سکے خاص طور پر غلافِ قلب (پیری کارڈیئم) کو بغیر نقصان پہنچائے۔ اس کے بعد پی ایم 40 نامی مخصوص چاقو کی مدد سے سینے کی ہڈی کو ان نرم بافتوں سے الگ کیا جاتا ہے جو اسے غشائے وسطیٰ (میڈیا اسٹائنم) سے جوڑے رکھتے ہیں۔ اس کے بعد دل اور پھیپھڑے مکمل طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ سینے کی ہڈی بعد میں دوبارہ رکھ دی جاتی ہے۔

اس مرحلے پر اندرونی اعضا نمایاں ہو جاتے ہیں۔ عموماً اعضا کو ایک منظم ترتیب سے نکالا جاتا ہے۔ اعضا نکالنے کی ترتیب کا تعین اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ مخصوص معاملہ کس نوعیت کا ہے۔ اعضاء نکالنے کے متعدد طریقے موجود ہیں۔ پہلا طریقہ اجتماعی (en masse) تکنیک ہے، جسے لیٹول (Letulle) طریقہ بھی کہتے ہیں، جس میں تمام اعضا کو ایک بڑے مجموعے کی صورت میں ایک ساتھ نکالا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ "اِن بلاک" (en bloc) طریقہ کہلاتا ہے، جو گون (Ghon) نے متعارف کرایا۔ جسمانی اعضا کے باہمی تعلقات کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ میں اعضا کو تین علاحدہ حصوں میں نکالا جاتا ہے: سینے، بطن اور کولہے کے حصے۔ اس طریقہ میں ایک ہی بڑے مجموعے کی بجائے ان تین حصوں میں تقسیم کرکے جسم کے اعضا کو الگ کیا جاتا ہے۔ اس بڑے بلاک کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے سے تجزیہ اور معائنہ کافی آسان ہو جاتا ہے۔[انگ 31] برطانیہ میں اس طریقے کا ترمیم شدہ نسخہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جس میں جسمانی اعضا کو چار مختلف گروپوں میں تقسیم کر کے علاحدہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں طریقے یعنی (en masse اور en bloc) ہی بنیادی اور معروف سمجھے جاتے ہیں تاہم برطانیہ میں ان کے مختلف انداز بھی خاصی وسعت کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔

ایک طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے: سب سے پہلے غلافِ قلب (پیری کارڈیل سیک) کو چاک کر کے دل کو دیکھا جاتا ہے۔ کیمیائی تجزیے کے لیے خون کو ادنیٰ ورید کبیر یا ریوی (پھیپھڑوں کی) وریدوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دل کو نکالنے سے پہلے، ریوی شریان کو کھولا جاتا ہے تاکہ اس میں منجمد خون کی موجودگی دیکھی جا سکے۔ اس کے بعد ادنی ورید کبیر، ریوی وریدوں، شریان کبیر (اورطیٰ)، ریوی شریان اور اعلی ورید کبیر (سُپیریئر وینا کاوا) کو کاٹ کر دل نکال لیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں قوسِ اورطیٰ کو جوں کا توں چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ بعد ازاں حنوط کاری میں آسانی رہے۔ پھر بائیں جانب کا پھیپھڑا بآسانی سامنے آ جاتا ہے، جسے نافچۂ ریوی پر موجود قصبی نالیوں، شریان اور ورید کو کاٹ کر نکالا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے دائیں پھیپھڑے کو بھی نکالا جا سکتا ہے۔ پیٹ کے اندر موجود اعضا کو ان کے باہمی تعلق اور خون کی نالیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک ایک کر کے نکالا جا سکتا ہے۔

تاہم زیادہ تر ماہرِ امراضیات یہ ترجیح دیتے ہیں کہ تمام اعضا کو ایک ہی ”مجموعہ“ کی شکل میں نکالا جائے۔ اس مقصد کے لیے غشا یا نسیجی غلاف (فیشیا) کو کاٹ کر، انگلیوں یا ہاتھوں کی مدد سے کھینچ کر اور ہلکی چیر پھاڑ سے تمام اعضا کو بیک وقت علاحدہ کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں ان کا معائنہ اور نمونہ لیا جا سکے۔ نوزائیدہ بچوں کے پوسٹ مارٹم میں تقریباً ہمیشہ یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام اعضا کو بغور دیکھا جاتا ہے ان کا وزن کیا جاتا ہے اور بافتوں کے باریک ٹکڑے بطور نمونہ لیے جاتے ہیں۔ اس مرحلے پر بڑی خون کی نالیوں کو بھی چاک کر کے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد معدے اور آنتوں کے اندر موجود مواد کو جانچا اور تولا جاتا ہے۔ یہ مرحلہ موت کی وجہ اور وقت کا تعین کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے کیونکہ کھانے کی نالیوں میں خوراک کی قدرتی گرز سے ہاضمے کی حالت کا پتا چلتا ہے۔ اگر معدہ اور آنتیں زیادہ خالی ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوت شدہ نے موت سے کافی وقت پہلے آخری غذا لی تھی۔

دماغ کے ایک پوسٹ مارٹم (آٹاپسی) میں ورم اغشیہ دماغ (میننجائٹس) کی علامات دکھائی دے رہی ہیں۔ تصویر کے درمیان میں موجود جراحی چمٹی (فورسیپس) کی مدد سے ام جافیہ کو پیچھے ہٹایا جا رہا ہے۔ اس کے نیچے موجود لیپٹومیننجِز (نرم جھلیاں) ورمی دکھائی دے رہی ہیں اور ان پر متعدد چھوٹے چھوٹے خون کے دھبے (hemorrhagic foci) نظر آ رہے ہیں۔
دماغ کے معائنے کا منظر، جس میں دماغ کو تقطیع کے بعد دکھایا گیا ہے: دماغ کی حالت معمول کے مطابق ہے، بڑے حصۂ دُمیغ (سیریبرم) کو اِکلیلی قطعوں میں کاٹا گیا ہے، جبکہ چھوٹے حصۂ دمیغ (سیریبیلم)، پُل دماغ (پونز) اور راس النخاع (میڈیولا) کو اُفقی قطعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خوردبینی معائنے کے لیے معیاری حصوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

دماغ کے معائنے کے لیے جسم کے نیچے رکھا جانے والا بلاک جو پہلے سینے کو اوپر اٹھانے کے لیے استعمال ہوا تھا، اب سر کو بلند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دماغ تک رسائی کے لیے ایک چیرا ایک کان کے پیچھے سے شروع کر کے سر کے اوپری حصے پر سے ہوتا ہوا دوسرے کان کے پیچھے تک لگایا جاتا ہے۔ جب پوسٹ مارٹم مکمل ہو جاتا ہے تو اس چیرے کو صفائی سے سیا جاتا ہے اور اگر تدفین کے وقت تابوت کھلا ہو اور سر تکیے پر رکھا ہو تو یہ چیرا نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد کھوپڑی کی کھال کو دو طرفہ چمڑی کے فلیپ کی صورت میں پیچھے ہٹایا جاتا ہے: اگلا فلیپ چہرے کی طرف اور پچھلا گردن کے پچھلے حصے کی طرف۔ پھر کھوپڑی کو ایک گول (یا نصف گول) بلیڈ والے آر پار چلنے والے آری سے کاٹا جاتا ہے تاکہ ایک ”ٹوپی“ نما ٹکڑا الگ کیا جا سکے جو دماغ کو ظاہر کر دے۔ پہلے دماغ کو اس کی موجودہ حالت (in situ) میں دیکھا جاتا ہے۔ پھر دماغ کو کھوپڑی سے نکالنے کے لیے اسے کھوپڑی کی اعصاب دماغیہ اور حرام مغز سے منقطع کر دیا جاتا ہے۔ اگر دماغ کو فوری معائنے کی بجائے محفوظ کرنا ہو تو اسے فارملین (فارملڈی ہائیڈ گیس کا 15 فیصد محلول) سے بھرے ایک بڑے برتن میں کم از کم دو ہفتے، مگر ترجیحاً چار ہفتے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف دماغ کو محفوظ کرتا ہے بلکہ اسے ٹھوس بنا دیتا ہے جس سے اس کو سنبھالنا آسان ہو جاتا ہے اور بافتیں خراب نہیں ہوتیں۔

نعش کی بحالی

[ترمیم]

بعد الموت معائنہ کا ایک اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ معائنے کے بعد لاش کو اس کی اصلی حالت میں بحال کر دیا دیا جائے تاکہ اگر فوت شدہ کے لواحقین چاہیں تو اُسے دیکھ سکیں۔ جب طبی معائنہ مکمل ہو جاتا ہے تو لاش کے سینے کا کہفہ کھلا ہوتا ہے، دونوں جانب سینے کی چمڑی الگ کی گئی ہوتی ہے، کھوپڑی کا اوپری حصہ ہٹا دیا جاتا ہے اور کھوپڑی کی کھال چہرے اور گردن پر پلٹی ہوتی ہے۔ چہرے، بازوؤں، ہاتھوں یا ٹانگوں کا اندرونی معائنہ عام طور پر نہیں کیا جاتا۔

بعد الموت معائنہ کا ایک اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ معائنے کے بعد جسم کو اصلی حالت میں دوبارہ درست کیا جائے کہ اگر لواحقین چاہیں تو اسے دیکھ سکیں۔ معائنے کے بعد لاش کے سینے کا کہفہ کھلا اور خالی ہوتا ہے، دونوں طرف کی جلد اطراف کو لٹکی ہوتی ہے، کھوپڑی کا اوپری حصہ ہٹا دیا گیا ہوتا ہے اور کھوپڑی کی جلد کو چہرے اور گردن تک پلٹا دیا جاتا ہے۔ عام طور پر چہرے، بازوؤں، ہاتھوں یا ٹانگوں کا اندرونی معائنہ نہیں کیا جاتا۔

برطانیہ میں ہیومن ٹِشو ایکٹ 2004ء کے بعد یہ لازمی ہے کہ تمام اعضا اور بافتیں جسم میں واپس رکھ دی جائیں الاّ یہ کہ خاندان کی جانب سے تحقیق کے لیے کسی عضو یا بافت کو محفوظ رکھنے کی اجازت دی گئی ہو۔ عمومی طور پر جسم کے اندرونی خالی حصے کو روئی، سوتی یا مشابہ مواد سے بھرا جاتا ہے اور نکالے گئے اعضا کو پلاسٹک کے ایک تھیلے میں رکھ کر واپس جسم میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ ان سے کسی قسم کا مائع نہ ٹپکے۔ اس کے بعد سینے کی کھلی ہوئی جلد کو واپس اصلی مقام پر کھینچ کر سی دیا جاتا ہے اور کھوپڑی کے اوپری حصے کو بھی واپس جوڑ کر سیا جاتا ہے۔ پھر جسم کو کفن میں لپیٹا جا سکتا ہے اور تدفین یا دیدار سے قبل جب جسم کو حنوط کاری کر کے تیار کیا جاتا ہے تو عموماً اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔

اسٹروک میں

[ترمیم]
پرانے اسٹروک کے نتیجے میں بائیں پچھلے جداری فص میں کہفیت (خلا) کا امراضیات عام مشاہدہ۔

اسٹروک کے بعد کیے جانے والے پوسٹ مارٹم معائنے سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دماغی تنخر (سریبرل انفارکشن) کے آغاز سے لے کر موت تک کتنا وقت گذرا۔

دماغی تنخر یا میتوتہ کے بعد مختلف اوقات میں مختلف خرد بینی مظاہر مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں:[انگ 32]

اعلی کلاں نمائی (ہائی میگنی فیکیشن) پر عام عصبی خلیہ اور تقریباً 24 گھنٹے پرانے وقف الدم (اسکیمک) اسٹروک کی نسیجی امراضیات، مع ہیماٹوکسیلن و ایوسین رنگ: تنخر کے بعد عصبی خلیات ہائیر اِیو زینوفیلیک (hypereosinophilic) ہو گئے اور خلیات متعادلہ کی آمد دیکھی گئی۔ اطراف کے عصبی انبار میں ہلکا سا تہبج اور معمول کے ساختی نظام کا فقدان نظر آیا۔
نتیجۂ تشخیص مدتِ موجودگی
اِیو زینوفیلیک (سرخ) عصبی خلیہ 1 تا 35 دن
کثیر الاشکال سفید خلویت 1 تا 37 دن
دیگر حاد عصبی چوٹیں 1 تا 60 دن
انجمادی تنخرِ خلیات 1 دن تا 5 سال
اردگرد کی بافتوں میں اسپونجیوسِس 1 دن اور اس سے زیادہ
ایسٹروگلیوسِس (جی میسٹوسائٹس) 2 دن اور اس سے زیادہ
نئی خون کی نالیوں کی تشکیل 3 دن اور اس سے زیادہ
ہیموسیڈیرن صبغہ 3 دن اور اس سے زیادہ
یک مرکزیہ التہابی خلیات 3 دن تا 50 سال
کلاں خور خلیات 3 دن تا 50 سال
کہفیت / جوف 12 دن یا اس سے زیادہ

تاریخ

[ترمیم]
انیسویں صدی عیسوی میں امریکا میں لاش کی تقطیع

تقریباً 3000 قبل مسیح میں قدیم مصریوں نے انسانی جسم کے اندرونی اعضا نکالنے اور ان کا معائنہ کرنے کا طریقہ اپنایا جو مذہبی طور پر ممی سازی کی رسومات کا حصہ تھا۔ وہ اس فن کے ابتدائی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔[انگ 1][انگ 33]

انسانی جسم کو چاک کر کے موت کی وجہ معلوم کرنے والی چیر پھاڑ کم از کم تیسرے ہزارے قبل مسیح کی ابتدا میں رائج تھی۔ تاہم بہت سی قدیم تہذیبوں میں اسے مکروہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ عقیدہ عام تھا کہ مرنے والوں کے جسم کو بگاڑنے سے اُن کی اخروی زندگی میں داخلہ ممکن نہیں رہتا۔[انگ 34] (لیکن مصر کے باشندے جسم کے اندرونی اعضا چھوٹے شِگافوں سے نکالا کرتے تھے)۔[انگ 1]

قدیم یونان میں اگرچہ بعد الموت معائنہ کا رواج عام نہ تھا لیکن کچھ ممتاز ماہرین میں ایراسیسطراطس اور ایروفیلوس باشندۂ خلقیدون شامل تھے، جو تیسری صدی قبل مسیح میں اسکندریہ میں مقیم تھے۔[انگ 34] 44 قبل مسیح میں قیصر یولیوس کے قتل کے بعد اُن کا سرکاری معائنۂ لاش کیا گیا، جس میں طبیب نے رپورٹ دی کہ انھیں جو دوسرا خنجر لگا وہی مہلک تھا۔[انگ 34] قیصر یولیوس کو مجموعی طور پر 23 مرتبہ خنجر مارا گیا تھا۔[انگ 35] 150 قبل مسیح کے قریب رومی قانونی روایت میں معائنۂ لاش کے لیے واضح اصول و ضوابط قائم ہو چکے تھے۔[انگ 1] قدیم زمانے کے سب سے عظیم عالمِ تشریح جالینوس (129ء – تقریباً 216ء) تھے، جن کے نتائجِ تشخیص کو ایک ہزار سال بعد نشاۃ ثانیہ کے دور تک چیلنج نہیں کیا گیا۔[انگ 36]

معائنہ لاش (1890ء) از مصور اینریکے سیمونیت۔

ابن طفیل نے اپنی تصنیف حی بن یقظان میں معائنہ لاش پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور نادیا مفتونی جنھوں نے اس موضوع پر ایک مفصل مقالہ تحریر کیا ہے، انھیں تشریحِ میت اور زندہ جانداروں کی تشریح کے ابتدائی مؤیدین میں شمار کرتی ہیں۔[انگ 37]

رومیوں کے بعد انسانی باقیات کی طبّی یا سائنسی مقاصد کے لیے تقطیع کا عمل گاہے ماہے جاری رہا مثلاً اندلس کے طبیب ابن زہر اور ابن نفیس نے اس پر عمل کیا۔ یورپ میں یہ عمل کم از کم سنہ 1200ء تک اس حد تک باقاعدگی سے کیا جانے لگا کہ اطبا نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی یہاں تک کہ جسم کو محفوظ رکھنے کی کامیاب کوششیں بھی ہوئیں، جن میں وریدوں کو موم اور دھاتوں سے بھرنا شامل تھا۔[انگ 36] بیسویں صدی عیسوی تک[انگ 36] یہ تصور غالب تھا کہ موجودہ دور کا پوسٹ مارٹم کا ڈھنگ نشاۃ ثانیہ کے دور کے علمائے تشریح سے اخذ کیا گیا۔ جیووانی باتیستا مورگانی (1682ء–1771ء)، جنھیں تشریحی امراضیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے،[انگ 38] نے علم الامراض پر پہلی جامع تصنیف تحریر کی، جس کا عنوان De Sedibus et Causis Morborum per Anatomen Indagatis (امراض کے مقامات اور اسباب کی تشریح کے ذریعے تحقیق، 1769ء) تھا۔[انگ 1]

سنہ 1543ء میں آندریاس ویزالیئس نے ایک مجرم کی لاش پر عوامی تشریح انجام دی۔ اس نے ہڈیوں کو مرتب کیا اور جوڑ کر پیش کیا اور یہ دنیا کی قدیم ترین محفوظ شدہ تشریحی ترتیب بن گئی۔ یہ اب بھی جامعہ باسل کے تشریحی عجائب گھر میں نمائش پر رکھی گئی ہے۔[انگ 39]

انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں کارل فن رکیتانسکی اور اس کے رفقا نے دوسری ویانا طبی درس گاہ میں تشریحات کا استعمال طبی تشخیص کو بہتر بنانے کے طریقے کے طور پر شروع کیا۔[انگ 35]

انیسویں صدی عیسوی کے معروف طبی محقق روڈولف ورشو نے معائنۂ نعش کے طریقہ کار میں عدم معیار بندی کے مسئلے کے پیش نظر واضح تشریحی اصول و ضوابط مرتب کیے اور شائع کیے، جن میں سے ایک طریقۂ کار آج بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔ ورشو ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے امراضیاتی عمل کے تصور کو بھی پیش کیا۔[انگ 40]

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے سنگم پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے دفتر برائے ماہرِ قانونی امراضیات (آفس آف دی فارنسک پیتھالوجسٹ) قائم کیا۔ یہ ایک ایسا طبی معائنہ کار ہوتا ہے جو طب میں مہارت رکھتا ہے اور غیر طبعی اموات جیسے کہ حادثات، قتل، خود کشیاں وغیرہ کی تحقیقات پر مامور ہوتا ہے۔

حیوانات کی لاش بینی

[ترمیم]
بھیڑنی کا دیسی پوسٹ مارٹم

حیوان کا بعد الموت معائنہ جسے انگریزی زبان میں نیکروپسی (یعنی لاش بینی)[5] کہا جاتا ہے، انگریزی میں یہ اصطلاح طب حیوانات میں بشری طب کے مقابلے میں کہیں زیادہ عام ہے۔ ان اقسام کے جانوروں میں جن میں ظاہری علامات کم ہوتی ہیں (جیسے بھیڑ) یا جن کا مفصل طبی معائنہ ممکن نہیں ہوتا (جیسے مرغیاں، پنجرا بند پرندے یا چڑیا گھر کے جانور) وہاں یہ معائنہ تشخیص کا ایک عام طریقہ ہے۔ نیکروپسی کا استعمال عموماً آٹوپسی کی طرح موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں پورے جسم کا عمومی بصری سطح پر معائنہ کیا جاتا ہے اور مزید تجزیوں کے لیے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں۔[انگ 41]

حوالہ جات

[ترمیم]
اردو
  1. ^ ا ب پ محمد فاروق اعظم (اگست 1988)۔ سید شریف الحسن نقوی؛ مخمور سعید (مدیران)۔ "پوسٹ مارٹم وقتِ مرگ کا تعین"۔ ایوانِ اردو۔ دہلی: اردو اکادمی۔ ج 2 شمارہ 4: 40
  2. ^ ا ب تنزیل الرحمٰن (1976)۔ قانونی لغت (انگریزی اردو) (تیسرا ایڈیشن)۔ لاہور: فیڈرل لاء پبلیکیشنز۔ ص 392
  3. ^ ا ب جمیل اختر (2002)۔ فرہنگ اصطلاحات ذرائع ابلاغ (حصہ سوئم و چہارم) (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: انٹرنیشنل اردو فاؤنڈیشن۔ ص 83۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-25
  4. وہاب اختر عزیز (2002)۔ جیم میڈیکل ڈکشنری (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: اعجاز پبلیشنگ ہاؤس۔ ص 73
  5. ^ ا ب پ ت جمیل جالبی (2002)۔ قومی انگریزی اردو لغت (پانچواں ایڈیشن)۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان۔ ص 1302
  6. اختر امرتسری (1997)۔ مسعود احمد برکاتی (مدیر)۔ فرہنگ اصطلاحات طب۔ نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ۔ ص 94
  7. جمیل جالبی (2002)۔ قومی انگریزی اردو لغت (پانچواں ایڈیشن)۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان۔ ص 1525
  8. جمیل جالبی (2002)۔ قومی انگریزی اردو لغت (پانچواں ایڈیشن)۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان۔ ص 131
  9. شہزاد علی؛ ممتاز کلیانی (2004)۔ "اردو اخبارات میں مستعمل انگریزی و علاقائی زبانوں کے لفظیات کے موزوں متبادل"۔ الماس تحقیقی مجلہ۔ خیر پور، سندھ: شعبۂ اردو شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی۔ ج 7 شمارہ 1: 65
  10. حکیم غلام نبی (1967)۔ لغات طب (پہلا ایڈیشن)۔ بہاولپور: اردو اکیڈمی۔ ص 56
  11. حکیم محمد شریف جامعی (1975)۔ طبی لغت (پہلا ایڈیشن)۔ لاہور: مرکزی اردو بورڈ۔ ص 362
  12. محمد غفران (2000)۔ مختصر طبی لغت (پہلا ایڈیشن)۔ پونہ: پربھات پرنٹنگ پریس۔ ص 28
  13. اشفاق احمد؛ محمد اکرام چغتائی (1984)۔ فرہنگ اصطلاحات (پہلا ایڈیشن)۔ لاہور: اردو سائنس بورڈ۔ ج 1۔ ص 1166
  14. ابو اللیث صدیقی، مدیر (1979)۔ اردو لغت تاریخی اصول پر۔ کراچی: ترقی اردو بورڈ۔ ج 2۔ ص 1166
  15. حماد عثمانی (1980)۔ علم سموم (دوسرا ایڈیشن)۔ الہ آباد: عثمانیہ اکیڈمی۔ ص 1
  16. شمس الاطبا غلام جیلانی خان صاحب (1923)۔ ڈاکٹری لغات۔ لاہور: مرکنٹائل پریس۔ ص 80
  17. شیخ منہاج الدین (1965)۔ قاموس الاصطلاحات (پہلا ایڈیشن)۔ لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی
غیر اردو
  1. ^ ا ب پ ت ٹ Kelly Rothenberg (2008). "The Autopsy Through History". In Ayn Embar-seddon, Allan D. Pass (ed.). Forensic Science (بزبان انگریزی). Salem Press. p. 100. ISBN:978-1-58765-423-7.
  2. Clark MJ (2005). "Historical Keyword 'autopsy'". The Lancet (بزبان انگریزی). 366 (9499): 1767. DOI:10.1016/S0140-6736(05)67715-X. PMID:16298206.
  3. "post-mortem (adj.)". Online Etymology Dictionary (بزبان انگریزی). Retrieved 2020-04-28.
  4. Gertrude M. Hirst; F. H. Colson (1929). "Stories and Legends. A First Greek Reader, with Notes, Vocabulary and Exercises". The Classical Weekly (بزبان انگریزی). 22 (12): 96. DOI:10.2307/4389260. JSTOR:4389260.
  5. M Gagea-Iurascu, S Craig (2012). "Euthanasia and Necropsy". The Laboratory Rabbit, Guinea Pig, Hamster, and Other Rodents (بزبان انگریزی). pp. 117–139. DOI:10.1016/B978-0-12-380920-9.00004-3. ISBN:978-0-12-380920-9.
  6. "Do you need an autopsy for a wrongful death case in Georgia?". baderscott.com (بزبان انگریزی). 2 Aug 2023. Retrieved 2024-03-02.
  7. Religions and the Autopsy at eMedicine
  8. Michael Tsokos, "Die Klaviatur des Todes", Knaur, Munich, 2013, pp. 179–89
  9. Keyvan Ravakhah (Jul 2006). "Death Certificates Are Not Reliable: Revivification of the Autopsy". Southern Medical Journal (بزبان انگریزی). 99 (7): 728–733. DOI:10.1097/01.smj.0000224337.77074.57. PMID:16866055.
  10. KG Shojania, EC Burton, KM McDonald, L Goldman (2003). "Changes in rates of autopsy-detected diagnostic errors over time: a systematic review". JAMA: The Journal of the American Medical Association (بزبان انگریزی). 289 (21): 2849–56. DOI:10.1001/jama.289.21.2849. PMID:12783916.
  11. J Roulson; E W Benbow; P S Hasleton (Dec 2005). "Discrepancies between clinical and autopsy diagnosis and the value of post mortem histology; a meta-analysis and review". Histopathology (بزبان انگریزی). 47 (6): 551–559. DOI:10.1111/j.1365-2559.2005.02243.x. PMID:16324191.
  12. A Combes, M Mokhtari, A Couvelard, JL Trouillet, J Baudot, D Hénin, C Gibert, J Chastre (2004). "Clinical and autopsy diagnoses in the intensive care unit: a prospective study". Archives of Internal Medicine (بزبان انگریزی). 164 (4): 389–92. DOI:10.1001/archinte.164.4.389. PMID:14980989.
  13. MA Papadakis, CM Mangione, KK Lee, M Kristof (1991). "Treatable abdominal pathologic conditions and unsuspected malignant neoplasms at autopsy in veterans who received mechanical ventilation". JAMA: The Journal of the American Medical Association (بزبان انگریزی). 265 (7): 885–87. DOI:10.1001/jama.265.7.885. PMID:1992186.
  14. ^ ا ب پ ت Russell S. Strasser (2008). "Autopsies". In Ayn Embar-seddon, Allan D. Pass (ed.). Forensic Science (بزبان انگریزی). Salem Press. p. 95. ISBN:978-1-58765-423-7.
  15. IS Roberts, RE Benamore, EW Benbow, SH Lee, JN Harris, A Jackson, S Mallett, T Patankar, C Peebles, C Roobottom, ZC Traill (2012). "Post-mortem imaging as an alternative to autopsy in the diagnosis of adult deaths: A validation study". The Lancet (بزبان انگریزی). 379 (9811): 136–42. DOI:10.1016/S0140-6736(11)61483-9. PMC:3262166. PMID:22112684.
  16. "Autopsy | Mahoney Criminal Defense Group". Mahoney (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-27.
  17. L Barton, E Duval, E Stroberg, S Ghosh, S Mukhopadhyay (Apr 2020). "COVID-19 autopsies, Oklahoma, USA". American Journal of Clinical Pathology (بزبان انگریزی). 153 (6): 725–733. DOI:10.1093/ajcp/aqaa062. PMC:7184436. PMID:32275742.
  18. L. C. Peres (2017). "Post-mortem examination in the United Kingdom: present and future". Autopsy and Case Reports (بزبان انگریزی). 7 (2): 1–3. DOI:10.4322/acr.2017.017. PMC:5507562. PMID:28740832.
  19. Alison Krywanczyk; Sharon Mount (Feb 2018). "In Defense of the Academic Autopsy". Archives of Pathology & Laboratory Medicine (بزبان انگریزی). 142 (2): 157–158. DOI:10.5858/arpa.2017-0344-LE. PMID:29372850.
  20. Dominic Wichmann; Frieder Obbelode; Hermann Vogel; Wilhelm Wolfgang Hoepker; Axel Nierhaus; Stephan Braune; Guido Sauter; Klaus Pueschel; Stefan Kluge (17 Jan 2012). "Virtual Autopsy as an Alternative to Traditional Medical Autopsy in the Intensive Care Unit: A Prospective Cohort Study". Annals of Internal Medicine (بزبان انگریزی). 156 (2): 123–130. DOI:10.7326/0003-4819-156-2-201201170-00008. PMID:22250143.
  21. Laura Filograna; Luca Pugliese; Massimo Muto; Doriana Tatulli; Giuseppe Guglielmi; Michael John Thali; Roberto Floris (Feb 2019). "A Practical Guide to Virtual Autopsy: Why, When and How". Seminars in Ultrasound, CT and MRI (بزبان انگریزی). 40 (1): 56–66. DOI:10.1053/j.sult.2018.10.011. PMID:30686369.
  22. UK Department for Constitutional Affairs (2006), Coroners Service Reform Briefing Note Archived 2008-11-06 at the Wayback Machine, p. 6
  23. Turnbull A.J.; Osborn M.; Nicholas N. (Jun 2015). "Hospital Autopsy: endangered or extinct?". Journal of Clinical Pathology (بزبان انگریزی). 68 (8): 601–04. DOI:10.1136/jclinpath-2014-202700. PMC:4518760. PMID:26076965.
  24. "Leichenschau: Gefahr durch Unterfinanzierung von Bernd Thode" (بزبان جرمن). Deutsches Ärzteblatt. 2019. Retrieved 2019-09-21.
  25. Centers for Disease Control and Prevention (1988) , Current Trends Autopsy Frequency – United States, 1980–1985, Morbidity and Mortality Weekly Report, 37(12);191–94
  26. DA Pollock, JM O'Neil, RG Parrish, DL Combs, JL Annest (1993). "Temporal and geographic trends in the autopsy frequency of blunt and penetrating trauma deaths in the United States". JAMA: The Journal of the American Medical Association (بزبان انگریزی). 269 (12): 1525–31. DOI:10.1001/jama.1993.03500120063027. PMID:8445815.
  27. "Products – Data Briefs – Number 67" (بزبان امریکی انگریزی). Centers for Disease Control and Prevention. Aug 2011. Retrieved 2017-02-06.
  28. "Glossary:Autopsy". ec.europa.eu (بزبان انگریزی). Retrieved 2024-03-02.
  29. "MEDICO-LEGAL SYSTEMS IN EUROPE | Office of Justice Programs". www.ojp.gov (بزبان انگریزی). Retrieved 2024-03-02.
  30. St Andrew's House (18 Jul 2007). "Inspectorate of Prosecution in Scotland – Death Cases: A Thematic Report on Liaison in Death Cases with Particular Reference to Organ Retention". Scottish Government (بزبان انگریزی).[مردہ ربط]
  31. B. L. Waters, ed. (2009). Handbook of autopsy practice (بزبان انگریزی). Totowa, NJ: Humana Press. Vol. 420.
  32. O Mărgăritescu; L Mogoantă; I Pirici; D Pirici; D Cernea; C Mărgăritescu (2009). "Histopathological changes in acute ischemic stroke". Rom J Morphol Embryol (بزبان انگریزی). 50 (3): 327–39. PMID:19690757.
  33. "Medicine" (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2011-03-09.
  34. ^ ا ب پ Elizabeth D. Schafer (2008). "Ancient science and forensics". In Ayn Embar-seddon, Allan D. Pass (ed.). Forensic Science (بزبان انگریزی). Salem Press. p. 43. ISBN:978-1-58765-423-7.
  35. ^ ا ب Bryant, Clifton. Handbook of Death and Dying. California: Sage Publications, Inc, 2003. Print. ISBN 0-7619-2514-7
  36. ^ ا ب پ Stephanie Pappas (5 Mar 2013). "Grotesque Mummy Head Reveals Advanced Medieval Science". Live Science (بزبان انگریزی). Retrieved 2018-05-07.
  37. Nadia Maftouni (3 Apr 2019). "Concept of sciart in the Andalusian Ibn Tufail". Pensamiento. Revista de Investigación e Información Filosófica (بزبان انگریزی). 75 (283 S.Esp): 543–551. DOI:10.14422/pen.v75.i283.y2019.031.
  38. Battista Morgagni, Britannica Online Encyclopedia
  39. "The Fabric of the human body" (بزبان انگریزی). Stanford University. Retrieved 2017-02-06.
  40. Elif Aslan Küskü (1 Jan 2022). "Examination of Scientific Revolution Medicine on the Human Body / Bilimsel Devrim Tıbbını İnsan Bedeni Üzerinden İncelemek". The Legends Journal of European History Studies (بزبان انگریزی).
  41. "Necropsy" (بزبان انگریزی). University Animal Care, The University of Arizona. Archived from the original on 2017-02-07. Retrieved 2017-02-06.