بلبیر پروانہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بلبیر پروانہ (پیدائش 7 جولائی 1955) پنجابی کا ناول نگار، کہانی نویس اور روزنامہ" نواں زمانہ"، جالندھر کا ایڈیٹر ہے۔

ناول[ترمیم]

  • بلبیر پروانہ
    امبر ولّ اڈان
  • کتھا اس یگ دی
  • کھیتاں دا ردن
  • بہت سارے چرستے
  • سمٹدا آکاش

پیدائش اور ابتدائی زندگی[ترمیم]

بچوئی کے علاقے میں ضلع ہشیارپور کے گاؤں پنڈ چنورمیں پیدا ہوا، اس کے باپ کا نام دھرم سنگھ اور ماں کا نام ماں سیتا ہے۔ بلویر پرواز کی ابتدائی زندگی دیہی کسانی ماحول سے متعلق ہے۔ پروانے کے باپ کو شراب کی عادت ہونے اور گھر سے لاپروائی برتنے کی عادت وجہ سے بچپن میں بہت غربت دیکھنا پڑی۔ جس کے بارے مین بلویر پروانہ خود کہتا ہے "باپ کی شراب اور گھر کی طرف سے لاپروائی بڑھتی گئی اور یوں گھر بربادی کی راہ پر آگیا اور اس طرھ پمیں بہت دکھ دیکھنا پڑے اور سخت دنوں کا سامنا کرنا پڑا ۔[1] گھر میں سب ہی ان پڑھ تھے ، صرف دادا نے چار جماعتیں پڑھی تھیں۔ پروانہ کو علم و ادب سے رغبت دلانے میں اس کے دادا کا بہت کردار ہے۔ پروانے کا دادا اخبار اور رسائل لے آتا تھا جس سے پروانہ کو کہانیاں اور شاعری پڑھنے کی عادت پڑی۔ دسویں جماعت سے پروانہ نے خود کہانیاں اور شاعری لکھنا شروع کردی۔ اس دور میں اس کے پسندیدہ مصنفین جسونت کور اور امرتا پریتم تھے۔ اس زمانے میں اس نے قریبا 100 صفحات کا ایک ناول لکھا لیکن بعد میں خود ہی اسے پھاڑ دیا۔ ب؛ویر پروانہ نے 1978 میں ایس.پی.ایس کالج مکیریا سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کی سب سے پہلی کہانی کالج کے میگزین میں چھپی۔ اور اس کے بعد نوتیج سنگھ پریتلڑی کے رسالے کے جنوری 1974 کے شمارے میں چھپی ، اس کہانی کی اشاعت پر اسے کہانی نویس نوتیج سنگھ کی طرف سے حوصلہ افزائی کا ایک خط ملا۔

افکار[ترمیم]

بلویر پروانہ کو بچپن سے ہی مارکس ازم کی پارٹیوں کا ماحول ملا، جس کی وجہ سے پروانہ کے افکار مارکسی ہو گئے۔ بلویر پر کمیونسٹ انقلابی لہروں کا بہت اثر تھا اور اس بارے میان پروانہ خود لکھتا ہے " مجھے ان افکار اور مارکسی فلسفے کے ابتدائی افکار سے روشناس کرانے والا کامرید بھاگ سنگھ سجن ہے اور قلم قبیلے سے یہ اثر جسونت کنول اور ٹالسٹائی کا ہے" ۔ [2]بلویر پروانہ نے کارکن کے طور پر کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی ، لیکن ان کی قلمی معاونت مین اہم کردار ادا کیا۔ اپنے مارکسی نظریات اور سوچ کے بارے میں لکھتا ہے " مارکسی نظریات نے میری سوچ سیاسی ہے کیونکہ یہ سیاست ہی ہے جو ہر دور میں کسی بھی موہوم کو دریافت کرتی ہے"۔

تخلیقی سفر[ترمیم]

بلویر پروانہ نے اپنا تخلیقی سفر شاعری سے شروع کیا اور ایک ناولت سے ناول نگاری کی دنیا میں قدم رکھا۔پہلا شعری مجموعہ 'اوہناں نے آکھیا سی' 1984 میں چھپا پھر 1996 میں 'گاتھا اک پنڈ دی' اور ناول 'سپنے تے پرچھاویں' 2001 میں آیا۔اس کے ناولوں اور کہانیون مین دیہاتی علاقی کی زندگی کا عکس ملتا ہے۔اس کی تحریں سادہ اور دلکش ہیں ، وہ نفسیاتی تجزیے کرتا ہوا اپنی داستانوں کو رقم کرتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر. رجندر سنگھ کمبوج، پنجابی کہانی کسانی دے ہوندمولک سروکار، لوک گیت پرکاشن، چنڈی گڑھ، 2006, پنہ 50.
  2. بلویر پروانہ، اپنے-2 مورچے، لوک گیت پرکاشن، چنڈی گڑھ، 2009, پنہ 10